امت کی ضرورت تربیت یافتہ قیادت

ایک مرد مومن کی یہ ذمہ داری ہے کہ انسانوں کو فائدہ پہونچانے والی چیزوں کو دریافت کرے، اور اگر دوسرے دریافت کرلیں تو اسے قبول کرکے انسانوں کے فائدے کے لئے عام کرے۔
مہذب اور متمدن دنیا کا اس پر اتفاق ہوچکا ہے، کہ موجودہ زمانے میں کامیاب منتظمین اور قائدین کے لئے خصوصی ٹریننگ ضروری ہے، جس سے ان کی شخصیت میں قوت اور اثر پیدا ہو، اور وہ اپنی ٹیم کے ساتھ اپنے طے کردہ اہداف کو بحسن وخوبی حاصل کرسکیں۔ چنانچہ اس موضوع پر نوع بہ نوع لٹریچر شائع ہوئے اور طرح طرح کی ٹریننگ کے تصورات سامنے آئے۔ ہر انسانی کوشش کی طرح ان میں خامیاں بھی پائی جاسکتی ہیں، لیکن ان سے دنیا بھر کے اداروں اور تنظیموں کے قائدین نے استفادہ کیا اور اپنے اداروں اور تنظیموں کو بھرپور فائدہ پہونچایا۔
امت مسلمہ جو متمدن دنیا سے بہت سارے معاملات میں پیچھے ہے، اس کا ایک بڑا مسئلہ خام قیادت کا بھی ہے، اداروں کے منتظمین ہوں یا جماعتوں کے قائدین، وہ جس وقت انتظام وقیادت کا منصب سنبھالتے ہیں، انتظام وقیادت کے فن سے قدرے ناواقف ہوتے ہیں، نہ انہوں نے اس کی کوئی تربیت حاصل کی ہوتی ہے، اور نہ ہی انہیں اس کا کوئی قابل اعتبار تجربہ ہوتا ہے۔
چونکہ امت میں اس طرح کی تربیت کا کوئی انتظام نہیں ہے، اس لئے جن لوگوں کی شخصیت کا زیادہ اظہار کسی بھی سبب سے ہوجاتا ہے، وہ جماعتوں اور اداروں کے مناصب پر فائز ہوجاتے ہیں، یا کردئے جاتے ہیں۔
لیکن حقیقت میں ان کی شخصیت خصوصی ٹریننگ کی سخت محتاج ہوتی ہے۔ ان کی حیثیت اس شخص کی ہوتی ہے، جو خود سے اچھل کر یا لوگوں کے ڈھکیلنے پر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ تو گیا ہو، مگراس کو ڈرائیونگ کرنا نہیں آتا ہو۔ ممکن ہے وہ کسی سنسان شاہراہ پر جیسے تیسے گاڑی چلا لے جائے، مگر ہائی وے پر جہاں تیز رفتار گاڑیاں اندھا دھند دوڑ رہی ہوں، بغیر سیکھے گاڑی چلانا یقینا خطرناک ہوتا ہے۔
اور کسی ادارے کا انتظام یا کسی جماعت کی قیادت تو ہائی وے پر گاڑی چلانے سے کہیں زیادہ خطرناک کام ہے، ذرا سی کوتاہی سے بہت ساری توانائیاں بلکہ زندگیاں ضائع ہوجاتی ہیں، اتنا اہم اور نازک کام بھر پور ٹریننگ لئے بغیر انجام دینا ایک نامعقول بات ہے، اور امت کے ادارے اور جماعتیں اس المیہ کا عرصے سے شکار ہیں۔
یہ درست ہے کہ قیادت اور انتظام کی صلاحیت بسا اوقات خدا داد ہوتی ہے، لیکن اگر خدا داد صلاحیتوں کا حامل شخص میسر نہ آئے تو کام چلانے کے لئے ایسے اشخاص کی مدد لینا ضروری ہوجاتا ہے، جو تربیت اور ٹریننگ کے ذریعہ مفید مطلب بن سکیں۔ پهر جن کو خداداد قائدانہ صلاحیت حاصل ہو ان کے لئے بهی ٹریننگ ضروری ہوتی ہے کہ اس سے شخصیت کے مختلف پہلووں کی تکمیل وتزئین ہوتی ہے.
چونکہ ہمارے یہاں قیادت کا مطلب بس ایسے افراد ہیں جو ان اداروں اور جماعتوں کو سکون سے چلتے رہنے دیں، اس لئے ہمارے قائدین ومنتظمین کی قائدانہ اور منتظمانہ صلاحیتوں کا امتحان بھی نہیں ہوپاتا، لیکن جب کوئی اس پر غور کرتا ہے کہ یہ ادارے اور تنظیمیں مسلسل زوال کا شکار کیوں ہیں تو حقیقت سامنے آجاتی ہے، اور پهر قیادت کے تعلق سے شدید مایوسی ہوتی ہے۔
قائدین اور منتظمین کے غیر تربیت یافتہ یا محتاج تربیت ہونے کی بعض علامتیں یہ ہیں:
وہ کسی ہدف کے بغیر ہی اپنی قائدانہ زندگی گزاردیتے ہیں۔
وہ اپنی ناکامی کا اعتراف کبھی نہیں کرتے ہیں، اور اگر ناکامی خود سامنے آجاتی ہے تو اپنے ماتحتوں پر ڈال دیتے ہیں۔
ان کی کارکردگی سے متعلق کوئی سوال ہو تو وہ جھنجھلا جاتے ہیں
ان کی کارکردگی کے اوپر تنقید ہو تو وہ چراغ پا ہوجاتے ہیں
وہ اپنے ماتحتوں کا معیار بلند کرنے کا منصوبہ نہیں رکھتے ہیں
وہ اطاعت کے خوگر ہوتے ہیں، اور مشوروں سے خود کو بے نیاز سمجھتے ہیں
وہ اپنا جانشین تیار نہیں کرتے ہیں۔ اور نہ اپنے ماتحت ذمہ داروں کے جانشین تیار کرنے کا انتظام کرتے ہیں
ان کے آس پاس فعال اور تخلیقی ذہن رکھنے والے لوگوں کی بجائے خوشامد کرنے والوں کا جمگھٹا ہوتا ہے۔
غیر تربیت یافتہ شخص کو ذمہ دار کے طور پر قبول کرلینا تو لوگوں کی مجبوری ہوسکتی ہے، کیونکہ تربیت یافتہ لوگ واقعی کم پائے جاتے ہیں اور ملکی اور صوبائی اور پھر ادارہ جاتی سطح پر ان کا ملنا آسان نہیں ہے، لیکن ذمہ دار بن جانے کے بعد اپنی تربیت کی فکر کرنا بہر حال ذمہ دار کی اولین ذمہ داری ہے۔ اور اس سلسلے میں کوتاہی دراصل بڑی کوتاہی ہے۔
ماتحتوں کی تربیت کی طرف تو قیادت کا ذہن آسانی سے چلا جاتا ہے، لیکن خود قائد محسوس کرے کہ اس کو اپنی ٹریننگ کی ضرورت ہے، یہ اسی وقت ممکن ہے جب قائد کے اندر ایک ممتاز اور مثالی قائد بننے کا سچا جذبہ ہو، اور اپنے ادارے یا تنظیم کو نئی بلندیوں تک پہونچانے کا عزم اور حوصلہ ہو۔

ایک تبصرہ شائع کریں