برائی سے ضرور روکو، مگر اختلاف نہ بڑھاؤ
محی الدین غازی
مرحوم شیخ بن باز ایک جگہ بڑی درد مندی کے ساتھ لکھتے ہیں: ’’مجھے خبر ملی ہے کہ افریقہ اور دوسرے مقامات کے بہت سے مسلمانوں میں اس بات کو لے کر آپس میں کافی دشمنی اور دوری پیدا ہوگئی ہے کہ نماز میں رکوع کے بعد ہاتھ باندھے جائیں، یا چھوڑ دئے جائیں، بلاشبہ یہ خود ایک برائی ہے جس کا ارتکاب انہیں نہیں کرنا چاہئے‘‘۔
امت کے اختلافات میں شدت آجاتی ہے جب اختلافی مسائل میں ایک دوسرے پر سختی کے ساتھ نکیر ہونے لگتی ہے۔ اور اگر اختلافی مسائل میں ایک دوسرے پر نکیر نہ ہو، تو اختلافی مسائل کے ساتھ بھی سب کی زندگی بڑے اطمینان کے ساتھ گزرتی رہتی ہے، اور ان سے کسی کو الجھن یا پریشانی محسوس نہیں ہوتی ہے۔
اسلامی امت کے عظیم اماموں نے اس مسئلے کی نزاکت کو بہت پہلے محسوس کرلیا تھا، چنانچہ انہوں نے منکر کے انکار کی شرطیں طے کرتے ہوئے، اس بات پر زور دیا اور یہ ضابطہ طے کیا کہ اختلافی مسائل میں ایک دوسرے پر نکیر نہیں ہونی چاہئے۔
امام سفیان ثوری سے منقول ہے: ’’جب تم دیکھو کہ آدمی ایک کام کررہا ہے، اور اس کام کے صحیح اور غلط ہونے میں اختلاف ہے، اور تمہاری رائے میں وہ کام غلط ہے، تو تم اسے مت روکو‘‘۔ (حلیۃ الأولیاء)
امام نووی لکھتے ہیں: ’’علماء کا طریقہ یہ رہا ہے کہ جس چیز کے منکر ہونے پر اجماع ہوتا ہے، اس پر وہ نکیر کرتے ہیں، اور جس کے سلسلے میں اختلاف ہو اس میں وہ نکیر کے قائل نہیں ہیں‘‘۔
امام غزالی لکھتے ہیں: ’’ضروری ہے کہ جس امر پر نکیر کی جائے اس کا منکر ہونا اجتہاد کے بغیر معلوم ہو، غرض اجتہادی مسائل میں نکیر نہیں کی جائے گی‘‘۔
مالکی فقہاء نے اپنی کتابوں میں امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کے ضابطوں پر بڑے اہتمام سے گفتگو کی ہے، وہ یہ ضابطہ خصوصیت کے ساتھ ذکر کرتے ہیں کہ منکر کو مٹانے کی کوشش اس وقت ہونی چاہئے جب کہ اس کے حرام ہونے پر اجماع ہو، یا اس کے حرام ہونے کے مقابلے میں حرام نہ ہونے کی دلیل بہت کمزور ہو۔
امام ابن تیمیہ اور امام ابن قیم کو اس عام رائے سے قدرے اختلاف ہے، ان کا یہ ماننا ہے کہ اگر کوئی عمل سنت یا اجماع کے خلاف ہو تو اس پر نکیر کی جائے گی، اور اگر ایسا نہیں ہے، اور اس مسئلے میں کوئی سنت یا اجماع نہیں ملتا ہے اور اجتہاد کی گنجائش موجود ہے تو نکیر نہیں کی جائے گی۔ غرض اتنا تو یہ بھی مانتے ہیں کہ ہر اختلافی مسئلہ کو معروف اور منکر کا مسئلہ نہیں بنانا چاہئے۔
اس امر پر سب کا اتفاق ہے کہ اگر کوئی اجتہادی معاملہ ہے، اس میں سنت کی واضح رہنمائی نہیں ہے، اور اس مسئلہ میں امت کے اہل علم میں اختلاف رہا ہے، اور اس مسئلے میں آپ ایک عمل کو درست سمجھتے ہیں، اور دوسرے عمل کو درست نہیں سمجھتے ہیں، تو آپ جس عمل کو درست سمجھتے ہیں، اسے شوق سے اختیار کریں، مگر دوسرا شخص اگر دوسرے عمل کو اختیار کرتا ہے، تو اس پر نکیر مت کریں۔
سلف صالحین کی طرف سے دی گئی یہ رہنمائی امت کے اختلافات کی شدت کو کم کرنے میں بہت معاون ہوسکتی ہے۔
اس رہنمائی کے بہت بڑے فائدے ہیں، ایک فائدہ یہ ہے کہ اگر تمام لوگ ایسے کاموں سے روکنے پر اپنی توجہ اور کوشش مرکوز کردیں گے جن کے منکر ہونے میں آپس میں کوئی اختلاف نہیں ہے، تو منکرات کے خلاف کوششیں طاقت ور اور تیز تر ہوجائیں گی، امر بالعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کو امت بہت خوبی کے ساتھ انجام دے سکے گی۔
دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس طرح چھوٹے منکرات کے مقابلے میں بڑے منکرات کے خلاف کوششیں بڑھ جائیں گی۔ کیونکہ جن کاموں کے منکر ہونے پر اتفاق ہے وہ عام طور سے سب کے نزدیک بڑے منکرات ہیں، اور جن کاموں کے منکر ہونے پر اختلاف ہے، وہ جن کے نزدیک منکر ہوتے ہیں، ان کے نزدیک بھی زیادہ تر چھوٹے ہی منکر ہوتے ہیں۔
تیسرا فائدہ یہ ہے کہ اس طرح امت کے باہمی اختلافات کم ظاہر ہوں گے، اور برائیوں کے خلاف امت کا مشترکہ موقف زیادہ واضح ہوکر سامنے آئے گا۔ ہوتا یہ ہے کہ جب کسی اختلافی مسئلہ میں ایک دوسرے پر نکیر کی جاتی ہے، تو چونکہ ہر ایک اپنے موقف کو درست سمجھتا ہے، اس لئے اس کا دفاع بھی کرتا ہے، اور اس طرح نکیر اور دفاع کا یہ سلسلہ رکتا نہیں ہے بلکہ روز بروز شدت اختیار کرتا جاتا ہے، اور امت کے اختلافات بڑھتے چلے جاتے ہیں۔
اختلافی امور کے سلسلے میں مالکی فقہاء کے یہاں ایک اور حکیمانہ رہنمائی ملتی ہے، وہ یہ کہ اگر کسی اختلافی مسئلہ میں دونوں طرف برابر درجے کی دلیلیں ہوں اور آپ کسی کو اس کام سے روکنا ہی چاہتے ہوں جسے آپ درست نہیں سمجھتے تو بہت نرمی کے ساتھ اس کے سامنے اپنی بات رکھیں، نہ تو نکیر کا لہجہ ہو اور نہ سرزنش کا اسلوب ہو۔ أُرْشِدَ لِلتَّرْكِ بِرِفْقٍ مِنْ غَيْرِ إنْكَارٍ وَلَا تَوْبِيخٍ
افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ مسلمانوں میں ایک دوسرے پر نکیر زیادہ تر اختلافی اور اجتہادی مسائل کو لے کر ہوتی ہے، جن معاملات میں سب کی رائیں درست ہوسکتی ہیں ان معاملات میں ایک دوسرے کے ساتھ بدترین تشدد کا برتاؤ اختیار کیا جاتا ہے، جہاں گفتگو کا لہجہ بے حد نرم ہونا چاہئے وہاں نہایت سختی کا اظہار کیا جاتا ہے، جن موضوعات پر خالص علمی اور تحقیقی گفتگو ہونی چاہئے انہیں انتہائی جذباتی رنگ دے دیا جاتا ہے۔
اور شیطان قریب ہی کھڑا مسکراتا ہے، کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے علم بردار کس طرح اختلافی مسائل میں باہم دست وگریباں ہیں اور شیطان کی سرپرستی میں ہر طرح کی برائیوں کا کاروبار خوب اطمینان کے ساتھ دن کے اجالے اور رات کے اندھیرے میں زور وشور سے چل رہا ہے، اس گندے کاروبار پر کسی کو نکیر کرنے کی فرصت نہیں ہے۔
کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ مسلم سماج میں مسجد والوں کے آپسی جھگڑوں کا تو خوب چرچا ہوتا ہے، مگر مسجد والوں کے شراب خانے والوں سے کسی معمولی اختلاف کی کوئی خبر کبھی سننے میں نہیں آتی۔
ایک تبصرہ شائع کریں