اتحاد امت، سوچنے کے دو انداز

اتحاد امت، سوچنے کے دو انداز
محی الدین غازی
دوسری صدی ہجری کی بات ہے، مدینہ پاک میں امام مالک بڑے فقیہ مانے جاتے تھے، مکہ مکرمہ، عراق، شام اور مصر میں بھی بڑے بڑے فقہاء تھے، اس زمانے میں امام مالک نے موطا لکھی، جس میں شریعت کے مسائل کو ان کے دلائل کے ساتھ بیان کیا گیا۔
اس وقت سیاسی سطح پر عالم اسلام کا واحد حکمراں ابو جعفر منصور تھا، تاہم فقہی سطح پر مختلف علاقوں میں مختلف فقہاء کو امام اور مرجع کی حیثیت حاصل تھی۔
ایک بار ابو جعفر منصور کو خیال آیا کہ پوری امت کو ایک فقہی مسلک کے تحت متحد کردیا جائے، اس نے امام مالک کے سامنے یہ تجویز ان الفاظ میں رکھی: ’’میں نے فیصلہ کیا ہے کہ آپ نے جو موطا کتاب لکھی ہے، اس کی کئی کاپیاں تیار کرنے کا حکم دوں، پھر ہر شہر میں ایک کاپی بھیج دوں، اور پروانہ جاری کردوں کہ لوگ صرف اس پر عمل کریں، اور اس کو چھوڑ کر کسی اور رائے پر عمل نہ کریں۔ ابو جعفر نے اپنی تجویز کو مدلل بنانے کے لئے یہ بھی کہا کہ شریعت کے علم کا سب سے معتبر ذریعہ تو اہل مدینہ کی روایت اور ان کا علم ہے، اس لئے آپ کی کتاب کو پورے عالم اسلام کا واحد فقہی مرجع بننا چاہئے۔
ایک تنگ نظر اور دنیا پرست عالم کے لئے تو یہ بہت بڑی چیز ہوسکتی تھی، کہ اس کی کتاب کو عالم اسلام کی ساری کتابوں پر فوقیت اور ہیمنت حاصل ہوجائے، لیکن امام مالک علم کی قدر وقیمت کے امین تھے، وہ یہ کبھی نہیں گوارا کرسکتے تھے کہ اس طرح علم پر پہرے لگیں، اور علم وفکر کے مدرسوں پر فوج کشی ہو۔ امت کو متحد کرنے کا یہ جابرانہ طریقہ امام مالک کو پسند نہیں آیا۔
امام مالک نے کہا: ’’ایسا مت کریں، لوگوں کے پاس پہلے سے صحابہ کے اقوال پہونچے ہوئے ہیں، انہوں نے بھی حدیثیں سنی ہیں، اور انہوں نے بھی روایتیں اخذ کی ہیں، اور جس علاقے میں جو بات پہلے پہونچی وہ اس علاقے کے لوگوں نے اختیار کرلی، اور صحابہ کے یہاں جو مختلف رائیں موجود تھیں ان میں سے ہی بعض کو مختلف لوگوں نے اپنا مسلک بنالیا، اور اب جو راستہ انہوں نے یقین کے ساتھ بطور شریعت اختیار کرلیا ہے، اس سے ان کو پھیرنا بہت دشوار ہوگا، اس لئے ہر شہر کے لوگوں نے جو مسلک اپنے لئے چنا ہوا ہے اسی پر ان کو رہنے دیں‘‘
اس طرح امام مالک کی دوراندیشی، کشادہ ظرفی اور بصیرت ودانائی سے ایک بہت بڑا فتنہ ٹل گیا، ورنہ اتحاد امت کے نام پر خون کے نہ جانے کتنے دریا بہائے جاتے، اور جبر وتشدد کی نہ جانے کتنی شدید آندھیاں چلائی جاتیں، اور پھر بھی امت میں اتحاد نہیں ہوتا، بلکہ اختلافات کے پودوں کو جب خون کی سیرابی اور جبر وتشدد کی غذا مل جاتی تو ان کے تنے مضبوط، جڑیں گہری، اور پھل انہائی زہرناک ہوجاتے۔
امام مالک نے اخلاقی جرأت کے ساتھ یہ اعتراف کیا کہ جن رایوں کو انہوں نے اختیار نہیں کیا ہے، اور دوسروں نے اختیار کیا ہے، ان کی پشت پر بھی دلائل کی قوت موجود ہے۔ اس طرح انہوں نے اتحاد کا ایک شاندار اور اعلی تصور دیا کہ جب سب لوگ ایک دوسرے کی رائے کا احترام کریں گے، اور ایک دوسرے کے دلائل کی مضبوطی کو تسلیم کریں گے، تو اتحاد کی زیادہ روشن راہیں سامنے آئیں گی۔
اتحاد کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر مسئلے میں سب کی رائے ایک ہوجائے، ایسا اتحاد تو خوابوں کی دنیا میں بھی ممکن نہیں ہے۔ لیکن ایک دوسرے کی رائے کے احترام کی بنیاد پر ایک مضبوط اتحاد ضرور وجود میں آسکتا ہے۔
آج انتشار وافتراق کی بہت بڑی وجہ اتحاد کا غلط تصور ہے، ہر گروہ اتحاد کے لئے ضروری سمجھتا ہے کہ تمام گروہ ایک رائے پر جمع ہوجائیں، اور چونکہ ہر گروہ خود کو حق پر سمجھتا ہے ، اس لئے ہر گروہ اتحاد کے لئے یہ بھی ضروری سمجھتا ہے کہ دوسرے سارے گروہ اپنے موقف سے دست بردار ہوکر اس کے موقف کو اختیار کرلیں۔ اس طرح کے اتحاد پر اصرار کرنے سے فرقہ بندی کی جڑیں اور زیادہ گہری ہوجاتی ہیں، اور مسلکی اور گروہی عصبیتیں اور زیادہ بڑھ جاتی ہیں۔
اتحاد امت کا راستہ جبر وتکفیر سے نہیں بلکہ آزادی اور اعتراف واحترام سے ہوکر گذرتا ہے، یعنی سب لوگ اس حقیقت کو مانیں کہ ہر ایک کے موقف کی پشت پر دلائل کی کم وبیش قوت موجود ہے، سوچنے اور تحقیق کرنے کے راستے سب کے سامنے کھلے ہوئے ہیں، رائے اختیار کرنے اور رائے بدلنے کی آزادی ہر ایک کو حاصل ہے، اور بہتر رائے کی تلاش ایک مسلسل عمل ہے جو ہر انسان پر فرض ہے۔
اس امت پر امام مالک کا احسان ہے کہ انہوں نے بے نفسی اور بے غرضی کی بلند وبالا چوٹیوں کو سر کرکے اتحاد امت کا ایک اعلی تصور دیا۔

عام آدمیوں کا آدمی ہونا

عام آدمیوں کا آدمی ہونا
محی الدین غازی
دوسری صدی ہجری میں عظیم اسلامی شخصیات کی زبردست بہار آئی ہوئی تھی، وہ علم کے پہاڑوں اور حکمت کے دریاؤں کا زمانہ تھا، ایک سے بڑھ کر ایک بڑے آدمیوں کا دور دورہ تھا، ان بڑے لوگوں کے درمیان موازنہ ایک مشکل کام تھا، اور اس کے لئے جن اعلی معیاروں کا استعمال کیا گیا تھا ان میں ایک زبردست معیار ’’عام آدمیوں کا آدمی‘‘ (رجل عامۃ) ہونا بھی تھا، میں نے جب اس کسوٹی کے بارے میں پڑھا تو پہلے حیرت ہوئی اور پھر مسرت بڑھی۔
علی بن بکار کہتے ہیں، میں نے ابو اسحاق فزاری کو کہتے ہوئے سنا: میں نے اوزاعی اور ثوری جیسی عظیم شخصیتیں اور نہیں دیکھیں، البتہ اوزاعی ’’عام آدمیوں کے آدمی‘‘ تھے، اور ثوری خاص اپنی ذات کے آدمی تھے، اور اگر اس امت کے لئے مجھے انتخاب کا حق حاصل ہوتا تو میں اس (خلافت) کے لئے اوزاعی کو منتخب کرتا۔ علی بن بکار نے یہ سن کر دل میں کہا: اگر مجھے اس امت کے لئے انتخاب کا حق حاصل ہوتا تو میں اس کے لئے ابو اسحاق فزاری کو منتخب کرتا۔
علی بن بکار نے یہ بات کیوں کہی تھی، اس کا جواب ابراہیم بن سعید جوہری کی روایت میں ملتا ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو اسامہ سے پوچھا فضیل بن عیاض اور ابواسحاق فزاری میں کون افضل تھے؟ انہوں نے کہا: فضیل اپنی ذات کے تھے، جب کہ ابو اسحاق فزاری ’’عام آدمیوں کے آدمی‘‘ تھے۔ اسی دور کے اسحاق ازرق بیان دیتے ہیں کہ میں نے خالد طحان سے افضل کوئی نہیں پایا، پوچھا گیا کہ آپ نے تو سفیان کو بھی دیکھا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: سفیان اپنی ذات کے آدمی تھے اور خالد ’’عام آدمیوں کے آدمی‘‘ تھے۔
اوپر کے بیانوں میں جن لوگوں کو اپنی ذات کا آدمی کہا گیا ہے، وہ علم ودانائی اور تقوی وخدا ترسی میں اپنے زمانے کے کوہ ہمالہ تھے، لیکن لوگوں کا خیال تھا کہ وہ اپنی علمی وروحانی ترقی میں اس قدر مصروف رہتے ہیں، کہ عام آدمیوں پر توجہ نہیں دے پاتے۔ جب کہ کچھ دوسرے بزرگ علم وتقوی کی منزلیں طے کرتے ہوئے بھی عام آدمیوں کے لئے خیر اور بھلائی کا بہتا چشمہ ہوتے، اور اس لئے ان کو یک گونہ فضیلت حاصل ہوتی، وہ عام آدمیوں کی قیادت کے سچے اہل قرار پاتے، کیونکہ وہ ’’عام آدمیوں کے آدمی‘‘ ہوتے۔
امام اوزاعی ’’عام آدمیوں کے آدمی‘‘ کیسے تھے؟ اس پر بھی اس دور کے اکابر کی شہادتیں موجود ہیں، محمد بن عجلان نے کہا: امت کا ان سے زیادہ خیر خواہ میں نے نہیں پایا۔ عبداللہ بن مبارک نے کہا: وہ لوگوں کے ساتھ زیادہ نرمی والے تھے، ابو اسحاق فزاری نے کہا: اگر امت کو کوئی سخت حالت درپیش ہوتی تو میں سمجھتا ہوں کہ لوگ بھاگ کر اوزاعی کے پاس آتے۔
عرف عام میں عام آدمی وہ ہوتا ہے جو اپنے اندر چھپی ہوئی بے شمار صلاحیتوں کو سوتا چھوڑ دیتا ہے، وہ فیصلہ کی قوت اور ارادہ کی طاقت سے محروم رہتا ہے، علم وحکمت کی روشنی میں چلنے کے بجائے وہ دوسروں کے پیچھے چلتا ہے، تقلید اس کی ضرورت قرار پاتی ہے، اور اجتہاد کے لئے اسے نا اہل سمجھا جاتا ہے۔ عام آدمیوں کی یہ حالت اطمینان بخش نہیں ہے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ حکمراں طبقے کے ہزاروں سالہ جبر وقہر نے ان کو العوام کالانعام بنا رکھا ہے، اس صورت حال سے جلد باہر نکل آنا انسانی عظمت کا تقاضا ہے۔
’’عام آدمیوں کا آدمی‘‘ ہونا الگ بات ہے اور ’’عوام میں مقبول‘‘ ہونا الگ بات ہے۔ عام آدمیوں میں مقبول ہوجانا کوئی قابل رشک بات نہیں ہے۔ عوامی مقبولیت کے اسباب اکثر عامیانہ اور سوقیانہ ہوتے ہیں۔ عوام کی آنکھ کے تارے اکثر وہ لوگ ہوتے ہیں، جو ان کی زندگی اور ان کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے ہیں، بلکہ عوام ان کی نگاہ میں کیڑوں مکوڑوں کی طرح حقیر ہوتے ہیں، جو عوام کی پیٹھ پر سواری کرکے حکومت کے ایوانوں میں پہونچتے ہیں اور پھر ان کو بھول جاتے ہیں، جو عوام کے جذبات سے کھیل کر اپنی دکان چمکاتے ہیں، جو عوام کے اور اپنے درمیان احساس برتری اور معیار تعیش کے فاصلے رکھتے ہیں۔
اصل خوبی تو ’’عام آدمیوں کا آدمی‘‘ ہونا ہے۔ یہ وہ آدمی ہوتا ہے، جو اپنی صلاحیتوں اور قابلیتوں کو ترقی دے کر انسانوں کے لئے بہت مفید اور ان کے درمیان بہت خاص بن جاتا ہے، تاہم وہ خاص ہوکر بھی خاص لوگوں کے حصار میں قید نہیں ہوتا ہے، بلکہ اس کی ذات کا فیض خاص وعام سب کے لئے جاری رہتا ہے۔ وہ عام آدمی کی بہبود کے لئے زیادہ سوچتا ہے، اور عام آدمی کی پریشاں حالی کو اپنی پریشانی بنالیتا ہے۔ اپنے معیار تعیش کو وہ عام آدمیوں کے برابر کرلیتا ہے، اور عام آدمیوں کی سوچ اور کیرکٹر کو اپنی سطح کے قریب لانے کے جتن کرتا ہے۔ وہ پہلے خود کو شعور کی بلندی سے ہمکنار کرتا ہے، پھر عام آدمیوں کو اس بلندی تک پہونچانے کی مہم پر نکل جاتا ہے۔ وہ عام آدمیوں سے بلند رہنے کا شوق نہیں بلکہ عام آدمیوں کو اپنے ساتھ بلندی پر دیکھنے کا شوق رکھتا ہے۔ عام آدمی اس کی قدر کریں، یہ ضروری نہیں، مگر وہ عام آدمیوں کی قدر ضرور کرتا ہے، کیونکہ وہ ’’عام آدمیوں کا آدمی‘‘ ہوتا ہے۔
سارے انسانوں کی اصلاح کا سچا عزم لے کر اٹھنے والی تحریکوں کے لئے ’’عام آدمیوں کے آدمیوں‘‘ کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔

تعلیم یافتہ ہونے کا ایک تقاضا یہ بھی ہے

تعلیم یافتہ ہونے کا ایک تقاضا یہ بھی ہے
محی الدین غازی
۱۹ اکتوبر، میں بنارس سے حیدرآباد جارہا تھا، اسٹیشن سے گاڑی چھوٹنے کے کچھ دیر بعد ٹی ٹی آگیا، میرے قریب کچھ نوجوان تھے، جو حلئے سے ہی مزدور پیشہ اور ناخواندہ لگ رہے تھے، ان کے پاس جنرل کلاس کا ٹکٹ تھا، اور وہ سلیپر کلاس میں ریزرویشن چاہ رہے تھے، ٹی ٹی نے ان سے کہا کہ ہر ٹکٹ پر پانچ سو بیس روپے کی رسید کٹے گی اور ہر ٹکٹ پر دو سو روپے الگ سے دینا ہوں گے، تیس گھنٹے کا طویل سفر درپیش تھا، وہ سب راضی ہوگئے، ٹی ٹی نے دو ٹکٹوں پر ایک رسید کاٹی اور چودہ سو روپے لئے، مزید تین ٹکٹوں پر ایک رسید کاٹی اور اکیس سو روپے لئے اور پانچوں کو مختلف خالی برتھوں پر بیٹھ جانے کی اجازت دے کر چلاگیا۔
ناگپور اسٹیشن کے بعد ایک دوسرا ٹی ٹی آیا، اس نے ان سب سے ٹکٹ دکھانے کو کہا، انہوں نے اطمینان سے پانچوں ٹکٹ اور دونوں رسیدیں سامنے کردیں، اس پر ٹی ٹی نے کہا، کہ یہ تو صرف دو ٹکٹوں کی رسیدیں ہیں، اور ہر رسید پر صرف پانچ سو بیس روپے درج ہیں، باقی تین ٹکٹوں کی رسیدیں تو تمہارے پاس نہیں ہیں، اور اب تم کو تین رسیدوں کے پیسے ادا کرنا ہوں گے۔ ٹی ٹی کے لہجے میں سختی تھی، وہ بے چارے مزدور پریشان ہوگئے، وہ تو ہر ٹکٹ پر رسید کے پانچ سو بیس روپے اور مزید رشوت کے دو سو روپے بنارس والے ٹی ٹی کو دے چکے تھے، یہاں آکر انکشاف ہوا کہ اس بے رحم انسان نے ایک تو ان کی مجبوری کا فائدہ اٹھاکر ہر ایک سے دو سو روپے رشوت کے لئے اس کے علاوہ ان کے ان پڑھ ہونے کا فائدہ اٹھاکر پانچ کے بجائے صرف دو رسیدیں کاٹیں، اور باقی رقم ریلوے کے محکمے کو رسید کے ذریعہ دینے کے بجائے خود ہضم کرلی، اور ان غریبوں کو اگلے ٹی ٹی کے رحم وکرم پر چھوڑ کر الہ آباد اسٹیشن پر اتر گیا۔ میں نے اب تک ٹرین کے بہت سفر کئے اور رشوت خور ٹی ٹی بھی بہت دیکھے، لیکن رشوت لینے کے بعد بھی بے دردی سے اتنا بڑا دھوکہ دینے والا ٹی ٹی پہلی بار دیکھا۔
اب صورت حال یہ تھی کہ ناگپور والا ٹی ٹی ان سے کل پندرہ سو ساٹھ روپے مانگ رہا تھا، اور وہ حیرت اور بے چارگی کی تصویر بنے اس سے رحم کی بھیک مانگ رہے تھے۔ ان غریب مزدوروں کے لئے راہ چلتے یونہی پندرہ سو روپے دینا ایک بلائے ناگہانی سے کم نہ تھا، مجھ سے رہا نہیں گیا، جوش خطابت امنڈ آیا، اور میں نے ٹی ٹی کو پوری صورت حال بتائی، اور ان کی حالت کا خیال کرکے انہیں نظر انداز کردینے کی سفارش کیا کی ایک بھرپور تقریر کرڈالی، اس کے دل میں انسانیت اور رحم کا کچھ جذبہ تو ضرور تھا، تبھی تو اس نے تقریر بھی سنی اور یہ کہہ کران سے درگزر کردیا کہ آپ کے کہنے پر میں تو انہیں چھوڑ دیتا ہوں لیکن ہوسکتا ہے کہ راستے میں اور ٹی ٹی بھی ٹکٹ چیک کرنے آئیں۔ البتہ اس نے جاتے جاتے ایک ایسی بات کہی جس نے مجھے شرمندگی سے دوچار کردیا، اس نے کہا کہ آپ پڑھے لکھے ہیں اگر اسی وقت آپ نے ان کی رسیدیں دیکھ لی ہوتیں تو یہ نوبت نہیں آتی۔ وہ یہ کہہ کر آگے بڑھ گیا اور میں اپنی کوتاہی کو دیر تک محسوس کرتا رہا۔
مجھے پہلی بار شدت کے ساتھ یہ احساس ہوا کہ تعلیم یافتہ ہونے کا حق ادا کرنا ایک انسانی فریضہ ہے، اور اس کا ایک بہت ضروری تقاضا یہ ہے کہ اپنے آس پاس کے ناخواندہ لوگوں کا اسی طرح خیال رکھا جائے، جس طرح ایک مال دار شخص کو اپنے آس پاس کے غریبوں اور محتاجوں کا خیال رکھنا چاہئے۔ ایک تعلیم یافتہ شخص کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے آس پاس نگاہ رکھے کہ کوئی تعلیم یافتہ شخص کسی ان پڑھ شخص کا استحصال تو نہیں کررہا ہے۔ میرا مشاہدہ ہے کہ ایرپورٹ سے لے کر پولیس اسٹیشن اور ریلوے اسٹیشن تک ہر جگہ سرکاری کرپشن کا پہلا نشانہ ناخواندہ لوگ بنتے ہیں۔
پڑھے لکھے شخص کے قریب ہوتے ہوئے کسی ان پڑھ کو صرف اس کے ان پڑھ ہونے کی وجہ سے کسی مصیبت کا شکار ہونا پڑے تو یہ اس پڑھے لکھے شخص کے لئے بڑے عیب کی بات ہے۔

سماجی خدمت، جذبہ اور سمجھ داری دونوں ضروری

سماجی خدمت، جذبہ اور سمجھ داری دونوں ضروری
محی الدین غازی
میں اپنے دو بھائیوں کے ساتھ صبح کار سے نکلا، بڑے شہروں کی سڑکیں صبح سے ہی مصروف ہوجاتی ہیں، ایک جگہ سڑک پر بھیڑ نظر آئی، گاڑی روک کر دیکھا تو اسکول کے یونیفارم میں دو چھوٹی بچیاں زخمی حالت میں زمین پر پڑی چیخ رہی تھیں، عمر یہی سات آٹھ سال رہی ہوگی، ایک کا پاؤں گھٹنے کے اوپر سے ٹوٹ کر لٹک گیا تھا، اور دوسری کے سر میں گہرا زخم تھا۔ یہ دونوں بچیاں اسکول جاتے ہوئے سڑک کراس کررہی تھیں، اور ایک موٹر سائیکل سے ٹکراگئی تھیں، موٹر سائیکل سوار ایک ادھیڑ عمر شخص تھا جو اپنی بیوی اور بچے کے ساتھ تھا، اس کی بیوی کو بھی پیر میں کچھ چوٹ آئی تھی۔ بھیڑ اچھی خاصی تھی، مگر سب تماشائی تھے، دیکھا گیا ہے کہ ایسے موقعوں پر بھیڑ کا رجحان زخمیوں کی مدد کی طرف کم اور ٹکر مارنے والے کی مرمت کرنے کی طرف زیادہ ہوتا ہے۔
ہم نے بچیوں کو گود میں اٹھاکر کار میں ڈالا اور میرے دونوں بھائی انہیں لے کر ہاسپٹل کی طرف روانہ ہوئے۔ دو بچے اور تھے جن کو چوٹ نہیں آئی تھی، میں ان کے ساتھ بھاگا ہوا ان کے گھر گیا، گھر کیا تھا ایک خستہ حال چھوٹا سا کمرہ جس میں کئی خاندان رہ رہے تھے، معلوم ہوا دونوں بچیوں کی ماں بیوہ ہے، اس کے چھوٹے چھوٹے چھ بچے ہیں جو ایک سال پہلے باپ کے مرجانے کے بعد سے یتیمی کی زندگی جی رہے ہیں، ماں گھروں میں کام کرتی ہے اور بچے ایک رفاہی اسکول میں پڑھتے ہیں، بڑا بچہ بارہ سال کا ہے اور وہ بھی چند روز پہلے ایک بڑے حادثے کا شکار ہوکر زیر علاج ہے۔ غرض یہ کہ غربت اور بے چارگی کا وہ عالم کہ بیان کرنا مشکل ہے۔
موٹر سائیکل سوار شہر سے قریب ایک گاؤں کا تھا، اس سے ہم نے مطالبہ کیا کہ وہ ساتھ چلے اور بچیوں کے علاج کی اپنی اخلاقی ذمہ داری ادا کرے، وہ اس پر راضی ہوا کہ وہ اپنی بیوی کو جسے پاؤں میں چوٹ آئی تھی مگر اسپتال جانے کو تیار نہیں تھی، گاؤں پہونچاکر اور بچیوں کے علاج کے لئے رقم کا انتظام کرکے تھوڑی دیر میں آئے گا، اور اس دوران اس کا بچہ ہمارے ساتھ رہے گا۔
میں نے اس بچے کو اور زخمی بچیوں کے گھر والوں کو ساتھ لیا اور ہاسپٹل پہونچ گیا۔ بچے سے بات کرنے پر معلوم ہوا کہ اس کے باپ آٹو رکشا چلاتے ہیں، اور معاشی حالات اچھے نہیں ہیں۔ اس پر ہم نے طے کیا کہ اخراجات کا بوجھ اس پر نہیں ڈالیں گے، ہم نے لڑکے کے باپ کو فون کیا کہ وہ رقم کے انتظام کی فکر نہ کرے اور ہاسپٹل آکر اپنے بچے کو لے جائے۔ اس دوران ہاسپٹل میں قانونی کارروائی کے لئے پولیس آگئی اور موٹر سائیکل سوار کے بارے میں دریافت کرنے لگی، ہم نے سوچا اس غریب کے ساتھ پولیس والے زیادتی کریں گے اس لئے خاموشی کو اختیار کیا، پولیس کانسٹیبل نے زخمی بچیوں کے ساتھ بہت ہمدردی کا اظہار کیا اور اپنی جیب سے پانچ سو روپے نکال کر ان کی ماں کو دئے، اور ہاسپٹل والوں کو بھی رعایت کی تاکید کی، ہم سب اس کے جذبہ انسانیت سے بہت متاثر تھے۔
بچے کو ہم نے ہاسپٹل کی کینٹین میں اچھا سا ناشتہ کرایا، اور وہیں استقبالیہ کے پاس بٹھادیا۔
جس بچی کے پاؤں کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی، اسے آپریشن کے لئے ایڈمٹ کرلیا گا، صبح سے دوپہر تک ہم سب ہاسپٹل میں رہے اور تمام کارروائی مکمل ہوجانے کے بعد بچے کو ہاسپٹل میں بٹھاکرآرام کرنے گھر چلے آئے، دوبجے بچے کے باپ کا فون آیا کہ وہ ہاسپٹل پہونچ گیا ہے، ہم لوگ ہاسپٹل پہونچے، اور وہاں پہونچتے ہی ایک نئی صورتحال کا سامنا کیا، بچے کے باپ کے ساتھ تین غنڈے ٹائپ نوجوان تھے، ان سب نے ہمیں گھیر لیا اور کہا کہ ہمیں ہمارا بچہ نہیں ملا ہے، وہ ہاسپٹل میں نہیں ہے، اور اس کی ذمہ داری تمہارے اوپر ہے، ہمارے تو پاؤں تلے سے زمین کھسک گئی، ہم نے پورا ہاسپٹل چھان مارا لیکن اس کا کہیں پتہ نہیں تھا، اس وقت مجھے اپنی دو شدید غلطیوں کا فورا احساس ہوا، ایک تو یہ کہ ہمیں اس بچے کو اپنے پاس روکنا نہیں چاہئے تھا، اور دوسرے یہ کہ جب روک لیا تھا، تو اپنے ساتھ ہی رکھنا چاہئے تھا، تنہا ہاسپٹل میں چھوڑ کر نہیں جانا چاہئے تھا۔ پولیس کو معاملہ سے فوری طور پر اور پوری طرح باخبر نہیں کرنا بھی ایک بڑی غلطی قرار دی جاسکتی ہے، لیکن پولیس کی زیادتیوں کا عوام میں اتنا زیادہ چرچا ہے اور اس قدر ذہنوں میں اس کا خوف ہے کہ اس غلطی کے لئے وجہ جواز مل جاتا ہے۔
خیر اللہ کی نصرت اور مدد رہی کہ تقریبا دوگھنٹے کی شدید ذہنی اذیت کے بعد اس مصیبت سے نکلنے کی راہ مل گئی، اور وہ لوگ یہ کہہ کر چلے گئے کہ بچہ خود سے گھر پہونچ گیا ہوگا، اور کچھ دیر بعد اس کے گھر پہونچنے کی انہوں نے خبر بھی دے دی۔ تاہم قرائن صاف بتارہے تھے کہ یہ انہیں لوگوں کی سازش تھی، اور وہ اس طرح ہمیں تنگ کرنا چاہتے تھے، میں سوچ رہا تھا، کہ ہم نے بچے کے باپ کو ہاسپٹل کے اخراجات سے بچایا، پولیس کے چکر میں پھنسنے سے بچایا، اور اس سے پہلے حادثے کے وقت مشتعل بھیڑ کے عتاب سے بچایا، پھر اس نے ہمارے ساتھ ایسا کیوں کیا؟ ممکن ہے اسے ہمارے سلسلے میں کوئی غلط فہمی ہوگئی ہو، اور وہ ہمیں سبق سکھانا چاہتا ہو۔
تاہم واقعات سے بھرپور ایک پورا دن گزارنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہونچا کہ سماجی خدمت کے لئے سچا جذبہ درکار ہوتا ہے کہ اس کے بنا انسان خدمت سے جڑے خطرات مول نہیں لے سکتا، زبردست استقامت بھی ضروری ہوتی ہے کہ غیر متوقع رویے اور صدمے اس کے جذبہ خدمت کو سرد نہ کردیں، اور بہت زیادہ احتیاط اور سمجھ داری بھی مطلوب ہوتی ہے کہ انسانوں کی نفسیات اور حالات کی نزاکتیں مختلف اور بے شمار ہوتی ہیں، اور ان کو سمجھنے میں ذرا سی کوتاہی بڑی پریشانیوں کا باعث بنتی ہے۔ یہ پختہ شعور بھی ضروری ہے کہ انسانی سماج کا عام کیریکٹر کس قدر گر چکا ہے، اور اس گراوٹ کے باوجود انسانوں کے ساتھ نیکی کے سفر کو جاری رکھنا ہے، اور پھر اللہ سے تعلق اور استعانت تو سب سے پہلے اور سب سے زیادہ ضروری ہے کہ وہ انسانوں کی مدد کرنے والوں کو پسند کرتا ہے اور غیب سے ان کی مدد کرتا ہے، اور درحقیقت وہی کارساز ہے۔

بچوں کو غیبت کا زہر نہ پلائیں

بچوں کو غیبت کا زہر نہ پلائیں
محی الدین غازی
غیبت کرنا ایک بڑا گناہ، اور ہلاکت خیز برائی ہے، اس کی زہرناکیاں بہت زیادہ ہیں، یہاں صرف یہ بتانا ہے کہ جب بڑے لوگ بچوں کے سامنے بڑوں کی غیبت کرتے ہیں، تو غیبت کا زہر کس طرح بچوں کی رگوں میں سرایت کرجاتا ہے، اور پھر ان کی کتنی مسموم اٹھان ہوتی ہے۔
ایک خاتون کو اپنے سسرالی رشتے داروں کی پیٹھ پیچھے برائی کرنے کا خاص شوق تھا، ان کے گھر جب کوئی پڑوسن یا سہیلی یا میکے کا کوئی رشتے دار آتا تو وہ جی بھر کر اپنے سسرالی رشتے داروں کی غیبت کیا کرتی تھیں، ان کے بچے بھی غور سے ان کی غیبتوں کو سنا کرتے تھے، بچے ذرا بڑے ہوئے تو انہوں نے خود ان بچوں سے ان کے دادا دادی، چچاؤں چچیوں اور پھوپھیوں کی برائیاں اور خامیاں بیان کرنا شروع کردیا۔
بڑے ہوتے ہوتے لڑکوں کا ذہن یہ بنا کہ ان کے خاندان کے سب لوگ بہت خراب، ان کے بدخواہ اور ان کے والدین کی حق تلفی کرنے والے ہیں، پورے خاندان میں صرف ان کے امی ابو اچھے ہیں، باقی سب خراب ہیں۔ کچھ عرصے بعد ان کے دل سے ان کے امی ابو کا احترام بھی کم ہونے لگا، کیونکہ فطری طور پر یہ باور کرنا ممکن نہیں تھا کہ دادا دادی اور سارے چچا اور ساری پھوپھیاں تو خراب ہیں اور صرف ابو جان گندگی کے ڈھیر میں گلاب کا پاکیزہ پھول ہیں۔ احترام کا پورا محل کھنڈر بن جائے تو ایک سالم دیوار بھی بدنما ہی لگتی ہے۔ ماں نے خاندان کے تمام بزرگوں کی وقعت گرائی، لیکن ساتھ ہی باپ کی وقعت بھی مٹی میں مل گئی، وہ وقت بھی آیا جب ان بچوں نے اپنے باپ کی پگڑی اچھالی، اور ماں کے ساتھ بدکلامی کی۔
لڑکیوں کا ذہن یہ بنا کہ سسرال ایک ایسا گھر ہوتا ہے، جس میں شوہر کے سوا سب لوگ نہایت شرپسند اور قابل نفرت ہوتے ہیں، ان سے جس قدر دور رہا جائے اتنا بہتر ہے۔ انہوں نے پہلی ہی نظر میں ساس اور نندوں کو چڑیلوں کی صورت میں دیکھا، اور کبھی انہیں آزمانے کی زحمت بھی نہیں کی۔ یہ مبالغہ نہیں بلکہ عین مشاہدہ ہے، اور ایک خاتون کی نہیں، بہت سارے گھروں کی کہانی ہے۔
میں ایک ایسی خاتون سے بھی واقف ہوں جس نے اپنے بچوں کے سامنے اپنے سسرالی رشتے داروں کی ہی نہیں بلکہ اپنی سوکن کی بھی ہمیشہ تعریف کی، بچوں کے دل میں دادا دادی کا احترام ایک عقیدے کی طرح بٹھایا۔ کبھی بچوں نے کسی پھوپھی یا چچی کی شکایت کرنے کی جرأت کی تو اس کو سختی سے ٹوک دیا، انجام کار خاندان کے سارے بزرگوں کا احترام کرنے والے بچے اپنے والدین کے احترام میں بھی پیش پیش رہے۔ بزرگوں کے احترام کے عالیشان مینار وقت کے ساتھ اور بلند ہوتے چلے گئے۔
جن بچوں کی تربیت غیبت کے سائے میں ہوتی ہے وہ زہریلے پودے کی طرح ہوجاتے ہیں، پھر ان سے کسی خیر کی امید رکھنا مشکل ہوتا ہے، ان کی نظر میں ہر شخص نہایت برا، خود غرض اور قابل نفرت ہوتا ہے۔ جبکہ انہیں بچوں کے معصوم ذہن کو اگر غیبت کے زہر سے بچائیں اور ان کے دلوں میں رشتے داروں کے لئے احترام اور محبت کو پروان چڑھائیں اوران کے سامنے دل کھول کر ان کے بڑوں کی خوبیوں کو بیان کریں تو وہ پورے خاندان کے لئے ایک سایہ دار درخت بن جاتے ہیں جس کے پھول بہت خوشبودار اور پھل نہایت شیریں ہوتے ہیں۔
غیبت کی زہرناکیوں نے اسلامی تحریک کو بھی بہت نقصان پہونچایا ہے، ایسے تحریکی بزرگوں سے میں واقف ہوں جن کی نجی مجلسوں اور گفتگووں میں بہت سارے رفقائے تحریک کی جم کر غیبت ہوا کرتی تھی، کسی کے کردار پر ضرب لگائی جاتی تھی تو کسی کی نیت پر حملہ کیا جاتا تھا، کسی کے معیار کو پست بتایا جاتا تھا تو کسی کے افکار میں کیڑے نکالے جاتے تھے، یہ غیبتیں ان کے بچے بھی غور سے سنا کرتے تھے، آخر بچوں کا ذہن یہ بنا کہ اسلامی تحریک میں نیچے سے اوپر تک سب لوگ بدعنوان اور مفاد پرست ہیں، تحریک اپنے راستے سے ہٹ گئی ہے اور منزل کو بھول گئی ہے، صرف ہمارے ابوجان اور ان کے دوچار دوست ہیں جو تحریک کے مخلص اور اس کے نصب العین کے امین ہیں۔ ہمارے ابوجان نے تحریک کے لئے بڑی قربانیاں دیں، لیکن لوگوں نے ذرا قدر نہیں کی۔ غرض یہ کہ تحریک کے گہوارے میں ایسی نسل تیار ہوئی جو تحریک کی قیادت کو مفاد پرست اور تحریکی کیڈر کو غیر مخلص سمجھتی تھی، اس کے خیال میں اس کے ابو نرے احمق تھے جو ایسے غلط لوگوں کے درمیان پھنس گئے تھے۔ چنانچہ نئی نسل نے خود کو اس ’’حماقت‘‘ سے دور رکھا۔
غیبت کا شوق فرمانے والے اگر ذرا سا غور کرلیں کہ ان کی غیبت کی وجہ سے ان کے بچوں کی شخصیت میں کس قدر ٹوٹ پھوٹ ہوتی ہے، تو شاید اپنے بچوں کے اچھے مستقبل اور خوبصورت شخصیت کی خاطر ہی اس برائی سے خود کو پاک کرلیں۔

دل اپنا کام کرے، دماغ اپنا کام کرے

دل اپنا کام کرے، دماغ اپنا کام کرے
محی الدین غازی
دل کا کام محبت کرنا ہے، اور دماغ کا کام غوروفکر کرنا ہے، صحتمند انسان کے دل اور دماغ دونوں زندہ اور توانا ہوتے ہیں، اور دونوں اپنا اپنا کام خوبی کے ساتھ انجام دیتے ہیں۔
زندہ اور توانا دل محبت کرتا ہے، اس سے بھی جس کی رائے سے اتفاق ہوتا ہے، اور اس سے بھی جس کی رائے سے اختلاف ہوتا ہے، اس سے بھی جو اس کی رائے کو درست سمجھتا ہے، اور اس سے بھی جو اس کی رائے کو غلط قرار دیتا ہے۔ سمجھ دار دل رائے کے اتفاق واختلاف کو دماغ کے حوالے کردیا کرتا ہے، اور خود محبت کے عمل میں مصروف رہتا ہے۔
زندہ اور توانا دماغ غوروفکر کرتا ہے، غوروفکر کرتے ہوئے وہ اتفاق بھی کرتا ہے اور اختلاف بھی کرتا ہے، تائید بھی کرتا ہے اور تنقید بھی کرتا ہے، اور اس سارے عمل میں وہ اپنوں اور غیروں کی تفریق کو روا نہیں رکھتا ہے، وہ صحیح اور غلط تک پہونچنے کے لئے دلائل کا لحاظ کرتا ہے، نہ کہ کسی فرد یا گروپ کا۔
دماغ کی عظمت تنوع اور نیرنگی میں پنہاں ہوتی ہے، ایک صاحب دماغ جو دماغ کی قدروقیمت سے واقف ہو کبھی یہ خواہش نہیں کرسکتا کہ سوچ کی جن راہوں سے وہ گزرا ہے اور جس منزل تک وہ پہونچا ہے، سب لوگ وہیں سے گزریں اور وہیں تک پہونچیں، کیونکہ اگر تمام دماغ ایک دماغ کے تابع یا مطابق ہوجائیں، تو اتنے سارے دماغوں کی افادیت پر سوال کھڑا ہوجاتا ہے۔ اس لئے یہ خواہش تو معقول اور فطری ہے کہ جو میں نے سوچا ہے وہ دوسرے سمجھ لیں، لیکن یہ خواہش بچکانہ ہے کہ جو میں سوچتا ہوں وہی دوسرے بھی سوچیں۔
اجتماعیت ایک بابرکت چیز ہے، لیکن وہ اجتماعیت جس میں تمام افراد کے دل ودماغ اپنا اپنا کام خوبی کے ساتھ انجام دیتے رہیں، دماغ غور وفکر کرتے رہیں، اور دل محبت کرتے رہیں۔
ایک اجتماعیت میں جب سارے دماغ اختلاف واتفاق کی پرواہ کئے بنا پوری آزادی کے ساتھ سوچتے ہیں، تو ترقی کی راہیں کشادہ ہوتی ہیں، اور فتوحات کا سلسلہ دراز ہوتا ہے، اور جب دماغ خود سوچنا بند کرکے دوسروں پر تکیہ کرنے لگتے ہیں، تو جمود طاری ہوجاتا ہے، اور پھر ترقی کی راہیں بند ہوجاتی ہیں اور فتوحات کا سلسلہ رک جاتا ہے۔
ایک اجتماعیت میں جب سارے دل محبتوں کے موتی لٹاتے ہیں، اور چاہتوں کی خوشبو بکھیرتے ہیں، تو رایوں کے بہت زیادہ اختلاف کے باوجود اجتماعیت سیسہ پلائی ہوئی مضبوط دیوار بنی رہتی ہے۔ لیکن جب دل بیمار ہوکر محبت کرنا بند کردیتے ہیں، تو فتنے سر اٹھاتے ہیں، گروپ بندیاں ہوتی ہیں، اور ماحول اس قدر زہر آلود ہوجاتا ہے کہ پھر دماغوں کا غوروفکر بھی اجتماعیت پر گراں گزرتا ہے۔
غوروفکر کرنا دماغ کا کام ہے، مگر ہے محنت طلب، اور محبت کرنا دل کا کام ہے، مگر ہے مشقت سے بھرپور۔ اس لئے ناتواں دماغ غوروفکر سے بھاگتا ہے، اور داخلی انتشار کے اندیشے کوغوروفکر سے فرار کا بہانہ بنالیتا ہے۔ بیمار دل بھی محبت سے کتراتا ہے، اور رائے کے معمولی اختلاف کو محبت سے فرار کا بہانہ بنالیتا ہے، دماغوں کے اختلاف کے باوجود اگر دل محبت کرتے رہیں، تو سمجھ لیں کہ دل زندہ اور توانا ہیں۔
میں نے پروفیسر نجات اللہ صدیقی کی کتاب ’’مقاصد شریعت‘‘ پر تنقید لکھی، اور کہیں کہیں حد ادب سے تجاوز بھی کرگیا، میں نے ڈاکٹر وسیم احمد فلاحی کی تحریروں پر تنقید کی اور کہیں کہیں معروضیت کے تقاضے پورے نہیں کرسکا، تاہم ان دونوں نے میری تنقید کے بعد اپنی محبتوں میں اور اضافہ کردیا، ان دونوں خوش گوار تجربات سے میں نے جانا کہ شدید اختلاف رائے کے باوجود بہت زیادہ محبت کی جاسکتی ہے، صرف دل کا صحت مند ہونا شرط ہے۔
بسا اوقات اجتماعیت کو داخلی انتشار سے بچانے کے لئے اختلاف رائے کی آزادی اور غوروفکر کے مواقع کو محدود کردیا جاتا ہے، یہ رجحان تعلیمی اداروں اور اصلاحی تحریکوں میں بھی دیکھا جاتا ہے، یہ دراصل مرض کی غلط تشخیص اور مریض کا غلط علاج ہے، داخلی انتشار دماغوں کی فعالیت سے نہیں بلکہ دلوں کے بیمار ہوجانے سے پھیلتا ہے، اس لئے دماغوں پر قدغن لگانے کے بجائے دلوں کے علاج پر فوری توجہ دینا چاہئے۔ دماغوں پر پابندی لگانے سے انتشار تو ختم نہیں ہوتا ہے، البتہ جمود ضرور طاری ہوجاتا ہے۔
کسی دانا حکیم کا قول ہے ’’ دلوں میں فرق آجانا بیماری ہے، اور دماغوں میں فرق ہونا مالداری ہے‘‘ (اختلاف القلوب داء واختلاف العقول ثراء)۔ دینی گھرانوں، دینی جماعتوں اور دینی اداروں کے لئے زیبا یہی ہے کہ جو بیماری ہے اس کے علاج کی فکر کریں، اورجو مالداری ہے اسے حاصل کرنے کی کوشش کریں۔