(اس زمانے میں کہ گھر کے باہر سکون کو برباد کرنے والے بہت سارے اسباب پیدا ہوگئے ہیں، گھر کے اندر سکون وراحت کے اسباب کا زیادہ سے زیادہ ہونا بہت ضروری ہوگیا ہے، زیر نظر مضمون کا مقصد یہی ہے)
چراغوں کی بارات میں کسی ایک کی لو مدھم پڑ جاتی ہے یا کوئی ایک بجھ بھی جاتا ہے تو فرق نہیں پڑتا کہ باقی جلتے رہتے ہیں، اور روشنی برقرار رہتی ہے، لیکن گھروں کے اندر انسانوں کی کہکشاں کے چمکنے دمکنے کے اطوار وانداز کچھ اور ہوتے ہیں، وہ یوں کہ کسی ایک کا مزاج خراب اور موڈ آف ہوتا ہے تو ایک ایک کرکے سب کے دل کی شمع بجھنے لگتی ہے، ایک منھ پھولتا ہے اور باقی منھ اتر جاتے ہیں، آخر کار مزاج کی خرابی پورے گھر پر اپنا ڈیرہ ڈال دیتی ہے، اور پھر گھر اچھا نہیں لگتا، کیونکہ گھر کی رونق تو خوش مزاجی سے ہوتی ہے۔
گھرکا ماحول اور موسم نشاط آگیں اور طرب انگیز رہے، خوشی اور خوش مزاجی کے فوارے ہر چہرے سے جاری ہوں ، یہ سب کی چاہ ہوتی ہے، ان کی بھی جو گھر میں مستقل رہتے ہیں ، اور ان کی بھی جو پردیس سے کچھ دن گزارنے کے لئے آتے ہیں، اور اسی لئے آتے ہیں کہ خوشی کی کچھ ساعتیں اپنے دامن زندگی میں ٹانک لیں۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ کسی ایک کا بات بے بات پر موڈ بگڑتا ہے اور ساتھ ہی پورے گھر کا ماحول بگڑ جاتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر فرد یہ تو اپنا حق سمجھتا ہے کہ جب اور جتنی دیر کے لئے کسی بھی وجہ سے اس کادل برا ہو ا ہو، وہ مزاج کی خرابی کو اپنے اوپر تان کر خاموشی اور گوشہ نشینی اختیار کرلے، اور کوئی چھیڑ چھاڑ کر کے اس کے دل کی خرابی کو پریشان نہ کرے۔ لیکن کوئی فرد بے مزا ہونے کا یہ حق گھر کے دوسرے افراد کو دینے کو تیار نہیں ہوتا ہے،چنانچہ جب وہ خود کسی اچھے موڈ میں ہوتا ہے، اور اسے لگتا ہے کہ موسم نشاط اور طرب کا تقاضا کررہا ہے ، تو اسے بالکل یہ گوارا نہیں ہوتا ہے کہ کوئی اور اپنے موڈ کی خرابی کا اظہار کرکے خوشی کے موسم کو خراب کردے۔
مزاج کا خراب ہوجانا، ایک فطری بات ہے اس لئے اس پر پابندی لگانا تو شاید درست نہ ہوگا۔ ہر ایک کو یہ حق حاصل رہنا چاہئے کہ وہ کچھ دیر کے لئے خرابئ مزاج کی چادر اوڑھ کر الگ تھلگ ہوجائے۔ اور کوئی کسی کے موڈ خراب ہونے کو خراب نظر سے نہیں دیکھے۔ تاہم ماحول کی خوش گواری کو برقرار رکھنے کی خاطر مزاج کی خرابی کو جس حد تک چھپایا جاسکتا ہو، اس کو چھپانے کی کوشش کرنا اچھا ہے، بعض لوگ اس میں خوب مہارت رکھتے ہیں، ان کے مزاج کا غبار بھانپنے اور پھانکنے کے لئے ان کے بہت نزدیک جانا پڑتا ہے، اور بہت غور سے دیکھنا ہوتا ہے۔
یہ خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ مزاج کی خرابی کا سبب اگر گھر کے لوگ نہ ہوں تو اس کا اس طرح اظہار نہیں کیا جائے کہ گھر کے لوگ خود کو قصور وار سمجھ کر یا تو احساس جرم کا شکار ہوں یا تہمت جرم کو دفع کرنے کے لئے پریشان ہوں۔ہاں اگر کوئی قصور وار ہے تو اس کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ جتنی جلدی ممکن ہو اپنے قصور کا اعتراف کرکے روٹھے ہوئے کو منالے۔سچ بات یہ ہے کہ جو اپنی غلطی کا اعتراف کرکے معافی مانگ لیتا ہے اس کا قد بلند رہتا ہے، اور جو اپنی غلطی پر اڑا رہتا ہے وہ اس کی نظر میں تو بہرحال چھوٹا رہتا ہے جس کے ساتھ اس نے زیادتی کی ہے۔
بعض لوگ اپنی اور دوسروں کی استطاعت سے باہر نکل کر اپنے سر یہ ذمہ داری اوڑھ لیتے ہیں کہ سارے گھر والوں کو ہمیشہ اچھے موڈ میں رکھیں گے، اس کے لئے وہ کوشش بھی کرتے ہیں ، اور جب کسی کا موڈ خراب دیکھتے ہیں تو اس کے موڈ کو اچھا کرنے کے خوب خوب جتن کرتے ہیں۔ اور جب ان کو ناکامی ہوتی ہے تو اداس یا بدحواس ہوجاتے ہیں۔ لوگوں کو وہ کام کرنا چاہئے جو ان کے اختیار میں ہو، کسی کی شکایت ، مصیبت یا تکلیف تو دور کی جاسکتی ہے، لیکن مزاج کو اچھا کرنا بسا اوقات خود صاحب مزاج کے اختیار میں بھی نہیں ہوتا۔ جو بات لوگوں کے اختیار میں ہے وہ یہ کہ اگر ایک شخص کا مزاج کسی وجہ سے یا بلا کسی وجہ سے خراب ہوجائے تو باقی لوگ اپنے مزاج کو خراب ہونے سے بچائے رکھیں، اور اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو گھر خوشی اور خوش مزاجی کا گہوارہ بنا رہے گا، اور اس کا دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ خود متاثر فرد کے مزاج کودرست ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی کے مزاج کی خرابی پر باقی لوگ خوشی کے شادیانے بجائیں، مطلوب یہ ہے کہ اپنی خوش مزاجی پر آنچ نہ آنے دی جائے۔
خوش مزاجی کو کسی کی ہنسی اڑانے کا بہانہ بنانا بہت بری بات ہے، دراصل کسی کے ساتھ ہنسنا خوش مزاجی ہے، اور کسی کے اوپر ہنسنا اخلاقی بیماری ہے۔ اپنے ساتھ رہنے بسنے والوں پر وار کرنا خوش آئند عمل نہیں ہوتا ہے، خواہ وہ غصہ میں کیا جائے یا ہنسی ہنسی میں کیا جائے۔
دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ بہت سارے لوگ دوسروں سے تو خوش مزاجی چاہتے ہیں ، لیکن خود خوش مزاج رہنے کی ذمہ داری سے بھاگتے ہیں۔ ایک ساس صاحبہ کو جنہیں اپنے مزاج کا جائزہ لینے کا موقعہ کبھی نہیں ملا، یہ کہتے سنا گیا کہ میری فلاں بہو بہت خوش مزاج ہے، کسی بات کا برا نہیں مانتی، باقی بہویں اس قدر خوش مزاج نہیں ہیں۔ اسی طرح ایک خاتون اپنے مہمانوں کا ذکر کررہی تھیں، جن میں ان کو کچھ بہت ملنسار لگیں اور کچھ خشک مزاج سی لگیں۔ سوال یہ ہے کہ دوسروں کے مزاج پر تبصرہ کرنے والی خاتون خود کس زمرے میں آتی ہیں، یا آنا پسند کرتی ہیں، اور دوسرے ان کو خوش مزاج سمجھتے ہیں یا خشک مزاج؟؟ دوسروں کے مزاج پر تبصرہ کرنے کے بجائے اگر آپ خود کو خوش مزاج بنالیں تو دوسروں کو بھی اپنے مزاج کی اصلاح کرنے میں مدد ملے گی۔یاد رکھیں آپ کا کمال اس میں نہیں ہے کہ آپ کو اچھے دوست مل جائیں، یہ تو آپ کی قسمت ہے۔ آپ کا کمال تو یہ ہے کہ آپ لوگوں کو ایک اچھے دوست کی صورت میں مل جائیں۔ اور زندگی تو زندہ دلی کا نام ہے۔
ایک تبصرہ شائع کریں