اسلامی اجتماعیت میں کوئی سپاہی ہو یا سپہ سالار، اللہ کے یہاں عزت اور رتبہ تو کارکردگی اور اخلاص کی بنیاد پر ملتا ہے۔ البتہ ذمہ داری کا بوجھ سالار پر زیادہ ہوتا ہے، اگر اس کا احساس سالار کو ہوجائے تو وہ بننے سے پہلے ہزار بار سوچے، اور بنادئے جانے کے بعد خدا کے حضور مدد مانگنے کے لئے ہزار بار روئے اور گڑگڑائے۔
کچھ دینی اداروں اور دینی جماعتوں کے بعض اعلی ذمہ داران سے جب کبھی کوئی جرأت کرکے پوچھ بیٹھتا ہے کہ حضرت آپ اتنے برسوں سے ذمہ دار ہیں، لیکن ایسا کیوں ہے کہ ابھی تک آپ نے کسی امتیازی کارکردگی کا ثبوت نہیں دیا، آپ کی نگرانی میں ادارے نے کچھ خاص ترقی نہیں کی، اور آپ نے لوگوں کی توقعات کو پورا نہیں کیا۔ تو وہ بڑے انکسار کے ساتھ جواب دیتے ہیں، میں کیا کروں میں نے تو اپنی مصروفیت اور نا اہلی کا بہت حوالہ دیا لیکن لوگوں کے اصرار اور دباؤ پر مجھے ذمہ داری قبول کرنا پڑی۔
بہت سارے ایسے لوگ بیک وقت بہت سارے منصبوں پر براجمان ہوتے ہیں، اور وہ کسی بھی منصب کا حق ادا کرنے کی پوزیشن اور دھن میں نظر نہیں آتے، ان کا جواب بھی یہی ہوتا ہے کہ لوگوں نے اتنا سارا بوجھ ڈال دیا۔
یہ جواب ایک مغالطہ ہے، جو دنیا میں تو ممکن ہے لوگوں کی ملامت سے بچالے، کیوں کہ دنیا کی اکثریت اجتماعی معاملات کے سلسلے میں سادہ لوح ہوا کرتی ہے، لیکن آخرت میں شدید قسم کی پکڑ سے نہیں بچاسکتا ہے۔ کیونکہ اللہ کے حضور جواب دہی کے لئے ہر آدمی تنہا جائے گا۔
اس شدید پکڑ سے بچنے کے لئے ہمارے اسلاف اپنی پیٹھ پر کوڑوں کی بارش ہونا گوارا کرلیتے تھے، جیل کی صعوبتوں پر صبر کرلیتے تھے مگر ایسی ذمہ داری قبول نہیں کرتے تھے جس کے بارے میں انہیں یہ اندیشہ ہو کہ کسی بھی وجہ سے وہ اس کا حق ادا نہیں کرسکیں گے۔
امت کے کسی بھی اجتماعی منصب کو قبول کرنے سے پہلے یہ ضرور سوچ لینا چاہئے کہ اس منصب کا حق کیا ہے، اور اگر یہ احساس ہوجائے کہ صحت، عمر، مصروفیت یا اہلیت اس حق کی ادائیگی میں حائل ہوجائے گی تو اس منصب کو قبول کرنے سے اس طرح انکار کردینا چاہئے گویا کہ وہ منصب نہیں زہر کا پیالہ ہو۔
ایک تبصرہ شائع کریں