عام آدمیوں کا آدمی ہونا

عام آدمیوں کا آدمی ہونا
محی الدین غازی
دوسری صدی ہجری میں عظیم اسلامی شخصیات کی زبردست بہار آئی ہوئی تھی، وہ علم کے پہاڑوں اور حکمت کے دریاؤں کا زمانہ تھا، ایک سے بڑھ کر ایک بڑے آدمیوں کا دور دورہ تھا، ان بڑے لوگوں کے درمیان موازنہ ایک مشکل کام تھا، اور اس کے لئے جن اعلی معیاروں کا استعمال کیا گیا تھا ان میں ایک زبردست معیار ’’عام آدمیوں کا آدمی‘‘ (رجل عامۃ) ہونا بھی تھا، میں نے جب اس کسوٹی کے بارے میں پڑھا تو پہلے حیرت ہوئی اور پھر مسرت بڑھی۔
علی بن بکار کہتے ہیں، میں نے ابو اسحاق فزاری کو کہتے ہوئے سنا: میں نے اوزاعی اور ثوری جیسی عظیم شخصیتیں اور نہیں دیکھیں، البتہ اوزاعی ’’عام آدمیوں کے آدمی‘‘ تھے، اور ثوری خاص اپنی ذات کے آدمی تھے، اور اگر اس امت کے لئے مجھے انتخاب کا حق حاصل ہوتا تو میں اس (خلافت) کے لئے اوزاعی کو منتخب کرتا۔ علی بن بکار نے یہ سن کر دل میں کہا: اگر مجھے اس امت کے لئے انتخاب کا حق حاصل ہوتا تو میں اس کے لئے ابو اسحاق فزاری کو منتخب کرتا۔
علی بن بکار نے یہ بات کیوں کہی تھی، اس کا جواب ابراہیم بن سعید جوہری کی روایت میں ملتا ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو اسامہ سے پوچھا فضیل بن عیاض اور ابواسحاق فزاری میں کون افضل تھے؟ انہوں نے کہا: فضیل اپنی ذات کے تھے، جب کہ ابو اسحاق فزاری ’’عام آدمیوں کے آدمی‘‘ تھے۔ اسی دور کے اسحاق ازرق بیان دیتے ہیں کہ میں نے خالد طحان سے افضل کوئی نہیں پایا، پوچھا گیا کہ آپ نے تو سفیان کو بھی دیکھا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: سفیان اپنی ذات کے آدمی تھے اور خالد ’’عام آدمیوں کے آدمی‘‘ تھے۔
اوپر کے بیانوں میں جن لوگوں کو اپنی ذات کا آدمی کہا گیا ہے، وہ علم ودانائی اور تقوی وخدا ترسی میں اپنے زمانے کے کوہ ہمالہ تھے، لیکن لوگوں کا خیال تھا کہ وہ اپنی علمی وروحانی ترقی میں اس قدر مصروف رہتے ہیں، کہ عام آدمیوں پر توجہ نہیں دے پاتے۔ جب کہ کچھ دوسرے بزرگ علم وتقوی کی منزلیں طے کرتے ہوئے بھی عام آدمیوں کے لئے خیر اور بھلائی کا بہتا چشمہ ہوتے، اور اس لئے ان کو یک گونہ فضیلت حاصل ہوتی، وہ عام آدمیوں کی قیادت کے سچے اہل قرار پاتے، کیونکہ وہ ’’عام آدمیوں کے آدمی‘‘ ہوتے۔
امام اوزاعی ’’عام آدمیوں کے آدمی‘‘ کیسے تھے؟ اس پر بھی اس دور کے اکابر کی شہادتیں موجود ہیں، محمد بن عجلان نے کہا: امت کا ان سے زیادہ خیر خواہ میں نے نہیں پایا۔ عبداللہ بن مبارک نے کہا: وہ لوگوں کے ساتھ زیادہ نرمی والے تھے، ابو اسحاق فزاری نے کہا: اگر امت کو کوئی سخت حالت درپیش ہوتی تو میں سمجھتا ہوں کہ لوگ بھاگ کر اوزاعی کے پاس آتے۔
عرف عام میں عام آدمی وہ ہوتا ہے جو اپنے اندر چھپی ہوئی بے شمار صلاحیتوں کو سوتا چھوڑ دیتا ہے، وہ فیصلہ کی قوت اور ارادہ کی طاقت سے محروم رہتا ہے، علم وحکمت کی روشنی میں چلنے کے بجائے وہ دوسروں کے پیچھے چلتا ہے، تقلید اس کی ضرورت قرار پاتی ہے، اور اجتہاد کے لئے اسے نا اہل سمجھا جاتا ہے۔ عام آدمیوں کی یہ حالت اطمینان بخش نہیں ہے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ حکمراں طبقے کے ہزاروں سالہ جبر وقہر نے ان کو العوام کالانعام بنا رکھا ہے، اس صورت حال سے جلد باہر نکل آنا انسانی عظمت کا تقاضا ہے۔
’’عام آدمیوں کا آدمی‘‘ ہونا الگ بات ہے اور ’’عوام میں مقبول‘‘ ہونا الگ بات ہے۔ عام آدمیوں میں مقبول ہوجانا کوئی قابل رشک بات نہیں ہے۔ عوامی مقبولیت کے اسباب اکثر عامیانہ اور سوقیانہ ہوتے ہیں۔ عوام کی آنکھ کے تارے اکثر وہ لوگ ہوتے ہیں، جو ان کی زندگی اور ان کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے ہیں، بلکہ عوام ان کی نگاہ میں کیڑوں مکوڑوں کی طرح حقیر ہوتے ہیں، جو عوام کی پیٹھ پر سواری کرکے حکومت کے ایوانوں میں پہونچتے ہیں اور پھر ان کو بھول جاتے ہیں، جو عوام کے جذبات سے کھیل کر اپنی دکان چمکاتے ہیں، جو عوام کے اور اپنے درمیان احساس برتری اور معیار تعیش کے فاصلے رکھتے ہیں۔
اصل خوبی تو ’’عام آدمیوں کا آدمی‘‘ ہونا ہے۔ یہ وہ آدمی ہوتا ہے، جو اپنی صلاحیتوں اور قابلیتوں کو ترقی دے کر انسانوں کے لئے بہت مفید اور ان کے درمیان بہت خاص بن جاتا ہے، تاہم وہ خاص ہوکر بھی خاص لوگوں کے حصار میں قید نہیں ہوتا ہے، بلکہ اس کی ذات کا فیض خاص وعام سب کے لئے جاری رہتا ہے۔ وہ عام آدمی کی بہبود کے لئے زیادہ سوچتا ہے، اور عام آدمی کی پریشاں حالی کو اپنی پریشانی بنالیتا ہے۔ اپنے معیار تعیش کو وہ عام آدمیوں کے برابر کرلیتا ہے، اور عام آدمیوں کی سوچ اور کیرکٹر کو اپنی سطح کے قریب لانے کے جتن کرتا ہے۔ وہ پہلے خود کو شعور کی بلندی سے ہمکنار کرتا ہے، پھر عام آدمیوں کو اس بلندی تک پہونچانے کی مہم پر نکل جاتا ہے۔ وہ عام آدمیوں سے بلند رہنے کا شوق نہیں بلکہ عام آدمیوں کو اپنے ساتھ بلندی پر دیکھنے کا شوق رکھتا ہے۔ عام آدمی اس کی قدر کریں، یہ ضروری نہیں، مگر وہ عام آدمیوں کی قدر ضرور کرتا ہے، کیونکہ وہ ’’عام آدمیوں کا آدمی‘‘ ہوتا ہے۔
سارے انسانوں کی اصلاح کا سچا عزم لے کر اٹھنے والی تحریکوں کے لئے ’’عام آدمیوں کے آدمیوں‘‘ کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں