عبدالرحمان سوار الذھب کار اصلاح سے محبت، اور منصب اقتدار سے بے نیازی

عبدالرحمان سوار الذھب
کار اصلاح سے محبت، اور منصب اقتدار سے بے نیازی
محی الدین غازی
ایک طبیب لکھتا ہے: حج کا موسم تھا اور جمعہ کا دن تھا، میری ڈیوٹی حرم سے متصل ایک طبی مرکز میں لگی تھی، مجھے ہدایت ملی تھی کہ جمعہ کی فرض نماز ادا کر کے فورا مرکز پہونچوں وہاں بھیڑ بہت ہوگی، میں نماز بعد آیا تو واقعی مرکز بیماروں سے کھچاکھچ بھرا ہوا تھا، میں بڑی مشکل سے اپنے کیبن میں پونچا اور جلدی جلدی مریض دیکھنے لگا، کچھ ڈیڑھ گھنٹے کے بعد ایک صاحب اپنی باری پر اندر داخل ہوئے، اور بڑی شائستگی سے اپنی بیماری بتانے لگے، اتنے میں مرکز میں کام کرنے والے ایک سوڈانی کی ان پر نظر پڑی، اس نے لپک کر انہیں سلام کیا اور بولا، ڈاکٹر صاحب آپ انہیں جانتے ہیں؟ یہ سوار الذھب ہیں، سوڈان کے سابق صدر۔ میں چونک گیا، پھر ان سے معذرت خواہانہ لہجے میں کہا آپ نے ہمیں کیوں نہیں بتایا، اتنی لمبی لائن میں لگنے کی آپ کو بالکل ضرورت نہیں تھی، آپ جیسے لوگوں کے لئے تو الگ سے بہت خصوصی سہولتیں رہتی ہیں، اس پر انہوں نے ایک بات کہی، نہایت سبق آموز، انہوں نے کہا، ہم حج کرنے آئے ہیں ہم سب یہاں برابر ہیں، ہمیں بس اس کی چاہ ہے کہ ہمارے رب کی رحمت ہمیں اپنے آغوش میں لے لے، اس کے سوا ہمیں کسی سے کچھ نہیں چاہئے۔
سوار الذھب سے پہلے جعفر نمیری نے فوجی انقلاب لا کر سوڈان پر سولہ سال حکومت کی، اور ظالمانہ آمریت کی ایک سیاہ تاریخ رقم کی۔ اس دوران سوار الذھب فوج میں اپنی غیر معمولی صلاحیت کی بنا پر تیزی کے ساتھ ترقی کرتے رہے، اور چیف آف آرمی اسٹاف ہونے کے ساتھ ملک کے وزیر دفاع بن گئے،1985 میں جب نمیری امریکہ کے سفر پر تھا اس کے خلاف عوام سڑکوں پر اتر آئے، موقع مناسب دیکھ کر سوار الذھب کی قیادت میں فوج نے نمیری کو برطرف کرنے کا اعلان کردیا، اور سوار الذھب ملک کے عبوری صدر بن گئے۔ اب ان کے ساتھ فوج کی طاقت تھی اور عوام کی تائید بھی، وہ چاہتے تو ظلم وجبر نہیں بلکہ عدل وانصاف کے ساتھ کچھ نہیں تو تیس سال تو حکومت کر ہی سکتے تھے، لیکن انہوں نے پورے عالم اسلام کے سامنے ایک بے نظیر نمونہ پیش کیا، صرف ایک سال کے اندر صاف وشفاف انتخابات کرائے، اور اقتدار کوعوام کی نمائندہ حکومت کے حوالے کردیا۔ ساتھ ہی اقتدار میں شرکت کا شوق رکھنے والے فوجی افسروں کو ہدایت کی کہ وہ اپنے اصل محاذ کی طرف لوٹ جائیں۔ واقعہ یہ ہے کہ سوار الذھب کے اس اقدام پر پوری دنیا حیران رہ گئی تھی۔ ان کے اس فیصلے نے انہیں پوری سوڈانی قوم کا محسن بنادیا تھا۔ جب الیکشن ہوئے تو ان سے بڑے پیمانے پر درخواست کی گئی کہ وہ بھی بطور امیدوار الیکشن میں حصہ لیں، اور اس وقت یہ بات قدرے یقین کے ساتھ کہی جاسکتی تھی کہ وہ الیکشن میں کھڑے ہوتے تو جیت جاتے، کیونکہ سوڈانی عوام انہیں نجات دہندہ کے روپ میں دیکھ رہے تھے، لیکن انہوں نے سختی سے انکار کردیا۔ وہ فوج کا کوئی شائبہ بھی حکومت میں نہیں چاہتے تھے۔
سوار الذھب چاہتے تو ایک اچھی حکومت کر کے بھی اپنی قوم کا دل جیت سکتے تھے، لیکن ان کے نزدیک اچھا حاکم اچھے نظام حکومت کا بدل نہیں ہوسکتا تھا۔ لیکن انہیں شاید یہ معلوم نہیں تھا کہ اچھا نظام حکومت بھی اپنی بقائے طویل کے لئے بہت سی ذہنی اور زمینی تبدیلیاں چاہتا ہے۔ چنانچہ ملک کے ساتھ فوجی چیرہ دستیوں کا سلسلہ بعد میں بھی جاری رہا۔
سوار الذھب نے اقتدار کو عوامی نمائندوں کے حوالے کرنے کے بعد ایک اور بے نظیر نمونہ قائم کیا، انہوں نے فوج کی اعلی ترین پوزیشن، اور حکومت کا اعلی ترین منصب چھوڑ کر دین کی تبلیغ واشاعت، انسانوں کی فلاح وبہبود اور تعلیم کے فروغ کو اپنی زندگی کا مقصد بنالیا، اور پھر پوری زندگی اسی کی خاطر جدوجہد کرتے رہے، انہوں نے منظمۃ الدعوۃ الاسلامیۃ نامی ایک غیر سیاسی رفاہی تنظیم کو آگے بڑھایا، جس نے مشرقی یوروپ اور افریقہ کے نہایت پسماندہ علاقوں میں دعوت وتبلیغ اور تعلیم وخدمت کے میدانوں میں زبردست کام کیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس تنظیم کے تحت پچپن انٹر کالج ایک سو پچاس اسکول، دو ہزار مسجدیں، ایک ہزار کنویں اور چھ یتیم خانے بنائے گئے۔
افسوس کہ مسلم ملکوں کے حکمرانوں نے دونوں میں سے کسی نمونے کی قدر نہیں کی۔ اور اس طرح مسلم دنیا کی کسمپرسی بڑھتی ہی گئی۔
سوار الذھب بہت نیک صفت اور نرم مزاج انسان تھے، دینداری انہیں وراثت میں ملی تھی جس کی انہوں نے فوجی زندگی میں بھی بڑی قدر کی تھی۔ قریب سے جاننے والوں کی روایت ہے کہ سوار الذھب نے زندگی کا بڑا حصہ فوج میں گزارا تھا، لیکن ان کے مزاج میں فوجی افسروں والی رعونت ذرا بھی نہیں تھی، بلکہ ایک داعی دین والی نرمی اور شفقت تھی۔ محبت سے بھرا ملنے کا انداز اور شیرینی سے بھرپور آواز۔ جس سے ملتے اس کا دل جیت لیتے۔
پانچ سال قبل جب اہل فلسطین کی حوصلہ افزائی کے لئے علامہ یوسف قرضاوی مصر کے راستے غزہ گئے تھے تو سوار الذھب بھی ان کے ساتھ تھے، تجزیہ نگاروں نے اس سفر اور اس رفاقت کو بہت زیادہ اہمیت دی تھی۔ راوی کہتا ہے کہ برسوں پہلے کسی نے علامہ یوسف قرضاوی سے پوچھا تھا کہ آپ کے بعد علماء امت کے وسیع اتحاد اور امت مسلمہ کی رہنمائی کے لئے کوئی بڑی دینی شخصیت نظر نہیں آتی؟۔ علامہ قرضاوی نے بڑے اعتماد کے ساتھ کہا تھا سوار الذھب تو ہیں۔ لیکن افسوس اب تو وہ بھی نہیں رہے۔
ہمیں اللہ کی رحمت سے امید ہے، اور اسی سے دعا ہے کہ دنیا میں نمونہ بن جانے والے صالحین اور مصلحین کا سلسلہ جاری رہے۔

مجھے تیرا محبت سے وہ ملنا یاد آتا ہے

مجھے تیرا محبت سے وہ ملنا یاد آتا ہے
(اورنگ باد کے اشفاق احمد صاحب مرحوم کی یاد میں)
محی الدین غازی
اشفاق صاحب اچھا لکھتے تھے، اچھا بولتے تھے، اور بہت اچھا ملتے تھے، اچھا ملنا ان کی شخصیت کا سب سے نمایاں رنگ تھا، میں نے دنیا بھر کی بہت سی شخصیتوں سے ملاقات کی ہے، لیکن ایسا روح افزا اور ایمان افروز معانقہ مجھے بہت کم لوگوں کے یہاں ملا۔ وہ ملتے تو محسوس ہوتا کہ اللہ والے ایسے ہی ملتے ہیں۔ خیریت پوچھتے تو یقین ہوتا کہ دل سے پوچھ رہے ہیں، اور سچ مچ فکر مند ہیں، کسی کی تکلیف کو سن کر ان کے چہرے پر ایسا کرب ظاہر ہوتا گویا ان کے دل نے اس تکلیف کو اچھی طرح محسوس کیا ہے۔
اپنے سے کم عمر والوں کی ہمت افزائی کرنا ان کی امتیازی صفت تھی، ادھر چند سالوں میں مجھے شہر اورنگ آباد کئی بار جانے کا موقع ملا، وہاں جب بھی میری تقریر ہوتی، اشفاق صاحب کبھی علالت اور کبھی نقاہت کے باوجود ضرور شریک ہوتے، اور تقریر کے بعد بڑی سخاوت اور فیاضی کے ساتھ ہمت افزائی فرماتے۔ سامعین کے درمیان انہیں کرسی پر بیٹھا دیکھ کر ایسا لگتا جیسے اللہ تعالی کی طرف سے خصوصی انعام واکرام کا نزول ہوا ہے، بہت اچھا لگتا تھا۔
اشفاق صاحب پاکیزہ نفس انسان تھے، وہ کسی چال کاحصہ نہیں بنتے تھے، نہ وہ خفیہ منصوبہ بندیوں کے قائل تھے، وہ ایسی کمیٹیوں اور مجلسوں میں بہت رہے، جہاں ماہرانہ چالیں چلی جاتیں، اور گہری سازشیں رچی جاتیں، لیکن وہ ان سب فتنوں سے الگ تھلگ اپنی ذمہ داری ادا کرتے اور وہاں سے بے داغ باہر نکل آتے۔ انہوں نے کبھی کوئی عہدہ طلب نہیں کیا، جو بھی ملا بنا طلب کے ملا، اور جو ملا اس کا حق ادا کرنے کی مقدور بھر کوشش کرتے رہے۔
اشفاق صاحب کے اندر قناعت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، میں نے پورے ایک سال ان کے ساتھ ایک ڈائننگ ہال میں تین وقت کھانا کھایا، اس دسترخوان کی خاص بات یہ تھی کہ اس پر سجے کھانے نہ تو ذائقے کو تسکین دیتے تھے، اور نہ صحت کے لئے مناسب ہوتے تھے، خاص بات یہ تھی کہ سال بھر تینوں وقت ان کھانوں کے غیر معیاری ہونے میں فرق نہیں آتا تھا، کھانے والے سب خاص لوگ تھے، اور سب اس کھانے سے شاکی تھے، کوئی اس کے نامناسب ہونے کا شکوہ کبھی کبھی کرتا، اور کوئی روزانہ کرتا، کوئی طنزوظرافت سے کام لیتا، اور کوئی سنجیدہ برہمی کا اظہار کرتا، لیکن ہم سب کے درمیان ایک اشفاق صاحب کی شخصیت سب سے منفرد تھی، میں نے سال بھر میں کبھی بھی انہیں ذرا سا بھی شکوہ کرتے نہیں سنا۔
اس ڈائننگ ہال سے میں نے ایک سبق سیکھا، وہ یہ کہ بعض خرابیاں بہت ڈھیٹ ہوتی ہیں، ان کے سامنے امیر ووزیر سب بے بس ہوتے ہیں، بااختیار ہوتے ہوئے بھی ان خرابیوں کو دور کرنے کے سلسلے میں سبھی خود کو بے اختیار محسوس کرتے ہیں، اور ان خرابیوں کے نقصان کو محسوس کرتے ہوئے بھی صبر وسکوت یا شکوہ وشکایت سے زیادہ کوئی کچھ نہیں کرپاتا ہے۔ اشفاق صاحب نے ایسے ہر موقع پر شکایت کے بجائے صبر کا راستہ اختیار کیا۔
اشفاق صاحب عین جوانی میں شدید قسم کی بیماریوں سے دوچار ہوئے، اور بیماریوں سے لڑتے ہوئے میدان کارزار سے نکل کر کمرہ استراحت میں جانے پر مجبور ہوگئے، اس استراحت میں کتنی حسرتیں انہیں بے چین رکھتی تھیں اس کا اندازہ وہ لوگ کر ہی نہیں سکتے جو بستر استراحت ہی کو میدان کارزار سمجھ کر بڑے اطمینان والی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کی سخت علالت اور پھر شدید نقاہت کے دوران ایسا لگنے لگا جیسے ہم لوگ جیتے جی ان کو بھولنے لگے ہیں، تاہم ان کی وفات کی خبر نے ان کی یادوں کو تازہ کردیا، اور اندازہ ہوا کہ ان کا تذکرہ گو زبانوں پر نہیں تھا مگر ان کی محبت بے شمار دلوں میں بسی ہوئی تھی۔
بہترین جوانی وہ ہے جو اللہ کے دین کا کام کرتے ہوئے گزر جائے، اور بہترین جوان وہ ہے جو جوانوں کو اللہ کے کام سے جوڑ دے۔ دعا ہے کہ رب کریم کے یہاں اشفاق صاحب کا شمار بہترین اور پسندیدہ جوانوں میں ہو۔ اور ان سے محبت کرنا ہمارے لئے بھی باعث اجر بن جائے۔

مولانا محمد سالم قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت پر تاریخی سیمینار

مولانا محمد سالم قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت پر تاریخی سیمینار
مشاہدات وتاثرات
محی الدین غازی
صبح سویرے ہم دہلی سے دیوبند سیمینار میں شرکت کے لئے روانہ ہوئے، عزیزی ابوالاعلی سید، اور محترم مولانا رفیق قاسمی صاحبان کو جلد ہی گہری نیند آگئی، اور مجھے محترم امیرجماعت کے ساتھ تخلیہ کی صورت حاصل ہوگئی۔ پھر یہ ہوا کہ مولانا محترم دل کی باتیں پوری بے تکلفی کے ساتھ بیان کرتے رہے اور میں سنتا رہا، جہاں ایک موضوع مکمل ہوتا میں دوسرا موضوع چھیڑ دیتا۔ ایک زمانے کے بعد اتنی دیر تک طالب علمانہ کیفیت سے گزرنے کا موقع ملا۔ یہاں تک کہ ہم دیوبند پہونچ گئے۔ دار العلوم وقف دیوبند میں مقالہ نگار کی حیثیت سے میری حاضری میرے لئے بالکل انوکھا تجربہ تھا۔
قارئین جانتے ہیں کہ اس سیمینار کو لے کر چند روز پہلے سے فضا میں شدید قسم کا تکدر تھا، لیکن اللہ کا ایسا کرم ہوا کہ سیمینار شروع ہوتے ہی کدورت کی جگہ پاکیزگی اور طہارت نے لے لی۔ اور دل کی کشادگی ہی ہر شخص کی اولین پسند قرار پائی۔ میں نے کسی بھی شخصیت پر ہونے والے سیمینار میں کشادہ ظرفی کی ایسی حکمرانی اور وسعت قلبی کی اتنی عزت افزائی نہیں دیکھی۔ نہ ہی کسی علمی سیمینار میں دل کے احوال پر اتنی زیادہ توجہ پائی۔
دار العلوم (وقف) کے مہتمم مولانا محمد سفیان قاسمی صاحب نے پتھر کے جواب میں پھول پیش کرکے ساری دنیا کا دل جیت لیا تھا۔ اور ان کے نہایت حکیمانہ ردعمل کے نتیجے میں سیمینار کامیابی کی اعلی منزلوں کو چھو رہا تھا۔ ہر زبان سے پھول جھڑ رہے تھے، اور ہر تقریر محبت سے بھرپور تھی۔ ادارہ کا جن سے کبھی شدید ترین اختلاف تھا، وہ بھی موجود تھے اور الفت ومحبت کے جذبات کا کھل کر اظہار کر رہے تھے۔ اور خطبہ استقبالیہ میں مہتمم محترم نے جب یہ شعر پڑھا تو سب کیف میں ڈوب گئے:
چمن میں اختلاط رنگ وبو سے بات بنتی ہے
ہمی ہم ہیں تو کیا ہم ہیں۔ تمہی تم ہو تو کیا تم ہو
افتتاحی اجلاس میں مولانا محمود مدنی کا یہ بیان تحسین کی سماعت سے سنا گیا کہ ماضی کی ناگواریوں کو تازہ کرنے سے تو خرابی ہی بڑھے گی، تاہم ان ناگواریوں کے درمیان سے ہی نمودار ہونے والے اس روشن نمونے میں نئی نسل کے سیکھنے کے لئے بہت کچھ ہے، انہوں نے برملا اظہار کیا کہ مولانا محمد سالم قاسمی رحمۃ اللہ علیہ نے یک طرفہ تمام مقدمات واپس لے کر اور اپنی طرف سے تمام مطالبات ختم کر کے فتنے کی بھڑکتی آگ کو بجھادیا تھا، اور اختلافات کو وراثت میں منتقل ہونے سے روک دیا تھا۔
اس موقعہ سے سیکھنے کو یہ بھی ملا کہ جب کسی طرف سے ہونے والی شدید زیادتی کی وجہ سے سخت غصہ آجانے کا موقعہ ہو تو غصہ سے مغلوب ہوجانا ہی ایک تنہا راستہ نہیں ہوتا ہے، بلکہ اسی وقت غصہ کو شکست دے کر عظیم فتح بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس سیمینار کو تاریخی واقعہ بنانے کے ہیچھے یہی عظیم قوت کارفرما تھی۔ اگر اسے وہ چیلنج درپیش نہ ہوتا جو درپیش ہوا اور جس کا مقابلہ بے نظیر حلم اور بے مثال حکمت سے کیا گیا، تو شاید اس کا رنگ اس قدر پرکشش اور شان دار نہیں ہوپاتا۔
اس موقع پر محترم امیر جماعت نے مولانا مرحوم کی شخصیت کے حوالے سے اپنی خوب صورت گفتگو کے درمیان موقع نکال کر جماعت اسلامی کا موقف بھی واضح کردیا کہ دین وملت کو درپیش کسی بھی بحران میں جماعت اسلامی علماء امت کا ساتھ دینے کے لئے ہمیشہ تیار رہے گی۔ مولانا نے مزید کہا: جن مسائل پر علماء کرام کا مولانا مودودی سے اختلاف رہا ہے، ان پر بھی گفتگو کے لئے ہم تیار ہیں، بہت سے ایسے اختلافی مسائل میں وہ جماعت اسلامی کو اپنے ساتھ پائیں گے۔
پروفیسر محمد اعظم قاسمی حکیم الإسلام قاری محمد طیب رحمۃ اللہ علیہ کے فرزند اور خطیب الاسلام مولانا محمد سالم قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کے چھوٹے بھائی ہیں، وہ اس مجلس کی بزرگ ترین شخصیت تھے، ان کی گفتگو شروع ہوئی تو سب ہمہ تن گوش ہوگئے، وہ کہنے لگے: اس وقت وحدت والفت کا جو منظر سامنے آیا ہے وہ بے انتہا خوش کن ہے۔ دور دور رہنے والی شخصیات ایک جگہ جمع ہیں۔ اور سب سے زیادہ اطمینان کی بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے امیر بھی اس محفل میں شریک ہوئے ہیں۔ میرے لئے یہ تصور کرنا مشکل تھا کہ وہ کبھی دارالعلوم آئیں گے یا بلائے جائیں گے۔ اس کے بعد محترم بزرگ نے ایک زبردست بات کہی، یہاں یاد رہے کہ اس وقت محترم امیر جماعت اسٹیج پر موجود نہیں تھے اور اظہار خیال کرکے جاچکے تھے، یہ بھی ذہن میں رہے کہ دارالعلوم کے وسیع ہال میں بھرا ہوا مجمع جماعت اسلامی کا نہیں تھا، خالص علماء اور طلبہ کا تھا۔ انہوں نے کہا: "مولانا جلال الدین انصر عمری ان لوگوں میں سے ہیں، جنہیں دیکھ کر خدا یاد آتا ہے، میں نے اپنی پوری زندگی میں ایسے چند لوگ ہی دیکھے ہیں"۔
ملک کے اکابر علماء کے درمیان جب کہ سب کی توجہ اور مدح سرائی کا مرکز خود سیمینار سے متعلق شخصیت تھی، ایک بزرگ شخصیت کی جانب سے امیر جماعت اسلامی کا اتنا شان دار تعارف راقم کے لئے نہایت مسرت انگیز تھا۔ امیر محترم کی بہت سی رایوں، بعض رویوں اور کچھ فیصلوں کے بارے میں مجھے تحفظ رہا ہے، مگر یہ جملہ سن کر ناقابل بیان خوشی کا احساس ہوا۔
امیر جماعت کے بارے میں یہ تعارف اسلامی تحریک کے کارکنان کی ذمہ داری بہت بڑھادیتا ہے۔ یہ تعارف تحریک اسلامی کے افراد کو ایک روشن راستہ دکھاتا ہے، بلاشبہ اللہ کے دین کی خدمت کا راستہ بندوں کے درمیان سے گزرتا ہے، اور اس پر وہی چلنے کا اہل ہوتا ہے جو صالحیت اور للہیت کے رنگ میں اپنی شخصیت کو رنگ لیتا ہے۔ اس رنگ کے پختہ ہوجانے کے بعد مخالفتوں کے بادل چھٹنے لگتے ہیں، اور دلوں میں جگہ بننے لگتی ہے۔ نظریاتی کشمکش کتنی ہی شدید ہو، روحانی کشش اپنی راہ بنا ہی لیتی ہے۔
سیمینار کا موضوع سابق مہتمم دار العلوم دیوبند وقف مولانا محمد سالم قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمات اور افکار کا جائزہ تھا، سیمینار میں کم وقت کے اندر بہت زیادہ مقالے پیش کئے گئے، شخصیت کے حوالے سے متعدد اعلی اخلاقی قدروں پر روشنی پڑتی رہی، اعتدال، کشادہ دلی، اتحاد کے لئے کوششیں اور ان کوششوں کی خاطر ذاتی مفاد کی قربانی جیسے موضوعات سب سے نمایاں نظر آئے۔ کسی شخصیت کے حوالے سے اعتدال واتحاد پر اتنی مثبت اور اس قدر اچھی گفتگو شاید ہی کسی سیمینار میں کی گئی ہو۔
روایتی علماء کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ کارناموں سے زیادہ کرامتیں بیان کرتے ہیں، اور خوبیوں سے زیادہ برکتوں کا ذکر کرتے ہیں۔ لیکن اس سیمینار میں شخصیت اپنے کارناموں سے آراستہ اور خوبیوں سے مالا مال نظر آتی رہی۔
یہ جاننے کے لئے کہ مولانا مرحوم سے بے پناہ محبت وعقیدت رکھنے والے اور ان کی کشادہ ظرفی کے گن گانے والے خود سیمینار کی کشادگی کو کتنا قابل قدر سمجھتے ہیں، راقم نے اپنا مقالہ شروع کرنے سے پہلے کہا: جب یہ سیمینار ہے تو اس میں شخصیت پر تنقید بھی ہوسکتی ہے، سو تنقید سننے کے لئے تیار رہیں۔ سامعین کی پیشانی پر ذرا بھی بل نہیں آیا، راقم کو اطمینان ہوا اور اس نے مولانا پر تنقید کرنے کے بجائے مولانا کی وہ تنقیدیں کھول کر بیان کردیں جو مولانا زندگی بھر غیر معتدل علماء کے غیر صحتمند رویوں پر کرتے رہے۔ خوشی ہوئی کہ سامعین نے ان تنقیدوں کو بھی شوق سے سن لیا۔
اس محبت آمیز سیمینار میں شریک ہونے والے اس بات پر متفق تھے کہ اختلافات ہونے میں حرج نہیں ہے، لیکن اختلافات حق کی مخالفت اور آپسی بغض وعداوت کی شکل اختیار نہ کرلیں اسے یقینی بنانا ضروری ہے۔

زخموں پر مرہم رکھنا ضرور سیکھ لیں

زخموں پر مرہم رکھنا ضرور سیکھ لیں
محی الدین غازی
ایک نوجوان سے ملاقات ہوئی، بے تکلفی ہوتے ہی اس نے اپنی ایک پریشانی بیان کردی، اس کی شادی کو چند سال ہوچکے ہیں، وہ اپنی بیوی اور ماں کے ساتھ رہتا ہے، اپنی بیوی سے وہ بہت خوش ہے، لیکن اس کی بیوی اپنی ساس سے خوش نہیں ہے، ساس اسے دن بھر طعنے دیتی رہتی ہے، اور اس کے ہر کام میں عیب نکالتی ہے، بیوی کا اصرار بڑھتا جارہا ہے کہ ایسی حالت میں وہ اس کی ماں کے ساتھ نہیں رہ سکتی ہے، یا تو وہ اسے الگ گھر میں رکھے، یا پھر طلاق دے دے۔ وہ مجبور ہے، ماں کو اکیلے وہ چھوڑ نہیں سکتا، اور بیوی کو طلاق دینے کا خیال بھی دل میں نہیں لاسکتا۔ اسے احساس ہے کہ بیوی کی خدمت گزاری کے باوجود زیادتی اس کی ماں کی طرف سے ہورہی ہے، مگر وہ اپنی ماں کے سامنے خود کو بے بس پاتا ہے۔
اس کی پریشانی جاننے کے بعد میرے ذہن میں ایک نسخے نے جنم لیا، میں نے کہا، تمہاری مجبوری میں سمجھ سکتا ہوں، تم ماں کے سامنے بے بس ہو، اس لئے بیوی کے دل کو زخمی ہونے سے بچا نہیں سکتے ہو، لیکن ایک کام تم ضرور کرسکتے ہو، اور وہ ہے بیوی کے زخموں پر مرہم رکھنے کا کام۔ اچھی طرح سوچو تمہارے پاس بیوی کے زخمی دل کا مداوا کرنے کی کیا کیا قابل عمل صورتیں ہوسکتی ہیں۔ تم وقفے وقفے سے اس کے لئے تحفے لاسکتے ہو، ریسٹورنٹ لے جاکر پسندیدہ کھانا کھلاسکتے ہو، گاہے گاہے کہیں سیر وتفریح کے لئے ساتھ جاسکتے ہو۔ ہوسکتا ہے تمہارے محبت بھرے ہاتھوں سے ایک آئس کریم اس کے بہت سے زخموں کا مرہم بن جائے۔ غرض بیوی کے ساتھ کچھ ایسا سمجھوتہ کرسکتے ہو کہ وہ تمہاری ماں کی باتوں پر صبر کرتی رہے، اور اس کے بدلے میں تم اس پر خصوصی نوازشیں کرتے رہو۔ نصیحتوں کی اپنی اہمیت ہے، تم اسے ضرور سمجھاؤ کہ انسان چاہے تو آسانی سے تلخ باتوں کو سنی ان سنی کرسکتا ہے، بتاؤ کہ دل شکن باتوں کو نظر انداز کردینے میں بڑی عافیت رہتی ہے۔ یہ بھی یاد دلاؤ کہ صبر کرنے والوں کے لئے دنیا میں بھی اچھا انجام ہے، اور اللہ کے یہاں تو صبر کا بڑا اجر ہے۔ یہ سب کچھ سمجھانے کے ساتھ ہی اس کے زخموں پر طرح طرح سے مرہم بھی رکھتے رہو۔
بلاشبہ صورت حال اس کے برعکس بھی ہوسکتی ہے، کہیں ہوسکتا ہے بیوی کی طرف سے زیادتی ہوتی ہو، اور بیوی کی بدزبانی سے ماں کا دل دکھی ہوتا ہو، ایسی صورت میں شوہر اپنی بیوی کو نرمی سے سمجھانے کا عمل جاری رکھے، ساتھ ہی ماں کے زخموں پر مرہم بھی رکھتا رہے، وہ خود ماں کی اتنی دل جوئی اور ایسی خدمت کرے کہ اس کی ماں اپنی بہو کی زیادتی یا کوتاہی کو بھول جائے۔
اصولی بات یہ ہے کہ اپنے جن عزیزوں کی جسمانی تکلیفوں کے لئے فکر مند رہنا آپ اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں، ان کی قلبی تکلیفوں کی فکر کرنا بھی اپنے لئے ضروری سمجھیں۔
باہمی جھگڑوں کے علاوہ بھی زخموں پر مرہم لگانے کے بے شمار مواقع روز مرہ کی زندگی میں آتے ہیں، اگر آپ کے بچے کو کسی امتحان یا مقابلے میں کم نمبرات ملیں، تو اس کی فکر ضرور کریں کہ تیاری میں کمی کہاں رہ گئی اور وہ کیسے دور کی جائے۔ لیکن سب سے پہلے اس کی فکر کریں کہ کم نمبرات ملنے کی وجہ سے بچے کے دل پر جو زخم لگا ہے، اس پر کون سا مرہم لگائیں کہ زخم جلد مندمل ہوجائے۔
بہت زیادہ فکر اس کی کرنی چاہئے کہ کہیں آپ کی زبان یا رویے نے کسی کے دل کو زخمی تو نہیں کردیا۔ ایسے میں معافی مانگ لینا ہی کافی نہیں سمجھیں، بلکہ اس کے زخم کو مندمل کرنے کی تدبیریں سوچیں۔ اگر زبان اور رویے سے دل زخمی ہوا ہے، تو زبان اور رویے سے ہی دل کا زخم مندمل بھی ہوسکتا ہے۔ اتنا خیال رہے کہ زخم لگنے میں وقت نہیں لگتا مگر زخم مندمل ہونے میں وقت ضرور لگتا ہے، اگر آپ نے زخم دیا ہے تو اس وقت تک مرہم رکھنا اپنا فرض سمجھیں جب تک زخم مندمل نہ ہوجائے۔
اس دنیا میں تکلیف پہونچانے والے کانٹے بہت ہیں، تاہم دیکھا گیا ہے کہ جس قدر انسانوں سے انسانوں کو تکلیف پہونچتی ہے کسی اور سے نہیں پہونچتی ہے۔ انسانوں کی انسانوں کے دلوں تک رسائی ہوجاتی ہے اس لئے انسان کے دل کو انسان آسانی سے زخم دے دیتا ہے۔ اس پر مزید یہ کہ دل کے زخموں پر نمک چھڑکنا، ان کی تکلیف کو کئی گنا بڑھادینا، اور انہیں لمبے عرصہ تک کرید کرید کر ہرا کرتے رہنا بھی انسانوں کا سب سے پسندیدہ مشغلہ رہا ہے۔ یہ نہایت مکروہ مشغلہ ہے۔ دو بھائیوں میں کہا سنی ہوجائے، شوہر اور بیوی میں جھگڑا ہوجائے، باپ بیٹے میں ناراضگی ہوجائے، دو دوستوں میں ناچاقی ہوجائے، ایسی ہر صورت حال میں انسانیت کا تقاضا ہے کہ جلتی پر تیل نہیں ڈالا جائے اور زخموں پر نمک نہیں چھڑکا جائے بلکہ آگے بڑھ کر اچھے سے اچھا مرہم لگایا جائے۔
یاد رکھیں نفرت کی آگ بجھانا اور دل کے زخموں پر مرہم لگانا خدمت خلق کے اچھے کاموں میں بہت عمدہ کام ہے۔
دیکھا گیا ہے کہ لوگ اپنے جسم پر لگنے والے زخموں کی تو خوب مرہم پٹی کرتے ہیں، اور کوشش کرتے ہیں کہ زخم گہرا ہو کر ناسور نہ بنے اور جلدی ٹھیک ہوجائے، لیکن وہ دل پر لگنے والے زخموں کی خوب خوب پرورش کرتے ہیں، اور دن بدن انہیں بڑھایا کرتے ہیں۔ یہ دل کی صحت کے لئے اچھا نہیں ہے۔ بہت زیادہ فکر اس کی کریں کہ آپ کے اپنے دل پر لگنے والے زخم جلدی مندمل ہوتے رہیں۔
بہترین مرہم اور کامیاب علاج کی تلاش ہو تو قرآن مجید پڑھیں اور دیکھیں کہ اللہ کے نیک بندوں کے دلوں پر کیسے کیسے کچوکے لگا کرتے، زخموں سے دل کیسا چھلنی ہوجاتا، لیکن وہ اللہ کی یاد سے سینے کو اس طرح آباد رکھتے اور شفایابی کے قرآنی نسخے اس طرح برتا کرتے کہ ہر زخم فورا مندمل ہوجاتا، اور دل ہمیشہ صحت مند اور توانا رہتا۔ قرآن مجید میں دل کی بیماریوں کے لئے علاج بھی ہے اور دل کے زخموں کے لئے مرہم بھی ہے۔

غلط شیعی نظریات اور مولانا مودودی کا موقف

غلط شیعی نظریات اور مولانا مودودی کا موقف
محی الدین غازی
اس تحریر کو پیش کرنے کا محرک یہ ہے کہ سوشل میڈیا میں بعض حلقوں کی طرف سے بڑے زور وشور سے پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ مولانا مودودی شیعی نظریات کے سلسلے میں نرم گوشہ رکھتے تھے، بعض لوگ تو کھلے عام صریح لفظوں میں انہیں شیعہ اور رافضی بھی لکھتے ہوئے تردد محسوس نہیں کرتے ہیں۔ اس مضمون میں ایسے سب لوگوں کو اپنے رویے پر دیانت داری کے ساتھ نظر ثانی کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔
دوسرا بڑا مقصد ان لوگوں کو اصل حقیقت سے باخبر کرنا ہے، جو اللہ کے دین سے محبت رکھتے ہیں اور صرف اسی لئے مولانا مودودی سے بھی تعلق خاطر رکھتے ہیں، ان کی دینی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، اور ان کے دینی مشن سے قلبی لگاؤ رکھتے ہیں، مگر مخالفوں کے پروپیگنڈے کی وجہ سے حیران وپریشان رہتے ہیں، اور واقعی جاننا چاہتے ہیں کہ شیعی نظریات وعقائد کے تعلق سے مولانا مودودی کا حقیقی موقف کیا تھا۔
مولانا مودودی کی کتابیں پڑھتے ہوئے مجھ پر یہ حقیقت اچھی طرح واضح ہوگئی کہ مولانا نے جس طرح دنیائے انسانیت اور مسلم امت میں رائج طرح طرح کے غلط نظریات پر تنقیدیں کیں، اسی طرح غلط شیعی نظریات کا بھی بہت شدت سے تعاقب کیا ہے، اور جہاں بھی انہیں مناسب موقع نظر آیا انہوں نے ان نظریات پر کھل کر تنقید کی اور بہت مدلل اور سخت تنقید کی۔ کہیں بھی کسی طرح کی مداہنت کا راستہ اختیار نہیں کیا۔
اگر کوئی مولانا کی تمام تحریروں سے ایسی تمام تنقیدیں الگ نکال لکر جمع کرے تو بلاشبہ ایک ضخیم کتاب تیار ہوسکتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مولانا کی دیگر کتابوں کے علاوہ ان کی مشہور زمانہ تفسیر تفہیم القرآن میں اہل تشیع کے غلط نظریات پر جتنی تنقیدیں ہیں بہت کم تفسیروں میں ملیں گی۔ میں یہاں تفہیم القرآن سے اختصار کے ساتھ چند مثالیں ذکر کروں گا:
پہلی مثال:سورۃ فتح کی آیت (29) کی تفسیر میں مولانا لکھتے ہیں: ایک گروہ اس آیت میں منھم کی من کو تبعیض کے معنی میں لیتا ہے اور آیت کا ترجمہ یہ کرتا ہے کہ ''ان میں سے جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کئے اللہ نے ان سے مغفرت اور بڑے اجر کا وعدہ فرمایا ہے" اس طرح یہ لوگ صحابہ پر طعن کا راستہ نکالتے ہیں اور دعوی کرتے ہیں کہ اس آیت کی رو سے صحابہ میں بہت سے لوگ مومن وصالح نہ تھے۔ (اس کے بعد مولانا نے اس غلط خیال کی تردید میں طویل اور مدلل گفتگو کی ہے) (تفہیم القرآن جلد ششم، ص 65)
دوسری مثال:سورہ احزاب کی آیت (6) کی تفسیر میں لکھتے ہیں: یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ قرآن مجید کی رو سے یہ مرتبہ تمام ازواج نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے جن میں لا محالہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی شامل ہیں۔ لیکن ایک گروہ نے جب حضرت علی وفاطمہ رضی اللہ عنہما اور ان کی اولاد کو مرکز دین بنا کر سارا نظام دین انہیں کے گرد گھمادیا، اور اس بنا پر دوسرے بہت سے صحابہ کے ساتھ حضرت عائشہ کو بھی ہدف لعن وطعن بنایا، تو ان کی راہ میں قرآن مجید کی یہ آیت حائل ہوگئی جس کی رو سے ہر اس شخص کو انھیں اپنی ماں تسلیم کرنا پڑتا ہے جو ایمان کا مدعی ہو۔ آخر کار اس مشکل کو رفع کرنے کے لئے یہ عجیب وغریب دعوی کیا گیا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کو یہ اختیار دے دیا تھا کہ آپ کی وفات کے بعد آپ کی ازواج مطہرات میں سے جس کو چاہیں آپ کی زوجیت پر باقی رکھیں اور جسے چاہیں آپ کی طرف سے طلاق دے دیں۔
(اس کے بعد مولانا نے طبرسی کی کتاب الاحتجاج سے ایک روایت نقل کی اور اس کو رد کرتے ہوئے لکھا): اصولی روایت کے اعتبار سے تو یہ روایت سراسر بے اصل ہے ہی، لیکن اگر آدمی اسی سورۃ احزاب کی آیات 28، 29 اور51،52 پر غور کرے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ روایت قرآن کے بھی خلاف پڑتی ہے۔ کیونکہ آیت تخییر کے بعد جن ازواج مطہرات نے ہر حال میں رسول اللہ ﷺ کی رفاقت کو اپنے لئے پسند کیا تھا ، انہیں طلاق دینے کا اختیار حضور کو باقی نہ رہا تھا۔
اس کے بعد مولانا لکھتے ہیں: علاوہ بریں ایک غیر متعصب آدمی اگر محض عقل ہی سے کام لے کر اس روایت کے مضمون پر غور کرے تو صاف نظر آتا ہے کہ یہ انتہائی لغو اور رسول پاک ﷺ کے حق میں سخت توہین آمیز افترا ہے۔ رسول کا مقام تو بہت بالا تر وبرتر ہے، ایک معمولی شریف آدمی سے بھی یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ اپنی وفات کے بعد اپنی بیوی کو طلاق دینے کی فکر کرے گا اور دنیا سے رخصت ہوتے وقت اپنے داماد کو یہ اختیار دے جائے گا کہ اگر کبھی تیرا اس کے ساتھ جھگڑا ہو تو میری طرف سے اسے طلاق دے دیجیو۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ اہل البیت کی محبت کے مدعی ہیں ان کے دلوں میں صاحب البیت کی عزت وناموس کا پاس کتنا کچھ ہے، اور اس سے بھی گزر کر خود اللہ تعالی کے ارشادات کا وہ کتنا احترام کرتے ہیں۔ (تفہیم القرآن جلد چہارم ص72 اور 73)
تیسری مثال: سورۃ احزاب کی آیت (33) کی تفسیر میں مولانا لکھتے ہیں: ایک گروہ ہے جس نے اس آیت کی تفسیر میں صرف اتنا ہی ستم نہیں کیا ہے کہ ازواج مطہرات کو 'اہل البیت' سے خارج کرکے صرف حضرت علی وفاطمہ اور ان کی اولاد کے لئے اس لفظ کو خاص کردیا، بلکہ اس پر مزید ستم یہ بھی کیا ہے کہ اس کے الفاظ ''اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم سے گندگی کو دور کرے اور تمہیں پوری طرح پاک کردے" سے یہ نتیجہ نکال لیا کہ حضرت علی وفاطمہ اور ان کی اولاد انبیاء علیہ السلام کی طرح معصوم ہیں۔ (آگے اس خیال کی تفصیلی تردید ہے) (تفہیم القرآن جلد چہارم ص93)
چوتھی مثال: سورۃ احزاب کی آیت (59) کی تفسیر کرتے ہوئے مولانا لکھتے ہیں: ضمنا ایک اور مضمون جو اس آیت سے نکلتا ہے وہ یہ کہ اس سے نبی ﷺ کی کئی بیٹیاں ثابت ہوتی ہیں، کیونکہ اللہ تعالی فرمارہا ہے "اے نبی اپنی بیویوں اور بیٹیوں سے کہو" یہ الفاظ ان لوگوں کے قول کی قطعی تردید کردیتے ہیں جو خدا سے بے خوف ہو کر بے تکلف یہ دعوی کرتے ہیں کہ نبی ﷺ کی صرف ایک صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا تھیں اور باقی صاحبزادیاں حضور ﷺ کی اپنی بیٹیاں نہ تھیں بلکہ گیلڑ تھیں۔ یہ لوگ تعصب میں اندھے ہوکر یہ بھی نہیں سوچتے کہ اولاد رسول کے نسب کا انکار کرکے وہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کررہے ہیں اور اس کی کیسی سخت جواب دہی انہیں آخرت میں کرنی ہوگی۔ (آگے اس خیال کی تفصیلی دلائل کے ساتھ تردید کی ہے) (تفہیم القرآن جلد چہارم ص130)
رسائل ومسائل میں ایک جگہ مولانا اس سوال کا مفصل جواب دیتے ہیں کہ دینی معلومات کا مرجع صرف اہل البیت کیوں نہ ہوں؟ اسی میں ایک جگہ لکھتے ہیں: عقل کسی بھی طرح یہ باور نہیں کرسکتی کہ تیئس سال کے دوران میں جو عظیم الشان کام نبی نے سینکڑوں ہزاروں آدمیوں کی شرکت و رفاقت میں سر انجام دیا اور جسے لاکھوں آدمیوں نے اپنی آنکھوں سے ہوتے دیکھا، اس کے متعلق معلومات حاصل کرنے میں صرف آپ کے گھر والوں پر ہی حصر کرلیا جائے اور ان بہت سے دوسرے لوگوں کو نظر انداز کردیا جائے جو اس کام میں شریک ہوئے اور جنہوں نے اسے دیکھا۔ حالاں کہ حضور ﷺ کے گھر والوں میں سے خواتین کو اگر موقع ملا ہے تو زیادہ تر آپﷺ کی خانگی زندگی دیکھنے کا موقع ملا ہے اور مردوں میں ایک حضرت علی ؓ کے سوا کوئی دوسرا ایسا نہیں ہے جسے آپ ﷺ کی رفاقت کا اتنا موقع ملا ہو جتنا حضرت ابو بکر صدیقؓ، عمرؓ، عثمانؓ، ابن مسعودؓ اور دوسرے بہت سے صحابہ کرام کو ملا۔ پھر آخر محض اہل بیت ہی پر حصر کرلینے کی کونسی معقول وجہ ہے؟ اس سوال کو رد کرنے کے لیے بآلاخر ایک گروہ کو یہ کہنا پڑا کہ گنتی کے چند آدمیوں کے سوا باقی تمام صحابہ معاذ اللہ منافق تھے۔ مگر یہ بات صرف وہی شخص کہہ سکتا ہے جو تعصب میں اندھا ہوچکا ہو۔ جسے نہ اس بات کی پروا ہو کہ تاریخ اس کی تمام خاک اندازیوں کے باوجود کس طرح اس کے قول کوجھٹلا رہی ہے اور نہ اس امر کی پروا ہو کہ اس قول سے خود سرکار رسالت مآب اور آپؐ کے مشن پر کیسا سخت حرف آتا ہے۔ (رسائل ومسائل جلد دوم ص 261,262)
شیعوں کی علانیہ دشنام طرازی پر حکومت کی جانب سے پابندی لگانے کا مطالبہ کرتے ہوئے مولانا لکھتے ہیں: اس معاملے میں سنیوں اور شیعوں کی پوزیشن میں ایک بنیادی فرق ہے جسے ملحوظ رکھ کر ہی فریقین کے درمیان انصاف قائم کیا جاسکتا ہے۔ وہ یہ کہ شیعہ جن کو بزرگ مانتے ہیں وہ سنیوں کے بھی بزرگ ہیں۔ اور سنیوں کی طرف سے ان پر طعن وتشنیع کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا ۔ اس کے برعکس سنیوں کے عقیدے میں جن لوگوں کو بزرگی کا مقام حاصل ہے ان کے ایک بڑے حصہ کو شیعہ نہ صرف برا سمجھتے ہیں بلکہ انہیں برا کہنا بھی اپنے مذہب کا ایک لازمی جز قرار دیتے ہیں۔ اس لئے حدود مقرر کرنے کا سوال صرف شیعوں کے معاملے میں پیدا ہوتا ہے۔ انہیں اس بات کا پابند کیا جانا چاہئے کہ بدگوئی اگر ان کے مذہب کا کوئی جزو لازم ہے تو اسے اپنے گھر تک محدود رکھیں پبلک میں آکر دوسرون کے بزرگوں کی برائی کرنا کسی طرح بھی ان کا حق نہیں مانا جاسکتا۔ میرا یہ خیال ہے کہ اس معاملہ کو اگر معقول طریقے سے اٹھایا جائے تو خود شیعوں میں سے بھی تمام انصاف پسند لوگ اس کی تائید کریں گے (رسائل ومسائل حصہ سوم ص 378)
یہ چند مثالیں ہیں، ورنہ مولانا مودودی کی ایسی بہت سی تحریریں ہیں جو اس طرح کے غلط پروپیگنڈے کو دفع کرنے اور یہ واضح کرنے کے لئے بہت کافی ہیں کہ مولانا مودودی ہرگز شیعیت کے حامی نہیں بلکہ در حقیقت غلط شیعی نظریات وخیالات کے سخت مخالف اور زبردست ناقد تھے۔
اس ضمن میں مولانا کی کتاب خلافت وملوکیت کا تذکرہ چھیڑنا بے محل ہے، اس لئے کہ وہ شیعہ سنی موقف سے بالکل ہٹ کر ایک تحقیقی کاوش ہے، جس کے بعض مقامات پر اگر بعض سنیوں کو اعتراض ہوسکتا ہے، تو یقینا اس کے بیشتر حصے سے شیعوں کو اختلاف ہوگا۔
درحقیقت مولانا مودودی ممکنہ حد تک تکفیر سے بچتے ہوئے دعوت وتبلیغ اور افہام وتفہیم کے قائل تھے، اسی لئے وہ پورے شیعہ سماج پر کفر کے فتوے لگانے کے بجائے ان کے غلط نظریات اور غلط رویوں پر ٹھوس اور مدلل تنقیدیں کرتے تھے، تاکہ خود انہیں بھی اپنے موقف پر نظرثانی کرنے کا موقع اور ترغیب ملے۔
ان تحریروں سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ مولانا مودودی ہرگز اس تصور اتحاد امت کے قائل نہیں تھے، جس میں شرط یہ ہو کہ دوسروں کے غلط نظریات کے سلسلے میں چشم پوشی اور مداہنت کا رویہ اختیار کیا جائے۔

عمل کرنے کا شوق اور قبول ہونے کی آرزو

عمل کرنے کا شوق اور قبول ہونے کی آرزو
محی الدین غازی
(کیرلا ریلیف کے کاموں میں دل وجان سے لگے ہوئے نوجوانوں کو دیکھ کر دل سے دعائیں نکلیں اور خواہش ہوئی کہ ایسے ہر نوجوان کی خدمت میں یہ خوب صورت تحفہ پیش کردوں)
"ہمارے رب ہم سے قبول فرمالے، بلاشبہ تو سننے اور جاننے والا ہے" {رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ} یہ حسین وجمیل دعا حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیھما السلام کی زبان پر اس وقت جاری تھی جب وہ اللہ کے گھر کی دیواریں اٹھا رہے تھے۔ تصور میں دیکھیں اور سوچیں اللہ کے دو عظیم پیغمبر بڑی آزمائشوں اور عظیم قربانیوں سے سرخ رو گزر جانے کے بعد اللہ کے پہلے گھر کی تعمیر میں مصروف ہیں، اور اس وقت بھی سب سے زیادہ یہ فکر دامن گیر ہے کہ اللہ کی بارگاہ میں ان کا یہ کام قبول ہوجائے، یہ کیسی روح پرور کیفیت ہے اور اس میں اچھے کام کرنے والوں کے لئے کیسی گہری نصیحت ہے۔ جب رحمان کے خلیل کو رحمان کے گھر کی تعمیر جیسے عظیم کام کے قبول ہونے کی اتنی زیادہ فکر ہے تو عام انسانوں کو دین کے چھوٹے بڑے سب کام کرتے ہوئے قبولیت کی کتنی زیادہ فکر رہنی چاہئے۔
قبولیت کی سچی طلب دل میں بس جاتی ہے تو تمام کام اخلاص کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں، قبولیت کی فکر تقاضا کرتی ہے کہ کام کا مقصود صرف اللہ کی رضا ہو اور اس میں کسی کے لئے کوئی حصہ نہیں ہو۔ سوشل میڈیا کے اس زمانے میں جب کہ ہر شخص کے لئے اپنی کارکردگی کی خبر عام کرنا آسان ہوگیا ہے، اخلاص کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔ برائی اس میں نہیں ہے کہ آپ کا کام خبر بن جائے، لیکن برائی اس میں ضرور ہے کہ خبر بنانا ہی کام کا مقصد بن جائے، اور اس طرح پستی کی طرف رخ ہونے کی وجہ سے کام کی خبر آسمان پر جانے کے بجائے زمین کی پستیوں میں ہی بکھر کر رہ جائے۔ ابراہیم اور اسماعیل نے اخلاص کے ساتھ صرف اللہ کے یہاں قبول ہوجانے کے لئے تعمیر کعبہ کا کام کیا اور اللہ نے اسے قیامت تک کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبر بنادیا۔ واقعہ یہ ہے کہ اللہ کی رضا کے لئے جو کام کیا جائے وہ کائنات کی بہت خاص خبر بن جاتا ہے، شرط یہ ہے کہ وہ کام خبر بننے کے لئے نہیں بلکہ رب خبیر کے یہاں قبول ہونے کے لئے کیا جائے۔
قبولیت کی سچی طلب دل میں بس جاتی ہے، تو اچھے کام کرتے ہوئے دل میں یہ جذبہ جوان رہتا ہے کہ مشکل سے مشکل کام میرے حصے میں آجائے۔ ٹیم میں کچھ لوگ جسمانی طور سے کمزور ہوسکتے ہیں، کچھ کی قوت کار کم ہوسکتی ہے، اور کچھ کی مدت کار تھوڑی ہوسکتی ہے، ایسے میں پوری ٹیم کو قوت ان سے ملتی ہے جو بڑے بڑے بوجھ اٹھانے کے لئے خود کو پیش کرتے ہیں، جنہیں آرام سے بے رغبتی اور کام کا جنون ہوتا ہے، جنہیں مال غنیمت کا شوق نہیں ہوتا ہے بلکہ جام شہادت سے عشق ہوتا ہے۔ قبیلہ نخع کے لوگ قادسیہ کے معرکے میں شریک ہوئے اور دوسروں کے مقابلے میں زیادہ کام آگئے، حضرت عمر نے خبر لانے والوں سے پوچھا، نخع کے لوگ کیوں زیادہ شہید ہوئے، کیا دوسرے انہیں محاذ پر تنہا چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے تھے، انہوں نے وضاحت کی: دراصل ہوا یہ کہ نخع والوں نے اہم ترین محاذ آگے بڑھ کر تنہا خود سنبھال لئے تھے (إن النخع ولو أعظم الأمر وحدهم). جو مشکل کام اپنے ذمے لیتا ہے، اسی کو تکان زیادہ ہوتی ہے، پسینہ بھی اسی کا زیادہ بہتا ہے، چوٹیں بھی اسے ہی زیادہ آتی ہیں، لیکن وہی پوری ٹیم کے لئے جوش اور طاقت کا سرچشمہ ہوتا ہے، اسی کو دیکھ کر دوسروں کو کام کرنے کا حوصلہ اور توانائی ملتی ہے۔
قبولیت کی سچی طلب ہوتی ہے، تو آدمی شہرت اور نام وری سے بہت اوپر اٹھ جاتا ہے، اسے اس کی فکر نہیں ہوتی کہ اخبار میں اس کا فوٹو نہیں چھپا، لوگوں کو اس کے کارنامے معلوم نہیں ہوئے، اسے انعام واسناد سے نوازا نہیں گیا، فکر تو اسے بس یہ رہتی ہے کہ اللہ کی بارگاہ میں وہ مقبول قرار پا جائے۔ اور یہی تو اصل کامیابی ہے، اس عظیم کامیابی کے سامنے کسی اعتراف اور کسی انعام کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک معرکے کے بعد قاصد خبر لے کر حضرت عمر کے پاس پہونچا، آپ نے پوچھا معرکے میں کون کون کام آگیا، اس نے کچھ خاص خاص لوگوں کے نام بتائے، پھر کہا کچھ اور لوگ بھی کام آگئے جنہیں امیر المومنین نہیں جانتے ہیں، یہ سن کر حضرت عمر رونے لگے، اور کہنے لگے: امیر المومنین انہیں نہیں جانتا تو اس میں ان کا کیا نقصان ہے، اللہ تو انہیں جانتا ہے، اس نے تو انہیں شہادت کے اونچے مقام پر فائز کردیا ہے، اور عمر کے جان لینے سے ان کا کیا بھلا ہوگا۔ (وَمَا ضَرَّهُمْ أَنْ لَا يَعْرِفَهُمْ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ! لَكِنَّ اللَّهَ يَعْرِفُهُمْ وَقَدْ أَكْرَمَهُمْ بِالشَّهَادَةِ، وَمَا يَصْنَعُونَ بِمَعْرِفَةِ عُمَرَ). جو اللہ کی قدر پہچانتے ہیں، وہ اسی کو کافی سمجھتے ہیں اور اسی کو ضروری بھی سمجھتے ہیں کہ اللہ ان کے عمل کو قبول کرلے۔
قبولیت کی سچی طلب ہوتی ہے تو کام کا معیار بلند رکھنے کا شوق بھی بڑھ جاتا ہے۔ قبولیت کی طلب کام کے حسن پر ذرا سی بھی آنچ آنا گوارا کرتی ہے، اسے پورا یقین ہوتا ہے کہ جب اللہ کی بارگاہ میں قبولیت کے لئے کام کیا جائے تو کام بھی شایان شان ہونا چاہئے اور اس کے دامن پر ذرا سا بھی داغ نہیں لگنا چاہئے۔ ایک بدو سے جب زکات وصول کرنے والے نے اس کے تمام اونٹوں کو شمار کرکے ایک سال کا اونٹنی کا بچہ مانگا، تو اس نے کہا اللہ کے راستے میں اس سے کیا ہوگا، نہ دودھ دے نہ سواری کے کام آئے، پانچ سال کی تیار اور تنومند اونٹنی لے کر جاؤ۔ شعور اور ذوق کی اس بلندی پر پہونچنے کے لئے بس یہ جذبہ کافی ہوتا ہے کہ میرا مقصود اللہ ہے، اسی کے سامنے اعمال کو پیش ہونا ہے، اس لئے میرا ہر عمل اونچی شان والا ہونا چاہئے۔
قبولیت کی سچی طلب ہر اچھے کام کو تکمیل تک پہونچانے کا جذبہ پیدا کرتی ہے، یہ طلب اس وقت بے مثال تازگی عطا کرتی ہے، جب تھکن کی شدت سے جسم چور ہوجاتا ہے اور حوصلے جواب دینے لگتے ہیں، دل میں شیطان وسوسہ ڈالتا ہے کہ تم اتنے ہی کے مکلف تھے، اب باقی کام کوئی اور کرلے گا یا کبھی اور ہوجائے گا۔ لیکن جب قبولیت کی جستجو انگڑائی لیتی ہے تو حوصلوں کو جلا مل جاتی ہے اور جسم کو نئی توانائی حاصل ہوجاتی ہے۔ جب یہ دھن سوار ہو کہ اللہ کی بارگاہ میں یہ کام قبول ہوجائے تو پھر اس کام کو ادھورا کب کے لئے اور کس کے لئے چھوڑا جائے۔
اللہ کی عظمت پر ایمان رکھنے والے اچھے کاموں کو قابل قبول بنانے کی ہر کوشش کرتے ہیں، اور ان کے قبول ہوجانے کی ہر آن دعا کرتے ہیں۔

"حسین" مجاہد خلافت، شہید خلافت

"حسین"
مجاہد خلافت، شہید خلافت
محی الدین غازی
حسین نے یزید کے اقتدار کو تسلیم نہیں کیا، اس کے خلاف اٹھے اور اس کے حکم پر شہید کئے گئے، یہ ناقابل انکار حقیقت ہے، تاہم حسین یزید کے خلاف اس لئے نہیں اٹھے تھے کہ وہ اسے کافر سمجھتے تھے، اور نہ اس لئے اٹھے تھے کہ وہ اسے فاسق سمجھتے تھے۔ وہ اس لئے اٹھے تھے کہ وہ یزید کو غاصب اور ظالم سمجھتے تھے۔
یزید نے حسین کا حق غصب کیا تھا نہ حسین کے خاندان کا حق غصب کیا تھا، اس نے امت کا حق غصب کیا تھا۔ انسانی تاریخ میں پہلی بار ایک امت کو اپنے اس حق تک رسائی ملی تھی کہ وہ اپنا حاکم خود منتخب کرے۔ اس وقت کی پوری انسانی دنیا میں یہ ایک دھندلے خواب سے زیادہ نہیں تھا۔ یزید نے امت سے یہ حق چھین کر اسے ایک بہت بڑے امیتاز سے محروم کردیا۔ شورائی نظام کے ذریعہ بہترین اور صالح ترین فرد کا انتخاب، اور پھر خدا ترسی کے ساتھ ملک کا انتظام وانصرام چلانا اس امت کا عظیم امتیاز تھا جس سے وہ راتوں رات یکسر محروم کردی گئی اور نہ جانے کتنے ہزار سال کے لئے محروم کردی گئی۔
آج پوری دنیا سیاسی نظام میں اصلاحات کے آزادانہ تجربے کررہی ہے، اقتدار کی منتقلی جو ہمیشہ آگ اور خون کے زیر سایہ ہوا کرتی تھی، اب بڑی حد تک پرامن طریقے سے ہونے لگی ہے۔ اب یہ تصور دنیا نے پوری طرح رد کردیا ہے کہ اگر کوئی تم پر ظلم کرے تو بھی تم اس کے تخت کے پائے سے چمٹے رہو۔ ظالم اور خائن حکمرانوں کو بدلنے کی آسان اور پرامن سبیلیں نکل آئی ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ کہیں نہ کہیں غیر مسلم دنیا میں ہورہا ہے۔ مسلم دنیا میں اب بھی آمریت کی گندی سے گندی شکلیں پورے طمطراق کے ساتھ قائم ہیں۔ بہت سے مصلحین تو یہ تک کہہ چکے ہیں کہ مسلم دنیا میں سیاسی اصلاح کی ہر کوشش فضول ہے اور اسی لئے نامطلوب اور ناجائز ہے۔ مسلح کوششیں تو درکنار پرامن کوششیں بھی مسلم دنیا میں سیاسی اصلاح کے لئے ناقابل عمل اور بے نتیجہ قرار دے دی گئی ہیں۔
یہ کیسا سانحہ ہے کہ کبھی جس مسلم دنیا میں انسانی تاریخ کا سب سے مثالی سیاسی نظام قائم ہوا تھا، آج اس مسلم دنیا کی سیاسی اصلاح بالکل ناقابل علاج بتائی جارہی ہے، کل جو ہر طرح سے بہترین امت تھی آج سیاسی پسماندگی اور سیاسی بگاڑ اس کا حتمی مقدر بن چکے ہیں، یہ تبدیلی کب آئی؟
یہ شرمناک تبدیلی اس وقت آئی جب یزید نے اپنی عسکری طاقت کے بل پر اسلامی امت کو اس کے عظیم امتیاز یعنی نظام خلافت وشورائیت سے محروم کردیا، اور اسے نظام ظلم وجبر کی زنجیروں میں جکڑ کر رکھ دیا۔ وہ دن اور آج کا دن، امت کی سیاسی پسماندگی کو کوئی دور نہیں کرسکا۔
امت کتنی بلندی سے کتنی پستی پر گرادی گئی، اس کا اندازہ اس زمانے میں اس سے کیا جاسکتا ہے کہ آج سعودی عرب کی جیلوں کو قرآن وسنت کے عالموں اور حرم کے اماموں سے بھر دیا گیا ہے، اس لئے نہیں کہ وہ ملک میں بغاوت کرکے اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں، بلکہ صرف اس لئے کہ وہ ڈرتے جھجھکتے بس اشاروں اشاروں میں سیاسی اصلاحات کی کچھ باتیں کردیتے۔ اس کا اندازہ اس سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ حالیہ برسوں میں عراق میں شیعہ مافیا نے اقتدار میں آنے کے بعد چن چن کر ہزاروں مسلم عالموں اور سائنس دانوں کو قتل کرڈالا، صرف اور صرف اپنے اقتدار کو محفوظ رکھنے کی خاطر۔
حسین نے سیاسی اصلاح کے لئے کوچ کیا تو انہیں شہید کردیا گیا، اور اس کے بعد سے مسلم دنیا میں سیاسی اصلاح پر بات کرنا سب سے بڑا جرم قرار پایا، اور یہ بات عقیدے کے درجے تک پہونچ گئی کہ اگر حاکم ظلم بھی کرے تو بھی حاکم کی تبدیلی کا خیال دل میں مت لاؤ۔ حکومتیں تبدیل ہوتی رہیں حکمراں خاندان بدلتے رہے، مگر اموی ہوں کہ عباسی، فاطمی ہوں کہ عثمانی، موروثی شاہ ہوں کہ فوجی ڈکٹیٹر، سب یزید کے راستے پر چلتے رہے۔ چند ناموں اور کچھ گم ناموں کو چھوڑ کر کسی نے سیاسی نظام کی اصلاح کی کوشش نہیں کی۔
اسلامی خلافت کا امتیاز یہ تھا کہ حکومت بچانے کے لئے انسانوں کا خون نہ بہایا جائے۔ جب بلوائیوں نے ناحق خلیفہ عظیم حضرت عثمان کا محاصرہ کرلیا، یہاں تک کہ خلیفہ کو شہید کرڈالا، تب بھی اس عظیم خلیفہ نے کسی کو ان کے خلاف ہتھیار استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی، کتنا عظیم تھا وہ خلیفہ۔
یزید نے وہ نظام حکومت امت کے اوپر مسلط کیا کہ جو ہر مخالف کا علاج صرف اور صرف قتل بتاتا ہے۔ یزید نے حسین کو قتل کرایا اور اس کے بعد سے نیک صفت اور اصلاح پسند بزرگوں کے قتل کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔
یزید نے خونی ملوکیت کا راستہ اختیار کیا تھا۔ ایسی خونی ملوکیت جس میں کسی کو بھی قتل کرنا جائز تھا۔ جبر کے عالم کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسے حسین جیسی امت کی سب سے چہیتی شخصیت کو قتل کرانے میں ذرا تامل نہیں ہوا۔ لوگ کہتے ہیں دوسرے بیعت کرنے والوں نے بیعت کیوں کی تھی؟ سوال یہ ہے کہ بیعت کے سوا راستہ ہی کیا تھا؟ جسے حسین کا خون بہانے میں تردد نہ ہو وہ ابن عمر اور ابن عباس کے خون کی بھلا کیا پروا کرتا، اور عام مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے میں اسے کیا پس وپیش ہوتا۔ اور یہی ہوا، مدینے کے مسلمانوں نے جب شہادت حسین کے رد عمل میں جبری بیعت سے نکل جانے کا اعلان کیا تو یزید نے شہر مدینہ کی حرمت کو اس طرح پامال کیا کہ جس کی نظیر ظلم کی تاریخ میں ملنا مشکل ہے۔ عبد اللہ بن زبیر جب خون خرابے سے بچنے کی خاطر بیعت کرنے کو تیار ہوئے تو یزید نے حکم دیا کہ وہ قید کرکے لائے جائیں اس کے بعد ان کی جاں بخشی پر غور کیا جائے گا، اور انہیں گرفتار کرنے کے لئے شہر مکہ کا محاصرہ کرلیا۔ غرض یزید کے پاس ہر مسئلے کا علاج خوں ریزی تھا۔ اور یہی یزید کا اصل جرم تھا، قطع نظر اس سے کہ وہ نماز پڑھتا تھا یا نہیں پڑھتا تھا۔
یزید نے فوجی قوت کے ذریعہ خونی ملوکیت کو قائم کیا، اور وہ خونی ملوکیت ابھی تک امت کے کندھوں پر سوار ہے۔ مصر میں سیسی نے ہزاروں اخوانیوں کو قتل کیا، اور ہزاروں کو جیل میں ڈال دیا، شام میں بشار نے لاکھوں انسانوں کا خون بہایا اور لاکھوں انسانوں کو بے گھر کردیا، سعودی شاہ اور شاہزادے اور ایرانی آیۃ اللہ اور ان کے کارندے تو سر سے پاؤں تک مسلمانوں کے خون میں نہائے ہوئے ہیں۔ مراکش اور الجزائر سے لے کر پاکستان اور بنگلہ دیش تک انسانوں کے خون کو بے حساب بہادینا مسلم ملکوں میں اقتدار کو بچانے کا آسان ترین راستہ سمجھا جاتا ہے۔
یزید کا جرم کفر تھا نہ فسق تھا، اس کا جرم تو ایک بہترین نظام عدل کو بدترین قسم کے نظام ظلم میں تبدیل کردینا تھا، وہ نظام ظلم جو اس وقت سے اب تک کروڑوں جانوں کو نگل چکا ہے، وہ نظام ظلم جو پوری مسلم دنیا پر پنجے گاڑے سوار ہے، شیعہ دنیا میں بھی اور سنی دنیا میں بھی۔ اس نظام ظلم نے شیعہ ظالم بھی پیدا کئے اور سنی ظالم بھی پیدا کئے۔ اس وقت دنیا میں جتنے مسلمان نام کے ظالم وجابر حکمراں ہیں جو مسلمانوں کی دولت پر عیش کرتے ہیں، اور مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلتے ہیں، وہ سب یزید کے مقلد اور وارث ہیں، سنی بھی اور شیعہ بھی۔
امت کو ایسے ہولناک نظام ظلم سے بچانے کے لئے اگر حسین کھڑے نہ ہوتے تو کون کھڑا ہوتا، اور حسین شہادت نہ دیتے تو کون دیتا۔ حسین نے قیامت تک کے لئے اس طرح کی جاہلی ملوکیت اور اس طرح کے ظالم حاکموں کو بے نقاب کردیا۔ بلاشبہ بہت عظیم کارنامہ انجام دیا حسین نے۔ بالکل اپنی شخصیت کے شایان شان کارنامہ۔
افسوس کہ امت کا سواد اعظم بھی جانشینی کے معاملے میں یزید ہی کی صف میں کھڑا نظر آتا ہے، شاہی مسجدوں کے امام ومتولی سے لے کر مدرسوں کے ناظم، خانقاہوں کے پیر، دینی جماعتوں کے امیر، سماجی اداروں کے ٹرسٹی اور سیاسی پارٹیوں کے قائدین، غرض جگہ جگہ اندھا موروثی نظام قائم ہے، اور ان میں بہت سے جانشین نہایت بد دیانت اور خائن قسم کے ناخلف ہوتے ہیں۔
حسین کی قدر شناسی اور حسین کے مشن سے محبت یہ ہے کہ خونی نظام ملوکیت اور ظالم حکمرانوں کی غلامی سے امت کو نجات دلانے کی کوشش کی جائے۔ ورنہ کب تک امت مسلمہ کے سروں پر یہ ظالم خاک اور خون کا ننگا ناچ کھیلتے رہیں گے؟ کتنے ہزار سال تک؟
آخر میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ حسین کی شہادت محض چند تاریخی روایتوں سے ثابت نہیں ہے، کہ اسے ضعیف تاریخی روایتوں کے ڈھیر میں دبایا جاسکے، حسین کی شہادت کا علم ہر دور میں پوری امت کو رہا ہے، جس طرح چاروں خلفائے راشدین کی خلافت کا علم ہر دور میں پوری امت کو رہا ہے، اس کا انکار ایک متواتر حقیقت کا انکار کرنا ہے۔
بلاشبہ کچھ شیعوں کا رویہ امت کی محترم شخصیات کے ساتھ بہت زیادہ تکلیف دہ ہے لیکن اس کا ردعمل یہ نہیں ہونا چاہئے کہ یزید کو خلیفہ راشد اور حسین کو باغی قرار دے دیا جائے، جیسا کہ اب بعض لوگ کرنے لگے ہیں۔ (ملاحظہ ہو : جہاد تربانی کی عربی کتاب "سو عظیم مسلمان جنہوں نے تاریخ کا رخ بدل دیا"، اس کتاب میں یزید خلیفہ ہفتم اور سو عظماء اسلام میں شمار کیا گیا ہے اور حسین کو یکسر نظر انداز کردیا گیا ہے)
یہ کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ حسین دراصل اسلامی امت کے بطل جلیل اور شہید عظیم ہیں، ان کا کوئی تعلق شیعوں سے نہیں بنتا ہے کہ ان کی قدر گھٹانے کا خیال بھی دل میں آئے۔ اسی طرح یزید نے شیعوں کو نہیں بلکہ اسلامی امت کو شدید نقصان پہونچایا ہے، اور یہ خود سنگین ظلم ہے کہ اس کے مظالم یکسر فراموش کرتے ہوئے اسے ہیرو بنا کر پیش کیا جائے۔