معاملات کی دنیا --- تجربات کی درس گاہ

یہ طالب علمی کے اس زمانے کی بات ہے جب جامعۃ الفلاح کے آخری سال میں تھا، جامعہ کی تاریخ میں پہلی بار اسکاؤٹ ٹریننگ پروگرام ہوا، اور بہت بڑے پیمانے پر ہوا، ٹریننگ کے لئے مہتاب حسین صاحب آئے، جن کے پاس بہت ساری یادیں، تمغے، تجربے اور لطیفے تھے۔ ان کی مردم شناس نگاہ نے غلطی کی اور مجھے پورے گروپ کا لیڈر بنادیا، جو ساتهی اس میں شریک ہوئے ان کے دامن میں یقینا بہت ساری حسین یادیں ہوں گی، لیکن میری خوشیوں میں کچه تلخیاں بهی شامل ...ہوگئیں. ہوا یہ کہ چند روز تو کرتے پاجامے میں ٹریننگ چلی مگر پھر طے پایا کہ باقاعدہ یونیفارم تیار کئے جائیں، اس کے لئے شریک طلبہ سے ایک متعین رقم جمع کی گئی اور اعظم گڑھ شہر میں کپڑوں کی سب سے بڑی دوکان پر پہونچ گئے، چونکہ میں اس معاملہ میں بالکل کورا تھا، اس لئے دو تاجروں کو بھی لے گیا۔ دوکان دار نے بہت اچھا کپڑا دکھایا، اور بہت مناسب قیمت بتائی، اس نے بتایا کہ وہ یونیفارم کی تیاری کا بھی انتظام رکھتا ہے، چنانچہ معاملہ طے پاگیا۔ اس نے ایڈوانس رقم مانگی، اور تاجر ساتھیوں کے کہنے پر میں نے پچیس ہزار میں سے دس ہزار اس کے حوالے کردئے۔ جب میں متعین دن پر کپڑے لینے گیا تو کپڑے دیکھ کر سٹپٹا گیا، ہم نے تو نہایت اعلی کوالیٹی کا کپڑا منتخب کیا تھا، اور یہاں تو نہایت گھٹیا کپڑے کے سوٹ سلے ہوئے تھے۔ میرے احتجاج کرنے سے پہلے ہی اس نے ایک اور صدمے سے دوچار کردیا یہ کہ کر کہ درزی کا اندازہ غلط تھا، کپڑا زیادہ لگ گیا، اس لئے پانچ ہزار روپے مزید ادا کرو۔ میرا احتجاج اور صدائے فغاں رائیگاں گئی، اور صورت حال کے جبر کے آگے سر تسلیم خم کرنا پڑا۔
جامعہ پہونچا تو عجب کیفیت تھی، ساتھی ناراض کہ کپڑا بھی غیر معیاری اور سائز بھی نا ساز۔ دوسری طرف پانچ ہزار کے خسارے کو پورا کرنے کی فکر، کہ ان ناراض طلبہ سے مزید رقم کس منھ سے مانگوں۔ خسارے کا مسئلہ تو اللہ بخشے امی مرحومہ نے اپنی تجوری سے حل کردیا، لیکن طلبہ کی ناراضگی دور کرنے کا کوئی علاج میرے پاس نہیں تھا۔
یہ معاملات کی دنیا میں دھوکہ کھانے کا پہلا تجربہ تھا، جس کی تلخی سے عرصہ دراز تک طبیعیت بدمزا رہی، اور پھر تجربات کی اس درس گاہ میں بہت سارے اسباق پڑھنے کا موقعہ ملا، جو آموختہ اچھی طرح یاد رہ گیا وہ یہ کہ معاملات کی دنیا سمجھ داری اور بیدار مغزی چاہتی ہے، یہاں حضرت عمر کا وہ قول بہترین رہنما ہوتا ہے کہ (لست بخب ولا یخدعنی خب) "میں دھوکہ باز تو نہیں ہوں مگر بودا بھی نہیں ہوں کہ کوئی دھوکے باز مجھے دھوکہ دے دے"۔
تاہم ایک سبق جو بار بار دوہرانے کے بعد بھی یاد نہیں ہوسکا، وہ یہ کہ اپنے قریبی لوگوں سے معاملات کرتے ہوئے کس طرح کی سمجھ داری سے کام لیا جائے، عربی میں ایک مثل مشہور ہے، (تعاشروا كالإخوان وتعاملوا كالاجانب) "بھائیوں کی طرح حسن سلوک کرو، اور غیروں کی طرح معاملات کرو" لیکن اس نسخہ پر عمل کرنا بہت دشوار ہوتا ہے، جبکہ عمل نہیں کرنے کی صورت میں جو تکلیف پہونچتی ہے وہ بھی ناقابل بیان ہوتی ہے۔ ناقابل بیان اس لئے بھی کہ بہت شدید ہوتی ہے، اور ناقابل بیان اس لئے بھی کہ بیان کس سے کیا جائے۔

ایک تبصرہ شائع کریں