مصر کی جیل میں ایک سال مکمل ہونے پر اسلامی رہنما ڈاکٹر صلاح سلطان کا خط ہم سب کے نام
ترجمہ: محی الدین غازی
"اور ہم اللہ پر بھروسہ کیوں نہ کریں، اس نے تو ہمیں ہمارے راستے دکھائے، تم ہمیں جو بھی تکلیف دو ، ہم تو صبرسے جمے رہیں گے، اور بھروسہ کرنے والوں کو صرف اللہ پر بھروسہ کرنا چاہئے"۔ سورہ ابراہیم 12)
زندگی کے بہت سارے ماہ وسال مہربان رب کے فضل وکرم کے سائے میں گزارے، اور آج لیمان اور عقرب کی جیلوں میں ایک سال مکمل ہوا۔
یہ ایک سال جو زنداں کی دیواروں اور سلاخوں کے درمیان گزرا، بہت ساری محرومیوں کا احساس دلاتا رہا۔
مسجدوں سے محرومی کہ جہاں نماز پڑھتا، خطبے اور درس دیتا اور اعتکاف کی سعادت سے بہرہ مند ہوتا۔
سفر کی آزادی سے محرومی کہ دیس دیس جاکر دعوت کا فرض انجام دینا میرا محبوب مشغلہ تھا۔
بیوی اور اولاد سے محرومی جو میرے دل کے ٹکڑے اور جگر پارے ہیں۔
رشتہ داروں اور قرابت داروں سے محرومی کہ جن سے قوت اور مدد ملتی۔
ذہین، پاک باز اور باصفا شاگردوں سے محرومی کہ جن سے مل کر لگتا کہ بڑی دولت ہاتھ آگئی ۔
اہل علم سے محرومی کہ جن کے سامنے بیٹھ کرلگتا کہ گویا پھولوں اور پھلوں سے لدے باغوں میں پہونچ گئے۔
صدق وصفا کے پیکر دوستوں سے محرومی کہ جن کو چاہا تو اللہ کی محبت میں چاہا، اور جن سے ملاقات پر لگتا کہ دل کی ہر پریشانی دور ہوگئی۔
آسمان کی پہنائیوں میں پرواز کرنے والی، سر سبز وشاداب درختوں کے جمال میں کھوجانے والی، دریا اور سمندر کے صاف وشفاف پانی پر چلنے کا لطف لینے والی نگاہ سے محرومی کہ جیل کی کوٹھری میں یہ سب کہاں میسر۔
کسی یتیم کے سر پر ہاتھ پھیر نے اور کسی بیمار کی مزاج پرسی کے موقعوں سے محرومی۔
لیکن جب میں جیلروں کی دست رس میں پہونچا، جن کے دل رحم اور ہمدردی سے خالی تھے، تو سب سے پہلے میں نے اپنے رب کے حضور قسم کھائی کہ میں اپنے سارے گناہوں اور ساری غلطیوں سے سچی توبہ کروں گا، اور اس طرح نفس کو پہلے پاک کروں گا پھر اسے خوبیوں سے آراستہ کرنے کی مہم چھیڑوں گا۔ جب مجھے لیمان کی قید تنہائی میں رکھا گیا تو میں نے اس دور کو یہ عنوان دیا کہ "لیمان میں رحمان کا عرفان حاصل ہوا" اور جب عقرب کے جیل میں منتقل کیا گیا ، تو میں نے اسے یہ عنوان دیا کہ " عقرب میں ہم اللہ سے اقرب ہوگئے" اللہ سے قریب تر ہونے کے لئے شاہ دروازہ تو قرآن مجید ہے، پس میں نے اپنے جیل کے ساتھیوں سے اجازت لی کہ میں ان سے گفتگو میں مصروف ہونے کے بجائے پہلے نماز کی حالت میں قرآن مجید ختم کروں گا، تاکہ شیطان یہاں سے راہ فرار اختیار کرلے، اور اس تنگ کوٹھری میں وسعت اور میرے سینے میں کشادگی پیدا ہوجائے۔ پھر میں نے طے کیا کہ عام رفتار کے بجائے، ففروا الی اللہ والی برق رفتاری سے سلوک کی منزلیں طے کرکے مہربان رب کے قریب پہونچوں گا۔ پس میں دوڑ پڑا، پوری قوت سے دوڑنے لگا، اللہ کی خوشنودی اور جنت کی کامیابی کے قریب، اور میں پوری قوت سے بھاگنے لگا اللہ کی ناراضگی اور جہنم کی آگ سے دور۔ میں نے اپنے رات اور دن عبادت وانابت، اور تعلیم وتحریر میں مصروف کردئے۔ بس پھر کیا تھا، جسے لوگ مصیبت کہتے ہیں وہ نعمت ثابت ہوئی، جسے لوگ تنگی سمجھتے ہیں وہ فراخی لگنے لگی، اور جو محرومی نظر آتی تھی وہ برومندی بن گئی۔ قرآن مجید کی امید افزا آیتوں کے سائے میں میرے شب وروز گزرنے لگے۔ جیسے "میرا دوست تو اللہ ہے، جس نے کتاب نازل کی، اور وہ صالحین کودوست بناتا ہے" سورہ اعراف 196، اور "وہ ہمارا کارساز دوست ہے، اور مومنوں کو صرف اللہ پر بھروسہ کرنا ہے" سورہ توبہ 51، اور "پھر اللہ نے ان پر سکینت نازل کی اور جلد حاصل ہونے والی فتح سے نوازا" سورہ فتح 18، اور " اللہ مشکل کے بعد آسانی پیدا کردے گا" سورہ طلاق 7۔
میرے قلب ووجدان میں اعلی وارفع معانی گھر کرنے لگے، جیسے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ مومن کا معاملہ بھی خوب ہے، کہ ہر حال میں وہ خیر سے مالامال رہتا ہے، یہ خوبی کسی اور کو حاصل نہیں ہے، جب اسے خوشحالی حاصل ہوتی ہے تو شکر ادا کرتا ہے، اور یہ اس کے لئے باعث خیر ہوتا ہے، اور اگر اسے تنگی لاحق ہوتی ہے تو صبر کرتا ہے اور یہ بھی اس کے لئے خیر کا سامان ہوتا ہے۔ حکیم ابن عطاء کا یہ جملہ کہ "جو اللہ کے انعام واکرام کے باوجود اللہ سے غفلت برتتا ہے اسے آزمائش کی زنجیروں میں باندھ کر اس کے پاس لایا جاتا ہے" اور یہ کہ "جب بندے کو کوئی نعمت نہیں دی جاتی ہے، اور وہ اسے نہیں دئے جانے کی حکمت کو سمجھ لیتا ہے تو نہیں دیا جا نا اس کی نظر میں عین نعمت قرار پاتا ہے"
جیل میں میرے رب نے مجھے بتایا کہ صبر جمیل اورقناعت ورضا کی منزلیں کیسے طے کرتے ہیں، اور میں نے بھی کمر کس لی، اور اللہ کے فضل سے تزکیہ کی راہ میں کچھ اس طرح پیش قدمی ہوئی؛
قید کے اس سال میں اللہ کے فضل سے نماز کی حالت میں سو سے زیادہ مرتبہ قرآن مجید ختم کیا، وہ بھی اس طرح کہ تلاوت کے دوران دماغ تدبر میں مصروف، دل اثر قبول کرنے کے لئے آمادہ اور شخصیت تعمیر کے لئے تیار۔ اس ایک سال میں مجھ پر قرآن مجید کے وہ معانی آشکارا ہوئے جو پچھلے چھ سال سے زیادہ تھے۔
اسی سال صحیح بخاری کی روایت کی اجازت مجھے حاصل ہوئی، جو میری قدیم تمنا تھی اور اللہ نے جیل میں پوری کی۔
اس سال جیل کے اندر میں نے تفسیر ، فقہ، اصول فقہ، لغت، ادب، شعری دیوان، تاریخ اور فلسفہ میں اتنا پڑھا کہ کبھی پانچ برس میں نہیں پڑھا تھا۔
اس سال جیل کے اندر میں نے قرآن مجید کی حکمت عملی، تفسیر کے طریقہ، ایمان، اخلاق اور فقہ کے قواعد، اور فتوی و تربیت کے موضوعات پر کافی کچھ لکھ لیا۔ ساتھ ہی دنیا کے مختلف ملکوں میں پیش آنے والے پچاس دعوتی واقعات کو تحریر کیا۔ اس مشغلہ نے مجھے جیل کے اندر اپنے رب کے ساتھ خلوت کی خوبصورت ترین ساعتیں عطا کیں۔
اس سال جیل میں میرا ایسے مردوں اور نوجوانوں سے تعارف ہوا، جو اخلاق وکردار ، سوزو انابت اور علم وبصیرت کے پہاڑ ثابت ہوئے، رب ارض وسما کے ساتھ خلوت ایک جنت تھی تو اس کے بعد ان سے ملنا اور ان کی رفاقت میں بلندیوں کو چھونا ایک دوسری جنت تھی۔
میں اپنے بیوی بچوں اور بھائیوں سے پہلے ہی بہت محبت کرتا تھا، جو اس ایک سال میں کئی گنا بڑھ گئی، جب میں نے دیکھا کہ انہیں میری اور بیٹے محمد کی شدید ضرورت تھی، بیماریوں نے ان کا امتحان بھی لیا، پر وہ صبرواستقامت کی تصویر بنے رہے، میں نے "صلاح باسماء" کے نام سے اپنی شادی اور محبت کی سو صفحات سے زیادہ طویل داستان لکھی۔میں نے اپنے بھائیوں اور خاندان والوں میں اس آزمائش کے دوران وہ بلند کردار دیکھا کہ جو قابل تعریف وستائش ہے، اور جس پر اللہ کا بے پناہ شکر ادا کرنا واجب ہے۔ اللہ تعالی نے اس آزمائش کے دوران صلہ بھی بہت دیا، میری بیوی کی صحت پہلے سے بہتر ہوگئی، میری بیٹی ھناء کو اللہ نے امین کے بعد دوسرا بیٹا الیاس دیا، میرے تیسرے بیٹے انجینئر خالد کی شادی ہوگئی، میرے چوتھے بیٹے عمر کو پولیٹیکل سائنس میں امریکہ کی سب سے اچھی یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا، میری سب سے چھوٹی بیٹی بشری نے پوزیشن حاصل کی، میرے پانچ بھتیجوں کی منگنی اور پھر شادی ہوگئی، میرے بھتیجے حمزہ عزوز کو جیل سے رہائی ملی، اللہ نے اس کے بھائی محمد کو غنڈوں کے ہاتھوں موت سے بچایا، اور میری بھانجی ھناء نے انٹرمیڈیٹ میں پورے ملک کی سطح پر پوزیشن حاصل کی، اور میرے خاندان میں حافظوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔
اس سال ایسے ایسے لوگوں نے مجھ سے آکر ملاقات کی اور خطوط لکھے جوظلم کے اندھیرے میں روشنی کا مینار اور جن کے دل شجاعت اور وفا کا نشان ہیں۔
جیل میں اللہ تعالی نے مجھے وہ شخصیت عطا کی جو مظلوم ساتھیوں کے لئے اس طرح نرم ہے کہ گویا میں ان کا مشفق باپ اور جگری دوست ہوں، اور ظالموں کے لئے اتنی سخت ہے جیسے تیز دھاری تلوار۔ میں نے اللہ سے بار بار دعا کی کہ وہ ان سارے ظالموں کو ان کے ظلم کا مزا چکھائے۔
قید ہوتے ہی میں نے اللہ سے نذر مانی کہ جب تک رہا نہیں ہوجاتا، ہر دن روزہ رکھوں گا، اس امید پر کہ روزہ دار کی جو افطار اور سحری کے وقت دعاؤں کی قبولیت کی ساعت ہوتی ہے، وہ ساعت مجھے ہر روز ملے، اور میں ان ساعتوں میں خاص طور سے ظالموں کے لئے برے انجام کی، اور صالحین کے لئے استقامت اور سرخ روئی کی دعا کروں۔
جیل میں ہر شب سونے سے پہلے اللہ سے دعا مانگتا، کہ مجھے جیل میں بند کرنے والے ظالم نے جن لذتوں کو مجھ سے چھینا ہے، وہ مجھے خواب میں حاصل ہوجائیں، اللہ کی قسم جیل کی دیواروں کے باہر مجھے جو کچھ حاصل تھا، وہ مجھے نیند کی حالت میں حاصل ہوتا رہا، مسجدوں میں نمازیں، مشرق سے لے کر مغرب تک دینی مراکز کے سفر، اجتماعات اور کانفرنسیں، تربیت وتزکیہ کے کیمپ، علم شریعت کے ورکشاپ، یوروپ امریکا جاپان پاکستان ہندوستان ازبکستان اور دیار عرب غرض پوری دنیا کے دعوتی دورے، یہاں تک کہ مجھے جو پانی اور سبزہ سے عشق ہے ، اللہ نے اس سے بھی محروم نہیں رکھا۔
اس سال میں نے اپنی جسمانی صحت کا بھی خوب خیال کیا، اور اللہ کے فضل سے ورزش کا ایسا ورلڈ کلاس پروگرام اپنے اوپر نافذ کیا جس کو نوجوان بھی انجام نہیں دے سکتے، جیل میں ڈالنے والوں نے مجھے ایک سخت آزمائش کی آگ میں جلانا چاہا، لیکن مجھے آگ کی تپش کے بجائے صبر جمیل کے نور کا کیف حاصل ہوا۔ انہوں نےمیرے بڑے بیٹے اور گہرے دوست محمد کو گرفتار کرکے جیل میں بند کیا اور کئی مہینوں تک مجھ سے ملنے نہیں دیا، ظالموں کے ظلم کے خلاف طاقت ور احتجاج کرتے ہوئے میرے بیٹے نے بھوک ہڑتال کی اور آج اسے دو سو چالیس دن ہوگئے، اس کا تنومند جسم ہڈیوں کا ڈھانچہ ہوگیا ہے، اس جوان نے اتنی لمبی بھوک ہڑتال کرکے اپنی قوت ارادی سے سب کو حیرت میں ڈال رکھا ہے، میں کئی بار اس کے منھ اور ناک کے پاس اپنا کان رکھ کر سننے کی کوشش کرتا ہوں آیا زندگی کی کچھ رمق باقی ہے۔لیکن ابھی بھی اس کے پاس سے قرآن کی تلاوت اور دعا ئیں سنائی دیتی ہے، میں اس کے پاس ہوتا ہوں تو لگتا ہے کہ ہم زمین پر نہیں آسمان کی کسی منزل پر ہیں۔اور جب اس منزل سے اتر کر نیچے آتا ہوں تو منھ میں جانے والا ہر لقمہ تلخ لگتا ہے، جس کے جگر کا ٹکڑا مہینوں سے بھوکا ہو، وہ تو کھانا نہیں کھاتا ہے بلکہ ہر کھانے کے وقت غم کی شدت سے ایک موت مرتا ہے، اس سب کے باوجود ہمارے ارادے جوان اور جوان ہوتے جارہے ہیں، حق کی خاطر جان نچھاور کرنے کا جذبہ روز بروز طاقت ور ہو رہا ہے، آج محمد اس لئے جیل میں ڈالا گیا کہ وہ ایک قائد صلاح الدین سلطان کا بیٹا ہے، اللہ نے چاہا تو ہم باہر آئیں گے اور اس وقت لوگ مجھے ایک بطل عظیم محمد سلطان کے باپ کی حیثیت سے جانیں گے۔
میرے بھائیو اور میری بہنو، میرے بیٹو اور میری بیٹیو، میں تمہیں خوش خبری سناتا ہوں، کہ مستقبل روشن ہے، آزادی کے دن قریب ہیں، اللہ کی قسم اس سال میں نے اپنے سجدوں اور اپنی خلوتوں میں تمہارے لئے اس قدر دعائیں کی ہیں کہ کبھی دس سال میں نہیں کی ہوں گی۔ اس بات پر خوش ہوجاؤ اور ہمارے لئے تم بھی خوب دعائیں مانگو، لیکن دعاؤں کے ساتھ یہ بھی یاد رہے کہ میرے پیغام کو پرواز کے پر دینا بھی میرا تم پر حق ہے، فلسطین اور مسجد اقصی کی آزادی کا مشن بھی تم کو سنبھالنا ہے، اگر تم میرے ناتواں جسم کو جیل سے آزاد نہیں کراسکتے کہ یہ بس اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے، تو یہ ضرور یاد رکھو کہ میری طاقت میرے پیغام میں ہے، یہی میری نظر بندی کا سبب ہے، میری کتابیں میرے مضامین میری تقریریں میرے علمی اور تربیتی منصوبے اور خدا دوست قائدین کی تیاری کا میرا انوکھا پروگرام ، یہ سب انٹرنیٹ پر اور میرے صفحات پر موجود ہے، میری التجا ہے کہ میرے پیغام کو آزادی اور پرواز دو، اگر تم میرے ہر پیغام کے حامل بن کر اور اس کا ترجمہ کرکے دنیا بھر میں پہونچاتے ہو قریہ قریہ شہر شہر، تو سمجھو کہ تم میری دعاؤں کے دائرے میں داخل ہوجاؤگے، وہ دعائیں جو ہرروز کئی کئی بار میرے دل کی گہرائی سے نکلتی ہیں اپنے ہونہار شاگردوں کے لئے، ان کے لئے جو میرے علم وبصیرت کو جو اللہ کا عطیہ ہے دنیا میں عام کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ جو اپنے قول وعمل سے مسجد اقصی کی آزادی اور فلسطین اور غزہ کی مدد کے لئے کمر بستہ ہیں۔
یاد رکھو جن ظالموں نے مجھے قید کرکے تم سے دور کردیا ہے، ان کو اور ان کے ظلم کو چیلنج کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ میرا پیغام خوب عام کرو۔ گو کہ میں تم سے رو برو نہیں ہوسکتا مگر اللہ اپنے فضل خاص سے میرے خوابوں میں تم سے میری ملاقات خوب کراتا ہے، اور وہ تمہاری رفاقت سے مجھے محروم نہیں کرے گا۔
"اور وہ کہتے ہیں وہ (فتح) کب ، کہو کہ کیا پتہ کہ وہ قریب ہو" سورہ اسراء 51
زندگی کے بہت سارے ماہ وسال مہربان رب کے فضل وکرم کے سائے میں گزارے، اور آج لیمان اور عقرب کی جیلوں میں ایک سال مکمل ہوا۔
یہ ایک سال جو زنداں کی دیواروں اور سلاخوں کے درمیان گزرا، بہت ساری محرومیوں کا احساس دلاتا رہا۔
مسجدوں سے محرومی کہ جہاں نماز پڑھتا، خطبے اور درس دیتا اور اعتکاف کی سعادت سے بہرہ مند ہوتا۔
سفر کی آزادی سے محرومی کہ دیس دیس جاکر دعوت کا فرض انجام دینا میرا محبوب مشغلہ تھا۔
بیوی اور اولاد سے محرومی جو میرے دل کے ٹکڑے اور جگر پارے ہیں۔
رشتہ داروں اور قرابت داروں سے محرومی کہ جن سے قوت اور مدد ملتی۔
ذہین، پاک باز اور باصفا شاگردوں سے محرومی کہ جن سے مل کر لگتا کہ بڑی دولت ہاتھ آگئی ۔
اہل علم سے محرومی کہ جن کے سامنے بیٹھ کرلگتا کہ گویا پھولوں اور پھلوں سے لدے باغوں میں پہونچ گئے۔
صدق وصفا کے پیکر دوستوں سے محرومی کہ جن کو چاہا تو اللہ کی محبت میں چاہا، اور جن سے ملاقات پر لگتا کہ دل کی ہر پریشانی دور ہوگئی۔
آسمان کی پہنائیوں میں پرواز کرنے والی، سر سبز وشاداب درختوں کے جمال میں کھوجانے والی، دریا اور سمندر کے صاف وشفاف پانی پر چلنے کا لطف لینے والی نگاہ سے محرومی کہ جیل کی کوٹھری میں یہ سب کہاں میسر۔
کسی یتیم کے سر پر ہاتھ پھیر نے اور کسی بیمار کی مزاج پرسی کے موقعوں سے محرومی۔
لیکن جب میں جیلروں کی دست رس میں پہونچا، جن کے دل رحم اور ہمدردی سے خالی تھے، تو سب سے پہلے میں نے اپنے رب کے حضور قسم کھائی کہ میں اپنے سارے گناہوں اور ساری غلطیوں سے سچی توبہ کروں گا، اور اس طرح نفس کو پہلے پاک کروں گا پھر اسے خوبیوں سے آراستہ کرنے کی مہم چھیڑوں گا۔ جب مجھے لیمان کی قید تنہائی میں رکھا گیا تو میں نے اس دور کو یہ عنوان دیا کہ "لیمان میں رحمان کا عرفان حاصل ہوا" اور جب عقرب کے جیل میں منتقل کیا گیا ، تو میں نے اسے یہ عنوان دیا کہ " عقرب میں ہم اللہ سے اقرب ہوگئے" اللہ سے قریب تر ہونے کے لئے شاہ دروازہ تو قرآن مجید ہے، پس میں نے اپنے جیل کے ساتھیوں سے اجازت لی کہ میں ان سے گفتگو میں مصروف ہونے کے بجائے پہلے نماز کی حالت میں قرآن مجید ختم کروں گا، تاکہ شیطان یہاں سے راہ فرار اختیار کرلے، اور اس تنگ کوٹھری میں وسعت اور میرے سینے میں کشادگی پیدا ہوجائے۔ پھر میں نے طے کیا کہ عام رفتار کے بجائے، ففروا الی اللہ والی برق رفتاری سے سلوک کی منزلیں طے کرکے مہربان رب کے قریب پہونچوں گا۔ پس میں دوڑ پڑا، پوری قوت سے دوڑنے لگا، اللہ کی خوشنودی اور جنت کی کامیابی کے قریب، اور میں پوری قوت سے بھاگنے لگا اللہ کی ناراضگی اور جہنم کی آگ سے دور۔ میں نے اپنے رات اور دن عبادت وانابت، اور تعلیم وتحریر میں مصروف کردئے۔ بس پھر کیا تھا، جسے لوگ مصیبت کہتے ہیں وہ نعمت ثابت ہوئی، جسے لوگ تنگی سمجھتے ہیں وہ فراخی لگنے لگی، اور جو محرومی نظر آتی تھی وہ برومندی بن گئی۔ قرآن مجید کی امید افزا آیتوں کے سائے میں میرے شب وروز گزرنے لگے۔ جیسے "میرا دوست تو اللہ ہے، جس نے کتاب نازل کی، اور وہ صالحین کودوست بناتا ہے" سورہ اعراف 196، اور "وہ ہمارا کارساز دوست ہے، اور مومنوں کو صرف اللہ پر بھروسہ کرنا ہے" سورہ توبہ 51، اور "پھر اللہ نے ان پر سکینت نازل کی اور جلد حاصل ہونے والی فتح سے نوازا" سورہ فتح 18، اور " اللہ مشکل کے بعد آسانی پیدا کردے گا" سورہ طلاق 7۔
میرے قلب ووجدان میں اعلی وارفع معانی گھر کرنے لگے، جیسے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ مومن کا معاملہ بھی خوب ہے، کہ ہر حال میں وہ خیر سے مالامال رہتا ہے، یہ خوبی کسی اور کو حاصل نہیں ہے، جب اسے خوشحالی حاصل ہوتی ہے تو شکر ادا کرتا ہے، اور یہ اس کے لئے باعث خیر ہوتا ہے، اور اگر اسے تنگی لاحق ہوتی ہے تو صبر کرتا ہے اور یہ بھی اس کے لئے خیر کا سامان ہوتا ہے۔ حکیم ابن عطاء کا یہ جملہ کہ "جو اللہ کے انعام واکرام کے باوجود اللہ سے غفلت برتتا ہے اسے آزمائش کی زنجیروں میں باندھ کر اس کے پاس لایا جاتا ہے" اور یہ کہ "جب بندے کو کوئی نعمت نہیں دی جاتی ہے، اور وہ اسے نہیں دئے جانے کی حکمت کو سمجھ لیتا ہے تو نہیں دیا جا نا اس کی نظر میں عین نعمت قرار پاتا ہے"
جیل میں میرے رب نے مجھے بتایا کہ صبر جمیل اورقناعت ورضا کی منزلیں کیسے طے کرتے ہیں، اور میں نے بھی کمر کس لی، اور اللہ کے فضل سے تزکیہ کی راہ میں کچھ اس طرح پیش قدمی ہوئی؛
قید کے اس سال میں اللہ کے فضل سے نماز کی حالت میں سو سے زیادہ مرتبہ قرآن مجید ختم کیا، وہ بھی اس طرح کہ تلاوت کے دوران دماغ تدبر میں مصروف، دل اثر قبول کرنے کے لئے آمادہ اور شخصیت تعمیر کے لئے تیار۔ اس ایک سال میں مجھ پر قرآن مجید کے وہ معانی آشکارا ہوئے جو پچھلے چھ سال سے زیادہ تھے۔
اسی سال صحیح بخاری کی روایت کی اجازت مجھے حاصل ہوئی، جو میری قدیم تمنا تھی اور اللہ نے جیل میں پوری کی۔
اس سال جیل کے اندر میں نے تفسیر ، فقہ، اصول فقہ، لغت، ادب، شعری دیوان، تاریخ اور فلسفہ میں اتنا پڑھا کہ کبھی پانچ برس میں نہیں پڑھا تھا۔
اس سال جیل کے اندر میں نے قرآن مجید کی حکمت عملی، تفسیر کے طریقہ، ایمان، اخلاق اور فقہ کے قواعد، اور فتوی و تربیت کے موضوعات پر کافی کچھ لکھ لیا۔ ساتھ ہی دنیا کے مختلف ملکوں میں پیش آنے والے پچاس دعوتی واقعات کو تحریر کیا۔ اس مشغلہ نے مجھے جیل کے اندر اپنے رب کے ساتھ خلوت کی خوبصورت ترین ساعتیں عطا کیں۔
اس سال جیل میں میرا ایسے مردوں اور نوجوانوں سے تعارف ہوا، جو اخلاق وکردار ، سوزو انابت اور علم وبصیرت کے پہاڑ ثابت ہوئے، رب ارض وسما کے ساتھ خلوت ایک جنت تھی تو اس کے بعد ان سے ملنا اور ان کی رفاقت میں بلندیوں کو چھونا ایک دوسری جنت تھی۔
میں اپنے بیوی بچوں اور بھائیوں سے پہلے ہی بہت محبت کرتا تھا، جو اس ایک سال میں کئی گنا بڑھ گئی، جب میں نے دیکھا کہ انہیں میری اور بیٹے محمد کی شدید ضرورت تھی، بیماریوں نے ان کا امتحان بھی لیا، پر وہ صبرواستقامت کی تصویر بنے رہے، میں نے "صلاح باسماء" کے نام سے اپنی شادی اور محبت کی سو صفحات سے زیادہ طویل داستان لکھی۔میں نے اپنے بھائیوں اور خاندان والوں میں اس آزمائش کے دوران وہ بلند کردار دیکھا کہ جو قابل تعریف وستائش ہے، اور جس پر اللہ کا بے پناہ شکر ادا کرنا واجب ہے۔ اللہ تعالی نے اس آزمائش کے دوران صلہ بھی بہت دیا، میری بیوی کی صحت پہلے سے بہتر ہوگئی، میری بیٹی ھناء کو اللہ نے امین کے بعد دوسرا بیٹا الیاس دیا، میرے تیسرے بیٹے انجینئر خالد کی شادی ہوگئی، میرے چوتھے بیٹے عمر کو پولیٹیکل سائنس میں امریکہ کی سب سے اچھی یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا، میری سب سے چھوٹی بیٹی بشری نے پوزیشن حاصل کی، میرے پانچ بھتیجوں کی منگنی اور پھر شادی ہوگئی، میرے بھتیجے حمزہ عزوز کو جیل سے رہائی ملی، اللہ نے اس کے بھائی محمد کو غنڈوں کے ہاتھوں موت سے بچایا، اور میری بھانجی ھناء نے انٹرمیڈیٹ میں پورے ملک کی سطح پر پوزیشن حاصل کی، اور میرے خاندان میں حافظوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔
اس سال ایسے ایسے لوگوں نے مجھ سے آکر ملاقات کی اور خطوط لکھے جوظلم کے اندھیرے میں روشنی کا مینار اور جن کے دل شجاعت اور وفا کا نشان ہیں۔
جیل میں اللہ تعالی نے مجھے وہ شخصیت عطا کی جو مظلوم ساتھیوں کے لئے اس طرح نرم ہے کہ گویا میں ان کا مشفق باپ اور جگری دوست ہوں، اور ظالموں کے لئے اتنی سخت ہے جیسے تیز دھاری تلوار۔ میں نے اللہ سے بار بار دعا کی کہ وہ ان سارے ظالموں کو ان کے ظلم کا مزا چکھائے۔
قید ہوتے ہی میں نے اللہ سے نذر مانی کہ جب تک رہا نہیں ہوجاتا، ہر دن روزہ رکھوں گا، اس امید پر کہ روزہ دار کی جو افطار اور سحری کے وقت دعاؤں کی قبولیت کی ساعت ہوتی ہے، وہ ساعت مجھے ہر روز ملے، اور میں ان ساعتوں میں خاص طور سے ظالموں کے لئے برے انجام کی، اور صالحین کے لئے استقامت اور سرخ روئی کی دعا کروں۔
جیل میں ہر شب سونے سے پہلے اللہ سے دعا مانگتا، کہ مجھے جیل میں بند کرنے والے ظالم نے جن لذتوں کو مجھ سے چھینا ہے، وہ مجھے خواب میں حاصل ہوجائیں، اللہ کی قسم جیل کی دیواروں کے باہر مجھے جو کچھ حاصل تھا، وہ مجھے نیند کی حالت میں حاصل ہوتا رہا، مسجدوں میں نمازیں، مشرق سے لے کر مغرب تک دینی مراکز کے سفر، اجتماعات اور کانفرنسیں، تربیت وتزکیہ کے کیمپ، علم شریعت کے ورکشاپ، یوروپ امریکا جاپان پاکستان ہندوستان ازبکستان اور دیار عرب غرض پوری دنیا کے دعوتی دورے، یہاں تک کہ مجھے جو پانی اور سبزہ سے عشق ہے ، اللہ نے اس سے بھی محروم نہیں رکھا۔
اس سال میں نے اپنی جسمانی صحت کا بھی خوب خیال کیا، اور اللہ کے فضل سے ورزش کا ایسا ورلڈ کلاس پروگرام اپنے اوپر نافذ کیا جس کو نوجوان بھی انجام نہیں دے سکتے، جیل میں ڈالنے والوں نے مجھے ایک سخت آزمائش کی آگ میں جلانا چاہا، لیکن مجھے آگ کی تپش کے بجائے صبر جمیل کے نور کا کیف حاصل ہوا۔ انہوں نےمیرے بڑے بیٹے اور گہرے دوست محمد کو گرفتار کرکے جیل میں بند کیا اور کئی مہینوں تک مجھ سے ملنے نہیں دیا، ظالموں کے ظلم کے خلاف طاقت ور احتجاج کرتے ہوئے میرے بیٹے نے بھوک ہڑتال کی اور آج اسے دو سو چالیس دن ہوگئے، اس کا تنومند جسم ہڈیوں کا ڈھانچہ ہوگیا ہے، اس جوان نے اتنی لمبی بھوک ہڑتال کرکے اپنی قوت ارادی سے سب کو حیرت میں ڈال رکھا ہے، میں کئی بار اس کے منھ اور ناک کے پاس اپنا کان رکھ کر سننے کی کوشش کرتا ہوں آیا زندگی کی کچھ رمق باقی ہے۔لیکن ابھی بھی اس کے پاس سے قرآن کی تلاوت اور دعا ئیں سنائی دیتی ہے، میں اس کے پاس ہوتا ہوں تو لگتا ہے کہ ہم زمین پر نہیں آسمان کی کسی منزل پر ہیں۔اور جب اس منزل سے اتر کر نیچے آتا ہوں تو منھ میں جانے والا ہر لقمہ تلخ لگتا ہے، جس کے جگر کا ٹکڑا مہینوں سے بھوکا ہو، وہ تو کھانا نہیں کھاتا ہے بلکہ ہر کھانے کے وقت غم کی شدت سے ایک موت مرتا ہے، اس سب کے باوجود ہمارے ارادے جوان اور جوان ہوتے جارہے ہیں، حق کی خاطر جان نچھاور کرنے کا جذبہ روز بروز طاقت ور ہو رہا ہے، آج محمد اس لئے جیل میں ڈالا گیا کہ وہ ایک قائد صلاح الدین سلطان کا بیٹا ہے، اللہ نے چاہا تو ہم باہر آئیں گے اور اس وقت لوگ مجھے ایک بطل عظیم محمد سلطان کے باپ کی حیثیت سے جانیں گے۔
میرے بھائیو اور میری بہنو، میرے بیٹو اور میری بیٹیو، میں تمہیں خوش خبری سناتا ہوں، کہ مستقبل روشن ہے، آزادی کے دن قریب ہیں، اللہ کی قسم اس سال میں نے اپنے سجدوں اور اپنی خلوتوں میں تمہارے لئے اس قدر دعائیں کی ہیں کہ کبھی دس سال میں نہیں کی ہوں گی۔ اس بات پر خوش ہوجاؤ اور ہمارے لئے تم بھی خوب دعائیں مانگو، لیکن دعاؤں کے ساتھ یہ بھی یاد رہے کہ میرے پیغام کو پرواز کے پر دینا بھی میرا تم پر حق ہے، فلسطین اور مسجد اقصی کی آزادی کا مشن بھی تم کو سنبھالنا ہے، اگر تم میرے ناتواں جسم کو جیل سے آزاد نہیں کراسکتے کہ یہ بس اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے، تو یہ ضرور یاد رکھو کہ میری طاقت میرے پیغام میں ہے، یہی میری نظر بندی کا سبب ہے، میری کتابیں میرے مضامین میری تقریریں میرے علمی اور تربیتی منصوبے اور خدا دوست قائدین کی تیاری کا میرا انوکھا پروگرام ، یہ سب انٹرنیٹ پر اور میرے صفحات پر موجود ہے، میری التجا ہے کہ میرے پیغام کو آزادی اور پرواز دو، اگر تم میرے ہر پیغام کے حامل بن کر اور اس کا ترجمہ کرکے دنیا بھر میں پہونچاتے ہو قریہ قریہ شہر شہر، تو سمجھو کہ تم میری دعاؤں کے دائرے میں داخل ہوجاؤگے، وہ دعائیں جو ہرروز کئی کئی بار میرے دل کی گہرائی سے نکلتی ہیں اپنے ہونہار شاگردوں کے لئے، ان کے لئے جو میرے علم وبصیرت کو جو اللہ کا عطیہ ہے دنیا میں عام کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ جو اپنے قول وعمل سے مسجد اقصی کی آزادی اور فلسطین اور غزہ کی مدد کے لئے کمر بستہ ہیں۔
یاد رکھو جن ظالموں نے مجھے قید کرکے تم سے دور کردیا ہے، ان کو اور ان کے ظلم کو چیلنج کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ میرا پیغام خوب عام کرو۔ گو کہ میں تم سے رو برو نہیں ہوسکتا مگر اللہ اپنے فضل خاص سے میرے خوابوں میں تم سے میری ملاقات خوب کراتا ہے، اور وہ تمہاری رفاقت سے مجھے محروم نہیں کرے گا۔
"اور وہ کہتے ہیں وہ (فتح) کب ، کہو کہ کیا پتہ کہ وہ قریب ہو" سورہ اسراء 51
ڈاکٹر صلاح سلطان
ایک قیدی ، اللہ کی راہ میں ،فخرو ثبات اور پامردی کے ساتھ
ایک قیدی ، اللہ کی راہ میں ،فخرو ثبات اور پامردی کے ساتھ
ایک تبصرہ شائع کریں