دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کا مقصد اور ان کی دعوت انسانوں کو اس بات پر آمادہ کرنا ہے کہ وہ اسلام کو مکمل نظام حیات کے طور پر قبول کریں، اسلامی تحریک دعوی کرتی ہے کہ اس طرح انسانوں کی دنیا بھی سنور جائے گی اور آخرت بھی بن جائے گی، ظلم کا خاتمہ ہوگا اور عدل واطمینان کا دور دورہ ہوگا۔ اسلامی تحریک اس موضوع پر بحث کے لئے بھی پورے اعتماد کے ساتھ خود کو پیش کرتی ہے۔
اسلامی تحریکات کو منزل مقصود کب ملے گی اس سے قطع نظر، اسلامی تحریک کے اس عظیم مقصد، دعوت اور دعوے کا عملی امتحان اس وقت ہونے لگتا ہے جب تحریک کے کسی فرد سے متعلق کوئی قضیہ یا تنازعہ ابھرتا ہے، اور اس سلسلے میں تحریک کے اندر ایک طرح کی عدالتی کارروائی انجام پاتی ہے۔ حق اور ناحق کا تعین ہوتا ہے، اور باقاعدہ فیصلہ صادر ہوتا ہے۔ متعلقہ فرد کے علاوہ خود تحریک کے لئے یہ عدالتی کارروائی بڑی نزاکت رکھتی ہے، اس عدالتی کارروائی کا ایک ایک پہلو یہ بتاتا ہے کہ اسلامی تحریک اپنے عظیم مقصد، دعوت اور دعوے کے سلسلے میں کس قدر اہلیت کی حامل اور اعتبار کے قابل ہے۔
دنیا بھر میں انصاف کی کرسی پر بیٹھنے کے لئے طویل تعلیم اور گہری فراست مطلوب ہوتی ہے، ایک عام اسلامی عدالت کے قاضی کے لئے بھی نظام قضا کی تعلیم کا حصول ضروری سمجھا جاتا ہے، اسلامی تحریک کی عدالت کے لئے تو نظام قضا کی بھر پور تعلیم اوراعلی عدالتی صلاحیت نہایت ضروری قرار پاتی ہے۔ اگر کسی اسلامی تحریک کے پاس اس سطح کا انتظام نہیں ہو، تو اسے اس انتظام کو اپنی ترجیحات میں رکھنا چاہئے، اور اس دوران ایسے معاملات کو خود فیصل کرنے کی بجائے ملک میں موجود متبادل اسلامی نظام قضا کے حوالے کردینا چاہئے۔
یہ صحیح ہے کہ اسلامی تحریکات کی عدالتوں کے فیصلے معروف معنی میں نافذ نہیں ہوتے ہیں، البتہ یوں ضرور نافذ ہوتے ہیں، کہ جس فرد کے خلاف فیصلہ ہوتا ہے، اس کا یا تو تحریک سے فوری اخراج ہوجاتا ہے یا فیصلے کو قبول نہیں کرنے کی صورت میں اخراج ہوجاتا ہے۔ اسلامی تحریک سے فرد کا اخراج اگر کسی بدعنوانی کی بنیاد پر ہو تو وہ اپنے آپ میں ایک کڑی سزا ہوتی ہے، کیونکہ وہ شخص نہ صرف ایک پوری تحریک بلکہ اپنے آس پاس کے معاشرے کی نظر میں گر جاتا ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ نیک لوگوں کی نظر میں گرجانا تاحیات قید با مشقت سے کم تکلیف دہ نہیں ہوتا ہے۔ اس قدر سخت سزا صادر کرنے سے پہلے انصاف کے تمام تقاضوں کی احسن طریقے سے تکمیل کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔
اسلامی تحریکات کی عدالتی کارروائی اتنی مضبوط بنیادوں پر ہونا چاہئے کہ جس کے خلاف فیصلہ ہوا ہو وہ اپنے موقف کی کمزوری سے آگاہ ہوجائے، اور ہرغیر جانبدار مبصر فیصلے کی بنیادوں کے مضبوط ہونے کی گواہی دے۔ یہ تو ممکن ہے کہ تمام کوششوں اور تدبیروں کے باوجود غلط فیصلہ ہوجائے، لیکن فیصلے تک پہونچنے کا عمل اس بات کی شہادت ضرور دے کہ فیصلہ سنانے والوں نے انصاف تک پہونچنے کے تمام راستے اختیار کرلئے تھے۔
میرا ذاتی خیال ہے کہ تحریک کی قیادت کو اس طرح کی عدالتی کارروائی کو بذات خود انجام نہیں دینا چاہئے، کہ یہ کام خصوصی صلاحیت اور زیادہ فرصت چاہتا ہے، جبکہ قیادت کے پاس گونا گوں مصروفیات ہوا کرتی ہیں۔ مزید یہ کہ اس معاملہ میں ذرا سی کوتاہی قیادت کی ساکھ کو بڑا نقصان پہونچاتی ہے۔
اس بارے میں میری تجویز یہ ہے کہ ہر اسلامی تحریک میں کم از کم دو سطح کی مستقل دو بنچیں قائم کی جائیں، جو ایسے افراد پر مشتمل ہوں جنہوں نے اسلامی نظام قضا کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی ہو، اور ان کے اندر وہ فراست بھی موجود ہو جو ایک قاضی کے لئے مطلوب ہے۔ اور وہ تمام قضیے اور تنازعات جن کا تعلق تحریک کے افراد سے ہو پہلی بنچ میں فیصلے کے لئے اور دوسری بنچ میں فیصلے کی توثیق کے لئے پیش کئے جائیں، یہ خصوصی بنچیں پوری یکسوئی کے ساتھ ان معاملات پر کام کریں، کارروائی کی تفصیل کے ساتھ فیصلے کی مفصل بنیادیں تحریری ریکارڈ کی صورت میں محفوظ کی جائیں۔ اور کم ازکم متعلقہ لوگوں کو اس کا نسخہ حاصل کرنے کا موقعہ رہے۔
اسلامی تحریک کی یہ پہچان بننا ضروری ہے کہ وہ اقامت عدل کے لئے دنیا میں سب سے زیادہ سنجیدہ اور مخلص ہے۔ اس کے یہاں صرف نعرے اور دعوے نہیں ہیں، بلکہ اہتمام اور التزام بھی ہے۔
یاد رہے عدل کی اقامت اور عدل کی شہادت میں گہرا تعلق ہے، قرآن مجید کا بیان ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ "اے ایمان والو، عدل کو قائم کرنے والے اور عدل کی گواہی دینے والے بن جاؤ اور یہ دونوں کام اللہ کے لئے کرو"
ایک تبصرہ شائع کریں