دو نمازوں کو جمع کرنا، دعوت اعتدال
محی الدین غازی
جب میں دار العلوم دیوبند میں تعلیم حاصل کررہا تھا تو ایک سفر میں دار العلوم کے دو اساتذہ اور کچھ طلبہ کا ساتھ نصیب ہوا۔ ٹرین ایک اسٹیشن پر کچھ زیادہ دیر کے لئے رکی، طے پایا کہ مصلی بچھاکر مغرب کی نماز پڑھ لی جائے، اساتذہ نے مجھے آگے کردیا، اور ہم نے تین رکعت مغرب کی نماز پڑھی، پھر مجھےاساتذہ کی جانب سے ہدایت ملی کہ عشاء کی نماز بھی پڑھادو، میں نے دو رکعت عشاء کی نماز پڑھادی۔ اپنے اساتذہ کا یہ عمل مجھے بہت معقول اور مناسب لگا، کیونکہ ٹرین چلنے کے بعد عشاء کے وقت میں نماز ادا کرنے کی ایسی سہولت ملنے کی امید نہیں تھی۔ تاہم تعجب یہ ہوا کہ حنفی مسلک میں تو اس طرح نمازوں کو جمع کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
بعد میں جب مطالعہ بڑھا تو معلوم ہوا کہ حنفی فقہاء نے بھی ضرورت پڑنے پر اس کی گنجائش کی ضرورت کو محسوس کیا ہے۔
جب ہم امام سرخسی اور امام کاسانی جیسے قدیم فقہاء احناف کی عبارتیں دیکھتے ہیں تو واقعی ہمیں کوئی اجازت نہیں نظر آتی ہے۔ احناف صرف جمع صوری کی اجازت دیتے ہیں۔ جمع صوری یہ ہے کہ ظہر کو اس کے آخر وقت میں اور عصر کو اس کے اول وقت میں اس طرح ادا کیا جائے کہ بظاہر لگے کہ دونوں کو ملا لیا، مگر حقیقت میں دونوں اپنے اپنے وقت میں پڑھی جائیں۔ جمع صوری کے نام پر یہ جو اجازت نظر آتی ہے وہ ممکن ہے پہلے قابل عمل رہی ہو جب مسافر اپنی مرضی سے نکلتا اور ٹھہرتا تھا، لیکن اب اپنے وقت پر چلنے والی بسوں ٹرینوں اور جہازوں کے زمانے میں وہ صورت کسی طرح قابل عمل نہیں لگتی ہے۔
تاہم بعد کے فقہاء میں حنفی فقیہ علامہ حصفکی کی کتاب الدر المختار میں ہمیں اس موقف میں حیرت انگیز تبدیلی نظر آتی ہے، وہ امام شافعی کا مسلک بیان کرتے ہیں کہ ان کے یہاں جمع کی اجازت ہے، پھر احناف کا مسلک بیان کرتے ہیں کہ ان کے یہاں اس کی اجازت نہیں ہے۔ اس کے بعد لکھتے ہیں: "ضرورت کے وقت دوسرے امام کی تقلید میں کوئی حرج نہیں ہے۔ شرط یہ ہے کہ اس دوسرے مسلک میں جو باتیں ضروری قرار دی گئی ہیں ان کا التزام کرے"۔
بہت خاص بات یہ ہے کہ اس اہم کتاب میں دوسرے مسلک پر عمل کرنے کی اس طرح کی اجازت مجھے صرف اسی مسئلے کے تحت ملی (ممکن ہے بعض اور مسائل میں بھی ایسی اجازت موجود ہو)۔
مذکورہ کتاب کا حاشیہ رد المحتار کے نام سے علامہ ابن عابدین نے لکھا ہے، وہ کہتے ہیں کہ یہاں ضرورت سے مراد مشقت ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر دونوں نمازوں کو الگ الگ وقتوں میں ادا کرنے میں مشقت ہو تو دونوں کو ایک ساتھ ادا کرسکتے ہیں۔
بہت خاص بات یہ ہے کہ اس اہم کتاب میں دوسرے مسلک پر عمل کرنے کی اس طرح کی اجازت مجھے صرف اسی مسئلے کے تحت ملی (ممکن ہے بعض اور مسائل میں بھی ایسی اجازت موجود ہو)۔
مذکورہ کتاب کا حاشیہ رد المحتار کے نام سے علامہ ابن عابدین نے لکھا ہے، وہ کہتے ہیں کہ یہاں ضرورت سے مراد مشقت ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر دونوں نمازوں کو الگ الگ وقتوں میں ادا کرنے میں مشقت ہو تو دونوں کو ایک ساتھ ادا کرسکتے ہیں۔
معروف حنفی محقق علامہ عبدالحی لکھنوی احناف کے موقف پر بے اطمینانی ظاہر کرتے ہیں، احناف نے حدیثوں کی جو تاویلیں کی ہیں ان پر بھی بے اطمینانی ظاہر کرتے ہیں، اور لکھتے ہیں، اللہ کے رسول کا سفر کی حالت میں اور عذر کی وجہ سے جمع کرنا تو بہرحال ثابت ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں: معاملہ مشکل ہے، غور کرتے رہو شاید کوئی راہ نکل آئے۔ (التعلیق الممجد)
جمع کے سلسلے میں احناف کے سخت موقف سے معروف حنفی عالم علامہ انور شاہ کشمیری بھی مطمئن نہیں نظر آتے ہیں، اور وہ جمع کی ایک اور صورت سے متعارف کراتے ہیں اور وہ یہ کہ ظہر اور عصر کے درمیان اچھا خاصا وقت وہ ہوتا ہے جو دونوں نمازوں کا مشترک وقت ہوتا ہے، اسی طرح سے مغرب اور عشاء کے درمیان بھی دونوں نمازوں کے لئے اچھا خاصا مشترک وقت ہوتا ہے۔ (فیض الباری)
معلوم یہ ہوا کہ سفر میں نماز ادا کرنے کی دشواریوں کو سامنے رکھتے ہوئے جمع کرنے کی گنجائش فقہ حنفی میں کچھ نہ کچھ موجود ہے۔ فقہ حنفی کے محققین کو اس اجازت کے دلائل کے قوی ہونے کا احساس بھی ہے، اور بندگان خدا کے لئے اس اجازت کی ضرورت کا احساس بھی ہے۔ سفر کے بڑھتے ہوئے رجحان اور وقت سے جڑی دشواریوں کو دیکھتے ہوئے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اب اس اجازت کا عام اعلان کیا جائے۔
دوسری طرف یہ پہلو بھی سامنے رہے کہ جمع کرنا ایک استثنائی حالت ہے، اصل تو یہ ہے کہ نماز کے ہر وقت کو نماز کی خوشبو سے معمور کیا جائے۔ نماز کے ہر وقت میں نماز سے اچھی کوئی اور مصروفیت نہیں ہوسکتی ہے، اس لئے اپنے معمولات اور پروگراموں کے ٹائم ٹیبل اس طرح بنائے جائیں کہ ہر نماز کے وقت میں نماز کا وقت نکل آئے۔ بعض دینی اجتماعات میں دیکھا گیا ہے کہ نمازوں کو جمع کرنے کا شوق اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ لگتا ہے جمع کرنے میں زیادہ ثواب ہے۔ دین کا صحیح فہم رکھنے والوں کا یہ طریق نہیں رہا ہے۔
امام ابن تیمیہ نے بڑے نکتے کی بات لکھی ہے: نبی پاک ﷺ نے سفر میں عام طور سے قصر کیا مگر جمع کم دفعہ ہی کیا، اس لئے حدیث کا فہم وشعور رکھنے والے پسند یہی کرتے ہیں کہ جمع نہیں کریں مگر اسی وقت جب کہ اس کی ضرورت ہو، رسول پاک ﷺ کے نمونہ کو اختیار کرتے ہوئے کہ جب سفر درپیش ہوا اور پا بہ رکاب ہوئے تو جمع کیا، یہی وجہ ہے کہ امام احمد سے اس بارے میں مختلف قول ہیں کہ کیا اس مسافر کے لئے جمع کرنا جائز ہے جو بر سر سفر نہ ہو اور کہیں ٹھہر گیا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اہل سنت ایک طرف سفر میں قصر کرنے کے جواز پر متفق ہیں، اور قصر نہ کرنے کے جواز پر ان کا اختلاف ہے، دوسری طرف وہ نمازیں اپنے اپنے وقت پر پڑھنے میں متفق ہیں، اور نمازوں کو جمع کرنے کے جواز میں ان کا اختلاف ہے۔ (مجموع الفتاوی)
بعض لوگ قصر اور جمع میں فرق نہیں سمجھتے ہیں، قصر کا مطلب ظہر عصر اور عشاء کی نمازیں چار رکعت کے بجائے دو رکعت ادا کرنا ہے۔ جمع کا مطلب ظہر عصر کو ملا کر پڑھنا اور مغرب اور عشاء کو ملا کر پڑھنا ہوتا ہے۔
بعض لوگ قصر اور جمع میں فرق نہیں سمجھتے ہیں، قصر کا مطلب ظہر عصر اور عشاء کی نمازیں چار رکعت کے بجائے دو رکعت ادا کرنا ہے۔ جمع کا مطلب ظہر عصر کو ملا کر پڑھنا اور مغرب اور عشاء کو ملا کر پڑھنا ہوتا ہے۔
بعض لوگ جمع کرنے کے تمام احکام سے واقف نہیں ہوتے اور جمع کرنے میں غلطی کر بیٹھتے ہیں، واضح رہے کہ فجر کو ہر حال میں اپنے وقت میں پڑھنا ہے، بس ظہر کو عصر کے ساتھ ملانے اور مغرب کو عشاء کے ساتھ ملانے کی اجازت ملتی ہے۔ فجر کو عشاء یا ظہر کے ساتھ ملانے کی اجازت نہیں ہے، اسی طرح عصر کو مغرب کے ساتھ ملانے کی اجازت بھی نہیں ہے۔
جمع کی اجازت کو تسلیم کرنے والے زیادہ اہل علم کی رائے یہ رہی ہے کہ جب سفر شروع ہورہا ہو یا سفر جاری ہو تو جمع کریں، اگر سفر کے دوران کہیں قیام کرلیا ہے اور ہر نماز آسانی سے اپنے وقت میں پڑھی جاسکتی ہے تو ہر نماز اس کے وقت پر ادا کرنے کا اہتمام کریں۔
واضح رہے کہ اس مضمون میں جمع کرنے اور جمع نہیں کرنے کے دلائل کا جائزہ نہیں لیا گیا ہے، کیونکہ بہت سی کتابوں میں ان کا حد سے زیادہ تذکرہ ہوچکا ہے۔ اس مضمون کا مقصد دونوں مسلک والوں کو اپنے مسلک میں اعتدال اختیار کرنے کی دعوت دینا ہے۔
ایک تبصرہ شائع کریں