مسلمانوں کا سیاسی شعور ---بالغ کب ہوگا؟

 ہندوستانی شہری کی حیثیت سے ہندوستانی مسلمانوں نے انتخابی عمل میں شرکت کا سب سے پہلا تجربہ 1920 میں کیا، اور اس کے بعد سے مسلمان انتخابی سیاست کے تجربات سے مسلسل گذررہے ہیں۔ ایک صدی مکمل ہونے کو ہے لیکن اب تک یہی محسوس ہوتا ہے کہ مسلمان سیاسی شعور کے معاملہ میں اپنے ہم وطنوں سے کافی پیچھے ہیں، اور اب تک ان کا سیاسی شعور بالغ نہیں ہوسکا ہے۔ اسباب کئی ہوسکتے ہیں، ان اسباب پر ذرا کھل کر گفتگو ہو بس یہی اس مضمون کا مقصد ہے۔ میرے خیال میں سیاسی بلوغ اور پختگی کی دو اہم علامتیں ہیں، پہلی یہ کہ سیاسی میدان میں کچھ خاص لوگوں کی اجارہ داری قائم نہ ہوسکے ، بلکہ نئے ہمت ور کھلاڑیوں کو اپنے جوہر دکھانے کا پورا موقعہ حاصل ہو۔ دوسری یہ کہ اگر معاشرہ کے کچھ لوگ اقدار پر مبنی سیاست پر یقین رکھتے ہیں، تو ان کو ان اقدار کی پاس داری کا پورا پورا موقعہ حاصل ہو، اور کوئی مصلحت ان کے پاؤں کی زنجیر اور راستے کی رکاوٹ نہ بن جائے۔ مسلمانوں کی سیاسی پسماندگی اور ناپختگی کا ایک مظہر یہ ہے کہ ان کے درمیان نئی سیاسی قوتوں کو ابھرنے کا موقعہ نہیں ملتا ہے، دوسرا مظہر یہ ہے کہ اقدار پر مبنی سیاست کے لئے ساز گار ماحول حاصل نہیں ہے۔ بظاہر ہر فرد اقدار واخلاق کا حامی نظر آتا ہے، لیکن جب انتخابات کا نقارہ بجتا ہے تو ساری اقدار پسندی دھری کی دھری رہ جاتی ہے اور دو بیمار رجحان ذہن ودماغ پر سوار ہوجاتے ہیں۔ ایک یہ بیمار رجحان کہ ووٹوں کو بٹوارے سے بچانے کے لئے کسی ایک بظاہر مضبوط امیدوار کی طرف سب جھک جائیں، دوسرا یہ بیمار رجحان کہ فسطائیت کے مقابلے میں مضبوط تر امیدوار کی غیر مشروط حمایت اور تائید کردی جائے۔ ووٹوں کے تقسیم ہوجانے کا خوف مسلمانوں کے دل ودماغ میں اس طرح بیٹھا ہوا ہے کہ انہیں اپنی صواب دید کے مطابق کوئی فیصلہ نہیں کرنے دیتا۔ سیاسی بازیگر اس خوف کا خوب کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔ سیاسی رہنمائی کرنے والے دانش ور بھی اس خوف سے باہر نکل کر نہیں سوچ پاتے۔بے سروپا حوالے دے کر کچھ امیدواروں کو بیٹھ جانے کی صلاح دی جاتی ہے، تو کچھ کو بے وزن کردیا جاتا ہے، کہ اس بار سروں پر منڈلاتے خطرے کو روکو اگلی بار آپ کو بھی موقعہ دیں گے، وہ اگلی بار کبھی نہیں آتا، اور خطرہ ہر بار حاضر ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر حیدرآباد میں مجلس کے کارکن دوسرے مقابل امیدواروں یا پارٹیوں کے خلاف ماحول بنانے کے لئے پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ ان نئے امیدواروں کی وجہ سے ووٹ تقسیم ہوسکتے ہیں ، اور اگر ووٹ آپس میں تقسیم ہوگئے تو کوئی دوسرا نکل جائے گا، اور جب یہی پارٹی مہاراشٹر پہونچتی ہے تو وہاں کی سیکولر پارٹیاں اس کے خلاف پروپیگنڈہ کرتی ہیں کہ مجلس یہاں مسلمانوں کے ووٹ بانٹنے کی نیت سے آئی ہے۔ دراصل ہر ہندوستانی شہری کو الیکشن میں کھڑے ہونے کا حق حاصل ہے، اور ہر شہری کو اپنے من پسند امیدوار کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہے، البتہ کسی کو اخلاقا بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی بھی امیدوار کو یا ووٹر کو یہ الزام دے کہ اس کی وجہ سے اس کے من پسند امیدوار کے ووٹ تقسیم ہوئے اور وہ جیت نہیں سکا۔ اس طرح کی غیر جمہوری الزام بازی سیاسی بچکانہ پن کا پتہ دیتی ہے۔ ووٹوں کے بٹوارے کو زیادہ اہمیت دینے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ مسلمانوں کے درمیان نئی سیاسی قوت اور قیادت کو نشوونما کے لئے سازگار ماحول نہیں مل پاتا ہے، ایمان داری اور فلاح وبہبود کا جذبہ اور نعرہ لے کر کچھ ہمت ور اٹھتے ہیں، لوگ ان کے قدر دان بھی ہوجاتے ہیں، لیکن پھر خوف اور اندیشے کی ایک لہر چلتی ہے اور یوں سارے ووٹ گھاگ بازیگروں کی جھولی میں اس طرح جاگرتے ہیں کہ گویا لاکھوں عوام میں چند سو بھی اصول پسند اور قدروں کے پاس دار نہیں تھے۔ فسطائیت کے غلبے اور ووٹوں کے بٹوارے کا حوالہ دے کر ہر انتخاب کے موقعہ پر نئے کھلاڑیوں کی بری طرح ہمت شکنی کردی جاتی ہے، اور پرانے کھلاڑیوں کو ان کی خراب پرفارمینس کے باوجود اپنے اوپر مسلط رہنے دیا جاتا ہے۔ بہت ساری دینی جماعتیں اور دانش ورانہ تنظیمیں بھی سیاسی رہنمائی کے نام پر اس بچکانہ کھیل میں شریک ہوجاتی ہیں، ہوسکتا ہے اس سے چھوٹی مدت کے فائدے کچھ حاصل ہوجاتے ہوں لیکن طویل مدت کے فائدوں سے عوام کلی طور سے محروم رہتے ہیں۔اور اس طرح سیاسی بلوغ اور پختگی کی عمر ایک صدی گزرنے پر بھی نہیں آتی ہے۔ دراصل سیاسی پختگی کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی اس کو ووٹ دے جو اس کی نظر میں سب سے بہتر ہو، نہ کہ اسے جو ہو تو اخلاقی لحاظ سے دیوالیہ مگر جیتنے کی پوزیشن میں بتایا جاتا ہو۔ حالانکہ وہ جیتنے کی پوزیشن میں صرف اس لئے دکھائی پڑتا ہے کہ ہر شخص فیصلہ اس کی شخصیت کے بجائے اس کی پوزیشن کو دیکھ کر کررہا ہوتا ہے، وہ بھی لوگوں کی کمزوری جانتا ہے اس لئے اپنی شخصیت سے بے پرواہ ہوکر اپنی پوزیشن کو بڑا دکھا نے کے لئے الٹے سیدھے ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے۔پھر اس میں کیا حرج ہے کہ جیت تو ایک بد کردار آدمی کی ہو، لیکن ایک دیانت دار آدمی کو ہارنے کے باوجود ان سب لوگوں کے ووٹ ملیں جو دیانت داری کے قدر دان ہیں، کہ یہ بات ریکارڈ میں تو رہے کہ عوام کے درمیان دیانت داری کے قدردان بہر حال پائے جاتے ہیں، سارے کے سارے چڑھتے سورج کے پجاری نہیں ہیں۔ اگر بٹوارے کے اس بیمار تصور سے بالاتر ہوکر نئے افراد کو اپنے سیاسی جوہر دکھانے کا پورا موقعہ دیا جائے، تو ممکن ہے دو چار انتخابات کے نتائج عوام کی چاہ کے بالکل خلاف آجائیں، ہوسکتا ہے دوچار مرتبہ ایسے لوگ جیت جائیں جن سے دشمنی اور خطرہ ہو، لیکن عوام کی مخلصانہ اور بے لوث ہمت افزائی سیاسی کھلاڑیوں کی ایک زبردست کھیپ ضرور تیار کردے گی، جس کے بہت سارے افراد آگے چل کر عوام کے سچے قائد اور ان کے مفادات کے مضبوط محافظ بن سکیں گے، یہ فائدہ بہت بڑا ہوگا ان وقتی نقصانات کے مقابلے میں جو اس راستے میں اٹھانا پڑ سکتے ہیں۔ ظاہر ہے جب انتخابات کا ہنگامہ برپا ہو، یہ سبق عام کرنا بہت مشکل ہے، لیکن دو انتخابوں کے درمیانی وقفے میں جو کافی طویل ہوتا ہے، پوری قوت کے ساتھ اس پیغام کو عام کرنا اچھی ماحول سازی اور مثبت مزاج سازی کے لئے ضرور مفید ہوگا۔نئی پارٹیوں اور تازہ ہمت وروں کو اس کی اہمیت ضرور سمجھنا چاہئے، مبادا ان کے جذبے اور سپنے مسلمانوں کے ناپختہ ونابالغ شعور کی نذر ہوجائیں۔

1 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں