حالیہ دنوں میں ایک خبر یہ عام ہوئی کہ شام اور عراق کے بعض علاقوں میں مسلح مسلم گروپوں نے غیر مسلم مردوں اور عورتوں کو اپنے قبضہ میں کرکے غلام بنالیا۔ یہ خبر کتنی صحیح ہے اس سے قطع نظر، یہ سوال عالمی سطح پر سب کے سامنے آیا کہ کیا اسلامی تعلیمات کی رو سے آزاد انسانوں کو غلام بنایا جاسکتا ہے۔
بہت امکان ہے کہ آئندہ بھی یہ سوال بار بار اٹھے گا، اور ہر بار مسلمانوں کو اس تشویش میں مبتلا کرے گا کہ اس کا جواب کیا ہے۔
درحقیقت اسلامی تاریخ کے بہت سارے بے انتہا روشن پہلو ایسے ہیں جن پر مسلمان ساری انسانیت کے سامنے فخر کرسکتے تھے، لیکن غفلت وتساہل نے حقائق پر پردہ ڈٓال دیا۔ غلامی کا مسئلہ بھی ان میں سے ایک ہے۔
تاریخ میں جو بات ببانگ دہل کہنے کی تھی مگر دبے لفظوں میں بھی شاید نہیں ملتی ہے وہ یہ کہ مکہ کے ابتدائی دور میں جب نہ روزہ فرض ہوا تھا، اور نہ زکاۃ اور حج فرض ہوئے تھے، نہ اس وقت تک سود کی حرمت کا حکم نازل ہوا تھا اور نہ شراب کی حرمت کا، اس ابتدائی دور میں اسلام نے غلامی اور معاشی استحصال کے خلاف مہم زبردست طریقے سے چھیڑدی تھی۔
سورہ بلد (نمبر90) جو مکہ کے ابتدائی دور کی سورت ہے، اس میں کامیابی کا راستہ غلام کو آزاد کرنا اور مسکینوں اور یتیموں کو کھانا کھلانا بتایا گیا۔ ان آیتوں میں یہ بات واضح طور سے موجود تھی کہ غلام انسانوں کوآزاد کرنا نیکی کا کام اور آزاد انسانوں کو غلام بنانا حرام ہے۔ اسی طرح غریبوں کو خوشحال بنانا نیکی کا کام اور انسانوں کا معاشی استحصال کرنا حرام ہے۔ یہ بات عقل وخرد کے خلاف ہے کہ غلاموں کو آزاد کرنا تو آخرت کی کامیابی کا راستہ قرار پائے ساتھ ہی آزاد انسانوں کو غلام بنانا جائز بھی ہو۔
مجھے نہیں معلوم کہ کسی نے یہ اصول ذکر کیا ہے، مگر مجھے اس پر پورا اطمینان ہے کہ قرآن مجید اور احادیث میں جہاں جہاں غلاموں کو آزاد کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، اس ترغیب کے اندر ہی یہ حکم موجود ہے کہ کسی آزاد کو غلام بنانا ممنوع اور حرام ہے، اسی طرح جہاں جہاں فقراء اور مساکین کی مدد کرنے کی ترغیب دی گئی ہے وہاں اس ترغیب کے اندر ہی یہ حکم موجود ہے کہ انسانوں کا معاشی استحصال حرام ہے۔
چنانچہ تاریخ اس کی گواہی دیتی ہے کہ مکہ میں جہاں مسلمان شدید مصائب اور آزمائشوں سے دوچار تھے، غلاموں کو خرید کر آزاد کرنا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ آگے چل کر یہ مشغلہ مسابقت کی صورت اختیار کرگیا، اور لاتعداد لوگوں کو آزادی کی نعمت حاصل ہوئی۔
یہ بات اول روز سے مسلمانوں کے سامنے واضح تھی کہ انسانوں کا مال غصب کرنا اور ان کی آزادی چھین لینا اسلام میں حرام ہے۔ صحیح بخاری کی ایک حدیث کے مطابق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اعلان کرتے ہیں کہ جو ایک آزاد کو غلام بناکر بیچ دے گا اور اس کی قیمت خود کھالے گا، اور جو مزدور سے پورا کام لے کر اس کی مزدوری اسے نہیں دے گا میں قیامت کے دن ایسوں کے خلاف آواز اٹھاؤں گا۔ یہ اعلان دراصل اس جنگ کی یاددہانی تھا جو اسلام نے غلامی اور معاشی استحصال کے خلاف چھیڑی ہوئی تھی۔
اسی لئے تمام مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ کسی آزاد کو غلام بنانا جائز نہیں ہے۔
صرف بات رہ جاتی ہے جنگی قیدیوں کی، اس سلسلے میں بھی ہونا تو یہی چاہئے تھا کہ مسلمان ببانگ دہل اعلان کرتے کہ جنگی قیدیوں میں جو آزاد ہیں وہ آزاد رہیں گے، وہ جنگی قیدی کی حیثیت سے قید میں تو رہ سکتے ہیں، لیکن ان کو غلام نہیں بنایا جائے گا۔ لیکن ہمارے علماء اور فقہاء سے اس مسئلہ میں غلطی ہوئی اور وہ کہیں اور نکل گئے۔
قرآن مجید میں جنگی قیدیوں کے سلسلے میں اس قدر واضح ہدایت ملتی ہے، کہ اس میں کسی تاویل کی گنجائش ہی نہیں ہے، سورہ محمد کی آیت نمبر 4 کا ترجمہ ملاحظہ ہو:
"تو جب کافروں سے تمہارا سامنا ہو تو گردنیں مارنا ہے یہاں تک کہ جب انہیں خوب قتل کرلو تو مضبوط باندھو، پھر اس کے بعد چاہے احسان کرکے چھوڑ دو چاہے فدیہ لے لو یہاں تک کہ لڑائی اپنابوجھ رکھ دے، بات یہ ہے۔ اوراللہ چاہتا تو آپ ہی اُن سے بدلہ لیتا مگر اس لئے تم میں ایک کو دوسرے سے جانچے اور جو اللہ کی راہ میں مارے گئے اللہ ہرگز ان کے عمل ضائع نہ فرمائے گا" (ترجمہ احمد رضا خان)
"تو جب کافروں سے تمہارا سامنا ہو تو گردنیں مارنا ہے یہاں تک کہ جب انہیں خوب قتل کرلو تو مضبوط باندھو، پھر اس کے بعد چاہے احسان کرکے چھوڑ دو چاہے فدیہ لے لو یہاں تک کہ لڑائی اپنابوجھ رکھ دے، بات یہ ہے۔ اوراللہ چاہتا تو آپ ہی اُن سے بدلہ لیتا مگر اس لئے تم میں ایک کو دوسرے سے جانچے اور جو اللہ کی راہ میں مارے گئے اللہ ہرگز ان کے عمل ضائع نہ فرمائے گا" (ترجمہ احمد رضا خان)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی تاریخ کی عظیم ترین جنگ بدر میں اس آیت کے حکم پرعمل کرکے اس طرح دکھایا کہ سارے کے سارے قیدیوں کو آزاد کردیا۔
آج مسلمانوں کی فقہ جو کچھ بھی کہتی ہو، عام مسلمانوں کا ذہن یہی کہتا ہے کہ کسی بھی ملک کی فوج کو یہ اختیار نہیں ہونا چاہئے کہ وہ دشمن ملک کے مردوں اور عورتوں کو غلام بناکر آپس میں تقسیم کرلیں۔ مسلمان نہ تو یہ گوارا کرسکتے ہیں کہ ان کی لڑکیوں کو کوئی فوج غلام بنالے، اور نہ ان کو یہ جائز سمجھنا چاہئے کہ کوئی مسلم فوج کسی دوسری قوم کی لڑکیوں کو غلام بنالے، محض اس بنیاد پر کہ جنگ کے نتیجہ میں وہ قیدی بن کر ہاتھ آئی ہیں۔
غرض کوئی جنگی قیدی غلام نہیں بنایا جائے، یہی قرآن مجید کی واضح تعلیم اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ثابت سنت ہے۔ یہ اسلامی تہذیب کا امتیاز اور اسلامی تاریخ کا نہایت روشن پہلو ہے۔
بعض لوگوں کا یہ کہنا تو بہت ہی غلط ہے کہ اگر کافر فوجیں مسلمان جنگی قیدیوں کو غلام بناتی ہیں تو مسلمان فوجیں کافر جنگی قیدیوں کو غلام کیوں نہیں بناسکتی ہیں۔ یہ کہنا غلط اس لئے ہے کہ امت مسلمہ کا فریضہ منصبی دنیا سے غلامی جیسی ساری برائیوں کو ختم کرنا ہے، یہ کہنا اسے زیب ہی نہیں دیتا کہ جب تک دوسری قومیں ایک برائی کو ختم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں گی وہ بھی اس برائی میں ان کی طرح ملوث رہے گی۔
آج مسلمان اہل علم ودانش کو جرأت کے ساتھ صاف صاف اعلان کرنا چاہئے کہ غلامی کا کوئی بھی دروازہ امت مسلمہ کھولنے کی مجاز نہیں ہے، اور اگر کوئی دوسری قوم کسی بھی حوالے سے ایسا کوئی دروازہ کھولے گی تو امت اس کو پوری طاقت سے روکے گی۔
ایک تبصرہ شائع کریں