شادی کی تقریبات

شادی کی تقریبات
 ایک نئی دوڑ شروع کرنے کی ضرورت
محی الدین غازی
پہلے شادی کے خرچ کا ناقابل برداشت بوجھ لڑکی والوں پر ہوتا تھا، یا تو کوئی جائیداد فروخت کرنا پڑتی تھی، یا پھر قرض لینا پڑتا تھا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ لڑکی والوں کے ساتھ لڑکے والے بھی اچھا خاصا زیربار اور اکثر مقروض ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ شادی کی تقریب اب دونوں فریقوں کے لئے محض دولت کی نمائش کی ایک تقریب بن کر رہ گئی ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ شادی جیسی خوشی کی تقریب سماج کے لئے پہلے سے زیادہ تکلیف دہ، پریشان کن اور بہت سی سماجی برائیوں کو بڑھاوا دینے کا ذریعہ بنتی جارہی ہے۔ بہت زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ مسلم سماج بھی اس میں بری طرح لت پت نظر آتا ہے۔
شادی کی تقریب کو خانہ آبادی کے آغاز کی ایک حسین صورت اور سماج کے لئے خیر وبرکت کا ایک عالی شان دروازہ ہونا تھا۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ شادی کی محفل سے جاری ہونے والے نیکی اور بھلائی کے میٹھے چشمے سارے سماج کو سیراب کرتے، ناکہ شادی خانوں کی نالیوں سے بہنے والا برائیوں کا گندا پانی ہر طرف پھیل کر گندگی مچاتا پھرے۔
ایک بہت بڑی سماجی بیماری جو شادی کی گود میں جنم لیتی اور پلتی بڑھتی ہے، اور پھر پورے سماج میں کینسر کی طرح پھیل جاتی ہے وہ دولت کی نمائش ہے۔ زندگی میں دولت کی نمائش کا سب سے بڑا اور سب سے کامن موقعہ شادی کا موقعہ ہوتا ہے۔ لوگ دکھانا چاہتے ہیں کہ ان کے پاس دولت ہے اور وہ دولت خرچ کرنے کی قدرت رکھتے ہیں۔ جو دکھانا نہیں چاہتا ہے، سماج کا چوکھٹا اسے بھی ڈھکیل کر دکھانے والوں میں شامل کردیتا ہے۔
بہت سے دولت مندوں کے پاس دولت تو بہت زیادہ ہوتی ہے، لیکن خرچ کرنے کے صحیح مقامات ان مسکینوں کی پہونچ سے باہر ہوتے ہیں، شادی کا موقعہ ان کے لئے دولت کی نمائش کا سنہری موقعہ ہوتا ہے، وہ پانی کی طرح پیسہ بہاتے ہیں، دولت کی ایسی نمائشوں سے دوسرے لوگوں کی آنکھیں بھی خیرہ ہوتی ہیں، اور وہ ان کی نقالی میں اپنے سروں پر قرضوں کا بوجھ لاد لیتے ہیں، ضد یہ ہوتی ہے کہ شادی دھوم دھام سے کرنی ہے چاہے اس کے لئے قرض لینا پڑے، اب تو بڑھتی ہوئی مانگ کو دیکھتے ہوئے بینکوں کی جانب سے خاص شادی کے نام پر گمراہ کن اشتہاروں کے ساتھ قرضے پیش کئے جاتے ہیں۔
دولت کی نمائش سے دولت کی نمائش کا مقابلہ جنم لیتا ہے، انفرادی برائی اجتماعی برائی بن جاتی ہے، ایک بھائی نے گھر سے نکل کر شادی ہال میں شادی کی، تو دوسرے بھائی نے تین ستارہ ہوٹل بک کیا، اور تیسرا بھائی پانچ ستارہ ہوٹل تک پہونچ گیا۔ جو تقریب بہت اختصار کے ساتھ کچھ لوگوں کی شرکت سے انجام پاسکتی تھی، اس میں سینکڑوں کو دعوت دی گئی، اور جس محفل کو سادگی کے ساتھ سجایا جاسکتا تھا، اسے مصنوعی طور پر رنگین بنانے کے لئے لاکھوں لٹادئے گئے۔ حاصل کچھ نہیں، صرف نمائش کے مقابلے میں اضافہ، کچھ لوگوں کے دل میں یہ بے جا حسرت کہ ہم ایسا کچھ نہیں کرسکتے، اور کچھ لوگوں کے دل میں یہ حقیر خواہش کہ ہم اس سے زیادہ کرکے دکھائیں گے۔
شادی کی تقریبات میں ہونے والی فضول خرچیوں اور نمائش کا بہت خطرناک پہلو یہ ہے کہ یہ معاشرے میں فضول خرچی اور دولت کی نمائش کے رجحان کو پھیلانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ اور جس معاشرے میں فضول خرچی اور دولت کی نمائش کا مقابلہ رواج کی شکل اختیار کرلیتا ہے، وہاں سے سکون وچین تو رخصت ہوتا ہی ہے، انسانی قدریں بھی رخصت ہوجاتی ہیں۔
زیادہ خرچ کرنے کا نشہ زیادہ کمانے کی دھن کو جنم دیتا ہے، اور اگر کمانے کے مواقع ساتھ نہ دیں تو مایوسی چھا جاتی ہے، دوسری طرف اپنے خود ساختہ معیارکی نمائش کا جنون بھلائی کے کاموں پر خرچ کرنے میں رکاوٹ بن جاتا ہے، سماج سے باہمی ہم دردی اور غم گساری کے قیمتی جذبات رخصت ہونے لگتے ہیں۔ لالچ اور خود غرضی بڑھ جاتی ہے۔ اور انسانی سماج اپنی خصوصیات کھونے لگتا ہے۔ افسوس آج شادی جیسی مبارک تقریب محبت سے زیادہ صارفیت کی ہمت افزائی کا ذریعہ بن گئی ہے۔
فضول خرچی اور نمائش والی شادیوں سے خود شادی کے پورے نظام کو سخت خطرہ لاحق ہے، شادیوں پر خرچ کا دن بدن اونچا ہوتا معیار، اور پھر معیاری شادی کرنے پر ہر کسی کا اصرار، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آسان سا بیاہ ایک بہت بھاری بوجھ بن گیا ہے۔ جس سماج میں شادی کو مشکل بنادیا جائے، وہاں بے شمار برائیاں جنم لیتی اور پھیلتی ہیں۔ شادی کو تو زندگی کا سب سے آسان کام ہونا چاہئے۔ شادی سماج کا ایک بہت مضبوط پشتہ ہے، اس کی حفاظت ضروری ہے، یہ پشتہ ٹوٹ گیا تو شیطانیت کا سیلاب ساری انسانیت کو تباہی کی طرف بہا لے جائے گا۔
سماج کی موجودہ صورت حال بے شک پریشان کن ہے، اس صورت حال سے کوئی بھی با ضمیر انسان مطمئن نہیں رہ سکتا ہے، لیکن لوگ نہ چاہتے ہوئے بھی رسم ورواج کے شکنجوں میں کسے ہوئے ہیں۔ ایسے میں کیا ایسے سماج کا خواب دیکھا جاسکتا ہے جہاں شادی میں بھاری مصارف کا تکلیف دہ بوجھ نہ ہو، فضول خرچی اور دولت کی نمائش نہ ہو، نہ جہیز ہو نہ بارات ہو، نہ شادی ہال ہوں اور نہ بیوٹی پارلر ہوں، نہ بڑی بڑی دعوتیں ہوں، نہ طرح طرح کے پکوان ہوں، نہ بے جا تکلفات ہوں اور نہ گھٹیا مطالبات ہوں۔ صرف شادی ہو اور شادمانی ہو۔ دو دلوں کے درمیان محبت کا خوب صورت آغاز ہو اور دو خاندانوں کے درمیان الفت کی حسین شروعات ہو۔
محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ’’سب سے بابرکت نکاح وہ ہے جس میں خرچ سب سے کم ہو‘‘۔ اس ارشاد نبوی میں ایک نئی دوڑ شروع کردینے کا پیغام ہے۔ اب یہ مسلمانوں کو طے کرنا ہے کہ جب ہر طرف زیادہ خرچ والی شادیوں کا مقابلہ چل رہا ہے، فضول خرچی اور اسراف کے ریکارڈ توڑے اور بنائے جارہے ہیں، انسانیت اپنے مستقبل کو لے کر پریشان ہے، کیا عاشقان رسول کم سے کم خرچ والی شادی کی ایک دوڑ شروع کرسکتے ہیں۔ ایک مبارک دوڑ جو سماج کو ایک اچھا رواج (Trend) دے، اور ملت کو انسانیت کے لئے ایک اچھا نمونہ بنادے۔

طلاق کا طریقہ اور طلاق کا سلیقہ

طلاق کا طریقہ اور طلاق کا سلیقہ
محی الدین غازی
شوہر اور بیوی کا رشتہ وہ واحد رشتہ ہے جو انسانوں کے قائم کرنے سے قائم ہوتا ہے، اور انسانوں کے ختم کرنے سے ختم ہوجاتا ہے۔ اللہ پاک نے سب سے اہم رشتے کو انسانوں کے اختیار میں دے دیا ہے۔ اور یاد رہے کہ اس دنیا میں جو کام اللہ تعالی نے انسانوں کے حوالے کئے ہیں، وہی دراصل امتحان کے خاص سبجیکٹ ہیں، اس لئے نکاح اور نکاح کے بعد کی زندگی، طلاق اور طلاق کے بعد کی زندگی تقوی اور پرہیزگاری کے سائے میں گزارنی چاہئے، یہ سوچ کر کہ یہ رشتہ ایک بڑے امتحان کا خصوصی پرچہ ہے۔
طلاق کا ایک ہی طریقہ ہے جس کے صحیح ہونے پر سارے اہل علم کا اتفاق ہے، اور وہ یہ کہ جب ضرورت ہو تو آدمی ایک طلاق دے دے۔ ایک سے زیادہ طلاق کا خیال ہی دل میں نہ لائے، نہ ایک بار میں دو تین طلاق دے اور نہ وقفے وقفے سے دو تین طلاق دینے کے بارے میں سوچے۔
یہی طلاق کا صحیح طریقہ ہے، اور یہی طلاق کا احسن طریقہ ہے۔ تاہم اگر کوئی احسن طریقے والی طلاق بھی سلیقے سے نہیں بلکہ بے ڈھنگے طریقے سے دی جائے، تو پھر وہ احسن طلاق نہیں رہ جاتی، بلکہ بے سلیقہ طلاق ہوجاتی ہے۔ اور بے سلیقہ کام نہ خدا کو پسند ہے، اور نہ خلق خدا کو اچھا لگتا ہے۔
اگر طلاق دینے کا محرک عورت پر ظلم کرنا، اس کو ستانا، اور اس سے یا اس کے گھر والوں سے انتقام لینا ہو، یا اپنے کسی اور نفسانی جذبے کی تسکین کرنا ہو، تو اس طرح کے گھٹیا محرک کے ساتھ طلاق دینا ایک گھٹیا عمل کہہ لائے گا۔ خواہ طلاق دینے کا طریقہ فقہی لحاظ سے احسن ہی کیوں نہ ہو۔ ظاہر ہے اللہ کسی گھٹیا کام کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ ظلم وزیادتی کی ہر صورت کو اللہ نے حرام کیا ہے، خواہ وہ ظلم طلاق دے کر کیوں نہ کیا جائے۔ اللہ کی پناہ مانگنی چاہئے اس دن سے جب ایسی طلاق کو آگ کا طوق بنا کر ظالم کے گلے میں ڈالا جائے گا۔
طلاق دی جائے تو اس طرح کہ دینی اخوت پر آنچ نہ آئے، نفرت کی آگ نہ بھڑکے، نہ کسی کے ساتھ زیادتی ہو اور نہ کسی کی حق تلفی ہو، بلکہ سخاوت اور فیاضی ہو، حکمت اور سمجھ داری ہو، طلاق دیتے ہوئے بھی اعلی اخلاق وکردار کا اظہار ہو۔ یہ سلیقے والی طلاق ہے۔
ہونا یہ چاہئے کہ طلاق سے پہلے دونوں کے گھروں سے ایک ایک سمجھ دار آدمی آگے بڑھے، دونوں سچے دل سے اللہ کی رضا کی خاطر معاملات سدھارنے کی کوشش کریں، جس کی طرف سے زیادتی کا ارتکاب ہورہا ہو، اسے زیادتی سے تائب ہونے کی صلاح دیں، جس کے اندر کمی ہے، اسے کمی کو دور کرنے کی ممکنہ راہ سجھائیں، اور اگر یقین ہوجائے کہ طلاق ہی واحد راستہ رہ گیا ہے، تو دونوں کو اور دونوں کے اہل خانہ کو خوش دلی سے نئی صورت حال قبول کرنے پر آمادہ کریں، تاکہ جب طلاق ہو تو ممکنہ حد تک نارمل حالات میں ہو، سب لوگ طلاق کے فیصلہ سے کسی حد تک مطمئن ہوچکے ہوں۔
طلاق دینے کا یہ طریقہ کہ واٹس اپ اور میسنجر کے ذریعہ دور بیٹھا شوہر طلاق لکھ کر بھیج دے، نہ کوئی افہام وتفہیم ہو، نہ دونوں خاندانوں کے بیچ گفت وشنید ہو، نہ اصلاح حال کی کوئی صورت تلاش کی جائے، نہ حالات کو بہتر بنانے کے لئے اللہ سے دعا کی جائے، غرض نہ مشورہ ہو اور نہ استخارہ ہو، تو یہ طلاق قانون کی رو سے ہو تو جائے گی، لیکن طلاق دینے کا ایسا پھوہڑ انداز جس پر بیوی ہی نہیں ساری دنیا تھو تھو کرے، کسی مسلمان کے شایان شان نہیں ہوسکتا ہے۔ اس طرح کے پھوہڑ پن سے دونوں خاندانوں کو تو نقصان پہونچتا ہی ہے، لیکن سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اللہ کی شریعت بدنام ہوتی ہے، اور اللہ کے دشمنوں کو ہنسنے کا موقعہ ملتا ہے۔
اگر لڑکی کی طرف سے خلع کا مطالبہ ہو، تو لڑکے کو چاہئے کہ اپنی کمی یا کوتاہی دور کرنے کے لئے مناسب وقت مانگے، اور لڑکی تیار نہ ہو تو دونوں خاندانوں کے بزرگوں سے مشورہ کرکے ایک طلاق دے دے۔ یہ گھٹیا سوچ کہ میں اسے طلاق نہ دے کر یونہی لٹکائے رکھوں گا، زبردستی ساتھ رہنے پر مجبور کروں گا، یا خوب پریشان کرنے کے بعد طلاق دوں گا، ایک مسلمان کو زیب نہیں دیتی۔ اس طرزعمل سے شریعت بدنام ہوتی ہے، اور جو کام شروع میں پرامن طریقے سے ہوسکتا تھا، وہ کافی ٹوٹ پھوٹ ہوجانے کے بعد ہوتا ہے۔
جدائی کا فیصلہ ہوجانے کی صورت میں دونوں کو چاہئے کہ مستقبل کے معاملات مثبت انداز سے باہمی مشورے کے ذریعہ طے کرلیں۔ خاص طور سے بچوں کے سلسلے میں ضد، انا اور ہٹ دھرمی کا رویہ اختیار کرنے کے بجائے اس رخ پر سوچیں کہ بچوں کے لئے مفید اور بے ضرر راستہ کیا ہوگا۔ اللہ پاک کا صاف حکم ہے کہ نہ ماں کوئی ایسا فیصلہ کرے جس سے بچے کو ضرر پہونچے، اور نہ باپ کوئی ایسا اقدام کرے جس سے بچے کو نقصان پہونچے، اپنی اپنی انا کو ایک طرف رکھ کر دونوں یہ عزم کریں کہ طلاق ہونے کے بعد بھی اللہ کی اس امانت کی بہترین دیکھ ریکھ کے لئے انہیں بہتر سے بہتر راستہ اختیار کرنا ہے۔
طلاق کے موقعہ پر شوہر کو چاہئے کہ وہ اپنی حد استطاعت سے بھی کچھ آگے بڑھ کر سخاوت وفیاضی کا ثبوت دے، اور رخصت کرتے ہوئے مطلقہ بیوی کو ثواب کی نیت سے زیادہ سے زیادہ دے کر رخصت کرے۔ اللہ کا وعدہ ہے کہ اس موقعہ پر جو فیاضی کا معاملہ کرے گا، اللہ اس سے خوش ہوگا اور اسے بہت نوازے گا۔ یاد رکھئے کہ اللہ کے نزدیک یہ سخاوت کرنے کا بہت ہی خاص موقعہ ہے۔
طلاق ہو یا خلع ہو، ایک مسلمان کی نظر میں دینی اخوت کا احترام باقی رہنا چاہئے، شوہر اور بیوی کی جدائی اس انداز سے نہ ہو کہ ان کے درمیان یا ان کے خاندانوں کے درمیان نفرت اور دشمنی پیدا ہوجائے اور دینی اخوت پارہ پارہ ہوجائے۔ یہ صرف اسلامی معاشرے کا امتیاز ہے، کہ طلاق بھی ہوجائے اور معاشرے کے تمام اجزا سلامت بھی رہیں، کہیں کچھ ٹوٹ پھوٹ نہیں ہو۔ ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس امتیاز کی حفاظت کرے، خواہ اس کے لئے کچھ قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔ ایسی ہر قربانی کا اللہ کے یہاں ضرور بڑا اجر ملے گا۔
ہمارے معاشرے میں طلاق دینے والے مرد اور طلاق پانے والی عورت کو عیب دار سمجھا جاتا ہے، اس وجہ سے بھی طلاق ایک پیچیدہ کیس بن جاتا ہے۔ طلاق کو ایک داغ سمجھنے والی سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ طلاق ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں سمجھنا چاہئے کہ وہ اب کہیں بھی نکاح اور نباہ کے قابل نہیں رہے۔ طلاق پانے والی عورتوں کا بہتر سے بہتر رشتہ فراہم کرنے کی خاطر معاشرے کے ہر فرد کو اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہئے۔ یہ بھی اسلامی معاشرے کا امتیاز ہے، جس کا بھرپور اظہار ہونا چاہئے، کہ ہر ہونے والی طلاق میں ایک نئے رشتے کی نوید ہو۔

مسلم پرسنل لا، ایک اصلاحی مہم کی ضرورت

مسلم پرسنل لا، ایک اصلاحی مہم کی ضرورت
محی الدین غازی
’’بیوی کے ساتھ میرے تعلقات خراب ہوگئے ہیں، جدائی کی نوبت آگئی ہے، تاہم میں طلاق نہیں دوں گا بلکہ انتظار کروں گا کہ بیوی خلع لے لے، کیونکہ پہلی صورت میں مجھے مہر کی رقم دینی پڑے گی، اور دوسری صورت میں مہر معاف ہوجائے گا‘‘ یہ جملہ میں نے کئی بار سنا ہے۔ اس جملے سے قانونی مہارت تو ظاہر ہوتی ہے لیکن ایمان واخلاق کا نور ذرا نظر نہیں آتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر زندگی پر عقیدہ واخلاق کی حکمرانی ہو تو انسان سخی اور فیاض بن جاتا ہے، اور اگر زندگی صرف قانونی داؤپیچ کی نذر کردی جائے تو انسان خود غرض اور بخیل ہو کر رہ جاتا ہے۔ بڑا فرق ہوتا ہے اس انسان میں جو صرف قانون کی سطح پر جیتا ہے، اور اس انسان میں جو ایمان واخلاق کی بلندیوں میں پرواز کرتا ہے۔ ایمان واخلاق کا حصار نہ ہو تو اسلامی قانون سے بھی بے شمار حیلے اور دھوکے نکال لئے جاتے ہیں۔
قرآن مجید میں قانون، ایمان اور اخلاق تینوں باہم ودگر اس طرح جڑے ہوئے نظر آتے ہیں، کہ انہیں الگ الگ کرکے دیکھنے کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔ قرآن مجید پر عمل کرنے والے کے لئے یہ ممکن ہی نہیں ہوتا ہے کہ وہ قانون سے ملنے والے حق کو تو بڑھ کر لے لے، لیکن اخلاق کی طرف سے عائد ہونے والے تقاضے کو نظر انداز کردے۔
قانون کتنا ہی اچھا ہو، وہ اخلاق کا بدل نہیں ہوسکتا۔ یہ بات ایک مثال سے سمجھی جاسکتی ہے، کہ سڑک پر کوئی نامعلوم شخص حادثے کا شکار ہو کر تڑپ رہا ہو، ایسی صورت میں اگر قانون رکاوٹوں سے بھرا ہو تو لوگ اسے اٹھا کر اسپتال لے جاتے ہوئے ڈریں گے، کہ کہیں وہ خود الزام کی زد میں نہ آجائیں، اور انہیں تھانے اور عدالت کے چکر لگانے پڑیں، قانون اگر معاون ہو تو لوگ اسے اسپتال لے جاتے ہوئے خوف محسوس نہ کریں گے۔ تاہم محض قانون خواہ وہ کتنا ہی اچھا ہو لوگوں کے اندر یہ جذبہ پیدا نہیں کرسکتا ہے کہ وہ نفع نقصان سے بے نیاز ہوکر ایک نامعلوم زخمی کو اسپتال لے جائیں۔ یہ جذبہ تو عقیدہ واخلاق سے پیدا ہوتا ہے۔
عائلی قانون کے حوالے سے ذیل کی کچھ مثالوں پر اس پہلو سے بھی غور کریں:
قانون کی رو سے بلاوجہ طلاق دینے سے بھی طلاق ہوجاتی ہے، اور تین طلاقیں دینے سے تین طلاقیں بھی ہوجاتی ہیں، لیکن ایمان واخلاق کا تقاضا ہے کہ انسان بنا ضرورت طلاق نہ دے، اور طلاق دے تو بس ایک ہی طلاق دے، طلاق سے پہلے اصلاح حال کی ساری کوششیں کرڈالے، طلاق کا فیصلہ لینے سے پہلے بزرگوں سے مشورہ اور اللہ کے حضور خیر کی دعا کرلے، اور اس پورے عمل میں کہیں خود غرضی اور نفس پرستی کو بیچ میں نہ آنے دے۔
قانون کی رو سے شوہر چاہے تو بیوی کے خلع مانگنے پر بھی اسے خلع نہ دے، لیکن اخلاق کا تقاضا ہے کہ اگر بیوی ساتھ رہتے ہوئے خوش نہ ہو، تو بیوی کو ساتھ رہنے پر مجبور نہ کرے، سمجھانے بجھانے کے لئے کچھ وقت ضرور مانگے، لیکن اسے اپنی بیوی بنے رہنے اور گھٹ گھٹ کر جینے پر مجبور نہ کرے۔ اور اگر خود اس کی کسی کمزوری کی وجہ سے بیوی خلع طلب کررہی ہو تو کسی معاوضہ کا مطالبہ بھی نہ کرے۔
قانون کی رو سے ہوسکتا ہے طلاق دینے والے کے لئے ضروری نہ ہو کہ وہ طلاق شدہ بیوی کو کچھ دے، لیکن اخلاق کا تقاضا یہ ہے کہ وہ ایسے وقت میں سخاوت وفیاضی کی ایک یادگار مثال قائم کرے۔
قانون کی رو سے ہوسکتا ہے کہ یتیم پوتے کو دادا کے ترکے میں سے حصہ نہ ملے، لیکن اخلاق کا تقاضا ہے کہ زندہ بھائی خود آگے بڑھ کر اپنے مرحوم بھائی کے بچوں کو وراثت میں اتنا ہی حصہ دے دے جتنا خود اسے مل رہا ہے۔
یہ قانونی دفعات نہیں بلکہ اخلاقی تعلیمات ہی ہیں جن سے متاثر ہوکر ایک انسان یتیم بچوں کو اپنی سرپرستی میں لے لیتا ہے، اور سایہ زوجیت سے محروم ہوجانے والی عورتوں کو آگے بڑھ کر زوجیت کا سائے بان پیش کرتا ہے، خواہ اسے کتنی ہی آزمائشوں سے گزرنا پڑے۔ یہ اخلاقی تعلیمات ہی ہیں جو خیر اور بھلائی کے بڑے بڑے کاموں کا محرک بن جاتی ہیں۔
اسلامی قانون اسلامی معاشرہ کا امتیاز ہے، اس سے بہتر قانون پیش نہیں کیا جاسکتا ہے، تاہم اسلامی معاشرہ کا اس سے بھی بڑا امتیاز وہ اخلاقی تعلیمات ہیں جو رب حکیم کی طرف سے قانون کے ساتھ ساتھ عطا کی گئی ہیں۔ اسلامی قانون کی ساری آب وتاب انہیں سے ہے۔ ایمان واخلاق کا ساتھ نہ ہو تو قانون بے روح اور بے کشش ہو کر رہ جاتا ہے۔ یاد رہے صرف قانون کی حکمرانی سے اسلامی معاشرہ ایک مثالی معاشرہ نہیں بن سکتا ہے۔ ایک پرکشش مثالی اسلامی معاشرہ کے لئے قانون سے پہلے اور قانون سے کہیں زیادہ ایمان واخلاق کی حکمرانی ضروری ہے۔
قرآن مجید میں جہاں نکاح وطلاق کے قوانین بیان ہوئے ہیں، وہاں تقوی اور احسان کے بار بار تذکرہ سے واضح ہوتا ہے کہ ان قوانین پر عمل آوری کے وقت اللہ کے سامنے جواب دہی کا شدید احساس اور لوگوں کے ساتھ بہترین اخلاق کے ساتھ پیش آنے کا طاقت ور جذبہ بہت ضروری ہے۔ تقوی کا مطلب ہے ضمیر کی وہ طاقت ور آواز جسے کوئی مصلحت دبا نہ سکے، اور احسان کا مطلب ہے اخلاق کی وہ آخری بلندی جہاں انسان پہونچ سکتا ہو۔
اسلام کے عائلی قانون میں بہت سی باتیں اجتہادی ہونے کی وجہ سے اختلافی بھی ہوسکتی ہیں، ہر ہر دفعہ پر طویل بحث بھی ہوسکتی ہے، لیکن ایمان واخلاق کے تقاضوں میں کوئی تقاضا اختلافی نہیں ہے، جو بھی ہے وہ متفقہ طور پر لائق ستائش ہے۔ اسلام کے عائلی قانون کی فکر کرنے والوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ عائلی قوانین کا رشتہ ایمان واخلاق سے دوبارہ جوڑنے کی مہم چلائیں۔ یہ رشتہ جب تک بحال نہ ہوگا اسلام کے عائلی قوانین خطرات سے دوچار رہیں گے، اور مسلم معاشرہ ان گنت عائلی مسائل سے پریشان رہے گا۔
مسلم پرسنل لا کے حوالے سے جو مہمات منائی جاتی رہی ہیں، ان میں مفتیانہ اور مدافعانہ لب ولہجہ حاوی رہا ہے۔ عائلی قانون کے حوالے سے ہر فتوے کا دفاع، اور ہر فتوے پر شدید اصرار۔ احساس ہوتا ہے کہ اب مسلمانوں کی ضرورت ایک ایسی اصلاحی مہم ہے، جس کا مقصد، دفاع سے آگے بڑھ کر مسلم سماج کے ہر اس پہلو کی اصلاح ہو جہاں خرابی در آئی ہے۔

سارے بزرگ سب کے بزرگ (اتحاد امت کے لئے امت کی سوچ بدلنا ضروری ہے)

سارے بزرگ سب کے بزرگ
(اتحاد امت کے لئے امت کی سوچ بدلنا ضروری ہے)
محی الدین غازی
دارالعلوم دیوبند کے بزرگ استاذ مولانا نعمت اللہ صاحب کی ایک ادا رہ رہ کر یاد آتی ہے، ہیں تو وہ مسلک کے لحاظ سے حنفی، لیکن دوران درس یوں کہا کرتے: ہمارے امام شافعی نے یہ کہا اور آپ کے امام ابوحنیفہ نے یہ کہا۔ ان کے درس میں بیٹھ کر یہ احساس پیدا ہوتا کہ تمام مسالک دلائل کی قوت سے مالا مال ہیں۔
حد اعتدال میں رہتے ہوئے امت میں اختلافات کا پایا جانا تشویش کی بات نہیں ہے، لیکن بہت زیادہ تشویش کی بات امت کے اندر پائے جانے والے بٹوارے ہیں، افراد کے بٹوارے، مسجدوں کے بٹوارے، مدرسوں کے بٹوارے، عبادت کے طریقوں کے بٹوارے، اور ایک بہت خطرناک بٹوارہ اکابر کا بٹوارہ، بہت خطرناک اس لئے کہ جب اکابر کی تقسیم ہوجاتی ہے تو باقی ساری تقسیمیں اور زیادہ گہری ہوجاتی ہیں۔
بے شک اس امت کا ایک بڑا امتیاز اس امت کے اکابر ہیں، یہ وہ عظیم علماء ہیں جنہوں نے دین کی تجدید، امت کی امامت اور کتاب وسنت کی حفاظت واشاعت کے عظیم کارنامے انجام دئے۔ یہ بڑی شخصیات تمام مسلمانوں کے لئے سرمایہ افتخار ہیں، اور ان کے شایان شان ہے کہ سارے مسلمان ان تمام اکابر سے محبت کریں اور ان کا احترام کریں۔
المیہ یہ ہے کہ جن اکابر کی خدمات اتنی وسیع اور شان اتنی بلند تھی کہ وہ پوری امت کے اکابر ہوتے اور پوری امت ان پر محبت واحترام کے پھول نچھاور کرتی وہ چھوٹے بڑے فرقوں مسلکوں اور حلقوں کے اکابر بنادئے گئے، اور پھر ’’ہمارے اکابر‘‘ اور ’’ان کے اکابر‘‘ جیسی اصطلاحیں رائج ہوگئیں۔
اس تقسیم کے ساتھ سونے پر سہاگہ ہمارا یہ مزاج ہے کہ جنہیں ہم اپنے اکابر قرار دیتے ہیں، ان کی ہر ہر خوبی کو بڑھا چڑھا کر سامنے لاتے ہیں، اور ان کی ہر ہر خامی سے چشم پوشی، اور ہر ہر غلطی کی تاویل کرتے ہیں۔ اور جنہیں ہم اپنے اکابر کا حریف سمجھتے ہیں ان کے سلسلے میں ہمارا رویہ سخت گیری پر مبنی ہوتا ہے، خواہ وہ کتنے بڑے عالم اور بزرگ ہوں۔ مثال کے طور پر آپ فقہی مسالک کی مفصل کتابوں میں دیکھیں گے تو آپ کو ہر ہر مسئلے میں اپنے امام کے موقف کی وکالت اور دوسرے سارے اماموں کے موقف کی کمزوری کا بیان ملے گا۔ کسی بھی حلقے کا لٹریچر اٹھاکر دیکھیں، اس حلقے کے بزرگوں پر تنقید آپ کو شاذ ونادر ہی ملے گی۔ جب کہ دوسروں پر تنقید کے سلسلے میں کافی سخاوت نظر آئے گی۔
اسی طرح اپنے اکابر کے ناموں کے لئے تو ہمارے پاس القاب وآداب کی خوب فراوانی ہوتی ہے، جبکہ اسی سطح کے دوسرے علماء اور بزرگوں کے ناموں کے لئے ہماری جھولی خالی ہوجاتی ہے۔ ہر فرقے اور ہر حلقے کے اپنے اپنے شیخ الاسلام، حکیم الامت اور اعلی حضرت ہیں۔ پوری امت کا شیخ الاسلام کوئی نہیں ہے، حالانکہ ان میں سے ہر کوئی پوری امت کا شیخ الاسلام ہوسکتا تھا۔ اگر امام بخاری اور امام مسلم پوری امت کے محدث ہوسکتے ہیں، امام طبری اور امام سیوطی سب کے مفسر ہوسکتے ہیں، امام حسن بصری کا نام پوری امت احترام سے لیتی ہے۔ تو ایسا کیوں نہیں ہوسکتا کہ باقی بزرگ بھی سب کے بزرگ قرار پائیں۔
یہ دراصل بڑوں کے سلسلے میں چھوٹوں کی چھوٹی سوچ اور تنگ ظرفی ہے۔ اس سے بزرگوں کی حق تلفی بھی ہوتی ہے، اور فرقہ بندیوں کو تقویت بھی ملتی ہے، اگر ہم اپنے اکابر کو پوری امت کے اکابر کی حیثیت سے دیکھیں، اور امت کے تمام بزرگوں کو اپنا سجھنے لگیں، تو ہمارے اختلافی افکار تو باقی رہیں گے، لیکن ہمارے اختلافی جذبات سرد پڑجائیں گے۔ جب ہم اکابر کے سلسلے میں اپنے اور پرائے کی تفریق میں گرفتار ہوتے ہیں تو ہم اختلافی مسائل میں عقل ودانش کے تقاضوں کو بھول کر شدید قسم کی جذباتیت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اور یوں دماغوں کے اختلاف دلوں کی دوری میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔
امت کے تمام بزرگوں کو اپنے بزرگ مان لینے کے نتیجے میں ایک بڑی تبدیلی یہ آسکتی ہے کہ جس حسن ظن اور حسن تاویل کا معاملہ ہم کچھ بزرگوں کے ساتھ کرتے ہیں وہی معاملہ ہم تمام بزرگوں کے ساتھ کریں۔ اماموں اور بزرگوں کے اختلافات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے بجائے انہیں ان کے اصل حجم میں یا اس سے بھی کم کرکے دیکھیں۔ جس طرح ہم امام ابوحنیفہ اور ان کے دونوں شاگردوں امام ابویوسف اور امام محمد کے آپسی اختلافات کو آپس کا اختلاف قرار دیتے ہیں، کیونکہ وہ تینوں ہمارے مسلک کے امام ہیں، اسی طرح امام ابوحنیفہ اور امام مالک اور امام شافعی کے اختلافات کو بھی آپس کا اختلاف سمجھنے لگیں، کہ وہ سب بھی ہماری امت کے امام ہیں۔ اور پھر یہی وسعت اور نرمی کا رویہ ہم دور حاضر کے اکابر کے ساتھ بھی اختیار کریں۔
خاندان کے بچوں میں باپ اور چچا کے اختلاف اس وقت شدت کے ساتھ منتقل ہوتے ہیں، جب وہ بچے اپنے باپ کو تو باپ کے مقام پر رکھتے ہیں لیکن اپنے چچا کو چچا کا مقام نہیں دیتے، بلکہ صرف باپ کے حریف کی حیثیت سے دیکھتے ہیں۔ اگر ان سب کو یہ احساس ہوجائے کہ معاملہ خاندان کے جن دو بزرگوں کا ہے وہ دونوں ہی قابل محبت واحترام ہیں تو باپ اور چچا کے اختلافات زیاہ شدت کے ساتھ اگلی نسلوں تک منتقل نہیں ہوں گے۔ اور جو اختلافات پیدا ہوچکے ہیں، ان کی شدت کافی حد تک کم ہوجائے گی۔ اسی لئے ایک بزرگ کا یہ مشورہ بہت اہم ہے کہ ’’بڑوں کے اختلافات میں چھوٹوں کو فریق نہیں بننا چاہئے‘‘۔
مسجدوں کی طرح اماموں اور بزرگوں کی تقسیم بھی سراسر غلط ہے، یہ سب پوری امت کا مشترک سرمایہ ہیں، ان میں سے کسی ایک کی طرف اپنی نسبت کرکے دیگر کی علمی خدمات کو نظرانداز کردینا دراصل اپنے آپ کو علم ومعرفت کے بہت سے چشموں سے محروم کرلینا ہے، آپ تقلید کسی کی کریں اور رائے کسی کی مانیں، مگر اپنا اور امت کا امام سب اماموں کو مانیں، سب کی علمی فتوحات کو قدرکی نگاہ سے دیکھیں، سب کے علمی کارناموں سے فیض اٹھائیں، اور سب کے لئے شکروسپاس کے جذبات رکھیں۔
اکابر نے اجتہاد کیا اور غور وفکر کی بہت سی راہیں دریافت کیں، اسی لئے ان میں اختلاف بھی ہوئے، امت کے تقریبا تمام ہی اختلافات کا سرا اکابر کے اختلافات میں ملتا ہے، خواہ وہ قدیم اکابر ہوں یا جدید اکابر ہوں، اکابر کے ان اختلافات کو ختم کرنا ممکن بھی نہیں ہے اور شاید مطلوب بھی نہیں ہے، تاہم اگر اختلافات کے باوجود تمام اکابر کے سلسلے میں یہ نقطہ نظر عام کیا جائے کہ وہ سب کے سب ساری امت کے اکابر ہیں، تو مسلکوں، فرقوں اور حلقوں کی سرحدیں ختم نہ ہوکر بھی قابل عبور تو ضرور ہوجائیں گی۔
یاد رکھیں تعلقات کی دنیا میں بہت فرق ہوتا ہے اس میں کہ سرحدیں بند ہیں یا کھلی ہوئی ہیں۔