گھر جانے والے طلبہ کے لئے پیغام
(جامعہ اسلامیہ شانتاپرم میں تعلیمی سال کے اختتام پر)
(جامعہ اسلامیہ شانتاپرم میں تعلیمی سال کے اختتام پر)
محی الدین غازی
مدرسے میں کئی ماہ گزارنے کے بعد طلبہ کو اپنے گھر رہنے کے لئے ماہ دو ماہ کا وقت مل جاتا ہے۔ لغت میں اسے چھٹی اور تعطیل جیسے نام دیے جاتے ہیں، تعطیل سے معطل اور بے کار ہوجانے، اور چھٹی سے چھوٹ جانے اور چھٹکارا پانے کا مطلب نکلتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر اس کے لئے زیادہ مناسب الفاظ استعمال کئے جاتے۔
عام طلبہ مدرسے سے گھر آنے کو فرصت کا زمانہ اور تفریح وراحت کا بہانہ سمجھتے ہیں، لیکن جو طلبہ اپنی زندگی میں عظیم مقصد رکھتے ہیں، ان کی ڈکشنری میں نہ چھٹی کا لفظ ہوتا ہے، اور نہ تعطیل کا۔ ان کی زندگی میں نہ فرصت کا کوئی باب ہوتا ہے اور نہ راحت کا۔ وہ کہتے ہیں کاموں سے فرصت ملے گی، مگر ابھی نہیں بلکہ مرنے کے بعد۔ وہ کہتے ہیں آرام ملے گا، مگر ابھی نہیں بلکہ اس وقت جب جنت میں پہلا قدم داخل ہوگا۔ وہ کہتے ہیں تفریح کی ہمیں بھی خواہش ہے، مگر وہ تفریح جو جنت میں ملے گی، اور اسی راحت اور تفریح کے لئے ہم ساری محنت کررہے ہیں۔
آپ گھر جاتے ہوئے منصوبہ بنائیں کہ اس عرصے میں آپ کیا کیا کریں گے، اس میں یہ نشانہ بھی رکھیں کہ گھر کو بنانے اور سنوارنے کے لئے آپ کچھ خاص کریں گے۔ سوچیں کہ دس گیارہ ماہ آپ گھر سے دور رہے، آپ کو اتنے طویل عرصے تک نہ ماں باپ کی خدمت کا موقع ملا، اور نہ گھر کے کاموں میں شرکت کا موقع ملا، اب اگر ماہ دو ماہ کا موقع ملا ہے تو اسے بہت غنیمت جانتے ہوئے کچھ زیادہ کرنے کا پلان بنائیں۔ ماں باپ کی خوب خدمت کریں، گھر میں مرمت اور صفائی کے جو بھی کام ہیں وہ سب ڈھونڈ ڈھونڈ کر کریں۔
کچھ طلبہ گھر جاتے ہیں تو چاہتے ہیں کہ وہ آرام کریں اور گھر کے سارے لوگ ان کی خدمت کریں، اس لئے کہ وہ مدرسے میں سال بھر بہت محنت کرتے رہے ہیں۔ طویل محنت کے بعد طویل آرام کا تصور بہت بڑا دھوکہ ہوتا ہے۔ بلاشبہ آپ تعلیم اور پھر امتحان دے کر تھک گئے ہوں گے، لیکن تھکن اتارنے کے لئے طویل وقت مانگنا ناسمجھی کی بات ہے۔ ایک اصول یاد رکھیں، دن کی تھکن کتنی ہی زیادہ ہو اسے اتارنے کے لئے آنے والی رات بہت کافی ہوتی ہے، یہ قدرت کا نظام ہے، ہر دن کی تھکن اس کے بعد آنے والی رات میں اتر جاتی ہے، اس کے بعد کا آرام غیر ضروری ہوتا ہے۔ سچے مردان کار تو دن بھر تھکنے کے بعد رات کے آخری پہر سے پہلے ہی تازہ دم ہو کر اللہ کے حضور کھڑے ہوجاتے ہیں۔
اس عرصے میں گھر سے باہر اپنی بستی میں بھی اپنی بھرپور موجودگی درج کرائیں، بورڈنگ میں رہنے والے طلبہ کے ساتھ یہ مسئلہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی بستی میں اجنبی ہوتے چلے جاتے ہیں، حالانکہ ان کا عزم ہوتا ہے کہ وہ اپنے معاشرے کی اصلاح کریں گے۔ آپ جب مدرسے سے گھر لوٹیں تو اپنی بستی کے لوگوں سے تعلقات کو تازہ کریں، اپنے ہم سنوں سے انسیت پیدا کریں، بستی میں ہونے والے اچھے کاموں میں خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لیں، کوئی بیمار ہو، کسی کے گھر شادی ہو، کہیں جنازہ ہو، کہیں کوئی حادثہ پیش آگیا ہو، جہاں کسی کو مدد کی ضرورت ہو آپ آگے بڑھ کر سامنے آئیں، جمعہ کا خطبہ اور درس قرآن دینے کے مواقع خود تلاش کریں۔
گھر اور محلہ کے چھوٹے بچوں کا آپ پر حق ہے، سوچیں کہ ان بچوں کے لئے آپ کیا کرسکتے ہیں، بچوں کو قاعدے کی مدد سے قرآن پڑھنا سکھادیں، انہیں ابتدائی کتابوں کی مدد سے اردو پڑھنا سکھادیں، انہیں دعائیں یاد کرادیں، ان کو جمع کرکے اخلاقی کہانیاں پڑھ کر یا زبانی سنائیں، انہیں کچھ اچھے کھیل کھیلنا سکھادیں، ان کی غلط عادتیں چھڑائیں، یقین کریں آپ ماہ دو ماہ کے اس عرصے میں اپنے خاندان اور محلے کے چھوٹے بچوں کو ایک مضبوط بنیاد دے سکتے ہیں، جس پر وہ اپنی زندگی کی عمارت تعمیر کرتے رہیں۔
اس عرصے میں اپنے ذاتی مطالعے کا ایک منصوبہ بھی ساتھ رکھیں، ماہ دو ماہ بغیر پڑھے گزاردینا ایک طالب علم کے لئے بڑی بدنصیبی کی بات ہے، علم کا سچا طالب تو ایک دن بغیر پڑھے گزارنا اپنے لئے جائز نہیں سمجھتا ہے۔ مطالعہ کے سفر میں وقفہ آجانا نقصان دہ ہوتا ہے، اور طویل وقفہ تو ہرگز نہیں آنا چاہئے۔ ہوسکتا ہے مدرسے میں غیر درسی مطالعہ کے مواقع کم ملتے ہوں، تو اس موقع کو غنیمت جان کر کچھ اہم کتابوں کا مطالعہ کرڈالیں۔
مدرسے میں آپ کے کچھ اچھے معمولات رہے ہوں گے، انہیں گھر پر بھی برقرار رکھیں، تمام نمازیں اور خاص طور سے فجر کی نماز مسجد میں جماعت کے ساتھ ادا کریں، گھر کے سب بچوں کو جگا کر اپنے ساتھ لے جایا کریں، نماز کے بعد سب بچوں کے ساتھ مل کر قرآن مجید کی تلاوت کریں۔ گھر والوں کو قرآن وحدیث کے ترجمے اور دوسری مفید کتابیں اور مضامین پڑھ کر سنائیں۔
مدرسے میں آپ کو بعض مفید اور ضروری ہنر سیکھنے کے مواقع نہیں ملتے ہیں، گھر پر رہتے ہوئے اگر ایسا کوئی موقع ملتا ہے تو اسے ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ اور جوعلم مدرسے میں سیکھا ہے وہ اگر کسی کو سکھانے کا موقع مل جائے تو شوق سے سکھائیں۔ سکھانے کے لئے بہت زیادہ سیکھ لینے کا انتظار نہ کریں۔
یاد رکھیں، آپ کے بڑے آپ سے بہت محبت کرتے ہیں، اپنے کلیجے پر پتھر رکھ کر صرف اچھی تعلیم کی خاطر آپ کو گھر سے دور بھیجتے ہیں، اور جب تک آپ دور رہتے ہیں، وہ آپ کی خاطر بے چین اور فکر مند رہتے ہیں۔ آپ ان کے ساتھ اچھا وقت گزاریں گے تو انہیں ضرور سکون ملے گا۔ جو آپ کے لئے سال بھر بے چین رہتے ہیں، انہیں ماہ دو ماہ سکون اور خوشی دینا آپ کی کم سے کم ذمہ داری ہے، یہ ’’کما ربیانی صغیرا‘‘ کا ایک چھوٹا سا تقاضا ہے۔ اور اس تقاضے کو ادا کرکے خود آپ کو جو مسرت محسوس ہوگی، اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اللہ آپ کو بھلائی کے کاموں کی توفیق دے۔
ایک تبصرہ شائع کریں