عوام کے لئے ترجمہ قرآن پڑھنا مضر نہیں، ضروری ہے

عوام کے لئے ترجمہ قرآن پڑھنا مضر نہیں، ضروری ہے
محی الدین غازی
مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ بلاشبہ حکیم الامت تھے، انہوں نے جو بھی فتوی اور مشورہ دیا وہ اس یقین اور اطمینان کے ساتھ دیا کہ اس میں امت کی بھلائی ہے۔ بے شک ان کا یہ فتوی بھی امت کی بھلائی کے پیش نظر تھا کہ عوام کو قرآن کا ترجمہ نہیں پڑھنا چاہئے۔ یہ فتوی کسی قرآنی آیت یا کسی حدیث رسول کی بنا پر نہیں تھا، بلکہ ان کا اجتہاد تھا، جس کی بنیاد ’’احتیاط کا تقاضا‘‘ تھا۔ ان کا خیال یہ تھا کہ ترجمہ قرآن پڑھنے سے عوام کسی عبارت کا کوئی غلط مفہوم نکال سکتے ہیں، اور اس طرح گمراہ ہوسکتے ہیں اس لئے احتیاط اس میں ہے کہ وہ قرآن کی تلاوت تو کریں مگر اس کا ترجمہ نہیں پڑھیں۔
میرے سامنے حکیم الامت کی کتاب اشرف الجواب کا صفحہ 196 ہے، عنوان ہے چھیالیسواں اعتراض۔۔۔عوام کے لئے ترجمہ قرآن شریف دیکھنا مضر ہے۔ اس عنوان کے تحت مندرجہ ذیل مضمون ہے:
ایک ملا جی میرے پاس مترجم قرآن لائے وہ ترجمہ شاہ عبدالقادر رحمہ اللہ کا تھا، جس میں محاورہ کی زیادہ رعایت کی گئی ہے، اس میں {فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْن} کا یوں ترجمہ کیا گیا ہے کہ دھوو اپنے مونہوں اور ہاتھوں کو اور ملو اپنے سروں کو اور اپنے پیروں کو، جس میں لفظ اپنے پیروں کو واقع میں مونہوں اور ہاتھوں کے ساتھ لگتا ہے جو کہ دور ہے نہ کہ اس فقرے سے کہ ملو اپنے سروں کو جو کہ نزدیک ہے مگر وہ ملا جی قریب کے سبب یہی سمجھے کہ یہ قریب سے متصل ہے، تو وہ اب ترجمہ دکھلا کر مجھ سے پوچھنے لگے کہ قرآن سے تو پاؤں کا مسح ثابت ہوتا ہے۔ میں بڑا گھبرایا کہ اس جاہل کو کیونکر سمجھاؤں ؟ نہ یہ عطف کو سمجھے، نہ اعراب کو، تو میں نے اس سے کہا کہ ملا جی تم نے یہ کیوں کر معلوم کیا کہ یہ قرآن ہے؟ اور خدا کا کلام ہے؟ کہا علماء کے کہنے سے، میں نے کہا: اللہ اکبر علماء اس میں تو ایمان دار ہیں کہ وہ ایک عربی عبارت کو قرآن کہہ دیں اور اس میں ایمان دار نہیں کہ وہ پاؤں دھونے کو فرض کہیں، بس علماء نے فرمایا کہ پیروں کا دھونا فرض ہے اور مسح کرنا جائز نہیں اور نیز یہ بھی کہا ہے کہ تم جیسوں کو قرآن کا ترجمہ دیکھنا جائز نہیں۔ خبردار جو تم نے کبھی آئندہ ترجمہ دیکھا، بس قرآن کی تلاوت کیا کرو، ترجمہ ہرگز نہ دیکھو۔
اس سے بھی بڑھ کر ہمیں ایک بڑے میاں ملے جو بڑے تہجد گزار اور پابند تھے، مگر قرآن کا ترجمہ دیکھ کر گمراہ ہوئے تھے، وہ مجھ سے کہنے لگے کہ جب میں قرآن پڑھا کروں تو لفظ راعنا چھوڑ دیا کروں، کیوں کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقُولُوا رَاعِنَا } جس کا ترجمہ یہ لکھا ہے کہ اے ایمان والو راعنا مت کہا کرو، تو کیا تلاوت کے وقت راعنا نہ پڑھا کروں؟ میں نے ان سے کہا کہ راعنا تو مت چھوڑو، مگر آج سے قرآن کا ترجمہ دیکھنا چھوڑ دو کیونکہ تم کو سمجھنے کی قابلیت نہیں۔
صاحبو ایسے ہی لوگوں نے شریعت کا ناس کیا ہے، جو ترجمہ قرآن وحدیث کا دیکھ کر مجتہد بن گئے ہیں۔ اب اگر ان کی کم لیاقتی کے سبب ان شبہات کا جواب نہ دیا جائے، بلکہ ان لوگوں کو ترجمہ دیکھنے سے منع کیا جائے تو بعض لوگ یوں کہتے ہیں کہ علماء کو ہمارے سوالات کا جواب نہیں آتا، میں کہتا ہوں کہ افسوس آپ کو سمجھنا نہیں آتا، جواب تو ہر سوال کا ہے۔ مگر یہ بتلاؤ کہ اس کا سمجھنے والا کون ہے۔ (اشرف الجواب 196-197)
اس مضمون سے یہ بات واضح ہے کہ حکیم الامت کا موقف احتیاط پر مبنی تھا، اس وقت انہوں نے احتیاط والے موقف کو اختیار کرنا مناسب سمجھا، یہ ان کا اجتہاد تھا، اور اس پر وہ ان شاء اللہ ماجور بھی ہوں گے۔ ان کے اس اجتہاد کی تحقیر وتضحیک ہرگز مناسب نہیں ہے۔ البتہ اس پر غور کرتے رہنا چاہئے کہ احتیاط کا وہ موقف درست تھا یا نہیں؟ مذکورہ بالا مضمون پڑھنے کے بعد میرے ذہن میں کچھ خیالات آئے، جنہیں اس مقصد سے پیش کررہا ہوں کہ یہ ہمارے درمیان غور وفکر اور گفتگو کا موضوع بنیں۔
پہلی بات: عوام کو ترجمہ پڑھنے سے روکنے کے بجائے ایسے ترجمے تیار کئے جائیں جو اس طرح کے سوالات پیدا نہ ہونے دیں۔ اس کے لئے عوام کو ترجمہ پڑھنے کا موقعہ دیا جائے، اور ان کے ذہنوں میں اٹھنے والوں سوالوں کو نوٹ کیا جائے، مزید خود بھی عوام کے ذہن کو سامنے رکھ کر مختلف تراجم قرآن کا جائزہ لیا جائے، اور ایسے ترجمے تیار کئے جائیں، جو قرآن کے مطابق بھی ہوں، اور ان میں اس طرح کے سوالوں کے لئے گنجائش بھی کم سے کم ہوجائے۔ اوپر کے دونوں واقعات میں بھی جو دو سوال پیدا ہوئے ہیں، انہیں ترجمہ کرتے ہوئے آسانی سے دور کیا جاسکتا ہے۔
دوسری بات: عوام کو ہدایت کی جائے کہ اگر ترجمہ قرآن پڑھتے ہوئے کوئی ایسی بات ان کے سامنے آئے جو امت میں رائج عمل سے ٹکراتی ہو، یا کچھ عجیب سی ہو، تو اہل علم سے ضرور پوچھ لیا کریں۔ عہد رسالت میں یہی ہوتا تھا۔ ایک صحابی نے غسل کے بدلے تیمم کا مطلب مٹی میں لوٹنا سمجھا، اللہ کے رسول کے پاس معاملہ آیا تو آپ نے اصلاح فرمادی۔ اسی ضمن میں ایک اور بہت ضروری کام ہے جس کی طرف عام طور سے توجہ نہیں ہوئی وہ یہ کہ ترجمہ قرآن کے شروع میں عوام کے لئے ایسی رہنما ہدایات ذکر کی جائیں جو انہیں بہت سی غلطیوں اور بے اعتدالیوں میں پڑنے سے محفوظ رکھیں۔
تیسری بات: اوپر جو غلطیاں مذکور ہیں وہ ایسی نہیں ہیں کہ ان کی وجہ سے ترجمہ پڑھنے پر پابندی لگادی جائے۔ اگر اس آدمی کو یہ اشکال ہوا کہ وضو میں پاؤں پر مسح کیا جائے تو حضرت ابن عباس کے شاگرد عکرمہ کی تو رائے ہی یہی تھی کہ وضو میں پاؤں پر مسح کیا جائے گا، جو رائے ایک بڑے عالم کی بن گئی اگر اسی کا شبہ ایک عامی کو بھی ہوگیا تو اس کو اتنا بڑا مسئلہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ سارے عوام کو تا قیامت ترجمہ قرآن پڑھنے سے روک دیا جائے۔
چوتھی بات: اس پر بھی سوچا جائے کہ احتیاط کے یہ تقاضے صرف غیر عربوں کے لئے ہی کیوں؟ عرب عوام بھی تو قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے قرآن کا مفہوم بھی سمجھتے ہیں، اور وہ بھی تو ایسی کسی عامیانہ غلطی کا ارتکاب کرسکتے ہیں۔ ان کے لئے پھر کیا ضابطہ بنایا جائے گا۔ کیا انہیں قرآن کی تلاوت سے بھی منع کردیا جائے گا اس اندیشے کے تحت کہ وہ کوئی غلط مطلب نہ نکال لیں یا پھر یہ مانا جائے کہ عرب عوام گمراہی سے محفوظ رہتے ہیں، اور ہندوستانی عوام گمراہی سے محفوظ نہیں رہتے ہیں۔ مشاہدہ تو یہ ہے کہ جو گمراہیاں ہندوستانی عوام میں نظر آتی ہیں وہی گمراہیاں اسی پیمانے پر عرب عوام میں بھی نظر آتی ہیں۔
پانچویں بات: مولانا تھانوی کا یہ تاثر صحیح ہے کہ بعض لوگ ترجمہ قرآن وحدیث پڑھ کر خود کو مجتہد سمجھنے لگتے ہیں، اور فتوے اور تفسیری رائیں جاری کرنا شروع کردیتے ہیں۔ درحقیقت عوام کو یہ سمجھانا بھی علماء کی ذمہ داری ہے کہ عوام کو اس طرح کے رویہ سے بچنا چاہئے۔ ترجمہ قرآن پڑھنے کا مقصد مفسر قرآن اور مفتی شریعت بننا نہیں ہونا چاہئے، بلکہ اپنی زندگی کو کتاب الہی کے نور سے روشن کرنا ہونا چاہئے۔ مفسر اورفقیہ ومجتہد بننے کے لئے تعلیم کے بہت سارے مرحلوں سے گزرنا ہوتا ہے، جب کہ زندگی کو نور ہدایت سے منور کرنے کے لئے سب سے زیادہ ضروری اور اپنے آپ میں بالکل کافی ہے کہ آپ ہدایت کی طلب کے ساتھ قرآن مجید سمجھ کر پڑھتے رہیں۔
چھٹی بات: علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام سے اپنے روابط اور زیادہ مضبوط کریں، عوام جہاں جہاں ترجمہ کی کسی عبارت کو سمجھنے میں غلطی کریں، علماء ان کی رہنمائی کرتے رہیں۔ عوام کو یہ بھی بتایا جائے کہ کسی ایک آیت کے ایک ٹکڑے کو لے کر کوئی رائے قائم نہ کریں بلکہ پورا قرآن ترجمہ کے ساتھ بار بار پڑھیں، پورا قرآن بار بار پڑھنے کے بعد قوی امید ہے کہ آدمی کی کوئی غلط رائے نہیں بنے گی۔
ساتویں بات: اگر یہ حقیقت ہے کہ عوام ترجمہ قرآن پڑھتے ہوئے کچھ غلطیاں کرسکتے ہیں، تو اس سے بڑی حقیقت تو یہ ہے کہ عوام قرآن کا ترجمہ پڑھ کر بہت ساری گمراہیوں سے بچ سکتے ہیں۔ اگر ترجمہ قرآن پڑھنے سے چھوٹی چھوٹی غلطیوں کا کچھ اندیشہ ہے تو ترجمہ قرآن پڑھنے سے بڑی بڑی گمراہیوں سے بچنے کی قوی امید بھی تو ہے۔ تو کیوں نہ اس بڑے پہلو کا لحاظ کرکے ترجمہ پڑھنے کو ترجمہ نہیں پڑھنے پر ترجیح دی جائے۔ اس کے علاوہ ترجمہ قرآن پڑھنے سے غلطی اگر ہوگی تو تھوڑے لوگوں سے ہوگی، مگر ترجمہ قرآن پڑھنے سے قرآنی ہدایت تو ہر طالب ہدایت کو ملے گی۔ اگر ایسا ہے تو پھر تھوڑے لوگوں کی غلطی کے اندیشے سے سارے لوگوں کو اس بڑی نعمت وسعادت سے کیوں کر محروم رکھا جائے۔
آخری بات یہ ہے کہ قرآن مجید ہر انسان کی ضرورت ہے، قرآن مجید میں کہیں یہ اشارہ بھی نہیں ہے کہ عوام اسے سمجھنے، اس پر غور کرنے اور اس سے اپنی زندگی کو روشن کرنے کی کوشش نہیں کریں۔ ہر خاص وعام قرآن مجید کی آیتوں کے مخاطب ہیں، اللہ کے رسول قرآن کی آیتیں ہر خاص وعام کو سناتے تھے۔ قرآن میں تو اس کا مطالبہ ہے کہ غیر مسلم عوام بھی قرآن مجید کو سمجھیں اور اس پر غور کریں تاکہ انہیں ہدایت کا راستہ ملے۔ جب کہ مسلم عوام پر لازم ہے کہ وہ اپنی زندگی بنانے اور سنوارنے کے لئے اور گمراہیوں سے بچنے کے لئے قرآن مجید سمجھتے اور اس پر غور کرتے رہیں۔
خلاصہ یہ کہ حکیم الامت نے اس زمانے میں جو موقف اختیار کیا تھا وہ ان کا اجتہاد تھا اور احتیاط پر مبنی تھا، مگر واقعہ یہ ہے کہ اس احتیاط سے بات نہیں بن سکی اور امت کی حالت بگڑتی ہی رہی۔ اب امت کی موجودہ حالت دیکھ کر شدت کے ساتھ احساس ہوتا ہے کہ اس پرانے موقف پر نظر ثانی کرکے احتیاط کے بجائے اصلاح کے پہلو کو ترجیح دی جائے اور فتوی یہ دیا جائے کہ عوام ترجمہ قرآن پڑھیں، ضرور پڑھیں، اسے اپنی تلاوت کا لازمی جز بنالیں اور جہاں جہاں انہیں اشکال ہو، وہ اہل علم کے سامنے اپنے اشکال رکھیں، اور اہل علم حکمت کے ساتھ ان کے اشکال دور کریں۔

ایک تبصرہ شائع کریں