دور حاضر کا ایک بڑا چیلنج جنریشن گیپ یعنی بڑھتی ہوئی دوریاں ہیں، گھر میں والدین اور اولاد کے درمیان، اسکولوں میں اساتذہ اور طلبہ کے درمیان، معاشرہ میں بڑوں اور چھوٹوں کے درمیان، اور دینی جماعتوں میں بزرگوں اور نوجوانوں کے درمیان۔ ان دوریوں کو قربتوں میں بدلنا ضروری ہے، ورنہ ہمارے خواب چکنا چور ہوجائیں گے، اور رفتار کا فرق سمتوں اور منزلوں کا فرق بن جائے گا، اور یہ وہ نقصان ہوگا جس کی ذمہ داری سب پر عائد ہوگی۔
قرآن مجید میں بڑوں کی چھوٹوں سے دوستی اور قربت کے بڑے زبردست مناظر ہیں۔ اور ہر منظر میں ان بڑوں کے لئے بڑا سبق ہے جو اپنے چھوٹوں سے دور ہوگئے، اتنا دور کہ ان کو اس کی خبر نہیں ہے کہ ان کے چھوٹے کس سمت میں سفر کررہے ہیں، کن مشاغل میں بسر کررہے ہیں اور کیا خواب دیکھتے ہیں۔
ایک منظر خانہ کعبہ کی تعمیر کا ہے جس میں ایک بوڑھا باپ ابراہیم اور ایک جوان بیٹا اسماعیل مل کر دیواریں اٹھارہے ہیں۔ دونوں میں فکری اور قلبی ہم آہنگی اتنی ہے کہ ایک ہی تمنا ایک ہی خواب اور لفظ بہ لفظ ایک ہی دعائیں
دوسرے منظر میں انصاف کی عدالت قائم ہے اور عدل وانصاف قائم کرنے کا سچا جذبہ لے کر ایک ادھیڑ عمر باپ داوود اور ایک جوان بیٹا سلیمان سر جوڑے بیٹھے ہیں۔ صحیح رائے تک بیٹا پہونچ جاتا ہے، اور باپ اس کی بات کو خوش دلی سے قبول کرلیتا ہے، کیونکہ دونوں کا آپس میں مقابلہ نہیں تھا، بلکہ دونوں مل کر حق تک رسائی کے لئے کوشش کررہے تھے، اپنی ذہانت کا سکہ نہیں جمانا تها بلکہ منصفانہ فیصلے تک پہونچنا تھا، ہدف اکیلے جیتنا نہیں تھا، بلکہ مل کر جیتنا تھا۔
ایک تیسرے منظر میں بیٹا یوسف خواب دیکھتا ہے اور سب سے پہلے اپنے ابا حضور کے ساتھ شیئر کرتا ہے، ابا حضور خواب کو غور سے سنتے ہیں، اور خواب کی عملی تعبیر کے سلسلے میں فکر مند ہوجاتے ہیں۔
ایک چوتھے منظر میں باپ ابراہیم خواب دیکھتا ہے کہ وہ اپنے بیٹے اسماعیل کو ذبح کررہا ہے، باپ اپنا خواب بلا جھجک اپنے بیٹے کو سناتا ہے اور بیٹا اس خواب کی تعبیر کی خاطر اپنی گردن پیش کردیتا ہے۔
ایک پانچوے منظر میں ماں اپنے بیٹے موسی کو صندوق میں بند کرکے دریا میں ڈال دیتی ہے، اور پھر پورا مشن اپنی بیٹی کے حوالے کردیتی ہے، جو بہترین طریقے سے اس مشن کو انجام دیتی ہے۔ ماں بیٹی پر اعتماد کرتی ہے، اور بیٹی اس اعتماد کی لاج رکھ لیتی ہے، اور ماں کی توقعات پر پوری اترتی ہے۔
لازم ہے کہ بڑوں اور چھوٹوں کے درمیان اتنا گہرا رشتہ ہو کہ بڑے چھوٹوں کے ساتھ مل کر خانہ کعبہ کی تعمیر جیسے بڑے بڑے کام انجام دیں، بڑے چھوٹوں کے ساتھ مل کر گمبیر ترین مسائل کے حل تلاش کریں، بڑے اپنے خوابوں میں چھوٹوں کو شریک کریں، اور چھوٹے اپنے خواب بڑوں کو بنا جھجک بتا سکیں۔ نصیحت کا موقعہ آئے تو بڑے چھوٹوں کو نصیحت بھی کریں، لیکن اس طرح جیسے لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے تھے سمجھداری، حکمت، محبت اور پیار بھری نصیحتیں۔ کہ کوئی نصیحت بار خاطر نہ ہو۔ چھوٹے بھی موقعہ آنے پر بڑوں کو ضرور نصیحت کریں لیکن احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے، جس طرح بیٹے ابراہیم نے اپنے باپ کو نصیحت کی تھی احترام اور خیرخواہی کا پیکر بن کر۔
میرے پاس کتنے ہی کروڑ پتی لوگ اپنے جوان بچوں کے بگڑے ہوئے کیس لے کر آئے، مجھے ان کی اس زندگی پر رونا آیا جو انہوں نے بچوں سے دور دولت کمانے کی دھن میں گزار دی، وہ بچوں کے لئے دولت کماتے رہے، مگر خود بچوں کو کھوتے رہے، دولت بچوں کے ہاتھ لگی اور بچے شیطان کے ہاتھ لگے، ان بیچاروں کے ہاتھ کچھ نہیں آیا سوائے خالی لرزتے ہاتھ اور حسرت زدہ ٹوٹے دل کے۔ ان سب کے برے حال کی ایک بڑی وجہ تھی بچوں سے دوری، میری مراد جگہ کی دوری نہیں ہے، کہ کتنے ہی لوگ ہیں جو گھر میں رہ کر دور ہوتے ہیں اور کتنے ہی لوگ ہزاروں میل دور رہ کر بھی قریب ہوتے ہیں۔
اکثر بڑوں کو گلہ کرتے ہوئے دیکھا گیا کہ چھوٹے ان کی پسند کا خیال نہیں کرتے، وہ رشتہ بھی اپنی پسند کا، پیشہ بھی اپنی پسند کا اور لائف اسٹائل بھی اپنی پسند کا چاہتے ہیں۔ میں چھوٹوں سے تو یہی کہوں گا کہ بڑوں کی پسند کا احترام تم کو ممکنہ حد تک کرنا چاہئے، ساتھ ہی بڑوں سے بھی ادب سے کہوں گا، کہ وقت آنے پر اپنی پسند کو ان پر زبردستی تھوپنے کی اور نہیں ماننے پر ناراض ہوجانے کی بجائے، آپ بچپن سے ہی پسند کے وہ اعلی معیارات ان کی شخصیت میں بسا دیجئے، کہ تا حیات وہ ان اعلی معیارات کو رہنما بنائیں اور آپ کو کسی کشمکش کی ضرورت ہی نہیں پڑے۔ اور یہ تبھی ہوسکے گا جب آپ چھوٹوں کے ہم درد، ہم راز اور زندگی کے ہم سفر بلکہ خوابوں کے ہم نظر بن جائیں گے۔
میں نے تربیت کے سلسلے میں کڑی آمریت سے زیادہ نقصان دہ، نری ناصحیت سے زیادہ بے اثر اور با مقصد دوستی سے زیادہ مفید طریقہ کوئی نہیں پایا۔
ایک تبصرہ شائع کریں