تاریخ کے صفحات میں یہ بات محفوظ ہے کہ حجاج بن یوسف ثقفی ایک ظالم شخص تھا، اس کے حکم پر بہت سارے صالحین کی گردنیں اڑادی گئی تھیں، اور اللہ کے بہت سارے ولیوں کو سخت تکلیفوں سے دوچار کیا گیا تھا۔ تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ اس نے قرآن مجید کی نشر واشاعت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا، اور مسلم مملکت کی توسیع کے سلسلے میں بھی کچھ کردار ادا کیا تھا۔ اور تاریخ کے ریکارڈ میں یہ بھی ہے کہ جب حجاج کی موت ہوئی تو حضرت ابراہیم نخعی اس قدر خوش ہوئے کہ آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے، حضرت حسن بصری اور حضرت عمر بن عبد العزیز تو شکر کے لئے سجدہ میں گرپڑے۔
دراصل ظلم کے سلسلے میں ہمارا موقف بہت واضح اور دو ٹوک ہونا چاہئے، ظلم کرنے والے کی ایک ہی پہچان ہونا چاہئے، یعنی ظالم۔ خواہ وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم، اور خواہ وہ زندہ ہو یا مرچکا ہو، خواہ اس نے کچھ اور بھلے کام بھی کئے ہوں یا نہ کئے ہوں۔
جس شخص کے حکم سے گجرات کے بے گناہ مسلمانوں کا قتل عام ہوا وہ بھی ظالم ہے، اور جس کے کہنے پر رابعہ کے میدان میں اور قاہرہ کی مسجدوں میں مسلمانوں کو زندہ جلادیا گیا وہ بھی ظالم ہے۔ جس کے حکم سے بوسنیا اور کوسوفو میں اجتماعی قتل عام اور اجتماعی عصمت دری ہوئی وہ بھی ظالم ہے اور جس کے ایماء سے غزہ کے معصوم بچوں کو قتل کیا گیا وہ بھی ظالم ہے۔ کراچی کے بے گناہوں کا قتل کرانے والا بھی ظالم ہے اور پشاور کے بچوں کا قتل کرانے والا بھی ظالم ہے، ظالموں میں اپنے ظالم اور پرائے ظالم کی تقسیم درست نہیں ہے۔ ہر ظالم رہتی دنیا تک لائق مذمت ہونا چاہئے۔
اگر کسی شخص نے انسانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے ہوں، اور اس کے مرنے کے بعد کچھ لوگ اسے ایک ظالم کی بجائے ایک محسن انسانیت کے طور پر یاد کرنے لگیں، تو سمجھ لینا چاہئے کہ ظلم کے سلسلے میں ان لوگوں کا موقف کمزور اور مشکوک ہے۔ موت کا کام ظلم کے داغ کو دھونا نہیں ہے، بلکہ ظالم کو حشر کے میدان کا راستہ دکھانا ہے، جو اپنی زندگی میں ظالم ہوتا ہے وہ مرنے کے بعد بھی ظالم رہتا ہے جب تک کہ مظلوموں کی داد رسی نہ ہوجائے، اور اس ظالم کو اس کے ظلم کی قرار واقعی سزا نہ مل جائے۔
حفیظ نے خوب کہا:
زنجیریں تو کٹ جائیں گی ہاں ان کے نشاں رہ جائیں گے
میرا کیا ہے ظالم تجھ کو بدنام کریں گی زنجیریں
حفیظ نے خوب کہا:
زنجیریں تو کٹ جائیں گی ہاں ان کے نشاں رہ جائیں گے
میرا کیا ہے ظالم تجھ کو بدنام کریں گی زنجیریں
جب کوئی کسی ظالم کے مرنے پر دعا کرتا ہے کہ اللہ اسے جنت میں اعلی مقام عطا کرے، اپنے عرش کے سائے میں جگہ دے، اور حوض کوثر پر رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت عطا کرے، تو دراصل وہ یہ فراموش کردیتا ہے کہ آخرت کیوں برپا ہوگی، اور سارے انسانوں کو جمع کرکے مالک یوم الدین سب کا حساب کیوں لے گا۔ دراصل آخرت پر ہمارا ایمان بہت واضح اور محکم ہو یہ بہت ضروری ہے، ہماری دعائیں بھی ہمارے ایمان کی ترجمانی کریں۔
کسی ظالم کی موت کو جب ہم ظالم کی موت قرار دیتے ہیں تو اس شہادت حق کی ذمہ داری کو ادا کرتے ہیں، جو امت مسلمہ کا فرض منصبی ہے۔ صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ صحابہ ایک جنازہ کے پاس سے گزرے تو کہا کہ یہ ایک برے آدمی کا جنازہ ہے، اور ایک اور جنازہ کے پاس سے گزرے تو کہا کہ یہ ایک اچھے آدمی کا جنازہ ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کی تم نے تعریف کی اس کے لئے جنت کا فیصلہ ہوچکا ہے، اور جس کی تم نے برائی کی اس کے لئے جہنم کا فیصلہ ہوچکا ہے، تم زمین پر اللہ کے گواہ ہو۔
اہل ایمان کا منصب حق کی گواہی دینا ہے، وہ اسی مردے کی تعریف کرتے ہیں جو واقعی قابل تعریف ہو، اور اسی مردے کو برا کہتے ہیں جو واقعی برا ہوتا ہے۔ صحابہ کرام اس سلسلے میں بہت دوٹوک رویہ رکھتے تھے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مردوں کو گالی دینے کی اجازت ہے، مردوں کو گالی دینے سے تو منع کیا گیا ہے، لیکن ظالم کو ظالم کہنا گالی دینا نہیں ہے، بلکہ ایک سچائی کا اعلان ہے، اور ہر زندہ ظالم کو صاف صاف یہ بتا دینا ہے کہ اگر تم اپنے ظلم سے باز نہیں آئے تو مرنے کے بعد بھی ظالم کی حیثیت سے ہی نفرت سے یاد کئے جاؤ گے۔
کسی ظالم کے مرنے پر اس کے ظلم کو نظر انداز کردینا اور اس کی دوسری خوبیوں کو تلاش کرکے بیان کرنا، دراصل تاریخ کو غلط مواد فراہم کرنا ہے، یہ غلط مواد آنے والی نسل کو گمراہ کرنے کا سبب بن سکتا ہے، کہ جو درندہ صفت انسان انسانیت کے لئے ایک ننگ تھا، وہ ان کی نظر میں مسیحا اور محسن انسانیت قرار پا جائے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کی روشنی میں تعلیم دی کہ جب کوئی مصیبت آئے تو إنا لله وإنا إليه راجعون پڑھا کرو، چنانچہ مسلمان اس تعلیم کی روشنی میں یہ اس وقت پڑھتے ہیں جب کسی فرد کی وفات پر وہ صدمہ سے دوچار ہوتے ہیں، اور اس کی وفات کو اپنے لئے باعث تکلیف سمجھتے ہیں۔
لیکن ایک ظالم کی موت مصیبت کا آنا نہیں بلکہ مصیبت کا جانا ہوتی ہے، جب کوئی ظالم کیفر کردار کو پہونچتا ہے تو اس موقعہ پر پڑھنے کے لئے امام طاوس نے قرآن مجید کی ایک اور آیت تجویز کی ہے، ہوا یہ کہ جب ظالم حجاج کی موت کی خبر ان کو ملی تو انہوں نے خوشی کا اظہار کیا اور یہ آیت پڑھی: فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِينَ ظَلَمُوا وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ [الأنعام:45]َ۔ "ظلم کرنے والوں کی جڑ کاٹ دی گئی، اور شکر کا سزاوار حقیقی اللہ ہے"۔
ہر ظالم کے مرنے پر اس سچائی کا اعلان ضروری ہے ظالموں کو خبردار کرنے کے لئے، کہ ظلم سے باز آجاؤ، ورنہ قیامت تک اللہ کی مخلوقات تم پر لعنت بھیجتی رہیں گی۔ اور قیامت کے دن اللہ ظالموں کی سخت پکڑ کرے گا۔
ایک تبصرہ شائع کریں