انسانو؛ کائنات کی کتاب کو سمجھ کر پڑھو

انسانو؛ کائنات کی کتاب کو سمجھ کر پڑھو
محی الدین غازی
(وحی الہی کائنات کو سمجھ کر پڑھنے کی ہدایت کرتی ہے، جب کہ وحی بیزار سائنس میں کائنات کو بنا سمجھے پڑھا جاتا ہے)
انسانوں کے درمیان کائنات کو پڑھنے کا رواج پہلے سے بہت زیادہ بڑھ گیا ہے، کائنات کے ایک ایک پہلو کو الگ الگ کرکے بھی پڑھا جارہا ہے، اور ہر پہلو کی تقسیم در تقسیم بھی ہوتی جارہی ہے، فزکس، کیمسٹری، بایولوجی، سماجی علوم، لسانی علوم اور علم نفسیات انسانی، یہ اور ان جیسے علوم سے پھوٹنے والے بے شمار علوم، یہ سب کائنات کو پڑھنے کی مختلف شکلیں ہیں۔ ٹکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ساتھ کائنات کو پڑھنے کے لئے جدید ترین وسائل کا استعمال بھی کیا جاتا ہے اور پڑھانے کے لئے مفید ترین ذرائع اور اسلوب بھی اختیار کئے جاتے ہیں۔
تاہم تشویش اور فکرمندی کی بات یہ ہے کہ کائنات کی کتاب کو پڑھنے والے عام طور سے اسے بے سمجھے بوجھے پڑھ رہے ہیں۔ پڑھانے والے کائنات کو پڑھنا تو سکھا رہے ہیں لیکن وہ بھی بغیر سمجھے پڑھنے کا عادی بنا رہے ہیں۔ دور جدید میں کائنات کو بنا سمجھے پڑھنا ہی رواج اور فیشن ہوتا جارہا ہے، اور اسی کو پڑھائی کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ شکل سمجھا جارہا ہے۔ نرسری اور پرائمری اسکولوں سے لے کر دنیا کی بڑی بڑی تعلیمی اور تحقیقی جامعات سبھی کائنات کو بے سمجھے پڑھنے اور پڑھانے کی محنت اور عرق ریزی میں مصروف ہیں۔
کائنات کے خالق نے کائنات کو سمجھ کر پڑھی جانے والی ایک بامعنی بلکہ معانی سے بھرپور کتاب بنایا ہے۔ اس نے انسانوں کو سمجھ کر پڑھنے والی نگاہ اور عقل عطا کی ہے، اور پھر وحی بھیج کر سمجھ کر پڑھنے کی تعلیم کا بہترین انتظام بھی کیا ہے۔ وحی کی کتاب کی طرح کائنات کی کتاب بھی اللہ، رسالت اور آخرت کے اسباق پر مشتمل ہے، کائنات کو جب ہم سمجھ کر پڑھنے لگتے ہیں تو یہ سارے اسباق اچھی طرح سمجھ میں آنے لگتے ہیں۔ اور ان سے متعلق سارے شکوک وشبہات اور وہم وگمان دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ انسان اور کائنات کا نظم بھی واضح ہوجاتا ہے، اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ حاضراور غیب کا نظم بھی اچھی طرح واضح ہوجاتا ہے، نظر آنے والی کائنات کو سمجھ کر پڑھنے کے بعد غیب کی کوئی خبر ناقابل فہم نہیں رہتی ہے۔
کائنات کو بنا سمجھے پڑھنے سے انسانوں کی مادی ضرورتیں پوری ہوجاتی ہیں، اور ان کی سطحی جستجو کی تسکین بھی ہوجاتی ہے، لیکن کائنات کے اصل مفہوم سے محرومی برقرار رہتی ہے۔ بہت سے لوگ ثواب کمانے اور ثواب پہونچانے کی خاطر اور دکان ومکان کی خیر وبرکت بڑھانے کے لئے وحی کی کتاب کو بنا سمجھے پڑھتے ہیں، اور بہت سے لوگ کائنات کی کتاب کو مادی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے بنا سمجھے پڑھے جارہے ہیں۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو اللہ کی حمد وتسبیح میں مصروف رہتے ہیں مگر وہ حمد وتسبیح نہیں جو کائنات کو سمجھ کر پڑھتے ہوئے کی جاتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ وحی کی کتاب کو بھی سمجھ کر پڑھنا ضروری ہے اور کائنات کی کتاب کو بھی سمجھ کر پڑھنا ضروری ہے۔ دونوں کے وجود کا اصل مقصد ہی یہی ہے کہ انہیں سمجھ کر پڑھا جائے۔
کائنات سے انسان کا ضرورتوں کا رشتہ ہے، اور اس رشتے میں بھی سمجھ کر پڑھنے کے لئے بہت سے اسباق ہیں، انسان کے اندر بے شمار ضرورتیں رکھی گئی ہیں، ان میں بہت سی ضرورتیں دوسری مخلوقات سے مختلف اور انسانوں کے ساتھ مخصوص ہیں، انسان کے باہر کی دنیا میں ان ضرورتوں کی تکمیل کے بے پناہ انتظامات رکھے گئے ہیں، اور انسان کو اس قابل بنایا گیا ہے کہ وہ ان انتظامات کو دریافت کرسکے، اسے اس قابل بھی بنایا گیا ہے کہ وہ ان انتظامات سے فائدہ اٹھاسکے، یہ سب کچھ ایک حکیم خالق کی قدرت کے زبردست کرشمے ہیں۔ وہ ضرورتوں کے ساتھ پیدا کرتا ہے، وہ مخلوقات کی عام ضرورتوں سے بھی باخبر ہے اور ہر مخلوق کی مخصوص ضرورتوں کی بھی خبر رکھتا ہے۔ اور پھر ضرورتوں کی تکمیل کا بہترین اور عجیب ترین انتظام بھی کرتا ہے، تاکہ انسان صرف ضرورتوں کی تکمیل ہی پر دھیان نہ دے بلکہ آگے بڑھ کر اس عجائبات سے بھرپور نظام پر غور وفکر بھی کرے۔
ایک آگ پر غور کریں، ایک طرف انسانوں کی کتنی زیادہ ضرورتیں آگ سے جڑی ہوئی ہیں، اور دوسری طرف آگ حاصل کرنے کے کیسے کیسے انتظامات اس کائنات میں کتنے اہتمام سے رکھے گئے ہیں۔ وہ کون ہے جس نے خاص طور سے انسانوں کے اندر آگ کی ضرورت کو شامل تخلیق کیا؟ وہ کون ہے جس نے آگ ایسی خطرناک اور تباہ کن چیز کو انسانوں کے لئے اس قدر مفید اور ضروری بنادیا؟ اور کس نے انسانوں کی اس ضرورت کی تکمیل کا انتظام زمین میں جگہ جگہ کردیا؟ کچھ چیزوں سے چنگاری پیدا ہوتی ہے، اور کچھ چیزوں سے آگ بھڑکتی ہے، اور کچھ چیزوں سے آگ دیر تک جلتی رہتی ہے، اور کچھ چیزوں سے آگ توانائی میں تبدیل ہوتی ہے، اور کچھ چیزوں سے آگ روشنی دینے لگتی ہے، اور کچھ چیزوں سے آگ انسان کے کنٹرول میں آجاتی ہے۔ ایک آگ سے انسان کی کتنی ضرورتوں کی تکمیل ہوتی ہے؟ اس آگ کو حاصل کرنے کے الگ الگ انتظامات کس نے کئے ہیں؟ اور کس نے انسان کے اندر یہ صلاحیت رکھی کہ وہ اپنی اس خاص ضرورت کو سمجھ سکے اور ان الگ الگ بکھرے ہوئے مخصوص انتظامات کو دریافت کرسکے، وہ بظاہر بے ربط نظر آنے والی اشیاء کے آپس کے ربط کو جان سکے، اور ان سے فائدہ اٹھانے کے قابل بن سکے؟
جلتی ہوئی آگ، جلاتی ہوئی آگ، اشیاء کو گرم کرتی، نرم کرتی اور پگھلاتی ہوئی آگ، ماحول میں گرمی پھیلاتی ہوئی آگ، گردوپیش کو روشن کرتی ہوئی آگ، اور انسانوں کی نوع بنوع اور نئی نئی ضرورتیں طرح طرح سے پوری کرتی ہوئی آگ کو اگر ہم دیکھتے رہے، اس کے عناصر اور خواص کو شمار کرتے رہے، مگر اپنے رب کی قدرت کے اس کرشمے کو دیکھ کر اپنے رب کو نہیں پہچانا تو بلاشبہ ہم نے کائنات کو بنا سمجھے پڑھا۔
اشیاء کے خواص جان لینا اور ان خواص کے خالق کو نہ جاننا دراصل کائنات کی اصل زبان کو نہیں سمجھنا اور کائنات کو بنا سمجھے پڑھنا ہے۔
کائنات کا انسانوں سے ایک او رشتہ بھی ہے، اور اس میں بھی بڑے اہم اسباق ہیں، ہماری کھال آگ سے صرف جلتی ہی نہیں ہے بلکہ جل کر تکلیف بھی محسوس کرتی ہے، اور آگ ہماری کھال کو صرف جلاتی ہی نہیں ہے بلکہ اس کو شدید قسم کی تکلیف بھی دیتی ہے۔ آگ سے انسانوں کا تکلیف والا یہ رشتہ آخرت کی جہنم کو دنیا ہی میں قابل فہم بنادیتا ہے۔ یہ آگ ایک سبق ہے آخرت کا، جس نے یہ نہیں سمجھا، اس نے کائنات کے ایک اہم سبق کو پڑھ تو لیا مگر سمجھا نہیں۔ دنیا کی زندگی میں آخرت کو سمجھ لینے کے لئے اس کائنات میں بے شمار انتظامات ہیں۔
وحی الہی کے اجالے میں آجانے کے بعد انسان پر انکشاف ہوتا ہے کہ وہ کائنات کو بنا سمجھے پڑھ رہا تھا، اور اسی بنا سمجھے پڑھنے کو سمجھنا گمان کئے ہوئے تھا، اور اسی لئے اس کی عقل شدید قسم کی بے اطمینانی اور اضطراب کا شکار تھی، اجالے میں اسے ادراک ہوتا ہے کہ کائنات ایک کھلی ہوئی روشن کتاب کی طرح اسے سمجھ میں آنے لگی ہے۔ اس کی عقل کو اطمینان محسوس ہوتا ہے، اور اب اس کے لئے کائنات میں کچھ بھی الجھن والی بات نہیں رہتی ہے۔
انسانوں کے درمیان کائنات کو سمجھ کر پڑھنے کی تحریک چلانا ایک عظیم قرآنی مشن ہے، قرآن حکیم کی بے شمار آیتیں اس تحریک کے لئے حوصلہ اور سامان فراہم کرتی ہیں، ہم اور ہماری نسلیں کائنات کو سمجھ کر پڑھنے کا طریقہ سیکھ لیں، ان کے اندر اس کا ذوق وشوق پیدا ہوجائے، علم کے سارے میدانوں میں سمجھنے کے اس عمل کی حکمرانی رہے، علم کی ہر شاخ اس سے اچھی طرح مربوط رہے، درس گاہوں میں کائنات کو سمجھ کر پڑھنے اور پڑھانے کا ماحول ہو، انسانی معاشرے میں ہر طرف کائنات کی کتاب کے اسباق کا چرچا ہو، یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے، جو جاننے اور سمجھنے والوں پر عائد ہوتی ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں