بال برابر فاصلہ رکھنا، ایک حکیمانہ اصول

بال برابر فاصلہ رکھنا، ایک حکیمانہ اصول
محی الدین غازی
نماز میں دوسروں کے پاؤں سے پاؤں ملاکر کھڑے ہونے کا مسئلہ نازک بھی ہے اور اہم بھی ہے، نماز کے دوسرے اختلافی مسائل کے برعکس اس مسئلے میں نزاکت کا خاص پہلو یہ ہے کہ ہمارا یہ عمل ہماری ذات تک محدود نہیں رہتا ہے، بلکہ دوسروں کی ذات کو راست متاثر کرتا ہے، خاص طور سے جب ایک شخص اپنے پاؤں کو دوسرے شخص کے پاؤں سے چپکانا چاہتا ہے، اور وہ دوسرا شخص اس کے لئے آمادہ نہیں ہوتا ہے۔
میں نے ہندوستان کی مسجدوں میں متعدد بار دیکھا کہ جو لوگ پاؤں ملاکر کھڑے ہونے سے مانوس نہیں ہیں، وہ محض اس وجہ سے اپنی جگہ بدل دیتے ہیں کہ ان کے پاس کھڑا ہوا شخص پاؤں ملاکر کھڑے ہونے کے موڈ میں ہوتا ہے۔
بعد میں مشاہدہ ہوا کہ صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کی ایسی بہت ساری مسجدوں کا یہی حال ہے، جہاں اہل حدیث اور غیر اہل حدیث ساتھ نماز پڑھتے ہیں، ایسے میں بعض اہل حدیث حضرات کا اصرار ہوتا ہے کہ وہ پاؤں سے پاؤں چپکا کر کھڑے ہوں، جبکہ دیگر مسالک کے ماننے والے اپنے دونوں پاؤں کے درمیان کم فاصلے کو سنت سمجھتے ہیں، اور ساتھ والے نمازی کے پاؤں سے پاؤں ملانے کے عادی نہیں ہوتے ہیں، بسا اوقات ان کو اس سے الجھن بھی ہوتی ہے، چنانچہ بہت ساری مسجدوں میں پاؤں ملانے کے مسئلے پر خطرناک جھگڑے ہوجاتے ہیں۔
غور طلب بات یہ ہے کہ اس ناگواری اور الجھن کا علم اور احساس خود ان لوگوں کو بھی ہوتا ہے جو اتباع سنت کے جذبے کے تحت پاؤں ملاکر کھڑے ہونے کو نیکی اور کارثواب سمجھتے ہیں، اور ایک سنت کو زندہ کرنے کی خاطر یہ خطرہ مول لیتے ہیں۔ ایک قابل احترام اہل حدیث بزرگ شیخ عبیداللہ مبارکپوری لکھتے ہیں، ’’جب کوئی اہل حدیث کسی حنفی کے پاس نماز میں کھڑا ہوتا ہے، اور سنت کی پیروی کے لئے اپنے پیر اس کے پیر سے ملانا چاہتا ہے تو حنفی اپنا پیر دور کرتا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنے دونوں پاؤں ملالیتا ہے، اور دونوں پاؤں کے بیچ ذرا فاصلہ نہیں بچتا ہے، کبھی وہ تیوری چڑھالیتا ہے، اور اپنے مسلم بھائی کی طرف غصے کی نظر سے دیکھتا ہے، اور کبھی تو نیل گائے کی طرح بھاگ کھڑا ہوتا ہے‘‘۔(مرعاۃ المفاتیح)
مطالعہ کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ پاؤں ملانے سے متنفر ہونے کا یہ مسئلہ بہت پرانا ہے، روایت ہے کہ مشہور صحابی حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صفوں کو درست کرنے کی ترغیب دی، تو میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ اپنے کندھے کو اپنے ساتھی کے کندھے سے اور اپنے قدم کو اپنے ساتھی کے قدم سے ملاتے تھے، حضرت انس نے اپنے شاگردوں سے یہ بھی کہا کہ ’’اگر تم ایسا کرنے لگے تو لوگوں کو دیکھو گے کہ گویا وہ بپھرے ہوئے خچر ہیں‘‘۔ واضح رہے کہ یہ بات ہمارے زمانے کی نہیں بلکہ تابعین کے زمانے کی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلے سے متعلق تمام دلائل کو جمع کریں تو یہ مان لینا آسان ہوجاتا ہے کہ نماز میں پاؤں ملا کر کھڑا ہونا بھی سنت ہے، اور پاؤں نہ ملاکر قریب قریب کھڑا ہونا بھی سنت ہے، دونوں ہی طریقوں پر امت کا دور اول سے عمل رہا ہے، اصل کوشش اس کی ہو کہ صف سیدھی رہے، نمازیوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ قربت ہو، اور دونوں طریقوں کے ماننے والے ایک دوسرے کا لحاظ کریں۔
دینی سوجھ بوجھ کا تقاضا ہے کہ پاؤں نہیں ملانے والے پاؤں ملانے کو بھی سنت سمجھیں اور اس عمل کو بھی احترام کی نظر سے دیکھیں، اور اپنے اندر اتنا تحمل پیدا کریں کہ اگر کبھی کوئی شخص پاؤں سے پاؤں ملاتا ہے، تو خوش دلی کے ساتھ اسے قبول کریں، اور اگر کوئی پریشانی محسوس ہوتی ہو تو ثواب کی نیت کے ساتھ اسے برداشت کرلیں، اور اس پر کوئی ناروا ردعمل ظاہر نہ کریں۔
دینی سوجھ بوجھ کا تقاضا یہ بھی ہے کہ پاؤں ملانے والے اس وقت تو بلاتکلف پاؤں ملانے کی سنت پر عمل کریں جب ان کے پہلو میں ان کے ہم خیال لوگ ہوں، لیکن جب کوئی ایسا فرد ساتھ میں ہو جو پاؤں ملانے پر آمادہ نہ لگتا ہو، تب ضرور احتیاط اور حکمت سے کام لیں، اپنے عمل کے ساتھ اس کے عمل کو بھی سنت سمجھیں، اور اگر پاؤں کے بیچ کے فاصلے کو ختم کرنا ہی چاہتے ہوں تو ایسا کریں کہ اپنا پاؤں اس کے پاؤں کے قریب لے جاکر بس بال برابر فاصلہ چھوڑ دیں، کہ اس کے پیر کو آپ کے پیر کے لمس کا احساس نہ ہو، اور درمیان میں فاصلہ بھی نظر نہیں آئے، اس طرح صفوں کے بیچ دوری بھی نہیں رہے گی، اور آپ کے ساتھ نماز پڑھنے والا آپ سے متنفر اور پریشان بھی نہیں ہوگا۔
اجتماعی زندگی میں جہاں طرح طرح کی طبیعت اور مزاج والے لوگ ساتھ رہتے ہوں، اور قدم قدم پر نوک جھونک اور تصادم کا خطرہ درپیش ہوتا ہو، بال برابر فاصلہ رکھنے کا اصول بہت کارگر ثابت ہوتا ہے۔ بال برابر کا ذرا سا فاصلہ بڑی بڑی دوریوں سے بچاسکتا ہے۔
(اس نقطہ نظر کی مزید تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو، مضمون نگار کی تازہ تصنیف ’’نماز کے اختلافات اور ان کا آسان حل‘‘)

احسان جتانا خرابی ہے اور جتانے والے سے درگزر کرنا خوبی ہے

احسان جتانا خرابی ہے اور جتانے والے سے درگزر کرنا خوبی ہے
محی الدین غازی
اگر کوئی گھر پیار اور محبت کے باغ سے آراستہ ہو تو گھر کا حسن بے نظیر ہوجاتا ہے۔ محبت کے باغ کی سحر انگیز ہوائیں گھر والوں کے مشام جاں کو معطر رکھتی ہیں، اور انہیں نفس نفس زندگی کا پیغام پہونچاتی رہتی ہیں۔
محبت کے باغ میں بہت سارے درخت بھلائی اور احسان کے بھی ہوتے ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ احسان کا معاملہ کرنے سے محبت کے نئے نئے پودے اگتے ہیں، اور احسان ماننے اور بھلائی کی قدر کرنے سے وہ پودے نشوونما پاتے اور پھولتے پھلتے ہیں۔ محبت کے ان ثمر بار درختوں میں دونوں کی حصہ داری ہوتی ہے، اور اگر وہ درخت مرجھا جائیں تو دونوں کا نقصان ہوتا ہے۔
احسان کرنا بڑی خوبی ہے، اور احسان ماننا بھی بڑی خوبی ہے، اور یہ دونوں خوبیاں الگ الگ توجہ چاہتی ہیں۔ احسان کرنے کے لئے دل کی کشادگی مطلوب ہوتی ہے اور احسان ماننے کے لئے بھی دل کی کشادگی درکار ہوتی ہے، لیکن دونوں کا تعلق دل کے الگ الگ گوشوں سے ہوتا ہے، اور جس دل کے یہ دونوں گوشے کشادہ ہوں اس دل کی وسعت وعظمت بے مثال ہوتی ہے۔
احسان کرنے اور احسان ماننے سے محبت کا جو باغ تیار ہوتا ہے، احسان جتانے سے وہ تباہی کی زد میں آجاتا ہے، آنا فانا احسان اور بھلائی کے سارے پودے مرجھانے لگتے ہیں، اور دیکھتے دیکھتے محبت کا باغ خزاں رسیدہ اور ویران ہوجاتا ہے۔ احسان کرنے والے کو اگر معلوم ہوجائے کہ ایک معمولی سا جملہ کس طرح اس کی بڑی بڑی نیکیوں اور ناقابل فراموش قربانیوں کو مٹی میں ملادیتا ہے، تو وہ اپنی نیکی کو خود بھول جانا پسند کرے، تاکہ غلطی سے بھی ایسا لفظ اس کی زبان سے نہ نکلے جس میں احسان جتانے کا ذرہ برابر شائبہ ہو۔
جس لمحے احسان جتانے کا عمل شروع ہوتا ہے، اسی لمحے احسان ماننے کا سلسلہ رک جاتا ہے، اور لگتا ہے کہ جیسے احسان اور بھلائی کا کوئی معاملہ ہوا ہی نہیں تھا۔ میں نے دیکھا ہے کہ بہت سارے گھروں میں نفرت کی بیماری احسان جتانے کے راستے سے آتی ہے، اور اس طرح آتی ہے کہ بہت سارے صحت مند دلوں کو بیمار کردیتی ہے، اور برسوں گھر کی فضا ناسازگار رہتی ہے۔
احسان یاد دلانا صرف اللہ کے شایان شان ہے، پیغمبر بھی اللہ کے احسانات ہی یاد دلاتے ہے۔ انسان کے پاس جو کچھ ہے وہ سب اللہ کا دیا ہوا ہے، کسی انسان کو زیب نہیں دیتا ہے کہ وہ اللہ کی عطا کی ہوئی بہت ساری نعمتوں میں سے کچھ اللہ کے دوسرے بندوں کو دے اور پھر احسان جتاکر انہیں اذیت کا نشانہ بنائے۔
احسان جتانا یقینا ایک بری خصلت ہے، اللہ پاک نے قرآن مجید میں اس سے بچنے کی تلقین کی ہے، اس برائی کی مختلف نیتیں اور صورتیں ہوسکتی ہیں، کبھی سامنے والے کے دل کو زخمی کرنے اور اس کی عزت نفس کو مجروح کرنے کے لئے احسان جتایا جاتا ہے، تو کبھی محض اپنی انا اور جذبہ نام ونمود کی تسکین مقصود ہوتی ہے، کبھی غصے اور شدید ناراضگی کی حالت میں ایسی بات زبان سے نکل جاتی ہے، اور کبھی محض فضول گوئی کی عادت نادانستہ یہ حماقتیں سرزد کراتی ہے۔ کبھی آدمی سامنے احسان جتاتا ہے، تو کبھی غائبانے میں کسی پر اپنے احسانوں کا ذکر کرتا ہے، اور بات متعلقہ فرد تک پہونچ جاتی ہے۔ قباحت تو کم وبیش ان سب صورتوں میں پائی جاتی ہے، تاہم نیت کی خرابی اور لہجے کی زہرناکی اس قباحت کو بہت بڑھا دیتی ہے۔ غیرت مند انسان کے لئے تو کسی کے احسان کا بار اٹھانا اپنے آپ میں مشکل ہوتا ہے، اور اس پر جب کوئی احسان بھی جتائے تو بے شک دل چھلنی ہوجاتا ہے۔
احسان جتانا بہت بری بات ہے، تاہم مختلف واقعات کا تجزیہ کرنے کے بعد میں اس نتیجے پر بھی پہونچا ہوں کہ احسان جتانے والے سے درگزر کرنا اور اس کی تکلیف دہ غلطی کے باوجود اس کے احسان کو نہ بھلانا ایک بڑی خوبی ہے، خاص طور سے اگر یہ معلوم ہوجائے کہ احسان جتانے والا بدنیت اور بدطینت نہیں ہے، بلکہ نادانی کی کیفیت میں اس سے یہ حرکت سرزد ہوتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ بعض لوگ احسان تو پورے خلوص دل کے ساتھ کرتے ہیں، لیکن ان کی نادان طبیعت سے اپنی نیکی کی حفاظت نہیں ہوپاتی، اور اس کے لئے انہیں دوسروں کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ احسان جتانے والے سے درگذر کرکے ہم اپنے دل کے ایک اور گوشے کی کشادگی کا ثبوت پیش کرتے ہیں، دل کی یہ کشادگی محبت کے باغ کو مرجھانے سے بچالیتی ہے۔ ناراض دل کو تھوڑا سمجھا بجھا کر ہم اپنے گھر کی فضا خوش گوار رکھ سکتے ہیں، اور خود ردعمل کا شکار ہوجانے اور پھر احسان فراموشی کی پستی میں گرجانے سے بچ جاتے ہیں۔ احسان جتانے والے کو اگر یہ احساس ہوجائے کہ اس کی نادانی کے باوجود اس کا لگایا ہوا نیکی کا پیڑ ہنوز زندہ ہے، اور اس کی حفاظت اس نے کی ہے جس کو اس نے احسان جتاکر تکلیف دی، تو اس کے لئے ندامت اور توبہ کے راستے روشن ہوجاتے ہیں۔ اندھیری راتوں میں اپنے حصے کی شمع شاید اس طرح بھی روشن کی جاتی ہے۔
یاد رہے کہ لوگوں کی احسان فراموشی کے باوجود احسان کرتے رہنا بہت بڑی خوبی ہے، اور کسی کے احسان جتانے کے باوجود اس کے احسان کو یاد رکھنا بھی بہت بڑی خوبی ہے۔

نماز کے اختلافات اور ان کا آسان حل

نماز کے اختلافات اور ان کا آسان حل
محی الدین غازی
الحمدللہ، میری پہلی کتاب ’’ نماز کے اختلافات اور ان کا آسان حل‘‘ تیار ہوئی اور ہدایت پبلشرز دہلی سے شائع ہوگئی، میرے مطالعہ کی حد تک یہ اپنے موضوع پر منفرد کتاب ہے، گو کہ اس کتاب کا ہر مرحلہ قدیم وجدید علماء وفقہاء کی رہنمائی میں طے کیا گیا ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ خیال کا ایک سرا ہاتھ آجاتا ہے، اور اگر اسے مضبوطی سے تھام کر تحقیق کی راہ میں آگے بڑھیں تو ایک بڑی بات تک رسائی ہوجاتی ہے اور آدمی حیرت ومسرت کی تصویر بن جاتا ہے، اس کتاب کا آغاز بھی کچھ اسی طرح خیال کے ایک سرے سے ہوا، اور برسہا برس کے غور وفکر، بحث ومباحثہ اور مطالعہ وتحقیق کے بعد اتحاد ملت کا ایک آسان اور اطمینان بخش نسخہ تیار ہوگیا۔ اس کتاب کی اصل خصوصیت یہی ہے کہ یہ ایک بہت مشکل مسئلے کا بڑا آسان حل پیش کرتی ہے۔ اس توفیق پر میں اللہ کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے۔
امت کی صورت حال پر غور کرتے ہوئے میں نے ایک تشویش ناک بات نوٹ کی، وہ یہ کہ امت کے مسلکی اختلافات کا اثر بازاروں، گھروں، کارخانوں یا تفریح گاہوں وغیرہ میں تو نظر نہیں آتا ہے، البتہ ان اختلافات کا بہت زیادہ ظہور مسجدوں میں ہوتا ہے، اور نماز پڑھنے کے طریقوں میں دکھائی دیتا ہے، چنانچہ جو لوگ مسجد سے زیادہ تعلق رکھتے ہیں وہی مسلکی اختلافات سے بھی زیادہ متاثر ہوتے ہیں، جبکہ مسجد تو حقیقت میں ملی وحدت کا مرکز ہے، اور باجماعت نماز تو اصل میں امت کے اتحاد کی علامت ہے اور اس میں اتحاد کی تعلیم وتربیت کا بہترین سامان ہے۔
اس کتاب کی تیاری کے دوران مجھے یہ یقین حاصل ہوا کہ اگر نماز کے اختلافی مسائل میں الجھے رہنے کے بجائے ان سے نکلنے کی اطمینان بخش راہ دریافت کرلی جائے، تو یہ اتحاد ملت کی جانب ایک بڑی پیش رفت ہوگی، اور اس سے دوسرے اختلافات کو حل کرنے میں بھی بہت مدد ملے گی۔ یاد رہے کہ اتحاد ملت کا حسین خواب اسی صورت میں پورا ہوسکے گا جب مسجدوں کو آپس میں بانٹنے کے بجائے انہیں اتحاد امت کی سب سے بڑی تربیت گاہ بنادیا جائے۔
بہت سارے لوگوں کو یہ سوال حیران وپریشان کرتا ہے کہ نماز جیسی ایک آسان، مختصر مگر انتہائی اہم اور روزانہ کئی بار انجام دی جانی والی عبادت اس طرح محفوظ کیوں نہیں رہی کہ ہر مسلمان کو پورے شرح صدر کے ساتھ اور کسی اختلاف کے بغیر یہ معلوم رہتا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نماز کیسے پڑھا کرتے تھے؟ آخر ایک مختصر اور آسان سے عمل میں اتنے زیادہ اختلافات کیوں کر جمع ہوگئے؟
جو لوگ تحریکی مزاج رکھتے ہیں، اور امت کی فکر کے حامل ہیں، وہ یہ تو کہتے ہیں کہ عظیم نصب العین اور بڑے مقاصد کی خاطر فروعی اختلافات کو نظر انداز کرنا چاہئے، لیکن وہ بھی بجا طور سے یہ ضرور جاننا چاہتے ہیں کہ نماز کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول کیا تھا؟
بہت سے لوگ رواداری کے جذبے سے یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ ہر طریقے سے نماز ہوجاتی ہے، لیکن اندر سے اتباع سنت کا یہ نیک جذبہ بھی انہیں بے چین رکھتا ہے کہ نماز کا جو افضل اور مسنون طریقہ ہو وہ معلوم ہوجائے تاکہ اس کے مطابق نماز جیسی عظیم عبادت کو انجام دیا جائے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صریح ہدایت بھی ہے، ’’مجھ کو جس طرح نماز پڑھتے ہوئے دیکھو اسی طرح تم نماز پڑھو‘‘۔
عام مشاہدہ ہے کہ اتحاد ملت کے لئے کی جانے والی بہت ساری تقریریں اور قراردادیں صدا بصحرا ثابت ہوتی ہیں، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ اتحاد ملت پر تو اکساتی ہیں لیکن اس کے ساتھ اتباع سنت کے جذبے کی تکمیل کرنے سے قاصر ہوتی ہیں۔ چنانچہ دیکھا جاتا ہے کہ اتحاد ملت کے بہت سارے علم بردار اتباع سنت کے مسئلے پر باہم دست وگریباں ہوجاتے ہیں۔ اس لئے شدید ضرورت ہے کہ اتباع سنت کی وہ حقیقت سامنے آئے جس کی بنیاد پر اتحاد امت کی مضبوط دیوار بھی استوار ہوسکے، اور ساتھ ہی اتباع سنت کے تمام تقاضے بھی پورے ہوسکیں۔
اس کتاب میں ایسی بہت ساری الجھنوں کو حل کرنے کی سعی کی گئی ہے، یہ کتاب اتحاد امت کی ایک تدبیری کوشش ہے، اور حقیقت یہ ہے کہ اس وقت امت کو اپنے بے شمار مسائل کے لئے تدبیری کوششوں کی شدید ضرورت ہے، دلی تمنا ہے اور اللہ سے دعا ہے کہ یہ کاوش لوگوں کے اندر مثبت سوچ اور ذہنی وسعت کو پروان چڑھانے میں کامیاب ہو، اور اللہ کی توفیق سے ایک ایسی تحریک برپا ہوجائے جو امت کو مسلکی شدت پسندی اور مذموم فرقہ بندی کی تنگ گلیوں سے نکال کر اتحاد واتفاق کی کشادہ شاہ راہوں پر لے آئے۔ اللہ یہ کوشش قبول فرمائے۔
کتاب حاصل کرنے کے لیے رابطہ کریں:
Hidayat Publishers & Distributors
Mobile No. 09891051676
Email: hidayatbooks@gmail.com

عمارت کی کرسی اونچی رکھیں

عمارت کی کرسی اونچی رکھیں
محی الدین غازی
کوئی بیس سال پہلے کی بات ہے، مولانا محمد فاروق خاں صاحب لکھنؤ کی ٹیلے والی مسجد میں تربیت ذات کے
 موضوع پر تقریر کررہے تھے، مجھے اس تقریر کی ایک بات یاد رہ گئی، مولانا نے کہا تھا: ’’ہرعمارت کی ایک کرسی (Plinth) ہوتی ہے، کرسی نیچی ہوتی ہے تو عمارت کا حسن دب جاتا ہے، کرسی اونچی ہوتی ہے، تو عمارت کا حسن دوبالا ہوجاتا ہے، دہلی کی جامع مسجد کی امتیازی شان اس کی اونچی کرسی سے ہے۔ انسان کی زندگی بھی ایک عمارت ہے، اور اس کی بھی کرسی ہوتی ہے، آپ اپنی زندگی کی عمارت کی کرسی اونچی رکھیں‘‘۔
میں نے اپنے گردوپیش کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ عمارت کی کرسی عمارت کے حسن کو بڑھاتی ہے، ساتھ ہی گلی کوچے کی گندگی سے بھی محفوظ رکھتی ہے، برسات میں نالی کا گندا پانی ان گھروں میں نہیں گھستا ہے جن کی کرسی اونچی ہوتی ہے۔ بہت سے کیڑوں مکوڑوں کی رسائی سے بھی مکان محفوظ رہتا ہے۔ سیلاب آجائے تو اونچی کرسی والے مکان لوگوں کے لئے پناہ گاہ بھی بن جاتے ہیں۔
مولانا نے دہلی کی جامع مسجد کی مثال دی، اور میں اونچی کرسی والی انسانی عمارتوں کی تلاش میں نکل گیا۔ اس سفر میں ایسی بہت سی اونچی کرسیوں والی عالیشان عمارتیں نظر آئیں کہ جن کی عظمت اور وقار کے سامنے دل ونگاہ احترام سے جھک جائیں، ایک نمایاں شخصیت حضرت یوسف علیہ السلام کی ہے، مصر کی حسیناؤں نے سارے حربے آزما ڈالے، لیکن ان کی شخصیت کی کرسی اتنی اونچی تھی، کہ سارا زور لگا کر بھی وہ اس عمارت کی چوکھٹ تک نہیں پہونچ سکیں، کجا کہ اس عمارت کو داغ دار کرپاتیں۔ آخر بے بس ہوکر پکار اٹھیں کہ یہ انسان نہیں ہے، شرافت اور گناہ بیزاری کا یہ پیکر تو ایک فرشتہ ہی ہوسکتا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن جفر سخاوت کے سمندر تھے، اور اس سخاوت کی عمارت جس کرسی پر تھی وہ بھی بہت اونچی تھی، ایک بار ان کے سامنے ایک غریب عورت نے دست سوال دراز کیا، آپ نے اچھی خاصی رقم دے دی، لوگوں نے کہا یہ آپ کو نہیں جانتی ہے، اور یہ تو تھوڑی رقم سے بھی بہت خوش ہوجاتی، آپ نے کہا: ’’وہ تو تھوڑی رقم لے کر خوش ہوجاتی لیکن مجھے تو زیادہ دے کر ہی خوشی مل سکے گی، اور وہ مجھے نہیں جانتی تو کیا ہوا، میں تو اپنے آپ کو جانتا ہوں‘‘۔
شام کے مشہور عالم شیخ سعید حلبی ایک بار درس دے رہے تھے اور تکلیف کی وجہ سے پیر پھیلاکر بیٹھے تھے، درس کے دوران شام کا گورنر ابراہیم پاشا آنکلا، اس کی دہشت پورے ملک پر چھائی ہوئی تھی، لیکن شیخ حلبی پر اس کی آمد کا کوئی اثر نہیں ہوا، انہوں نے اپنے پاؤں نہیں سمیٹے، اور درس کو اسی طرح جاری رکھا۔ پاشا کو غضب ناک کرنے کے لئے یہ بہت تھا، مگر اس نے ضبط کرلیا، اور مجلس سے نکلنے کے بعد ان کے پاس اپنے کارندے سے اشرفیوں کی ایک تھیلی بھجوائی، شیخ نے اس تھیلی کو واپس کرتے ہوئے کہا: ’’یہ واپس لے جاؤ، اور پاشا سے کہہ دو جو اپنے پاؤں پھیلاتا ہے وہ اپنا ہاتھ نہیں پھیلاتا ہے‘‘۔ اونچی کرسی کی شان کو اس ایک جملے سے سمجھا جاسکتا ہے۔
اس دور کی عظیم شخصیت سید قطب کو پھانسی کی سزا سنائی گئی، اور ان سے رحم کی اپیل لکھنے کو کہا گیا، انہوں نے عزیمت سے بھرپور لہجے میں کہا: ’’میری شہادت کی انگلی جو ہر نماز میں اللہ کی وحدانیت کی گواہی دیتی ہے، وہ ایسا ایک حرف نہیں لکھ سکتی جس سے اللہ کے کسی باغی کی حکمرانی کا اقرار ہوتا ہو۔ میں رحم کی اپیل کیوں کروں، اگر میری سزا کا فیصلہ درست ہے، تو میں اسے خود قبول کرتا ہوں، اور اگر یہ فیصلہ باطل ہے تو میں اس سے برتر ہوں کہ باطل سے رحم کی التجا کروں‘‘۔ حق پرستوں کی زندگی کی کرسی اتنی ہی اونچی ہونی چاہئے کہ بڑے بڑے جابروظالم بے بسی سے اس کے سنگ دیوار سے اپنا سر پھوڑتے نظر آئیں۔
جب برائی فیشن بن جائے، مادہ پرستی اور بے حیائی کا گندا سیلاب ہر گھر میں گھسنے کے درپے ہو، اخلاقی اقدار کے پشتے ایک کے بعد ایک ٹوٹتے جارہے ہوں، ہر جانب انسانی عظمت داؤ پر لگی ہوئی ہو، بلند قامت شخصیتوں کو اپنی قامت کھوتے دیر نہیں لگتی ہو، باوقار مکانوں کی عزت واحترام خطرے میں ہو، تو زندگی کی عمارت کی کرسی کو اونچا رکھنا بہت زیادہ ضروری ہوجاتا ہے۔
یاد رہے کہ انسانی زندگی کی وہ عمارتیں مقام امامت کی سزاوار نہیں ہیں جو بظاہر اونچی نظر آتی ہوں لیکن ان کی کرسی اتنی نیچی ہو کہ کبھی بھی گندے پانی کا ریلا اندر گھس آئے، اور سب کچھ گندا کرڈالے، جن کی نالیوں سے باہر کی گندگی اندر آتی ہو، اور جن کی زمین چاٹتی چوکھٹیں حشرات الارض کی گزرگاہ بنی ہوئی ہوں۔

اتحاد امت، سوچنے کے دو انداز

اتحاد امت، سوچنے کے دو انداز
محی الدین غازی
دوسری صدی ہجری کی بات ہے، مدینہ پاک میں امام مالک بڑے فقیہ مانے جاتے تھے، مکہ مکرمہ، عراق، شام اور مصر میں بھی بڑے بڑے فقہاء تھے، اس زمانے میں امام مالک نے موطا لکھی، جس میں شریعت کے مسائل کو ان کے دلائل کے ساتھ بیان کیا گیا۔
اس وقت سیاسی سطح پر عالم اسلام کا واحد حکمراں ابو جعفر منصور تھا، تاہم فقہی سطح پر مختلف علاقوں میں مختلف فقہاء کو امام اور مرجع کی حیثیت حاصل تھی۔
ایک بار ابو جعفر منصور کو خیال آیا کہ پوری امت کو ایک فقہی مسلک کے تحت متحد کردیا جائے، اس نے امام مالک کے سامنے یہ تجویز ان الفاظ میں رکھی: ’’میں نے فیصلہ کیا ہے کہ آپ نے جو موطا کتاب لکھی ہے، اس کی کئی کاپیاں تیار کرنے کا حکم دوں، پھر ہر شہر میں ایک کاپی بھیج دوں، اور پروانہ جاری کردوں کہ لوگ صرف اس پر عمل کریں، اور اس کو چھوڑ کر کسی اور رائے پر عمل نہ کریں۔ ابو جعفر نے اپنی تجویز کو مدلل بنانے کے لئے یہ بھی کہا کہ شریعت کے علم کا سب سے معتبر ذریعہ تو اہل مدینہ کی روایت اور ان کا علم ہے، اس لئے آپ کی کتاب کو پورے عالم اسلام کا واحد فقہی مرجع بننا چاہئے۔
ایک تنگ نظر اور دنیا پرست عالم کے لئے تو یہ بہت بڑی چیز ہوسکتی تھی، کہ اس کی کتاب کو عالم اسلام کی ساری کتابوں پر فوقیت اور ہیمنت حاصل ہوجائے، لیکن امام مالک علم کی قدر وقیمت کے امین تھے، وہ یہ کبھی نہیں گوارا کرسکتے تھے کہ اس طرح علم پر پہرے لگیں، اور علم وفکر کے مدرسوں پر فوج کشی ہو۔ امت کو متحد کرنے کا یہ جابرانہ طریقہ امام مالک کو پسند نہیں آیا۔
امام مالک نے کہا: ’’ایسا مت کریں، لوگوں کے پاس پہلے سے صحابہ کے اقوال پہونچے ہوئے ہیں، انہوں نے بھی حدیثیں سنی ہیں، اور انہوں نے بھی روایتیں اخذ کی ہیں، اور جس علاقے میں جو بات پہلے پہونچی وہ اس علاقے کے لوگوں نے اختیار کرلی، اور صحابہ کے یہاں جو مختلف رائیں موجود تھیں ان میں سے ہی بعض کو مختلف لوگوں نے اپنا مسلک بنالیا، اور اب جو راستہ انہوں نے یقین کے ساتھ بطور شریعت اختیار کرلیا ہے، اس سے ان کو پھیرنا بہت دشوار ہوگا، اس لئے ہر شہر کے لوگوں نے جو مسلک اپنے لئے چنا ہوا ہے اسی پر ان کو رہنے دیں‘‘
اس طرح امام مالک کی دوراندیشی، کشادہ ظرفی اور بصیرت ودانائی سے ایک بہت بڑا فتنہ ٹل گیا، ورنہ اتحاد امت کے نام پر خون کے نہ جانے کتنے دریا بہائے جاتے، اور جبر وتشدد کی نہ جانے کتنی شدید آندھیاں چلائی جاتیں، اور پھر بھی امت میں اتحاد نہیں ہوتا، بلکہ اختلافات کے پودوں کو جب خون کی سیرابی اور جبر وتشدد کی غذا مل جاتی تو ان کے تنے مضبوط، جڑیں گہری، اور پھل انہائی زہرناک ہوجاتے۔
امام مالک نے اخلاقی جرأت کے ساتھ یہ اعتراف کیا کہ جن رایوں کو انہوں نے اختیار نہیں کیا ہے، اور دوسروں نے اختیار کیا ہے، ان کی پشت پر بھی دلائل کی قوت موجود ہے۔ اس طرح انہوں نے اتحاد کا ایک شاندار اور اعلی تصور دیا کہ جب سب لوگ ایک دوسرے کی رائے کا احترام کریں گے، اور ایک دوسرے کے دلائل کی مضبوطی کو تسلیم کریں گے، تو اتحاد کی زیادہ روشن راہیں سامنے آئیں گی۔
اتحاد کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر مسئلے میں سب کی رائے ایک ہوجائے، ایسا اتحاد تو خوابوں کی دنیا میں بھی ممکن نہیں ہے۔ لیکن ایک دوسرے کی رائے کے احترام کی بنیاد پر ایک مضبوط اتحاد ضرور وجود میں آسکتا ہے۔
آج انتشار وافتراق کی بہت بڑی وجہ اتحاد کا غلط تصور ہے، ہر گروہ اتحاد کے لئے ضروری سمجھتا ہے کہ تمام گروہ ایک رائے پر جمع ہوجائیں، اور چونکہ ہر گروہ خود کو حق پر سمجھتا ہے ، اس لئے ہر گروہ اتحاد کے لئے یہ بھی ضروری سمجھتا ہے کہ دوسرے سارے گروہ اپنے موقف سے دست بردار ہوکر اس کے موقف کو اختیار کرلیں۔ اس طرح کے اتحاد پر اصرار کرنے سے فرقہ بندی کی جڑیں اور زیادہ گہری ہوجاتی ہیں، اور مسلکی اور گروہی عصبیتیں اور زیادہ بڑھ جاتی ہیں۔
اتحاد امت کا راستہ جبر وتکفیر سے نہیں بلکہ آزادی اور اعتراف واحترام سے ہوکر گذرتا ہے، یعنی سب لوگ اس حقیقت کو مانیں کہ ہر ایک کے موقف کی پشت پر دلائل کی کم وبیش قوت موجود ہے، سوچنے اور تحقیق کرنے کے راستے سب کے سامنے کھلے ہوئے ہیں، رائے اختیار کرنے اور رائے بدلنے کی آزادی ہر ایک کو حاصل ہے، اور بہتر رائے کی تلاش ایک مسلسل عمل ہے جو ہر انسان پر فرض ہے۔
اس امت پر امام مالک کا احسان ہے کہ انہوں نے بے نفسی اور بے غرضی کی بلند وبالا چوٹیوں کو سر کرکے اتحاد امت کا ایک اعلی تصور دیا۔

عام آدمیوں کا آدمی ہونا

عام آدمیوں کا آدمی ہونا
محی الدین غازی
دوسری صدی ہجری میں عظیم اسلامی شخصیات کی زبردست بہار آئی ہوئی تھی، وہ علم کے پہاڑوں اور حکمت کے دریاؤں کا زمانہ تھا، ایک سے بڑھ کر ایک بڑے آدمیوں کا دور دورہ تھا، ان بڑے لوگوں کے درمیان موازنہ ایک مشکل کام تھا، اور اس کے لئے جن اعلی معیاروں کا استعمال کیا گیا تھا ان میں ایک زبردست معیار ’’عام آدمیوں کا آدمی‘‘ (رجل عامۃ) ہونا بھی تھا، میں نے جب اس کسوٹی کے بارے میں پڑھا تو پہلے حیرت ہوئی اور پھر مسرت بڑھی۔
علی بن بکار کہتے ہیں، میں نے ابو اسحاق فزاری کو کہتے ہوئے سنا: میں نے اوزاعی اور ثوری جیسی عظیم شخصیتیں اور نہیں دیکھیں، البتہ اوزاعی ’’عام آدمیوں کے آدمی‘‘ تھے، اور ثوری خاص اپنی ذات کے آدمی تھے، اور اگر اس امت کے لئے مجھے انتخاب کا حق حاصل ہوتا تو میں اس (خلافت) کے لئے اوزاعی کو منتخب کرتا۔ علی بن بکار نے یہ سن کر دل میں کہا: اگر مجھے اس امت کے لئے انتخاب کا حق حاصل ہوتا تو میں اس کے لئے ابو اسحاق فزاری کو منتخب کرتا۔
علی بن بکار نے یہ بات کیوں کہی تھی، اس کا جواب ابراہیم بن سعید جوہری کی روایت میں ملتا ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو اسامہ سے پوچھا فضیل بن عیاض اور ابواسحاق فزاری میں کون افضل تھے؟ انہوں نے کہا: فضیل اپنی ذات کے تھے، جب کہ ابو اسحاق فزاری ’’عام آدمیوں کے آدمی‘‘ تھے۔ اسی دور کے اسحاق ازرق بیان دیتے ہیں کہ میں نے خالد طحان سے افضل کوئی نہیں پایا، پوچھا گیا کہ آپ نے تو سفیان کو بھی دیکھا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: سفیان اپنی ذات کے آدمی تھے اور خالد ’’عام آدمیوں کے آدمی‘‘ تھے۔
اوپر کے بیانوں میں جن لوگوں کو اپنی ذات کا آدمی کہا گیا ہے، وہ علم ودانائی اور تقوی وخدا ترسی میں اپنے زمانے کے کوہ ہمالہ تھے، لیکن لوگوں کا خیال تھا کہ وہ اپنی علمی وروحانی ترقی میں اس قدر مصروف رہتے ہیں، کہ عام آدمیوں پر توجہ نہیں دے پاتے۔ جب کہ کچھ دوسرے بزرگ علم وتقوی کی منزلیں طے کرتے ہوئے بھی عام آدمیوں کے لئے خیر اور بھلائی کا بہتا چشمہ ہوتے، اور اس لئے ان کو یک گونہ فضیلت حاصل ہوتی، وہ عام آدمیوں کی قیادت کے سچے اہل قرار پاتے، کیونکہ وہ ’’عام آدمیوں کے آدمی‘‘ ہوتے۔
امام اوزاعی ’’عام آدمیوں کے آدمی‘‘ کیسے تھے؟ اس پر بھی اس دور کے اکابر کی شہادتیں موجود ہیں، محمد بن عجلان نے کہا: امت کا ان سے زیادہ خیر خواہ میں نے نہیں پایا۔ عبداللہ بن مبارک نے کہا: وہ لوگوں کے ساتھ زیادہ نرمی والے تھے، ابو اسحاق فزاری نے کہا: اگر امت کو کوئی سخت حالت درپیش ہوتی تو میں سمجھتا ہوں کہ لوگ بھاگ کر اوزاعی کے پاس آتے۔
عرف عام میں عام آدمی وہ ہوتا ہے جو اپنے اندر چھپی ہوئی بے شمار صلاحیتوں کو سوتا چھوڑ دیتا ہے، وہ فیصلہ کی قوت اور ارادہ کی طاقت سے محروم رہتا ہے، علم وحکمت کی روشنی میں چلنے کے بجائے وہ دوسروں کے پیچھے چلتا ہے، تقلید اس کی ضرورت قرار پاتی ہے، اور اجتہاد کے لئے اسے نا اہل سمجھا جاتا ہے۔ عام آدمیوں کی یہ حالت اطمینان بخش نہیں ہے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ حکمراں طبقے کے ہزاروں سالہ جبر وقہر نے ان کو العوام کالانعام بنا رکھا ہے، اس صورت حال سے جلد باہر نکل آنا انسانی عظمت کا تقاضا ہے۔
’’عام آدمیوں کا آدمی‘‘ ہونا الگ بات ہے اور ’’عوام میں مقبول‘‘ ہونا الگ بات ہے۔ عام آدمیوں میں مقبول ہوجانا کوئی قابل رشک بات نہیں ہے۔ عوامی مقبولیت کے اسباب اکثر عامیانہ اور سوقیانہ ہوتے ہیں۔ عوام کی آنکھ کے تارے اکثر وہ لوگ ہوتے ہیں، جو ان کی زندگی اور ان کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے ہیں، بلکہ عوام ان کی نگاہ میں کیڑوں مکوڑوں کی طرح حقیر ہوتے ہیں، جو عوام کی پیٹھ پر سواری کرکے حکومت کے ایوانوں میں پہونچتے ہیں اور پھر ان کو بھول جاتے ہیں، جو عوام کے جذبات سے کھیل کر اپنی دکان چمکاتے ہیں، جو عوام کے اور اپنے درمیان احساس برتری اور معیار تعیش کے فاصلے رکھتے ہیں۔
اصل خوبی تو ’’عام آدمیوں کا آدمی‘‘ ہونا ہے۔ یہ وہ آدمی ہوتا ہے، جو اپنی صلاحیتوں اور قابلیتوں کو ترقی دے کر انسانوں کے لئے بہت مفید اور ان کے درمیان بہت خاص بن جاتا ہے، تاہم وہ خاص ہوکر بھی خاص لوگوں کے حصار میں قید نہیں ہوتا ہے، بلکہ اس کی ذات کا فیض خاص وعام سب کے لئے جاری رہتا ہے۔ وہ عام آدمی کی بہبود کے لئے زیادہ سوچتا ہے، اور عام آدمی کی پریشاں حالی کو اپنی پریشانی بنالیتا ہے۔ اپنے معیار تعیش کو وہ عام آدمیوں کے برابر کرلیتا ہے، اور عام آدمیوں کی سوچ اور کیرکٹر کو اپنی سطح کے قریب لانے کے جتن کرتا ہے۔ وہ پہلے خود کو شعور کی بلندی سے ہمکنار کرتا ہے، پھر عام آدمیوں کو اس بلندی تک پہونچانے کی مہم پر نکل جاتا ہے۔ وہ عام آدمیوں سے بلند رہنے کا شوق نہیں بلکہ عام آدمیوں کو اپنے ساتھ بلندی پر دیکھنے کا شوق رکھتا ہے۔ عام آدمی اس کی قدر کریں، یہ ضروری نہیں، مگر وہ عام آدمیوں کی قدر ضرور کرتا ہے، کیونکہ وہ ’’عام آدمیوں کا آدمی‘‘ ہوتا ہے۔
سارے انسانوں کی اصلاح کا سچا عزم لے کر اٹھنے والی تحریکوں کے لئے ’’عام آدمیوں کے آدمیوں‘‘ کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔

تعلیم یافتہ ہونے کا ایک تقاضا یہ بھی ہے

تعلیم یافتہ ہونے کا ایک تقاضا یہ بھی ہے
محی الدین غازی
۱۹ اکتوبر، میں بنارس سے حیدرآباد جارہا تھا، اسٹیشن سے گاڑی چھوٹنے کے کچھ دیر بعد ٹی ٹی آگیا، میرے قریب کچھ نوجوان تھے، جو حلئے سے ہی مزدور پیشہ اور ناخواندہ لگ رہے تھے، ان کے پاس جنرل کلاس کا ٹکٹ تھا، اور وہ سلیپر کلاس میں ریزرویشن چاہ رہے تھے، ٹی ٹی نے ان سے کہا کہ ہر ٹکٹ پر پانچ سو بیس روپے کی رسید کٹے گی اور ہر ٹکٹ پر دو سو روپے الگ سے دینا ہوں گے، تیس گھنٹے کا طویل سفر درپیش تھا، وہ سب راضی ہوگئے، ٹی ٹی نے دو ٹکٹوں پر ایک رسید کاٹی اور چودہ سو روپے لئے، مزید تین ٹکٹوں پر ایک رسید کاٹی اور اکیس سو روپے لئے اور پانچوں کو مختلف خالی برتھوں پر بیٹھ جانے کی اجازت دے کر چلاگیا۔
ناگپور اسٹیشن کے بعد ایک دوسرا ٹی ٹی آیا، اس نے ان سب سے ٹکٹ دکھانے کو کہا، انہوں نے اطمینان سے پانچوں ٹکٹ اور دونوں رسیدیں سامنے کردیں، اس پر ٹی ٹی نے کہا، کہ یہ تو صرف دو ٹکٹوں کی رسیدیں ہیں، اور ہر رسید پر صرف پانچ سو بیس روپے درج ہیں، باقی تین ٹکٹوں کی رسیدیں تو تمہارے پاس نہیں ہیں، اور اب تم کو تین رسیدوں کے پیسے ادا کرنا ہوں گے۔ ٹی ٹی کے لہجے میں سختی تھی، وہ بے چارے مزدور پریشان ہوگئے، وہ تو ہر ٹکٹ پر رسید کے پانچ سو بیس روپے اور مزید رشوت کے دو سو روپے بنارس والے ٹی ٹی کو دے چکے تھے، یہاں آکر انکشاف ہوا کہ اس بے رحم انسان نے ایک تو ان کی مجبوری کا فائدہ اٹھاکر ہر ایک سے دو سو روپے رشوت کے لئے اس کے علاوہ ان کے ان پڑھ ہونے کا فائدہ اٹھاکر پانچ کے بجائے صرف دو رسیدیں کاٹیں، اور باقی رقم ریلوے کے محکمے کو رسید کے ذریعہ دینے کے بجائے خود ہضم کرلی، اور ان غریبوں کو اگلے ٹی ٹی کے رحم وکرم پر چھوڑ کر الہ آباد اسٹیشن پر اتر گیا۔ میں نے اب تک ٹرین کے بہت سفر کئے اور رشوت خور ٹی ٹی بھی بہت دیکھے، لیکن رشوت لینے کے بعد بھی بے دردی سے اتنا بڑا دھوکہ دینے والا ٹی ٹی پہلی بار دیکھا۔
اب صورت حال یہ تھی کہ ناگپور والا ٹی ٹی ان سے کل پندرہ سو ساٹھ روپے مانگ رہا تھا، اور وہ حیرت اور بے چارگی کی تصویر بنے اس سے رحم کی بھیک مانگ رہے تھے۔ ان غریب مزدوروں کے لئے راہ چلتے یونہی پندرہ سو روپے دینا ایک بلائے ناگہانی سے کم نہ تھا، مجھ سے رہا نہیں گیا، جوش خطابت امنڈ آیا، اور میں نے ٹی ٹی کو پوری صورت حال بتائی، اور ان کی حالت کا خیال کرکے انہیں نظر انداز کردینے کی سفارش کیا کی ایک بھرپور تقریر کرڈالی، اس کے دل میں انسانیت اور رحم کا کچھ جذبہ تو ضرور تھا، تبھی تو اس نے تقریر بھی سنی اور یہ کہہ کران سے درگزر کردیا کہ آپ کے کہنے پر میں تو انہیں چھوڑ دیتا ہوں لیکن ہوسکتا ہے کہ راستے میں اور ٹی ٹی بھی ٹکٹ چیک کرنے آئیں۔ البتہ اس نے جاتے جاتے ایک ایسی بات کہی جس نے مجھے شرمندگی سے دوچار کردیا، اس نے کہا کہ آپ پڑھے لکھے ہیں اگر اسی وقت آپ نے ان کی رسیدیں دیکھ لی ہوتیں تو یہ نوبت نہیں آتی۔ وہ یہ کہہ کر آگے بڑھ گیا اور میں اپنی کوتاہی کو دیر تک محسوس کرتا رہا۔
مجھے پہلی بار شدت کے ساتھ یہ احساس ہوا کہ تعلیم یافتہ ہونے کا حق ادا کرنا ایک انسانی فریضہ ہے، اور اس کا ایک بہت ضروری تقاضا یہ ہے کہ اپنے آس پاس کے ناخواندہ لوگوں کا اسی طرح خیال رکھا جائے، جس طرح ایک مال دار شخص کو اپنے آس پاس کے غریبوں اور محتاجوں کا خیال رکھنا چاہئے۔ ایک تعلیم یافتہ شخص کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے آس پاس نگاہ رکھے کہ کوئی تعلیم یافتہ شخص کسی ان پڑھ شخص کا استحصال تو نہیں کررہا ہے۔ میرا مشاہدہ ہے کہ ایرپورٹ سے لے کر پولیس اسٹیشن اور ریلوے اسٹیشن تک ہر جگہ سرکاری کرپشن کا پہلا نشانہ ناخواندہ لوگ بنتے ہیں۔
پڑھے لکھے شخص کے قریب ہوتے ہوئے کسی ان پڑھ کو صرف اس کے ان پڑھ ہونے کی وجہ سے کسی مصیبت کا شکار ہونا پڑے تو یہ اس پڑھے لکھے شخص کے لئے بڑے عیب کی بات ہے۔

سماجی خدمت، جذبہ اور سمجھ داری دونوں ضروری

سماجی خدمت، جذبہ اور سمجھ داری دونوں ضروری
محی الدین غازی
میں اپنے دو بھائیوں کے ساتھ صبح کار سے نکلا، بڑے شہروں کی سڑکیں صبح سے ہی مصروف ہوجاتی ہیں، ایک جگہ سڑک پر بھیڑ نظر آئی، گاڑی روک کر دیکھا تو اسکول کے یونیفارم میں دو چھوٹی بچیاں زخمی حالت میں زمین پر پڑی چیخ رہی تھیں، عمر یہی سات آٹھ سال رہی ہوگی، ایک کا پاؤں گھٹنے کے اوپر سے ٹوٹ کر لٹک گیا تھا، اور دوسری کے سر میں گہرا زخم تھا۔ یہ دونوں بچیاں اسکول جاتے ہوئے سڑک کراس کررہی تھیں، اور ایک موٹر سائیکل سے ٹکراگئی تھیں، موٹر سائیکل سوار ایک ادھیڑ عمر شخص تھا جو اپنی بیوی اور بچے کے ساتھ تھا، اس کی بیوی کو بھی پیر میں کچھ چوٹ آئی تھی۔ بھیڑ اچھی خاصی تھی، مگر سب تماشائی تھے، دیکھا گیا ہے کہ ایسے موقعوں پر بھیڑ کا رجحان زخمیوں کی مدد کی طرف کم اور ٹکر مارنے والے کی مرمت کرنے کی طرف زیادہ ہوتا ہے۔
ہم نے بچیوں کو گود میں اٹھاکر کار میں ڈالا اور میرے دونوں بھائی انہیں لے کر ہاسپٹل کی طرف روانہ ہوئے۔ دو بچے اور تھے جن کو چوٹ نہیں آئی تھی، میں ان کے ساتھ بھاگا ہوا ان کے گھر گیا، گھر کیا تھا ایک خستہ حال چھوٹا سا کمرہ جس میں کئی خاندان رہ رہے تھے، معلوم ہوا دونوں بچیوں کی ماں بیوہ ہے، اس کے چھوٹے چھوٹے چھ بچے ہیں جو ایک سال پہلے باپ کے مرجانے کے بعد سے یتیمی کی زندگی جی رہے ہیں، ماں گھروں میں کام کرتی ہے اور بچے ایک رفاہی اسکول میں پڑھتے ہیں، بڑا بچہ بارہ سال کا ہے اور وہ بھی چند روز پہلے ایک بڑے حادثے کا شکار ہوکر زیر علاج ہے۔ غرض یہ کہ غربت اور بے چارگی کا وہ عالم کہ بیان کرنا مشکل ہے۔
موٹر سائیکل سوار شہر سے قریب ایک گاؤں کا تھا، اس سے ہم نے مطالبہ کیا کہ وہ ساتھ چلے اور بچیوں کے علاج کی اپنی اخلاقی ذمہ داری ادا کرے، وہ اس پر راضی ہوا کہ وہ اپنی بیوی کو جسے پاؤں میں چوٹ آئی تھی مگر اسپتال جانے کو تیار نہیں تھی، گاؤں پہونچاکر اور بچیوں کے علاج کے لئے رقم کا انتظام کرکے تھوڑی دیر میں آئے گا، اور اس دوران اس کا بچہ ہمارے ساتھ رہے گا۔
میں نے اس بچے کو اور زخمی بچیوں کے گھر والوں کو ساتھ لیا اور ہاسپٹل پہونچ گیا۔ بچے سے بات کرنے پر معلوم ہوا کہ اس کے باپ آٹو رکشا چلاتے ہیں، اور معاشی حالات اچھے نہیں ہیں۔ اس پر ہم نے طے کیا کہ اخراجات کا بوجھ اس پر نہیں ڈالیں گے، ہم نے لڑکے کے باپ کو فون کیا کہ وہ رقم کے انتظام کی فکر نہ کرے اور ہاسپٹل آکر اپنے بچے کو لے جائے۔ اس دوران ہاسپٹل میں قانونی کارروائی کے لئے پولیس آگئی اور موٹر سائیکل سوار کے بارے میں دریافت کرنے لگی، ہم نے سوچا اس غریب کے ساتھ پولیس والے زیادتی کریں گے اس لئے خاموشی کو اختیار کیا، پولیس کانسٹیبل نے زخمی بچیوں کے ساتھ بہت ہمدردی کا اظہار کیا اور اپنی جیب سے پانچ سو روپے نکال کر ان کی ماں کو دئے، اور ہاسپٹل والوں کو بھی رعایت کی تاکید کی، ہم سب اس کے جذبہ انسانیت سے بہت متاثر تھے۔
بچے کو ہم نے ہاسپٹل کی کینٹین میں اچھا سا ناشتہ کرایا، اور وہیں استقبالیہ کے پاس بٹھادیا۔
جس بچی کے پاؤں کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی، اسے آپریشن کے لئے ایڈمٹ کرلیا گا، صبح سے دوپہر تک ہم سب ہاسپٹل میں رہے اور تمام کارروائی مکمل ہوجانے کے بعد بچے کو ہاسپٹل میں بٹھاکرآرام کرنے گھر چلے آئے، دوبجے بچے کے باپ کا فون آیا کہ وہ ہاسپٹل پہونچ گیا ہے، ہم لوگ ہاسپٹل پہونچے، اور وہاں پہونچتے ہی ایک نئی صورتحال کا سامنا کیا، بچے کے باپ کے ساتھ تین غنڈے ٹائپ نوجوان تھے، ان سب نے ہمیں گھیر لیا اور کہا کہ ہمیں ہمارا بچہ نہیں ملا ہے، وہ ہاسپٹل میں نہیں ہے، اور اس کی ذمہ داری تمہارے اوپر ہے، ہمارے تو پاؤں تلے سے زمین کھسک گئی، ہم نے پورا ہاسپٹل چھان مارا لیکن اس کا کہیں پتہ نہیں تھا، اس وقت مجھے اپنی دو شدید غلطیوں کا فورا احساس ہوا، ایک تو یہ کہ ہمیں اس بچے کو اپنے پاس روکنا نہیں چاہئے تھا، اور دوسرے یہ کہ جب روک لیا تھا، تو اپنے ساتھ ہی رکھنا چاہئے تھا، تنہا ہاسپٹل میں چھوڑ کر نہیں جانا چاہئے تھا۔ پولیس کو معاملہ سے فوری طور پر اور پوری طرح باخبر نہیں کرنا بھی ایک بڑی غلطی قرار دی جاسکتی ہے، لیکن پولیس کی زیادتیوں کا عوام میں اتنا زیادہ چرچا ہے اور اس قدر ذہنوں میں اس کا خوف ہے کہ اس غلطی کے لئے وجہ جواز مل جاتا ہے۔
خیر اللہ کی نصرت اور مدد رہی کہ تقریبا دوگھنٹے کی شدید ذہنی اذیت کے بعد اس مصیبت سے نکلنے کی راہ مل گئی، اور وہ لوگ یہ کہہ کر چلے گئے کہ بچہ خود سے گھر پہونچ گیا ہوگا، اور کچھ دیر بعد اس کے گھر پہونچنے کی انہوں نے خبر بھی دے دی۔ تاہم قرائن صاف بتارہے تھے کہ یہ انہیں لوگوں کی سازش تھی، اور وہ اس طرح ہمیں تنگ کرنا چاہتے تھے، میں سوچ رہا تھا، کہ ہم نے بچے کے باپ کو ہاسپٹل کے اخراجات سے بچایا، پولیس کے چکر میں پھنسنے سے بچایا، اور اس سے پہلے حادثے کے وقت مشتعل بھیڑ کے عتاب سے بچایا، پھر اس نے ہمارے ساتھ ایسا کیوں کیا؟ ممکن ہے اسے ہمارے سلسلے میں کوئی غلط فہمی ہوگئی ہو، اور وہ ہمیں سبق سکھانا چاہتا ہو۔
تاہم واقعات سے بھرپور ایک پورا دن گزارنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہونچا کہ سماجی خدمت کے لئے سچا جذبہ درکار ہوتا ہے کہ اس کے بنا انسان خدمت سے جڑے خطرات مول نہیں لے سکتا، زبردست استقامت بھی ضروری ہوتی ہے کہ غیر متوقع رویے اور صدمے اس کے جذبہ خدمت کو سرد نہ کردیں، اور بہت زیادہ احتیاط اور سمجھ داری بھی مطلوب ہوتی ہے کہ انسانوں کی نفسیات اور حالات کی نزاکتیں مختلف اور بے شمار ہوتی ہیں، اور ان کو سمجھنے میں ذرا سی کوتاہی بڑی پریشانیوں کا باعث بنتی ہے۔ یہ پختہ شعور بھی ضروری ہے کہ انسانی سماج کا عام کیریکٹر کس قدر گر چکا ہے، اور اس گراوٹ کے باوجود انسانوں کے ساتھ نیکی کے سفر کو جاری رکھنا ہے، اور پھر اللہ سے تعلق اور استعانت تو سب سے پہلے اور سب سے زیادہ ضروری ہے کہ وہ انسانوں کی مدد کرنے والوں کو پسند کرتا ہے اور غیب سے ان کی مدد کرتا ہے، اور درحقیقت وہی کارساز ہے۔

بچوں کو غیبت کا زہر نہ پلائیں

بچوں کو غیبت کا زہر نہ پلائیں
محی الدین غازی
غیبت کرنا ایک بڑا گناہ، اور ہلاکت خیز برائی ہے، اس کی زہرناکیاں بہت زیادہ ہیں، یہاں صرف یہ بتانا ہے کہ جب بڑے لوگ بچوں کے سامنے بڑوں کی غیبت کرتے ہیں، تو غیبت کا زہر کس طرح بچوں کی رگوں میں سرایت کرجاتا ہے، اور پھر ان کی کتنی مسموم اٹھان ہوتی ہے۔
ایک خاتون کو اپنے سسرالی رشتے داروں کی پیٹھ پیچھے برائی کرنے کا خاص شوق تھا، ان کے گھر جب کوئی پڑوسن یا سہیلی یا میکے کا کوئی رشتے دار آتا تو وہ جی بھر کر اپنے سسرالی رشتے داروں کی غیبت کیا کرتی تھیں، ان کے بچے بھی غور سے ان کی غیبتوں کو سنا کرتے تھے، بچے ذرا بڑے ہوئے تو انہوں نے خود ان بچوں سے ان کے دادا دادی، چچاؤں چچیوں اور پھوپھیوں کی برائیاں اور خامیاں بیان کرنا شروع کردیا۔
بڑے ہوتے ہوتے لڑکوں کا ذہن یہ بنا کہ ان کے خاندان کے سب لوگ بہت خراب، ان کے بدخواہ اور ان کے والدین کی حق تلفی کرنے والے ہیں، پورے خاندان میں صرف ان کے امی ابو اچھے ہیں، باقی سب خراب ہیں۔ کچھ عرصے بعد ان کے دل سے ان کے امی ابو کا احترام بھی کم ہونے لگا، کیونکہ فطری طور پر یہ باور کرنا ممکن نہیں تھا کہ دادا دادی اور سارے چچا اور ساری پھوپھیاں تو خراب ہیں اور صرف ابو جان گندگی کے ڈھیر میں گلاب کا پاکیزہ پھول ہیں۔ احترام کا پورا محل کھنڈر بن جائے تو ایک سالم دیوار بھی بدنما ہی لگتی ہے۔ ماں نے خاندان کے تمام بزرگوں کی وقعت گرائی، لیکن ساتھ ہی باپ کی وقعت بھی مٹی میں مل گئی، وہ وقت بھی آیا جب ان بچوں نے اپنے باپ کی پگڑی اچھالی، اور ماں کے ساتھ بدکلامی کی۔
لڑکیوں کا ذہن یہ بنا کہ سسرال ایک ایسا گھر ہوتا ہے، جس میں شوہر کے سوا سب لوگ نہایت شرپسند اور قابل نفرت ہوتے ہیں، ان سے جس قدر دور رہا جائے اتنا بہتر ہے۔ انہوں نے پہلی ہی نظر میں ساس اور نندوں کو چڑیلوں کی صورت میں دیکھا، اور کبھی انہیں آزمانے کی زحمت بھی نہیں کی۔ یہ مبالغہ نہیں بلکہ عین مشاہدہ ہے، اور ایک خاتون کی نہیں، بہت سارے گھروں کی کہانی ہے۔
میں ایک ایسی خاتون سے بھی واقف ہوں جس نے اپنے بچوں کے سامنے اپنے سسرالی رشتے داروں کی ہی نہیں بلکہ اپنی سوکن کی بھی ہمیشہ تعریف کی، بچوں کے دل میں دادا دادی کا احترام ایک عقیدے کی طرح بٹھایا۔ کبھی بچوں نے کسی پھوپھی یا چچی کی شکایت کرنے کی جرأت کی تو اس کو سختی سے ٹوک دیا، انجام کار خاندان کے سارے بزرگوں کا احترام کرنے والے بچے اپنے والدین کے احترام میں بھی پیش پیش رہے۔ بزرگوں کے احترام کے عالیشان مینار وقت کے ساتھ اور بلند ہوتے چلے گئے۔
جن بچوں کی تربیت غیبت کے سائے میں ہوتی ہے وہ زہریلے پودے کی طرح ہوجاتے ہیں، پھر ان سے کسی خیر کی امید رکھنا مشکل ہوتا ہے، ان کی نظر میں ہر شخص نہایت برا، خود غرض اور قابل نفرت ہوتا ہے۔ جبکہ انہیں بچوں کے معصوم ذہن کو اگر غیبت کے زہر سے بچائیں اور ان کے دلوں میں رشتے داروں کے لئے احترام اور محبت کو پروان چڑھائیں اوران کے سامنے دل کھول کر ان کے بڑوں کی خوبیوں کو بیان کریں تو وہ پورے خاندان کے لئے ایک سایہ دار درخت بن جاتے ہیں جس کے پھول بہت خوشبودار اور پھل نہایت شیریں ہوتے ہیں۔
غیبت کی زہرناکیوں نے اسلامی تحریک کو بھی بہت نقصان پہونچایا ہے، ایسے تحریکی بزرگوں سے میں واقف ہوں جن کی نجی مجلسوں اور گفتگووں میں بہت سارے رفقائے تحریک کی جم کر غیبت ہوا کرتی تھی، کسی کے کردار پر ضرب لگائی جاتی تھی تو کسی کی نیت پر حملہ کیا جاتا تھا، کسی کے معیار کو پست بتایا جاتا تھا تو کسی کے افکار میں کیڑے نکالے جاتے تھے، یہ غیبتیں ان کے بچے بھی غور سے سنا کرتے تھے، آخر بچوں کا ذہن یہ بنا کہ اسلامی تحریک میں نیچے سے اوپر تک سب لوگ بدعنوان اور مفاد پرست ہیں، تحریک اپنے راستے سے ہٹ گئی ہے اور منزل کو بھول گئی ہے، صرف ہمارے ابوجان اور ان کے دوچار دوست ہیں جو تحریک کے مخلص اور اس کے نصب العین کے امین ہیں۔ ہمارے ابوجان نے تحریک کے لئے بڑی قربانیاں دیں، لیکن لوگوں نے ذرا قدر نہیں کی۔ غرض یہ کہ تحریک کے گہوارے میں ایسی نسل تیار ہوئی جو تحریک کی قیادت کو مفاد پرست اور تحریکی کیڈر کو غیر مخلص سمجھتی تھی، اس کے خیال میں اس کے ابو نرے احمق تھے جو ایسے غلط لوگوں کے درمیان پھنس گئے تھے۔ چنانچہ نئی نسل نے خود کو اس ’’حماقت‘‘ سے دور رکھا۔
غیبت کا شوق فرمانے والے اگر ذرا سا غور کرلیں کہ ان کی غیبت کی وجہ سے ان کے بچوں کی شخصیت میں کس قدر ٹوٹ پھوٹ ہوتی ہے، تو شاید اپنے بچوں کے اچھے مستقبل اور خوبصورت شخصیت کی خاطر ہی اس برائی سے خود کو پاک کرلیں۔

دل اپنا کام کرے، دماغ اپنا کام کرے

دل اپنا کام کرے، دماغ اپنا کام کرے
محی الدین غازی
دل کا کام محبت کرنا ہے، اور دماغ کا کام غوروفکر کرنا ہے، صحتمند انسان کے دل اور دماغ دونوں زندہ اور توانا ہوتے ہیں، اور دونوں اپنا اپنا کام خوبی کے ساتھ انجام دیتے ہیں۔
زندہ اور توانا دل محبت کرتا ہے، اس سے بھی جس کی رائے سے اتفاق ہوتا ہے، اور اس سے بھی جس کی رائے سے اختلاف ہوتا ہے، اس سے بھی جو اس کی رائے کو درست سمجھتا ہے، اور اس سے بھی جو اس کی رائے کو غلط قرار دیتا ہے۔ سمجھ دار دل رائے کے اتفاق واختلاف کو دماغ کے حوالے کردیا کرتا ہے، اور خود محبت کے عمل میں مصروف رہتا ہے۔
زندہ اور توانا دماغ غوروفکر کرتا ہے، غوروفکر کرتے ہوئے وہ اتفاق بھی کرتا ہے اور اختلاف بھی کرتا ہے، تائید بھی کرتا ہے اور تنقید بھی کرتا ہے، اور اس سارے عمل میں وہ اپنوں اور غیروں کی تفریق کو روا نہیں رکھتا ہے، وہ صحیح اور غلط تک پہونچنے کے لئے دلائل کا لحاظ کرتا ہے، نہ کہ کسی فرد یا گروپ کا۔
دماغ کی عظمت تنوع اور نیرنگی میں پنہاں ہوتی ہے، ایک صاحب دماغ جو دماغ کی قدروقیمت سے واقف ہو کبھی یہ خواہش نہیں کرسکتا کہ سوچ کی جن راہوں سے وہ گزرا ہے اور جس منزل تک وہ پہونچا ہے، سب لوگ وہیں سے گزریں اور وہیں تک پہونچیں، کیونکہ اگر تمام دماغ ایک دماغ کے تابع یا مطابق ہوجائیں، تو اتنے سارے دماغوں کی افادیت پر سوال کھڑا ہوجاتا ہے۔ اس لئے یہ خواہش تو معقول اور فطری ہے کہ جو میں نے سوچا ہے وہ دوسرے سمجھ لیں، لیکن یہ خواہش بچکانہ ہے کہ جو میں سوچتا ہوں وہی دوسرے بھی سوچیں۔
اجتماعیت ایک بابرکت چیز ہے، لیکن وہ اجتماعیت جس میں تمام افراد کے دل ودماغ اپنا اپنا کام خوبی کے ساتھ انجام دیتے رہیں، دماغ غور وفکر کرتے رہیں، اور دل محبت کرتے رہیں۔
ایک اجتماعیت میں جب سارے دماغ اختلاف واتفاق کی پرواہ کئے بنا پوری آزادی کے ساتھ سوچتے ہیں، تو ترقی کی راہیں کشادہ ہوتی ہیں، اور فتوحات کا سلسلہ دراز ہوتا ہے، اور جب دماغ خود سوچنا بند کرکے دوسروں پر تکیہ کرنے لگتے ہیں، تو جمود طاری ہوجاتا ہے، اور پھر ترقی کی راہیں بند ہوجاتی ہیں اور فتوحات کا سلسلہ رک جاتا ہے۔
ایک اجتماعیت میں جب سارے دل محبتوں کے موتی لٹاتے ہیں، اور چاہتوں کی خوشبو بکھیرتے ہیں، تو رایوں کے بہت زیادہ اختلاف کے باوجود اجتماعیت سیسہ پلائی ہوئی مضبوط دیوار بنی رہتی ہے۔ لیکن جب دل بیمار ہوکر محبت کرنا بند کردیتے ہیں، تو فتنے سر اٹھاتے ہیں، گروپ بندیاں ہوتی ہیں، اور ماحول اس قدر زہر آلود ہوجاتا ہے کہ پھر دماغوں کا غوروفکر بھی اجتماعیت پر گراں گزرتا ہے۔
غوروفکر کرنا دماغ کا کام ہے، مگر ہے محنت طلب، اور محبت کرنا دل کا کام ہے، مگر ہے مشقت سے بھرپور۔ اس لئے ناتواں دماغ غوروفکر سے بھاگتا ہے، اور داخلی انتشار کے اندیشے کوغوروفکر سے فرار کا بہانہ بنالیتا ہے۔ بیمار دل بھی محبت سے کتراتا ہے، اور رائے کے معمولی اختلاف کو محبت سے فرار کا بہانہ بنالیتا ہے، دماغوں کے اختلاف کے باوجود اگر دل محبت کرتے رہیں، تو سمجھ لیں کہ دل زندہ اور توانا ہیں۔
میں نے پروفیسر نجات اللہ صدیقی کی کتاب ’’مقاصد شریعت‘‘ پر تنقید لکھی، اور کہیں کہیں حد ادب سے تجاوز بھی کرگیا، میں نے ڈاکٹر وسیم احمد فلاحی کی تحریروں پر تنقید کی اور کہیں کہیں معروضیت کے تقاضے پورے نہیں کرسکا، تاہم ان دونوں نے میری تنقید کے بعد اپنی محبتوں میں اور اضافہ کردیا، ان دونوں خوش گوار تجربات سے میں نے جانا کہ شدید اختلاف رائے کے باوجود بہت زیادہ محبت کی جاسکتی ہے، صرف دل کا صحت مند ہونا شرط ہے۔
بسا اوقات اجتماعیت کو داخلی انتشار سے بچانے کے لئے اختلاف رائے کی آزادی اور غوروفکر کے مواقع کو محدود کردیا جاتا ہے، یہ رجحان تعلیمی اداروں اور اصلاحی تحریکوں میں بھی دیکھا جاتا ہے، یہ دراصل مرض کی غلط تشخیص اور مریض کا غلط علاج ہے، داخلی انتشار دماغوں کی فعالیت سے نہیں بلکہ دلوں کے بیمار ہوجانے سے پھیلتا ہے، اس لئے دماغوں پر قدغن لگانے کے بجائے دلوں کے علاج پر فوری توجہ دینا چاہئے۔ دماغوں پر پابندی لگانے سے انتشار تو ختم نہیں ہوتا ہے، البتہ جمود ضرور طاری ہوجاتا ہے۔
کسی دانا حکیم کا قول ہے ’’ دلوں میں فرق آجانا بیماری ہے، اور دماغوں میں فرق ہونا مالداری ہے‘‘ (اختلاف القلوب داء واختلاف العقول ثراء)۔ دینی گھرانوں، دینی جماعتوں اور دینی اداروں کے لئے زیبا یہی ہے کہ جو بیماری ہے اس کے علاج کی فکر کریں، اورجو مالداری ہے اسے حاصل کرنے کی کوشش کریں۔

آپ ڈائس پر کیوں بیٹھیں؟

آپ ڈائس پر کیوں بیٹھیں؟
محی الدین غازی
ڈائس کی مروجہ شکل دراصل "اونچ نیچ تہذیب" کی یادگار ہے، یہ اس سوچ کا اظہار ہے کہ پنڈال میں موجود کچھ لوگ باقی سب لوگوں سے زیادہ احترام کے مستحق ہیں، چنانچہ ان کو با ادب اور با لقب ڈائس پر بیٹھنے کی دعوت دی جاتی ہے۔ مقرر بھی اپنی تقریر کے آغاز میں ڈائس پر بیٹھے لوگوں کا نام لے کر ان کی عظمت وفوقیت کا اعلان کرتا ہے۔
ڈائس پر بیٹھے ہوئے لوگ عام طور سے خود کو تقریر کا مخاطب نہیں سمجھتے ہیں، اسی لئے مقرر اور لاوڈ اسپیکر دونوں کا رخ ان کی طرف نہیں ہوتا ہے، بلکہ صرف سامعین کی طرف ہوتا ہے، ڈائس کے لوگ تو تمام وقت سامعین سے آنکھیں چرانے یا آنکھیں چار کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں، جب وہ اس کام سے اکتا جاتے ہیں، تو آپس میں کھسر پسر شروع کردیتے ہیں، دیکھا دیکھی سامعین بھی آپس میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ڈائس پر تشریف فرما کسی صاحب کو نیند آجاتی ہے، اور ان کی بند آنکھیں اور کھلا ہوا منھ سامعین کو پیغام دیتا ہے کہ وہ بھی نیند کی آغوش میں پناہ لے سکتے ہیں۔
ڈائس پر بیٹھے ہوئے لوگ چونکہ بہت اہم اور مصروف قسم کی مخلوق ہوتے ہیں، اس لئے موبائل فون کی مصروفیت بھی ساتھ رکھتے ہیں، ان کے پاس فائلیں بھی آتی رہتی ہیں، جن پر وہ دستخط فرمایا کرتے ہیں، بعض مطالعہ کے شوقین وقت گزاری کے لئے ڈائس پر کتابیں بھی لے کر آتے ہیں، اور مطالعہ کرتے ہوئے تقریر سے اپنی بے نیازی کا اظہار فرماتے ہیں، ایسا بھی ہوتا ہے کہ مقرر کی کسی بات سے اختلاف ہونے پر ناگواری کا ایک گہرا تاثر ڈائس پر بیٹھے کسی صاحب کے چہرے پر آتا ہے اور تمام سامعین میں پھیل جاتا ہے۔ غرض کافی غور وخوض کے بعد میں اس نتیجے پر پہونچا ہوں کہ ڈائس پر بیٹھے ہوئے لوگ مقرر اور سامعین کو ڈسٹرب کرنے کے سوا کچھ نہیں کرتے ہیں۔
ڈائس پر پانی کی بوتلیں رہتی ہیں اور چائے بسکٹ کا دور بھی گاہے بہ گاہے چلتا رہتا ہے، سامعین کی للچاتی نگاہوں اور پیاسے ہونٹوں سے بے پرواہ ہوکر ڈائس والے تھوڑی تھوڑی دیر میں چسکی بھی لیتے رہتے ہیں، یہ مزے دیکھ کر اگر کسی شخص کے دل میں ڈائس پر بیٹھنے کی خواہش پیدا ہوجائے تو وہ سراسر فطری خواہش قرار پائے گی، لیکن اس کا اختیار صرف منتظمین جلسہ کو ہوتا ہے کہ وہ کس کی خواہش کو تکمیل کا موقعہ دیں۔
ڈائس پر بیٹھ کر خود نمائی کے شوق کو کافی غذا ملتی ہے، ڈائس پر نہیں بیٹھ پانے اور وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں کو مسلسل دیکھنے سے دل میں حسرت اور حسد کے جذبات پنپتے کا اندیشہ رہتا ہے۔ چونکہ ڈائس کتنا ہی بڑا ہو، جلسہ گاہ کے برابر نہیں ہوسکتا، اس لئے بہت سارے "قائدین" ناراض بھی ہوجاتے ہیں، کہ پنڈال میں سامعین کے درمیان بٹھاکر ان کی تذلیل کی گئی۔ اس کے لئے بڑے سے بڑا ڈائس بنانے کا تکلف کیا جاتا ہے، حالانکہ اگر ڈائس پر کسی کو نہیں بٹھایا جائے، تو کسی کو ناراضگی نہ ہو، اور بڑے ڈائس پر ہونے والی فضول خرچی سے بھی بچا جاسکے۔
اسلامی تہذیب میں لوگوں کے نفس کو متورم کرنے والے مواقع کی گنجائش نہیں ہوتی ہے، ہر ہر قدم پر خاص اور عام کا فرق جتاکر انسانی قدروں کو پامال نہیں کیا جاتا ہے، اسلامی تہذیب میں ڈائس کی شکل میں خواص کی نمائش نہیں ہوتی ہے، سادہ سا منبر ہوتا ہے، جمعہ کا خطبہ ایک فرد منبر پر کھڑے ہوکر دیتا ہے، اور باقی تمام صرف سامعین ہوتے ہیں، ان میں عام اور خاص کی تقسیم نہیں ہوتی ہے، جو پہلے پہونچتا ہے وہ پہلی صف کا حقدار ہوتا ہے، سب کی توجہ خطیب کی طرف ہوتی ہے، اور خطیب کی توجہ سب کی طرف ہوتی ہے۔ اس طریقے میں کوئی عیب نہیں ہے، اور یہ طریقہ اعلی انسانی اقدار کے مطابق ہے، یاد رہے کہ جدید تمدن نے بھی عام طور سے "ڈائس برائے مقرر" کے اصول کو اپنایا ہوا ہے۔
اس لئے ڈائس پر بیٹھے تمام معزز حضرات سے گذارش ہے کہ سامعین کے درمیان تشریف لائیں، سامعین آپ کا تہ دل سے استقبال کرتے ہیں۔ یا پھر وجہ بتائیں کہ آپ ڈائس پر کیوں بیٹھیں؟؟

رکوع، عبادت کا ایک اعلی مقام

رکوع، عبادت کا ایک اعلی مقام
محی الدین غازی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "رکوع میں رب کی تعظیم کرو" آپ نے رکوع میں ہم کو سبحان ربی العظیم پڑھنے کی تعلیم دی، جس کا مطلب ہے کہ "میرا رب عظیم ہے، اور میں اپنے عظیم رب کی پاکی اور عظمت کے گن گاتا ہوں" یہ ذکر رکوع کے دوران بندے کے دل کی کیفیت کو اس کے جسم کی کیفیت کے مطابق کردیتا ہے۔ اس مختصر مگر عظیم الشان ذکر کے تین اجزاء ہیں، اور تینوں بہت معنی خیز اور ایمان افروز ہیں، ان پر جتنا زیادہ غور کریں، رکوع کی لذت میں اضافہ ہوتا ہے۔
(ربی) "میرا رب"، کتنا پیارا ہے یہ لفظ، اور کتنا دل افروز ہے اس کا مفہوم، میں خوش نصیب ہوں کہ میں نے اپنے رب کو پالیا، اگر میں اپنے رب کو نہیں پاتا تو نہ جانے کہاں کہاں اور کس کس کے در پر سر کو جھکاتا رہتا، میری روح کو اپنے رب کے سامنے نہ جھک پانے کی محرومی بھی ستاتی، اور دوسروں کے سامنے جھکنے کی اذیت اور رسوائی بھی ساتھ لگی رہتی۔
(العظیم) میرا رب عظیم ہے، اور میں خوش قسمت ہوں کہ ایک عظیم ہستی کے سامنے جھکنے کا موقعہ اور توفیق ملی، اس کے آگے جھک جانے سے میرے پورے وجود کی عظمت بڑھ گئی، دنیا میں بہت سارے لوگ جھکتے ہیں، لیکن وہ عظیم ہستی کے سامنے نہیں جھکتے ہیں، وہ ان کے سامنے جھکتے ہیں جن کو خود اپنے رب کے سامنے جھکنا چاہئے، عظمت سے خالی ہستیوں اور نقص سے بھرپور چیزوں کے سامنے جھک جانا تو خود کو ذلیل کرنا ہے، جبکہ وہ ہستی جو محسن حقیقی ہے اور عظیم وباکمال ہے، اس کے آگے جھک جانا خود کو سربلند کرلینا ہے۔
رب عظیم کی عظمت کا اعتراف کرنے یا نہیں کرنے سے رب کی عظمت پر فرق نہیں پڑتا، وہ تو غنی اور حمید ہے، لیکن عظمت کا اعتراف کرلینے سے بندے کو اپنا حقیقی مقام ضرور حاصل ہوجاتا ہے، کیونکہ بندے کا اصل مقام رب کی عظمت کا اعتراف ہے، اس سے اونچے مقام کا کوئی بندہ تصور نہیں کرسکتا، اور یہ ایک بندے کے لئے بہت اونچا مقام ہے۔
(سبحان) میں پاکی اور عظمت کے گن گارہا ہوں، تسبیح بہت بامعنی لفظ ہے، یہ شکر بھی ہے، تعظیم بھی ہے، اور تقدیس بھی ہے۔ بندہ خوش نصیب ہوجاتا ہے جب اسے کائنات کا سب سے عظیم الشان نغمہ گانے کا موقعہ ملتا ہے۔ اسے اپنے عظیم رب کے سامنے جھک کر یہ کہنے کا موقعہ مل جاتا ہے کہ میرا رب میرا محسن ومنعم ہے، وہ ہر عیب سے پاک ہے اور ہر کمال سے متصف ہے۔
بندوں پرعظیم رب کے بہت زیادہ احسانات ہیں، اتنے احسانات ہیں کہ بندہ شمار نہیں کرسکتا، اور ہر بندہ اتنا بے بساط ہے کہ ان احسانات کا محض شکر ادا کرسکتا ہے، اور اس کے لئے بھی اللہ کی دی ہوئی توفیق کا محتاج ہوتا ہے، بندے کے اندر شکر گزاری کی ایک پیاس ہوتی ہے، اور جب بندہ رکوع میں جاکر اپنے عظیم رب کی تسبیح کرتا ہے تو اس کی روح کو بلا کی آسودگی نصیب ہوتی ہے۔ جن کو شکر کی توفیق نہیں ملتی ان کی روح ہمیشہ پیاس سے تڑپتی ہے۔
بندہ اس وسیع کائنات کی ہر شئے میں اپنے رب کی کاریگری دیکھتا ہے، ہر طرف اس کی صناعی کے جلوے نظر آتے ہیں، وہ اس کی صناعی کی داد دینا چاہتا ہے، اور اپنے رب کے سامنے رکوع کرکے وہ اپنے اس جذبے کی تکمیل کرلیتا ہے۔ رکوع کی حالت میں بندے کی نظر سامنے زمین پر ہوتی ہے، مگر بندے کا خیال اللہ کی عظمت کی گواہی دینے والی پوری کائنات کی سیر کررہا ہوتا ہے، اس کے سامنے کائنات میں بکھری ہوئی رب کی روشن نشانیاں بھی ہوتی ہیں اور ہر طرف کارفرما اس کی اعلی صفات بھی ہوتی ہیں۔
رکوع کی حالت میں بندے کے قدم زمین پر ایک جگہ جمے ہوتے ہیں، لیکن اس کی روح ان گنت قدوسیوں کے ساتھ بہت اعلی مقامات کی جانب پرواز کررہی ہوتی ہے، وہ مقامات جو ادراک کی حد سے پرے ہیں۔ فَالَّذِينَ عِنْدَ رَبِّكَ يُسَبِّحُونَ لَهُ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَهُمْ لَا يَسْأَمُونَ [فصلت:38]۔ " تو وه جو تمہارے رب کے پاس ہیں وه تو رات دن اس کی تسبیح بیان کر رہے ہیں اور کبھی نہیں اکتاتے"۔
رکوع کی حالت میں رب کے سامنے صرف سر نہیں جھکتا ہے، بلکہ پورا وجود جھک جاتا ہے، اور اس طرح صرف سربلند نہیں ہوتا بلکہ پورا وجود سربلند ہوجاتا ہے۔ اور پھر وہ کسی اور کے آگے نہیں جھکتا، کیونکہ پھر بندہ اس یقین سے سرشار ہوجاتا ہے کہ میرے رب کے سوا نہ کوئی میرا رب ہے، نہ کوئی العظیم ہے، اور نہ کوئی تسبیح کے لائق ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں کبھی یہ ذکر بھی پڑھتے تھے: اللهمَّ لكَ رَكَعْتُ، وَبِكَ آمَنْتُ، ولَكَ أسْلَمْتُ، خَشَعَ لَكَ سَمْعِي وَبَصَرِي ومُخِّي وَعَظْمِي وَعَصبِي۔ "اے اللہ میں نے تیرے سامنے رکوع کیا، تیرے اوپر ایمان لایا، خود کو تیرے حوالے کیا، میری سماعت، میری بصارت، میرا دماغ میری ہڈیاں اور میری رگیں، سب تیرے سامنے جھک گئے" یہ ایمان افروز الفاظ رکوع کی حقیقی روح کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔
بندہ اپنے رب کے سامنے جب رکوع کی حالت میں ہوتا ہے، تو اسے بڑی آسودگی حاصل ہوتی ہے، گو کہ وہ اپنے رب کو دیکھ نہیں پاتا ہے، لیکن اس کے یقین کی آنکھیں دیکھتی ہیں کہ اس کا رب اسے دیکھ رہا ہے، اور اس کے اطمینان کے لئے یہ احساس کافی ہوتا ہے، کہ اس کے رب نے اسے اپنے سامنے رکوع کرتے ہوئے دیکھا ہے، اس احساس میں بے پناہ لذت ہوتی ہے۔
جن سعید بندوں کو رکوع کی حقیقی لذت حاصل ہوجاتی ہے، ان کے رکوع بڑے اہتمام سے اور خوب طویل ہوتے ہیں، اور ان طویل رکوعوں میں سبحان ربی العظیم کی تکرار کرتے ہوئے جسم کی حالت، زبان کی حرکت اور دل کی کیفیت تینوں سے رب عظیم کی تعظیم کا اظہار ہوتا ہے۔

"سب رائیں اچھی ہیں"

"سب رائیں اچھی ہیں"
محی الدین غازی
ہم مسلمانوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ تو نہیں پایا ہے، تاہم جذبہ اور خواہش یہی ہے کہ ہماری ہر عبادت اللہ کے رسول کی سنت کے مطابق ہو، ہمارا یہ یقین بھی ہے کہ عبادت وہی قابل قبول ہوگی جو اللہ کے رسول کے سکھائے ہوئے طریقہ کے مطابق ہو۔ ہم نے چونکہ عہد رسالت اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا اس لئے ہم کسی طریقہ کو سنت ماننے کے لئے ایسے دلائل تلاش کرتے ہیں جن کی بنیاد پر کسی عمل کو سنت مانا جاسکے۔
تراویح کتنی رکعت پڑھی جائے اس سلسلے میں دو سے زیادہ رائے ہیں، تاہم حالیہ زمانے میں دو رائیں زیادہ مشہور ہیں، ایک رائے آٹھ رکعت کی ہے، اور دوسری رائے بیس رکعت کی ہے، دونوں کے ماننے والے دلائل بھی رکھتے ہیں، میں نے جب دونوں کے دلائل کا مطالعہ کیا، تو اس نتیجہ پر پہونچا کہ دونوں کے دلائل بہت مضبوط ہیں، اور کسی عمل کو سنت مان لینے کے لئے جن دلائل کی ضرورت ہوتی ہے وہ دونوں کے پاس ہیں، بیس رکعت کا سنت ہونا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمر کے زمانے میں مسجد نبوی میں انصار ومہاجرین کی موجودگی میں جماعت کے ساتھ بیس رکعت تراویح پڑھی گئی اور کسی نے اعتراض نہیں کیا، اگر یہ عمل سنت سے مختلف ہوتا تو کوئی تو اعتراض کرتا۔ آٹھ رکعت کا سنت ہونا اس سے ثابت ہے کہ روایتوں کے مطابق اللہ کے رسول کا قیام لیل آٹھ رکعت کا ہوا کرتا تھا۔
تمام روایات کو دیکھتے ہوئے اس بات پر اطمینان ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول قیام لیل میں خود آٹھ رکعت پڑھتے تھے، اور آپ نے صحابہ کو بیس رکعت پڑھنے کی بھی تعلیم دی تھی، چنانچہ کچھ صحابہ آٹھ پڑھتے تھے، اور کچھ صحابہ بیس پڑھتے تھے۔ اور صحابہ کے نزدیک دونوں عمل سنت کا درجہ رکھتے تھے۔
صحابہ کے زمانے میں اصل توجہ اس پر ہوتی تھی کہ ماہ رمضان کی راتوں کا زیادہ حصہ نماز پڑھتے ہوئے گزارا جائے۔ نماز میں طویل قیام کرنے والے آٹھ رکعت پڑھتے تھے، مختصر قیام کرنے والے بیس رکعت پڑھتے تھے، مزید مختصر قیام کرنے والے چھتیس رکعت بھی پڑھ لیتے تھے، سب کا ہدف ایک ہوتا تھا، کہ رات کا بڑا حصہ عبادت میں گزرے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ آٹھ رکعت پڑھنے والے ہوں یا بیس رکعت پڑھنے والے، تھوڑے سے وقت میں سب لوگ فارغ ہوجاتے ہیں، اور پھر اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ قیام لیل کا حق ادا ہوگیا۔ تعداد کے مسئلے سے آگے بڑھ کر قیام لیل کی اس روح کو عام کرنے کی ذمہ داری ان تمام لوگوں پر عائد ہوتی ہے جو نبی کی سنت کو عام کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔
تراویح کے سلسلے میں مطالعہ کرتے ہوئے علامہ ابن تیمیہ کا ایک جملہ میری نظر سے گزرا، اور میں نے نگینہ حکمت سمجھ کر اسے اپنے دل میں محفوظ کرلیا۔ علامہ نے تراویح کے سلسلے میں تین رایوں کا ذکر کرنے کے بعد کہا: الصَّوَابُ أَنَّ ذَلِكَ جَمِيعَهُ حَسَنٌ (صحیح بات یہ ہے کہ یہ سب رائیں اچھی ہیں) میں سمجھتا ہوں کہ علامہ ابن تیمیہ کا یہ جملہ اتحاد امت کی تدبیری کوششوں کے لئے نقش راہ بن سکتا ہے، بہت سارے اختلافی مسائل ایسے ہیں جن میں ہر رائے کے حق میں مضبوط دلائل ہوتے ہیں، لیکن بعض لوگوں کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اپنی رائے کے دلائل کو مضبوط اور دیگر تمام رایوں کے دلائل کو کمزور ثابت کریں، اس سے کسی ایک رائے پر اتفاق تو دور کی بات ہے، آپس کے اختلافات زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ سنت پر عمل کرنے کا جذبہ بلاشبہ لائق ستائش ہے، لیکن یہ ثابت کرنے کا جذبہ قابل تعریف نہیں ہے کہ سنت پر عمل پیرا صرف میں ہوں باقی سب سنت سے دور ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگر کچھ مسائل میں تمام رایوں کے ماننے والے اپنے دلائل کے ساتھ دوسروں کے دلائل کی مضبوطی کا بهی اعتراف کرلیں، اور سب مل کر کہیں کہ "سب رائیں اچھی ہیں" تو اتحاد واتفاق کی ایک اچھی فضا تیار ہوسکتی ہے۔
ظاہر ہے کہ "سب رائیں اچھی ہیں" کہنا ہر مسئلے میں ممکن نہیں ہے، بعض مسائل ایسے ہوتے ہیں جن میں رایوں میں تعارض ہوتا ہے اور کوئی ایک ہی رائے درست ہوسکتی ہے، لیکن ایسے بہت سارے مسائل پائے جاتے ہیں جن میں آسانی کے ساتھ ساری رایوں کو درست کہا جاسکتا ہے، اس کی مثال تراویح کا معاملہ ہے، کہ آٹھ پڑھنے اور بیس پڑھنے میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہے، بڑی آسانی سے ایک ہی مسجد میں کچھ لوگ آٹھ اور کچھ لوگ بیس رکعت پڑھ سکتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کے عمل کو سنت کے مطابق سمجھ سکتے ہیں، اور دونوں ایک دوسرے کی نمازوں کا احترام کرسکتے ہیں، صرف نقطہ نظر کو تبدیل کرنے اور دلوں کو کشادہ کرنے کی ضرورت ہے۔
امت میں اتحاد واتفاق کی فضا ہموار کرنے کی ایک تدبیری کوشش یہ ہوسکتی ہے کہ ایسے تمام مسائل کو جمع کیا جائے جن میں ہر رائے کی پشت پر مضبوط دلائل ہوں، اور ان رایوں میں باہم تعارض بھی نہ ہو، اور ہر سال کم از کم کسی ایک مسئلے کے سلسلے میں سب مل کر اعلان کریں کہ اس مسئلے میں "سب رائیں اچھی ہیں"۔ بلاشبہ اتحاد امت کی اس تدبیری کوشش میں علماء، دینی جماعتیں اور دینی مدارس زبردست کردار ادا کرسکتے ہیں۔

قرآن مجید ترجمہ کے ساتھ پڑھنا لازم کرلیں

قرآن مجید ترجمہ کے ساتھ پڑھنا لازم کرلیں
محی الدین غازی
ایک سفر میں مجھے ایک تعلیم یافتہ صاحب کی رفاقت حاصل ہوئی، انہوں نے دینی نوعیت کے مختلف سوالات کئے، سوالوں کے جواب دیتے ہوئے میں نے ان سے کہا آپ قرآن مجید ترجمہ کے ساتھ پڑھیں آپ کو بہت سارے سوالوں کے جواب مل جائیں گے، اس پر وہ مجھ سے بحث کرنے لگے کہ قرآن مجید عام لوگوں کے سمجھنے کی کتاب نہیں ہے، صرف بڑے علماء اس کو سمجھ سکتے ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ اس بحث کو ایک طرف رکھیں، یہ بحث نہ دنیا میں آپ کے کام آئے گی اور نہ آخرت میں، میری التجا بس اتنی ہے کہ مرنے سے پہلے پہلے ایک بار ضرور پورا قرآن مجید ترجمہ کے ساتھ پڑھ لیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ اس سے پہلے موت آجائے اور آپ یہ جانے بغیر دنیا سے رخصت ہوجائیں کہ اللہ پاک نے آپ کے لئے جو کتاب بھیجی تھی اس میں کیا تھا۔
درحقیقت یہ جانے بنا کہ قرآن مجید میں کیا لکھا ہے اس دنیا سے چلے جانا بہت بڑے خطرے کا سودا(highly risky) ہے۔
جو لوگ عربی نہیں جانتے ہیں، ان کو اپنے اوپر اسے ضروری قرار دے دینا چاہئے کہ وہ قرآن مجید پڑھیں، اور جب بھی پڑھیں ترجمے کے ساتھ پڑھیں۔
ترجمے کے ساتھ قرآن مجید پڑھنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ایک آیت پڑھیں اور اس کے ساتھ ہی اس کا ترجمہ پڑھیں، پھر اگلی آیت اس کے ترجمہ کے ساتھ پڑھیں۔ آیت بہ آیت ترجمے کو اپنا معمول بنالیا جائے تو بہت سارے فائدے حاصل ہوں گے۔
ایک فائدہ یہ ہوگا کہ اس طرح بار بار قرآن مجید پڑھنے کے نتیجے میں آیتیں اپنے ترجمے کے ساتھ ذہن نشین ہوتی جائیں گی۔ اور جب آپ قرآن مجید کی کوئی آیت سنیں گے تو اس کا مفہوم اسی وقت ذہن میں پہونچے گا۔
دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ قرآنی عربی آنے لگے گی، الفاظ کا مطلب یاد ہونے لگے گا، اور کچھ عرصے کے بعد آپ اپنے آپ کو قرآنی عبارت سے قریب محسوس کرنے لگیں گے۔
آیت بہ آیت ترجمہ پڑھنے کا ایک ثمرہ یہ ہوگا کہ نماز میں امام کی تلاوت سن کر آیتوں کا مفہوم آپ کے ذہن میں پہونچنے لگے گا، اور آپ کو نماز میں پہلے سے بہت زیادہ لطف آنے لگے گا۔
اور سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہوگا کہ قرآن مجید کا پیغام آپ کے دل ودماغ تک پہونچ جائے گا۔
میرا اندازہ ہے کہ اگر کوئی شخص سال میں تین مرتبہ پورا قرآن مجید آیت بہ آیت ترجمہ کے ساتھ ختم کرلے، تو تین سال میں اس کو اچھی خاصی قرآنی عربی آجائے گی۔
واضح رہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اور ان کے تابعین نے کبھی قرآن مجید کی عبارت کو بنا سمجھے نہیں پڑھا، اس لئے اصولی بات یہی ہے کہ ہر آیت کو سمجھ کر پڑھا جائے، اس کا سب سے افضل طریقہ تو یہ ہے کہ اتنی عربی سیکھ لی جائے جو قرآن مجید سمجھنے کے لئے کافی ہو، ہمت کرنے والوں کے لئے یہ بھی کوئی بڑا کام نہیں ہے، تاہم جب تک عربی نہیں آئے، ترجمہ کی مدد لینا اپنے لئے ضروری قرار دینا چاہئے۔
اب تک قرآن مجید کے ترجمہ کو رواج دینے کے سلسلے میں جو کوششیں ہوئی ہیں، وہ قرآن مجید ترجمہ کے ساتھ پڑھنے کو ایک جائز یا مستحب کام قرار دے کر ہوئی ہیں، لیکن بگاڑ کے اسباب جس تیزی سے بڑھ رہے ہیں، اور اصلاح کی انسانی کوششیں جس طرح بے بسی کا شکار ہیں، اس کا تقاضا ہے کہ عربی نہیں جاننے والوں کے لئے ترجمہ کے ساتھ قرآن پڑھنے کو واجب قرار دینے پر اہل علم غور کریں۔ ذاتی طور پر میں اسی نتیجے پر پہونچا ہوں کہ عربی نہیں جاننے والوں کے لئے ترجمہ کے ساتھ قرآن مجید پڑھنا واجب ہے، اور مجھے اپنی اس رائے پر پورا اطمینان ہے۔

ڈیڑھ چال کے گھوڑے

ڈیڑھ چال کے گھوڑے
محی الین غازی
 شطرنج کی بساط پر گھوڑے کی اہمیت پیادوں سے زیادہ سمجھی جاتی ہے، پیادے ایک خانے کی چال چلتے ہیں، جبکہ گھوڑا ڈھائی خانے کی چال چل سکتا ہے، اور سامنے کوئی آجائے تو اس کے اوپر سے چھلانگ بھی لگاسکتا ہے۔ ایک دن بیٹھے بیٹھے خیال آیا کہ اگر شطرنج کی کسی بساط پر گھوڑا ڈھائی خانے کی چال کی بجائے ڈیڑھ خانے کی چال چلنے لگے تو کیا ہوگا؟ جواب ملا کہ صرف اتنا ہوگا کہ گھوڑا بھی پیادہ جیسا قرار پائے گا۔
میرا خیال ہے کہ مسلم عوام قیادت کے سلسلے میں قدرے حقیقت پسند ہیں، وہ اپنی قیادت پر بہت زیادہ اونچی توقعات کا بوجھ نہیں ڈالتے، وہ ان کو مہدی اور مجدد کے روپ میں بھی نہیں دیکھتے، وہ تو جب چاہتے ہیں تو صرف یہ چاہتے ہیں کہ قائدین ان کی طرح کوتاہ بین نہیں ہوں، بلکہ ان سے کچھ زیادہ دور تک دیکھیں، ان کی طرح سست رفتار نہیں ہوں، بلکہ ان سے کچھ زیادہ تیز چلیں۔ خلاصہ یہ کہ اگر عوام پیادہ کی طرح ایک خانے کی چال چلتے ہیں، تو اپنے قائدین کو گھوڑے کی طرح ڈھائی خانے کی چال چلنے والا دیکھنا چاہتے ہیں، اور ڈیڑھ خانے کی چال چلنے والوں کو دیکھ کر ان کو مایوسی ہوتی ہے۔
عوام کو شکایت اور جھنجھلاہٹ ہوتی ہے، جب وہ یہ دیکھتے ہیں کہ ان کے اور قائدین کے درمیان فرق صرف اتنا ہے کہ قائدین زیادہ اونچی آواز میں گفتگو کرتے ہیں، اور زیادہ روانی کے ساتھ تقریر کرتے ہیں۔ باقی اسٹیج پر کھڑے ہوکر وہ بھی وہیں تک دیکھتے ہیں جہاں تک پنڈال میں بیٹھے ہوئے سامعین دیکھتے ہیں، فیصلے کرنے میں وہ بھی عام لوگوں کی طرح ہچکچاہٹ اور تردد کا شکار رہتے ہیں، اقدامات کرنے میں وہ بھی دوسروں کی طرح خود کو مجبور سمجھتے ہیں، ذاتی مصلحتوں اور رکاوٹوں کو پھلانگ جانے کے معاملے میں وہ بھی بے بس نظر آتے ہیں، حال اور مستقبل سے نظریں چراکر وہ بھی ماضی کے تذکروں میں عافیت تلاش کرتے ہیں۔
قائدین کی نگاہ کمزور ہوتی ہے تو وہ منزل نہیں دیکھ پاتے، اور چونکہ سامنے سب دھندلا نظر آتا ہے اس لئے آگے قدم بھی نہیں بڑھا پاتے، ان کا ہر قدم جھجھکتے ہوئے اٹھتا ہے، اور جہاں سے اٹھتا ہے وہیں لوٹ آتا ہے، برسہا برس گزر جاتے ہیں اور ان کی زیر قیادت تنظیمیں اور ادارے کوئی پیش رفت نہیں کرپاتے۔ بلکہ بسا اوقات تو اپنی معنویت بھی کھودیتے ہیں، کہ لوگوں کو پوچھنا پڑتا ہے کہ فلاں ادارہ یا تنظیم کیوں ہے؟
کمزور نگاہ والے قائدین کو اپنا متبادل کبھی نظر نہیں آتا ہے، بلکہ اگر عوام کو کوئی متبادل نظر آ بھی جاتا ہے تب بھی وہ ان کو نظر نہیں آتا ہے، اور وہ اسے عوام کی نگاہوں کا دھوکہ قرار دیتے ہیں۔ قائدین کی نگاہ اپنا متبادل دیکھنے کے معاملے میں کمزور اس وقت بھی ہوجاتی ہے جب ان کے دل تنگ ہوتے ہیں، اور وہ کسی دوسرے کے خیال کو اپنے دل میں بٹھانے کی جگہ نہیں پاتے ہیں، ان کے دل میں صرف ایک ہی تصویر ہوتی ہے، جسے وہ تحسین کی نظر سے دیکھتے ہیں اور وہ ان کی اپنی ہوتی ہے۔
کچھ عرصہ قبل مسلم علماء کی ایک عالمی تنظیم کے انتخابی سیشن میں حاضر تھا، ممبران کی تجویز کی بنا پر ناموں کی ایک فہرست بنی تھی، اس فہرست میں سے ووٹنگ کے ذریعہ مجلس شوری کے ارکان کو منتخب کرنا تھا۔ طے پایا کہ فہرست میں موجود لوگ باری باری اسٹیج پر سے گزریں تاکہ تمام لوگ ان کو نام کے ساتھ دیکھ لیں، اور اس کے بعد ووٹنگ ہو۔ ایک صاحب جو ایک ملک کی پارلیمنٹ کے ممبر بھی تھے، اپنی باری پر اسٹیج پر آئے اور انہوں نے کہا گو کہ آپ لوگوں نے میرا نام پیش کیا ہے، لیکن میری نظر میں اس مجلس شوری کے لئے ایک فرد مجھ سے بھی زیادہ موزوں ہے، لیکن آپ حضرات کی نگاہ اس تک نہیں جاسکی ہے، میں گذارش کرتا ہوں کہ فہرست میں سے میرا نام نکال کر ان صاحب کا نام ڈال دیا جائے، اور پھر انہوں نے دلائل سے اپنی بات کو اتنا مضبوط کیا کہ لوگوں نے ان کی تجویز کو مان لیا۔ دیکھنے والے نگاہ کی اس تیزی اور دل کی اس کشادگی پر حیران رہ گئے۔
مسلم عوام مزاجا عقیدت پسند واقع ہوئے ہیں، وہ اپنی قیادت پر تنقید کرنا تو درکنار سننا بھی گوارا نہیں کرتے۔ اس تحریر کا مقصد بھی تنقید نہیں ہے، بلکہ ہر سطح کے اور ہر مکتب فکر کے قائدین سے التجا کرنا ہے کہ وہ اپنا قد بلند کرنے کی فکر کریں، کہ عوام کے عقیدت پسندانہ مزاج کے سہارے موجودہ زمانے میں زیادہ مدت تک چلنا ممکن نہیں ہے، تیزی سے بدلتے ہوئے حالات میں بار بار نگاہیں قیادت کی طرف اٹھتی ہیں اور نامراد واپس آتی ہیں، دن بدن حوصلہ بخش، حال فہم اور مستقبل بین قیادت کی ضرورت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، ادھر مختلف جہتوں سے ملی تنظیموں اور اداروں کی قیادت پر تنقید کا آغاز ہوا ہے، جو قائدین کے لئے اچھی اور اطمینان بخش خبر نہیں ہے۔ اپنا دفاع کرنے کی سب سے اچھی صورت یہ ہے کہ خود کو عوام کی معقول توقعات اور منصب کے حقیقی تقاضوں کے مطابق بنانے کی فکر کی جائے۔

مذہبی تشدد ایک خطرناک بیماری

 تشدد کا پھل کڑوا ہوتا ہے، خواہ کیسا ہی تشدد ہو، بسا اوقات تشدد کے خلاف آواز بلند کرنے والے خود تشدد میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ تشدد کی بہت ساری قسمیں ہیں ،لیکن مذہبی تشدد اس کی ایک زیادہ خطرناک قسم ہے۔ کیونکہ مذہبی تشدد انسانوں کے مسیحاؤں کو انسانوں کا قاتل بنادیتا ہے۔
میں نے اکثر دیکھا ہے کہ لوگ مذہبی تشدد پر تنقید کرتے ہوئے مذہب پر کیچڑ اچھالنے لگتے ہیں، حالانکہ مذہب کی سب سے معتبر اور مقبول کتاب قرآن مجید میں مذہبی غلو اور مذہبی تشدد کی جس طرح بھرپور مذمت کی گئی ہے، شاید ہی کسی اور کتاب میں کی گئی ہو۔ قرآن مجید تو (لست علیھم بمصیطر) کا طاقت ور اصول دے کر مذہبی تشدد کے سارے راستے بند کردیتا ہے۔ یہ اصول یاد رہے تو مذہبی اقدار کا بول بالا ہوتا ہے، اور یہ سبق فراموش کردیا جائے تو مذہبی تشدد کا آغاز ہوجاتا ہے۔
مذہب اور مذہبی تشدد میں تاریکی اور اجالے جیسا فرق ہے، مذہب انسان کو سماج کے لئے باعث رحمت وسعادت بناتا ہے، اور مذہبی تشدد سے انسان سماج کے لئے ایک خطرناک مسئلہ اور مشکل مرض بن جاتا ہے۔
جب کوئی مذہبی تشدد میں گرفتار ہوجاتا ہے، تو وہ مذہب کے نام پر مذہب کی قدروں کو پامال کرنے لگتا ہے، اور مذہب نے جو حدود طے کئے ہیں ان کو توڑتا چلا جاتا ہے، وہ نہ مسجدوں کی حرمت کا خیال کرتا ہے اور نہ اہل علم کی بے حرمتی کرنے میں تامل کرتا ہے۔
کفر کے فتوے لگانا مذہبی تشدد کی ایک نمایاں علامت ہے، مسلمانوں پر کفر کے فتوے لگانا کوئی نئی بات نہیں ہے، لوگوں نے مذہبی تشدد کا شکار ہوکر بڑے بڑے صحابہ پر کفر کے فتوے لگائے یہاں تک کہ حضرت علی کی ذات گرامی کو بھی نہیں چھوڑا۔
انسانوں کا بے دریغ خون بہانا بھی مذہبی تشدد کی علامت ہے، مذہبی تشدد کے حامل لوگ جب خون بہانے پر آتے ہیں تو ان کی درندگی کا نشانہ اللہ کے نیک بندے زیادہ بنتے ہیں، ایسے لوگوں نے مذہبی تشدد کے نشہ میں حضرت خباب بن ارت کو قتل کیا اور ان کی حاملہ بیوی کا پیٹ چاک کردیا، امام احمد بن حنبل کو تعذیب کا نشانہ بنایا، تو امام بخاری کو اذیتیں دیں۔
مذہب کے حاملین دعوت وموعظت پر یقین رکھتے ہیں، اس راہ میں آزمائشوں پر صبر کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں، اور قتال کے مرحلے میں اس وقت تک نہیں داخل ہوتے جب تک ناگزیر نہ ہوجائے۔
جب کہ مذہبی تشدد کا آغاز ہی تکفیر اور قتال سے ہوتا ہے، گفتگو اور افہام وتفہیم کی یہاں سرے سے گنجائش نہیں ہوتی ہے۔ ایسے لوگ ہر اس انسان کو قابل گردن زدنی سمجھتے ہیں جو ان کی بات سے اتفاق نہیں رکھتا ہو۔
مذہبی تشدد کے بھی بہت سارے مراتب ہیں، مسلک ومشرب کو جو لوگ مذہب کا درجہ دے کر مسلکی تعصب کا مظاہرہ کرتے ہیں، وہ بھی دراصل ایک طرح کے مذہبی تشدد میں گرفتار ہوتے ہیں۔
مذہبی تشدد اور آزادی رائے میں شدید قسم کا بیر ہوتا ہے، جہاں مذہبی تشدد کا بول بالا ہوتا ہے وہاں فکرو خیال کی آزادی ختم ہوجاتی ہے۔ مذہبی تشدد کا نتیجہ ہی ہے کہ جب کوئی صاحب علم عام رائے سے ہٹ کر کوئی نیا خیال پیش کرتا ہے، تو اس کے خیال پر گفتگو کرنے کی بجائے اس کی نیت پر حملہ شروع کردیا جاتا ہے۔
منکر قرآن، منکر حدیث اور منکر اجماع جیسی بہت ساری اصطلاحات کا جنم بھی مذہبی تشدد کے بطن سے ہوا ہے، مخالف کو دلائل کی بجائے اصطلاحات سے کچلنے کے لئے ان کا استعمال عام ہے۔
مذہب کی کارفرمائی ہوتی ہے تو مصلحین اور مجددین پیدا ہوتے ہیں جو پوری امت کی اصلاح وتربیت اور ساری انسانیت کی رہنمائی کی فکر کرتے ہیں، مذہبی تشدد کے نتیجہ میں فرقے بنتے ہیں اور فرقوں کی حفاظت کرنے والے پیدا ہوتے ہیں، جو اپنے فرقے کو اہل سنت اور دوسرے سب فرقوں کو گمراہ قرار دیتے ہیں۔
مذہبی تشدد کا نتیجہ یہ بھی سامنے آتا ہے کہ لوگ عقیدہ اور خیال میں فرق کو فراموش کر بیٹھتے ہیں۔ چنانچہ ایسے خیالات جو محض خیالات ہوتے ہیں، اور جن کی پشت پر بسا اوقات کوئی کمزور سی دلیل ہوتی ہے، اسے بھی عقیدہ کا درجہ دے دیا جاتا ہے، اور اس پر گفتگو کو قابل تعزیر جرم قرار دے دیا جاتا ہے۔
مذہبی تشدد کے نتیجہ میں لوگ یہ بھی فراموش کردیتے ہیں کہ مذہب سے متعلق کچھ مسائل میں اختلاف رائے کی گنجائش بھی ہوتی ہے، کچھ مسائل میں اختلاف کرنے سے آدمی دین سے خارج نہیں ہوتا ہے خواہ اس کی دلیل کمزور اور آپ کی مضبوط کیوں نہ ہو، بعض چیزیں آپ کی نظر میں منکر ہوں تب بھی ان پر دوسروں کی نکیر کرنے سے پہلے نکیر کرنے کے ضابطوں کو پورا کرنا ضروری ہوتا ہے۔
مذہبی تشدد سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو ماؤف کردیتا ہے، ایسے لوگوں کے سامنے دلائل بے وزن اور اہل علم بے وقعت ہوجاتے ہیں۔ قرآن مجید غوروفکر کرنے کی دعوت اس لئے بھی دیتا ہے کہ مذہبی تشدد سے باہر آنے کا یہی ایک راستہ ہے۔

شب قدر۔۔۔ ترقیوں کی رات کیسے بنے؟

(ماہ رمضان سے پہلے پڑھنے کے لئے)
شب قدر کی فضیلت قرآن مجید میں جن لفظوں اور اسلوب میں بیان کی گئی ہے، اس سے یقین ہوجاتا ہے کہ یہ رات ہمارے لئے بہت اہم ہے اور اس کی اہمیت ہمارے تصور سے کہیں زیادہ ہے، ایک رات کا ایک ہزار مہینوں سے افضل ہونا اس رات کو بے حد پرکشش اور اس کی فضیلت کو انسانوں کے تخیل سے فزوں تر بنا دیتا ہے۔ اس پوری رات میں سارے اہم فیصلے تقسیم ہوتے ہیں، اور یہ فیصلے بندوں سے متعلق ہر چیز کے سلسلے میں ہوتے ہیں، وہ مادی اسباب ہوں یا روحانی مراتب ہوں۔
شب قدر میں رب کریم کی طرف سے ترقی کے پروانے بھی جاری ہوتے ہیں، یہ ان بندوں کو ملتے ہیں جن سے رب راضی ہو۔ اس دنیا میں اصل ترقی یہ ہے کہ بندہ اصحاب الشمال سے نکل کر اصحاب الیمین میں اور اس سے آگے بڑھ کر سابقون اور مقربون کے زمرے میں شامل ہوجائے۔ رب کو راضی کرنے کے لئے لوگ شب قدر کو تلاش کرتے ہیں، وہ ہر اس رات کو پالینا چاہتے ہیں جس کے بارے میں انہیں قدر والی رات ہونے کی امید ہوتی ہے۔ ان راتوں میں وہ خصوصی عبادت اور بہت زیادہ دعائیں کرتے ہیں۔ بعض اعلی ہمت والے تو ماہ رمضان کی تمام راتوں میں شب قدر کو تلاش کرتے ہیں۔
دیکھا گیا ہے کہ لوگ شب قدر کے لئے جو بھی کرتے ہیں وہ شب قدر کے اندر ہی کرتے ہیں، شب قدر سے پہلے شب قدر کے لئے کچھ کرنے کا تصور زیادہ عام نہیں ہے، شب قدر کی برکتوں کو حاصل کرنے کے لئے اس رات میں عبادت اور دعا کی یقینا بہت اہمیت ہے، لیکن بہت ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس رات سے پہلے بھی اس رات کی بھرپور تیاری کی جائے، تیاری کی ایک بہترین صورت یہ ہے کہ شب قدر سے پہلے اپنی شخصیت میں کچھ ایسی تبدیلیاں لائی جائیں جو رب کو راضی کرنے والی ہوں، اور ہماری ترقی کے حق میں سفارشی بن سکتی ہوں۔
اپنی خراب کارکردگی کو بہتر بنانے کی کوئی کوشش نہ کرکے صرف پروموشن کی امید رکھنا اور اس کے لئے درخواست پر درخواست دینا دانشمندانہ رویہ نہیں سمجھا جاتا ہے۔ شب قدر کو ترقی (promotion) کی رات قرار دے کر اور اس سے پہلے ہی اپنی زندگی کو بدلنے کی بہت ساری کوششیں اور فیصلے کرلینے کے بعد جب بندہ شب قدر کو تلاش کرکے اس میں دعائیں مانگے، تو قبولیت کے امکانات یقینا بڑھ جاتے ہوں گے۔
عمل کو دعا کا وسیلہ بنانے کے سلسلے میں میرے علم کی حد تک سب کا اتفاق ہے، تو کیوں نہ ماہ رمضان شروع ہونے سے پہلے ہی یہ بھی طے کرلیا جائے کہ اس بار قدر والی رات میں دعاؤں کے ساتھ اعمال کا کون سا وسیلہ شامل کرنا ہے۔ ذرا تصور کریں کہ قدر کی رات ہو، فجر تک سلام ہی سلام ہو، زمین پر سجدہ ریز جبینیں اور آنسؤوں میں ڈوبی ہوئی دعائیں ہوں، اور پھر خاص اس رات کے لئے بہترین اعمال کا وسیلہ بھی بھیجا جاچکا ہو، تو ایسے بندے کی خوش نصیبی کا کیا کہنا۔
اگر شب قدر کے لئے بہترین اعمال کا خصوصی وسیلہ آگے بھیج دیا، تو اللہ کی بے پایاں رحمت سے یہ امید بھی رکھ سکتے ہیں کہ کسی مجبوری کی وجہ سے وہ رات نہیں مل سکے، یا اس رات کے شایان شان عبادت اور دعائیں کرنے کا موقع نہیں مل سکے، تو اعمال کا خصوصی وسیلہ قائم مقامی کردے۔
شب قدر کی بے انتہا فضیلت کا تقاضا تو یہ ہے کہ اس کو پالینے کی طلب میں سال بھر تیاری کی جائے، اور سال بھر کے جرأت مندانہ فیصلوں اور محنتوں کے ذریعہ اپنی شخصیت کو شب قدر کی ترقیوں کا اہل بنالیا جائے، لوگوں کے حقوق ادا کردئے جائیں، حرام کاریوں سے اور ناجائز پیشوں سے دامن چھڑالیا جائے، غفلتوں کی سیلیں توڑ دی جائیں، نیکیوں کے مینار بلند کردئے جائیں، جہد وعمل کی مثالیں قائم کردی جائیں، اس امید پر کہ شب قدر میں ترقی کا فیصلہ ہو اور اصحاب الیمین کے زمرے میں بلکہ اس سے بھی آگے سابقون اور مقربون کے زمرے میں شامل کردیا جائے۔
ہر سال آنے والی شب قدر کو ہماری زندگی میں ایک اہم سنگ میل بن جانا چاہئے، بہت سارے ناپسندیدہ امور ہوتے ہیں جن کو ہم چھوڑنے میں ٹال مٹول کرتے ہیں، اور بہت سارے پسندیدہ امور ہوتے ہیں جن کو ہم آئندہ کے بستے میں ڈالتے رہتے ہیں اور یوں زندگی کے بہت سارے ماہ وسال غفلت وتردد میں گزر جاتے ہیں۔ اگر ہم قدر والی رات کو زندگی کا اہم سنگ میل اور حتمی ڈیڈ لائن قرار دے کر اس سے پہلے ہی ٹال مٹول کے سارے سلسلوں کو خوب صورت اختتام دے دیں تو قوی امید ہے کہ زندگی حسین وجمیل اور مفید وبابرکت ہوجائے۔ اور ہر سال قدر والی رات میں رب کریم کی طرف سے بہترین ترقی کا بے بہا پروانہ ملا کرے۔

اپنی معلومات تازہ کرتے رہیں

ٹرین سے سفر کرنے کا موقعہ کافی زیادہ ملا ہے، اس لئے یہ خوش فہمی ہوگئی کہ ریلوے سے متعلق تمام ضروری باتوں کا علم حاصل ہوگیا ہے، لیکن واقعات نے کئی مرتبہ اس خوش فہمی کو دور کیا۔
اس ماہ کے آغاز میں مجھے مع اہل عیال گورکھپور (یوپی) سے شورنور (کیرلا) جانا تھا، راپتی ساگر ایکسپریس سے ریزرویشن تھا، اور ایک فارم کے اندر چھ افراد میں صرف تین کا ٹکٹ کنفرم ہوسکا تھا، باقی تین انتظار کی فہرست میں رہ گئے تھے۔ میری معلومات یہ تھیں کہ اگر آن لائن ٹکٹ کنفرم نہ ہوسکے تو ٹکٹ از خود کینسل ہوجاتا ہے، اور ٹکٹ کی قیمت واپس اس اکاؤنٹ میں پہونچ جاتی ہے جس سے وہ ادا ہوئی تھی۔ چنانچہ میں اسٹیشن پر وقت سے کافی پہلے پہونچا، لمبی لائن میں دیر تک کھڑے ہو کر تین عدد جنرل ٹکٹ خریدے تاکہ ٹرین میں داخل ہونے کا جواز مل سکے، ٹی ٹی آیا، میں نے اس کو تینوں جنرل ٹکٹ دکھائے کہ وہ ان پر اضافی رقم لگا کر رسید بنادے۔ لیکن اس نے اضافی رقم لے کر رسید بنانے کی بجائے میری معلومات میں اضافہ کردیا۔ اور وہ یہ کہ اگر ایک فارم کے اندر کچھ افراد کے ٹکٹ کنفرم ہوجاتے ہیں تو باقی کے ٹکٹ کینسل نہیں ہوتے ہیں، البتہ اگر کوئی کنفرم نہیں ہوا ہو تو سارے ٹکٹ کینسل ہوجاتے ہیں۔ مجھے اس بات کی تو خوشی ہوئی کہ تین ٹکٹوں پر اضافی رقم کی مار سے بچ گئے تاہم میں نے جو تین ٹکٹ لمبی لائن میں لگ کر خریدے تھے ان کے ضائع ہوجانے کا احساس بھی ہوا۔ یہ سب اس وجہ سے ہوا کہ میں نے نئی صورت حال کو نیا نہیں سمجھا اور پرانی معلومات پر انحصار کرلیا۔
اس سے زیادہ تلخ صورت حال سامنے آئی جب تقریبا دس سال قبل میں بچوں کے ساتھ کالی کٹ سے حیدرآباد جا رہا تھا، اور محض پرانی معلومات پر بھروسہ کرلینے کی وجہ سے اچھا خاصا جرمانہ دینا پڑا، اہل خانہ کے سامنے سبکی اس پر مزید۔
نئی اور معمول سے مختلف صورت حال ہمیشہ تقاضا کرتی ہے کہ اپنی معلومات کو بھی نیا اور تازہ کیا جائے، لیکن بہت سارے لوگ صورت حال کے مختلف ہوجانے یا بدل جانے کا ادراک نہیں کرپاتے، اور بہت سارے لوگ یہ ادراک تو کرلیتے ہیں، لیکن بدلی ہوئی صورت حال کے مطابق اپنی معلومات تازہ کرنے کی ضرورت کا ادراک نہیں کرپاتے۔ نئی صورت حال کی مار سے خود کو بچانے کا بہترین طریقہ ہے کہ خود کو اپ ٹو ڈیٹ رکھا جائے۔
کچھ لوگوں کے اندر اپنی معلومات تازہ کرتے رہنے کا شوق ہوتا ہے، یہ بہت اچھا شوق ہے، اس کو پھولنے پھلنے کا خوب موقعہ دینا چاہئے، ساتھ ہی انسانوں سے محبت کا تقاضا ہے کہ تازہ بہ تازہ معلومات میں دوسروں کو بھی شریک کیا جائے۔ خدمت خلق میں نمایاں خدمت انجام دینے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ شوقین افراد عملی زندگی سے متعلق اپنی معلومات کو اتنا زیادہ وسیع اور اپ ٹو ڈیٹ رکھیں، کہ وہ اپنی بستی والوں کے لئے مرجع بن جائیں۔ بسا اوقات ایک پریشان شخص کی بہترین خدمت یہ ہوتی ہے کہ اسے مناسب معلومات فراہم کردی جائیں۔
بعض لوگوں کے اندر معلومات پہونچانے کا جذبہ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ وہ انکوائری کا انتظار نہیں کرتے، اور سامنے والے کی حالت کا اندازہ ہوتے ہی تازہ اور مفید معلومات کا تحفہ پیش کردیتے ہیں۔ یہ خدمت کا اعلی معیار ہے۔
ہماری مجالس جو اکثر لغو اور غیر مفید باتوں پرمشتمل ہوتی ہیں، اگر ان کا ایک حصہ مفید عملی معلومات کے تبادلے کے لئے مختص ہوجائے تو ہماری عام معلوماتی استعداد بہت بہتر ہوسکتی ہے، اور اس طرح ہم اپنے اور دوسروں کے لئے زیادہ مفید ہوسکتے ہیں۔
کچھ لوگ دوسروں سے دریافت کرنے میں تکلف محسوس کرتے ہیں، یہ تکلف اکثر شدید تکلیف کا باعث بن جاتا ہے۔ سب کی طرح میری زندگی میں بھی بہت سارے مشکل مرحلے آئے اور میں ذاتی طور سے ان سب محسنوں کا شکر گزار ہوں جنہوں نے کبھی پوچھے بنا اور کبھی میرے پوچھنے پر بیش قیمت معلومات سے نوازا، اور میری بہت ساری مشکلات کو آسان کردینے میں مدد کی، بلاشبہ دوسروں کی معلومات سے استفادہ میرے لئے آسان یوں ہوا کہ میں نے پوچھنے میں کبھی تردد نہیں کیا، اور بتانے والوں نے بتانے میں کوتاہی نہیں کی۔
نئی صورت حال کا ادراک کرنا، اور اس کے لحاظ سے اپنی معلومات کو تازہ کرلینا افراد کے لئے ضروری ہے اور اس سے زیادہ اجتماعی اداروں کے لئے ضروری ہے، بہت سارے اداروں کی دن بدن بگڑتی ہوئی کارکردگی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ صورت حال ایک بار نہیں کئی بار بدل چکی ہوتی ہے، نئی صورت حال نئی معلومات پر مبنی نئے طرز فکر اور نئے طریقہ کار کا تقاضا کررہی ہوتی ہے، اور وہ پرانی معلومات کو حرف مقدس کی طرح سینے سے لگائے رہتے ہیں۔

رشتے داروں میں محبت کیوں نہ ہو؟؟؟

 کچھ باتیں اتنی سادہ ہوتی ہیں کہ بغیر سمجھے سب لوگوں کی سمجھ میں آجائیں، لیکن لوگوں کی عملی زندگی کو دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ سادہ سی باتیں زیادہ تر لوگوں کی سمجھ میں نہیں آسکی ہیں، بلکہ اعلی تعلیم اور بہترین دماغ رکھنے والے بھی ان کو سمجھنے سے معذور نظر آتے ہیں۔
محبت کے ساتھ رہنے کا فائدہ سب سے پہلے محبت کے ساتھ رہنے والوں کو حاصل ہوتا ہے، اور نفرت کے ساتھ رہنے کا نقصان سب سے پہلے نفرت کے ساتھ رہنے والوں کو اٹھانا پڑتا ہے، یہ جاننے کے باوجود بہت سارے لوگ نفرت کے ساتھ رہنے میں زیادہ آرام محسوس کرتے ہیں۔
جن رشتہ داروں میں آپس میں محبت ہوتی ہے وہ کتنے فائدے میں رہتے ہیں، اس کا تصور بھی وہ لوگ نہیں کرسکتے جو نفرت کے ماحول میں جینے کے عادی ہوجاتے ہیں، اور جن کے دل نفرت کے جذبات سے غذا حاصل کیا کرتے ہیں۔ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ محبت کے ساتھ رہنے والے رشتہ داروں کے پاس زندگی سے لطف اٹھانے کے مواقع کئی سو گنا زیادہ ہوجاتے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ میں نے اپنے ان رشتے داروں کی بدولت جن سے میرے تعلقات خوش گوار ہیں، زندگی کو اتنا زیادہ انجوائے کیا کہ اگر تعلقات کی خوش گواری شامل حال نہیں ہوتی تو میں زندگی کی بہت ساری لذتوں سے محروم رہتا۔
مجھے لگتا ہے کہ محبت کا رویہ اپنانے کے لئے آدمی کو نفس کے ایک پست مقام سے نکل کر ایک بلندی تک پہونچنا ہوتا ہے، اور اس کی سہل پسند طبیعت اس چڑھائی کے لئے آمادہ نہیں ہوپاتی۔ حالانکہ پہاڑی راستوں کی طرح یہ کوئی مشکل چڑھائی نہیں ہوتی ہے، ایک لمحہ کا فیصلہ ہوتا ہے، اور آدمی بلندیوں کی سیر کرنے لگتا ہے۔ ایک مشہور ماہر تربیت سے جب ایک شوہر نے پوچھا کہ میں شادی کے بعد کچھ سال تک تو اپنی بیوی سے بہت محبت کرتا تھا پر اب نہیں کرتا ہوں، اس کا علاج بتائیے۔ تو اس نے کہا کہ اس کا علاج صرف یہ ہے کہ اپنی بیوی سے پھر سے محبت کرنے لگو۔ سچ پوچھئے تو مجھے یہ جواب بہت تشفی بخش لگا۔
محبت کے تعلقات کا بہت زیادہ دارومدار کسی ایک کی سبقت پر ہوتا ہے، بعض مرتبہ شادی کے وقت لڑکی سوچتی ہے کہ میری ساس مجھ سے محبت سے پیش آئے گی تبھی میں اس سے محبت سے پیش آؤں گی، ساس بھی بہو کے متعلق اسی طرح کا ارادہ رکھتی ہے، چنانچہ دونوں کا جی تو یہی چاہتا ہے کہ محبت کے ساتھ رہیں، لیکن پوری زندگی دونوں انتظار کرتے ہوئے گزار دیتی ہیں، اگر بہواس طرح سوچتی کہ میں پہلے دن سے اپنی ساس سے محبت سے پیش آؤں گی کہ وہ بھی مجھ سے محبت سے پیش آنے پر مجبور ہوجائے، تو یقینا وہ اپنی ساس کا دل جیت لیتی۔ مطلب یہ کہ محبت سے پیش آنے کی پہلی ذمہ داری کون قبول کرے یہ بہت اہم بات ہے۔ یاد رہے قرآن مجید میں خیر کے کاموں میں آگے بڑؑھ جانے والوں کی بڑی تعریف کی گئی ہے۔ فاستبقوا الخیرات۔
لوگوں کو اس وقت بڑا تعجب ہوتا ہے جب وہ ساس اور بہو کو محبت کے ساتھ رہتے ہوئے دیکھتے ہیں، یا کسی بہو کو اپنی ساس کی بہت زیادہ تعریف کرتے ہوئے دیکھتے ہیں، اور اگر کوئی خاتون اپنی سوکن کی تعریف کرے تب تو لوگ اس کی دماغی حالت پر بھی شک کرنے لگتے ہیں۔ حالانکہ محبت کے ساتھ تو سب کو رہنا چاہئے، خواہ وہ ماں اور بیٹی ہو، شوہر اور بیوی ہوں، ساس اور بہو ہوں، نند اور بھاوج ہوں یا دو سوکنیں ہوں۔ اصل میں ہمارے معاشرے نے بہت سارے رشتوں کے بارے میں لوگوں کے ذہن میں یہ بٹھادیا ہے کہ یہ باہم کشیدگی اور کھینچا تانی کے رشتے ہیں۔ لیکن یہ سوچ یکسر غلط ہے، اللہ تعالی نے جتنے رشتے بنائے ہیں وہ سب محبت کی بنیاد پر قائم ہوں تبھی دلکش لگتے ہیں، ورنہ ان کی دلکشی ختم ہوجاتی ہے، ساتھ ہی ان رشتوں سے جڑے رشتہ داروں کی شخصیت بھی پھر اچھی نہیں لگتی ہے۔
گھروں میں کھڑکی اور روشن دان نہیں ہوں اور گرمی کے موسم میں بجلی بھی چلی جائے تو گھٹن کا احساس ہوتا ہے، واقعہ یہ ہے کہ اس سے شدید گھٹن اس وقت ہوتی ہے جب گھر میں ساتھ رہنے والوں کے باہمی تعلقات ناخوش گوار ہوں۔ بجلی نہ ہو تو لوگ ہاتھ کے پنکھے جھلتے ہوئے سرکار کو برا بھلا کہتے ہیں، اور اس سے زیادہ کچھ نہیں کرپاتے۔ لیکن آپس کے تعلقات خوش گوار بنانے کے لئے تو ایک پیش قدمی کافی ہوتی ہے، اور لمحوں میں برسوں کا دل پر جما میل دھل جاتا ہے۔ دل صاف ہوجاتے ہیں، اور صاف دل والے بندے اللہ کو بہت پسند ہیں۔ واللہ یحب المتطھرین۔
ذرا سی زندگی میں دشمنی کیا بغض وکینہ کیا
محبت کے تقاضے پورے ہوجائیں غنیمت ہے

شکر گزاری رشتوں کو مضبوط کرتی ہے

 
یہ بالکل صحیح ہے کہ انسان کو بے غرض ہونا چاہئے، اور احسان مندی کی توقع کے بغیر بے لوثی کے ساتھ احسان کرتے رہنا چاہئے، یہ بھی درست ہے کہ نیکی کو جتانے سے نیکی ضائع ہوجاتی ہے خواہ وہ کتنی بڑی نیکی کیوں نہ ہو۔ اس میں بھی شبہ نہیں کہ بھلائی کے سلسلے کو جاری رکھنے کے لئے شکر گزاری کی شرط لگانا کم ظرفی کی دلیل ہے۔ درحقیقت بندوں کے ساتھ نیکی کرکے اپنے رب سے صلہ کی امید رکھنا ہی کامیاب ترین سودا ہے۔
لیکن دوسری طرف شکر گزاری اور احسان مندی بھی ایک خوبی ہے، اور اس خوبی کا بھی معاشرے میں بھر پور اظہار ہونا چاہئے۔
انسانی معاشرہ میں ہر شخص کسی نہ کسی کی کسی طور خدمت اور مدد کرتا ہے، اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی آپ کی مدد کرتا ہے، اور آپ اس سے شکریہ کہتے ہیں، وہ جوابا کہتا ہے کہ شکریہ کی کیا بات، یہ تو میرا اخلاقی فرض تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس نے آپ کے ساتھ جو نیکی کی وہ ایک اخلاقی فرض ہو یا نہ ہو، آپ کا اس کی نیکی پر شکریہ کہنا ضرور ایک اخلاقی فرض بنتا ہے۔
شکرگزاری شخصیت کی بلندی کی علامت ہے، بعض لوگ پہلے سے دل میں طے کرلیتے ہیں کہ سامنے والے نے نیکی کرکے اپنے اخلاقی فرض کو ادا کیا، یا کسی پرانی نیکی کا بدلہ دیا، اور یوں شکریہ ادا کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ یہ سوچ شخصیت کو ایک اعلی اخلاقی صفت سے محروم کردیتی ہے۔
شکر گزاری اپنے آپ میں ایک بڑی سماجی خدمت ہے، اس سے معاشرے میں نیکی اور بھلائی کے رجحان کو قوت حاصل ہوتی ہے، کسی نیکی کرنے والے کی جس قدر بھر پور طریقے سے شکر گزاری کی جائے گی، اس کا نیکی کا جذبہ اور حوصلہ اتنا ہی اور پروان چڑھے گا، اور جس قدر اعلانیہ شکر گزاری کی جائے گی اسی قدر دوسرے لوگوں میں بھی نیکی کا جذبہ نشوونما پائے گا۔
شکر گزاری سے رشتے اور تعلقات بھی بہت مضبوط ہوتے ہیں۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ تحفہ دینے سے تعلقات کی خوشگواری پر اچھا اثر ہوتا ہے، لیکن اس سے کہیں زیادہ اثر اس بھرپور شکریہ کا ہوتا ہے جو تحفے کو قبول کرنے والے کی طرف سے ادا کیا جاتا ہے۔
شکرگزاری محض ایک زبانی عمل نہیں ہے جسے بے دلی اور بے دھیانی سے ادا کردیا جائے، شکر گزاری تو باہمی تعلقات کی عمارت اٹھانا ہے، نیکی کرنے والے کی تکریم اور اس کی نیکی کا خوب صورت اعتراف کرنا ہے، گھر سے لے کر سماج تک جس قدر ایک دوسرے کے ساتھ بھلائی اور بھلائی پر شکر گزاری کا چلن ہوگا، اتنا ہی زیادہ اچھے تعلقات اور خوب صورت رشتوں کی تعمیر ہوگی۔
بعض لوگ دل سے شکر گزار ہونا کافی سمجھتے ہیں، اور زبان سے اس کے اظہار کی ضرورت نہیں سمجھتے، لیکن یہ رویہ درست نہیں ہے، اور اس سے شکریہ کا مقصد حاصل نہیں ہوتا ہے، شکریہ کے جذبات دل کی گہرائیوں سے ہوں، اور ان کی بھرپور ادائیگی زبان سے ہو، تبھی شکریہ کا حق ادا ہوتا ہے، اور اس کی برکتیں ظاہر ہوتی ہیں۔
بعض لوگ شکریہ تو ادا نہیں کرتے ہیں، لیکن دل میں طے کرلیتے ہیں، کہ بہترین صلہ دے کر احسان کا بوجھ ضرور اتاریں گا. نیکی کا صلہ نیکی سے دینا بہت اچھی بات ہے، لیکن یہ شکر گزاری کا بدل نہیں ہوسکتا ہے۔ شکر گزاری ایک تو اس لئے ضروری ہے کہ نیکی کی شروعات تو سامنے والے نے کی، آپ تو بہرحال اس کا بدلہ دیں گے، اور اس لئے بھی کہ کیا پتہ بدلہ دینے کا موقعہ ملے نا ملے، نہ زندگی کا بھروسہ اور نہ حالات کا، فوری شکرگزاری سے ایک اخلاقی فرض کی ادائیگی تو بروقت ہوجاتی ہے، اور اس طرح شکر گزاری کے بے شمار فائدے بھی معاشرے کو حاصل ہوتے ہیں۔
بعض لوگ شکریہ اسی وقت ادا کرتے ہیں جب بالکل بے عیب نیکی ان کے ساتھ کی جائے، اگر ذرا سی بھی خامی نکل آئے، تو وہ شکریہ کی اخلاقی ذمہ داری بھول کر شکوہ وشکایت کی بے منزل راہوں پر نکل پڑتے ہیں۔ بڑی اعلی ظرفی کی بات ہوتی ہے، کہ آپ کو کوئی تحفہ پیش کرے، وہ آپ کو بالکل پسند نہ آئے، پھر بھی آپ اس کا دل کھول کر شکریہ ادا کریں، اور بڑی کم ظرفی کی بات ہوتی ہے کہ کوئی آپ کو تحفہ دے کر آپ کے رویہ سے محسوس کرے کہ اس سے کوئی خطا سرزد ہوگئی ہے۔
سادہ سی بات ہے کہ میزبانی سے تعلقات میں مضبوطی اور خوش گواری آنا چاہئے، لیکن گھر گھر کی کہانی یہ ہے کہ ذرا سی کوتاہی مہمان رشتے دار کو ناراض کردیتی ہے اور وہ دل میں شکایتوں کا دفتر لئے رخصت ہوجاتا ہے۔ میں نے بہت دفعہ دیکھا ہے کہ جن لوگوں کے تعلقات برسوں سے نارمل چلے آرہے تھے، ایک وقت کی یا چند دنوں کی میزبانی کے بعد بہت زیادہ خراب ہوگئے۔ اس میں میزبان کا قصور بھی ہوسکتا ہے، لیکن مہمان کی اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس میزبان کی کوتاہیوں اور خامیوں سے درگزر کرتے ہوئے اس کی میزبانی کی لاج رکھے، اگر وہ مثالی اور معیاری میزبان نہیں بن سکا تو آپ تو ایک اچھے مہمان بن سکتے تھے۔ خراب میزبان کو سبق سکھانے کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ آپ خراب مہمان بن جائیں، صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس وقت آپ اس کے اچھے مہمان بن جائیں، اور موقعہ ڈھونڈ کر اسے اچھا میزبان بن کر بھی دکھا دیں۔
مشہور کہاوت ہے، دسترخوان نہ بچھے تو ایک عیب، اور بچھے تو سو عیب۔ پر یاد رہے کہ یہ کہاوت صحتمند رویہ کی عکاسی نہیں کرتی، دسترخوان کا نہ بچھنا بہت بڑا عیب ہے، جو مجبوری کی حالت میں ہی گوارا کیا جاسکتا ہے، اور دسترخوان کا بچھ جانا بہت بڑی خوبی ہے، اس خوبی کے ہوتے ہوئے کشادہ ظرف لوگ سو عیب کیا ہزار عیبوں سے چشم پوشی کرلیتے ہیں۔
جب خود غرضی اور صرف اپنے اوپر خرچ کرنے کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہو، صارفیت کا سیلاب خدمت کے حوصلوں کو شدید دھمکیاں دے رہا ہو تو معاشرہ میں خدمت، نیکی اور بھلائی کے رجحان کو قوت پہونچانا بہت زیادہ ضروری ہوجاتا ہے۔ شکر گزاری اور احسان مندی کی اہمیت اس سے اور اجاگر ہوجاتی ہے۔