اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو بد دیانتی کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے" من غش فلیس منا۔
مومن کو دیانت دار ہونا چاہئے، اور سمجھ دار بھی ہونا چاہئے، سمجھ داری کا تقاضا یہ ہے کہ اپنے آپ کو بدعنوانی کے الزام سے بچا کر رکھے، کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ آدمی دیانت دار ہوتا ہے، اور صورت حال اسے ایسے مقام پر لے جاتی ہے جہاں لوگ اسے بد دیانت اور بے ایمان سمجھنے لگتے ہیں۔
ایک چھوٹے سے واقعہ نے مجھے یہ بڑا نکتہ سکھایا، ہوا یوں کہ میں اعظم گڑھ سے دہلی جا رہا تھا، ایک شخص نے مجھے ایک بند لفافے میں اپنے پتہ کے ساتھ چند سو روپے رکھ کر دئے، کہ یہ فلاں رسالہ کی سالانہ خریداری کی رقم ہے، میں اسے رسالے کے دفتر میں پہونچا دوں۔ میں نے دہلی پہونچ کر اپنے دفتر کے ملازم کے ہاتھ وہ لفافہ اس دفتر میں بھجوادیا، اور مطمئن ہوگیا، چند ماہ بعد جب میں دوبارہ وطن گیا تو اس شخص نے تشویش ظاہر کی کہ وہ رسالہ اب تک جاری نہیں ہوا، میں نے واپس جاکر رسالے کے دفتر میں معلوم کیا تو چونکا دینے والا جواب ملا کہ ہمیں تو ایسا کوئی لفافہ موصول ہی نہیں ہوا ہے۔ اس وقت تو میں نے اپنی جیب سے چند سو روپے دے کر رسید لے لی، ساتھ ہی آئندہ زندگی کے لئے ایک قیمتی سبق بھی لے لیا۔
میں نے سوچا کہ اس بار تو چند سو جیب سے ادا کر کے اپنی دیانت داری کو بچالیا، اگر خدا نخواستہ رقم میری استطاعت سے بڑی ہوتی، تو میرے پاس تو اپنے دفاع کے لئے کوئی دلیل بھی نہیں تھی۔
سمجھ داری اور احتیاط کا تقاضا غالبا یہ تھا کہ بند لفافے کی بجائے، میں اس ساتھی سے کھلا لفافہ مانگتا، اس کی رقم گن کر اس سے تحریری سند لیتا، اور اس کے بعد متعلقہ دفتر کو وہ رقم بدست خود ادا کرتا، اور اس کی رسید کی ایک کاپی اس کو بھیج دیتا اور ایک اپنے پاس محفوظ رکھتا۔ غرض یہ کہ ہر مرحلے پر رقم کس کے ہاتھ سے کس کے ہاتھ میں پہونچی اس کا تحریری ریکارڈ ہوتا۔
ایمان داری کی حفاظت کا یہ موضوع نہایت اہم اس لئے ہے کہ میں نے تاریخ میں پڑھا ہے، اور اپنی آنکھوں سے بھی دیکھا ہے، کہ بہت سارے دین وملت کے قائدین اور خادمین اپنی بددیانتی کی وجہ سے نہیں بلکہ معمولی لا پرواہی کی وجہ سے بدعنوانی کے الزام کا نشانہ بنے، اور ان کی شخصیت کو اس سے زبردست نقصان پہونچا۔
میرے ایک واقف کار نے ایک تاجر صاحب سے ایک اجتماعی ادارہ کے لئے چندہ وصول کیا، اور رقم ادارہ میں لا کر جمع کردی۔ چند سال بعد معاملہ نے کروٹ لی، رقم کی مقدار کا سوال اٹھا، اور الزام کی سوئی ان صاحب پر جاکر ٹک گئی، اب اسے ناسمجھی کہیں یا ستم ظریفی کہ ان کے پاس اپنی دیانت داری کو ثابت کرنے کے لئے کچھ نہیں تھا۔
مدرسہ سے فارغ ہونے والے کے پاس فراغت کی ایک سند ہوا کرتی ہے، جسے وہ اپنی اہلیت کے ثبوت کے طور پر کوتاہ بینوں کے سامنے پیش کیا کرتا ہے، ایک شخص جب کسی مالی معاملہ سے فارغ ہو، تو اسے بھی اپنی ایمان داری کو ثابت کرنے والی کوئی سند ضرور اپنے ساتھ رکھ لینا چاہئے۔ اور دیگر اہم دستاویزوں کی طرح اس سند کو بھی تاحیات سنبھال کر رکھنا چاہئے۔
دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ اجتماعی ذمہ داریوں پر فائز ہوتے ہیں، اور سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں، وہ لوگوں کی بدگمانیوں کا نشانہ بھی زیادہ بنتے ہیں، ان کا تھوڑا سا سامان تعیش بھی لوگوں کی نگاہ میں بہت کھٹکتا ہے۔ لوگوں کے دیکھنے کا انداز غلط ہو سکتا ہے، ان کی بدگمانیوں کا محرک تنگ دلی اور حسد بھی ہوسکتا ہے، لیکن احتیاط اور ہوشیاری ادھر بھی مطلوب ہے، اجتماعی دولت میں غبن کی تہمت سے محفوظ رہنے کے لئے بہتر ہے کہ آدمی اپنے ذرائع آمدنی سے ممکنہ حد تک لوگوں کو باخبر رکھے۔ ایک مدرسہ کے غریب استاذ کا جب یکایک ایک شاندار بنگلہ تیار ہوگیا، تو بد گمانیوں نے سر اٹھانا شروع کیا، استاذ نے سمجھ داری اور شفافیت سے کام لیا اور سب کو بتادیا کہ یہ بنگلہ ان کے فلاں پرانے شاگرد نے ان کے لئے بنوایا ہے، یہ وضاحت اور پہلے ہوجاتی تو اور اچھا ہوتا۔
سماجی مقام ومنصب کی نزاکت کا تقاضا یہ بھی ہے کہ تعیشات کے اظہار سے خود کو ممکنہ حد تک دور رکھا جائے، بدگمانیوں کی گاڑی کو ایندھن فراہم کرنا کہاں کی دانش مندی ہے۔
یاد رہے کہ بدعنوانی کا الزام شدید احتیاط کے باوجود بھی راہ پا سکتا ہے، اجتماعی ذمہ داریوں سے میرا زیادہ تعلق نہیں رہا ہے، اور نہ ہی مالی معاملات سے، اس کے باوجود میں کئی بار بالکل بال بال بچا ہوں، اس لئے ہمیشہ اللہ تعالی سے اس کی پناہ میں جگہ مانگتے رہنا چاہئے۔
ایک تبصرہ شائع کریں