مجھے دنیا کی بہت ساری تحریکوں کو قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا ہے، ان کی حرکت وجمود، نشیب وفراز اور عروج وزوال کو بھی کبھی دور اور کبھی نزدیک سے دیکھا ہے، بالآخر میں اس نتیجے پر پہونچا ہوں کہ جس فوج کے سالار ہتھیار پھینک دیتے ہیں وہ فوج شکست خوردہ قرار پاتی ہے، اور جس تحریک کے قائدین پڑاو ڈال دیتے ہیں، وہ تحریک لاشہ بے جان بن جاتی ہے۔
تحریک کے قائدین پڑاؤ اس طرح ڈالتے ہیں کہ وہ تحریک کی تیز رفتار پیش رفت کے بارے میں سوچنا بند کردیتے ہیں، ان کی شخصیت میں ایک خطرناک قسم کا ٹھہراؤ آجاتا ہے، جو تحریک کے لئے جان لیوا ثابت ہوتا ہے، وہ کام کے نئے نئے طریقے دریافت کرنے کے بجائے پرانے طریقوں کو دوہرانے لگتے ہیں، ان کی آج کی گفتگو اور برسہابرس پہلے کی گفتگو میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ ان کے کسی مضمون اور کسی تقریر سے ایسا نہیں لگتا کہ وہ تحریک کی پیش قدمی کے لئے راتوں میں اٹھ کر غوروفکر کرتے ہیں، ان کے اقدامات ان کے دل کے اضطراب کی ترجمانی نہیں کرتے۔
اگر کوئی انقلابی شخص بڑھاپے کے کسی مرحلے میں پڑاؤ ڈال دے تو یہ کوئی عیب کی بات نہیں ہے، ہر شخص پر ایسا وقت آتا ہے جب اس کی توانائیاں جواب دینے لگتی ہیں، البتہ عیب کی بات یہ ہے کہ وہ اپنی اس قدرتی نا اہلی کا اعتراف نہ کرے اور خود تو پڑاؤ ڈالے ساتھ ہی اپنی قیادت میں پوری تحریک کو پڑاؤ ڈالنے کو کہے۔ خود شناسی اور ایمان داری کا تقاضا تو یہ ہے کہ قائد اس مرحلہ میں پہونچنے سے پہلے قیادت کا پرچم کسی تازہ دم شخصیت کے حوالے کردے، اور فرض امانت سے پوری دیانت داری کے ساتھ سبک دوش ہوجائے۔ نہ کہ ساغرومینا کو اپنے سامنے رکھ چھوڑنے پر اصرار کرے۔
یہ دھوکہ نہیں کھانا چاہئے کہ پڑاؤ ڈالنے کی نوبت صرف بوڑھوں پر آتی ہے، بہت سے سیاہ ریش اور سیاہ زلف نوجوان بھی راہ شوق میں پڑاؤ ڈال دیتے ہیں، اور بزبان حال کہتے ہیں مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ۔ اور نوجوانوں کا پڑاؤ ڈال دینا بہرحال عیب کی بات ہے۔
ایک تبصرہ شائع کریں