اشتعال دلانا بدتمیزی ہے، مشتعل ہوجانا کمزوری ہے

مومن کی شان اور اس کے منصب کا تقاضا یہ ہے کہ وہ انسانوں کو شائستگی اور متانت کے ساتھ دعوت غور وفکر دے، خلوص اور ہمدردی کے ساتھ ان کے ذہنوں اور سیرتوں کی اصلاح کی کوشش کرے۔
ایک مومن اشتعال انگیزی کا مرتکب نہیں ہوسکتا، کیونکہ انسانوں کو اشتعال دلانا ایک گھٹیا اور غیر اخلاقی حرکت ہے، جس کا ارتکاب کرنا کسی بھی انسان کو زیب نہیں دیتا۔ اشتعال انگیز تقریریں ہوں یا بیانات، فلمیں ہوں یا کارٹون، اشتعال دلانے والا شخص مسلمان ہو یا غیر مسلم، اشتعال دلانا بہرحال قابل مذمت ہے۔
کسی کے اشتعال دلانے پر مشتعل ہوجانا ایک بڑی کمزوری کی علامت ہے، اور کمزوری دکھانا مومن کے شایان شان نہیں ہے۔ سمجھ دار انسان اپنے جذبات پر اس طرح قابو رکھتا ہے کہ پہاڑ حیران ہوجاتے ہیں، وہ اپنے جذبے کی ڈور کسی اور کے ہاتھ میں کبھی نہیں آنے دیتا، ہمیشہ اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے۔
اشتعال انگیزی کا ایک علاج شبنم مزاجی ہے، اشتعال دلانے والا جب حسب توقع رد عمل نہیں دیکھ پاتا تو ہار کا زخم خود اپنے اندر محسوس کرتا ہے، اور اپنے آپ میں رسوا ہوجاتا ہے۔ شبنم مزاجی کا مطلب بےحسی اور بےضمیری نہیں بلکہ حکمت اور دانائی ہے۔
اشتعال انگیزی کا ایک اور علاج یہ ہے کہ اشتعال انگیزی کی قباحت کو عام کردیا جائے کہ جو اس حرکت کا ارتکاب کرے وہ سب کی نگاہوں میں گرجائے۔ ہر کوئی اس پر تھو تھو کرے، اور اسے کہیں منھ چھپانے کی جگہ نہیں ملے۔ میں نے خود دیکھا کہ ایک تعلیمی ادارے میں کتوں کو پتھروں سے مار مار کر بے جان کردینا طلبہ کا محبوب مشغلہ تھا، اور ایک دوسرے تعلیمی ادارے میں کتوں کو نگاہ غلط انداز سے دیکھنا بھی معیوب خیال کیا جاتا تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ ماحول کس طرح کا بنایا جائے، ایسا ماحول جہاں انسانیت کا احترام ضروری قرار پائے، یا ایسا ماحول جہاں انسانیت کی بے حرمتی بھی انسانوں کا شوق بن جائے۔
اشتعال انگیزی کے جواب میں مشتعل ہوجانا بھی کبھی کبھی اشتعال دلانے والے کو سخت سزا سے دوچار کردیتا ہے، لیکن اس میں قوی اندیشہ یہ ہوتا ہے کہ مشتعل ہوجانے والا اپنی بہت ساری امتیازی خصوصیات کھوبیٹھے، اور اپنے اصل اور شایان شان مقام ومنصب پہ باقی نہیں رہے۔ گویا بیماری کا علاج بیماری سے زیادہ ضرر رساں ہوجائے۔
جب کوئی شخص انسانیت کے آداب اور تقاضوں کو فراموش کرکے اشتعال انگیزی جیسی بدتمیزی کا ارتکاب کرتا ہے تو اسے کسی بھی طرح کے ردعمل کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے۔ کیونکہ جب صحیح سمت میں جانے والی گاڑی غلط سمت سے آنے والی گاڑی سے ٹکراتی ہے، تو قلابازیاں کھاتے ہوئے کسی ادب ولحاظ کو روا نہیں رکھتی ہے۔ تاہم یاد رہے کہ ڈرائیونگ میں کمال یہ ہے کہ غلط سمت سے آنے والی گاڑی سے اپنی گاڑی کو بچالیا جائے۔ اسی طرح انسانیت کا کمال یہ ہے کہ اشتعال دلانے والوں کی بدتمیزی اور شرارت سے خود کو اس طرح بچالیا جائے کہ شرپسند یا تو نادم ہوکر توبہ کرلیں، یا پھر منھ کی کھائیں، اور ذلت ورسوائی کی کسی کھائی میں جاگریں۔

ایک تبصرہ شائع کریں