عمل کرنے کا شوق اور قبول ہونے کی آرزو

عمل کرنے کا شوق اور قبول ہونے کی آرزو
محی الدین غازی
(کیرلا ریلیف کے کاموں میں دل وجان سے لگے ہوئے نوجوانوں کو دیکھ کر دل سے دعائیں نکلیں اور خواہش ہوئی کہ ایسے ہر نوجوان کی خدمت میں یہ خوب صورت تحفہ پیش کردوں)
"ہمارے رب ہم سے قبول فرمالے، بلاشبہ تو سننے اور جاننے والا ہے" {رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ} یہ حسین وجمیل دعا حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیھما السلام کی زبان پر اس وقت جاری تھی جب وہ اللہ کے گھر کی دیواریں اٹھا رہے تھے۔ تصور میں دیکھیں اور سوچیں اللہ کے دو عظیم پیغمبر بڑی آزمائشوں اور عظیم قربانیوں سے سرخ رو گزر جانے کے بعد اللہ کے پہلے گھر کی تعمیر میں مصروف ہیں، اور اس وقت بھی سب سے زیادہ یہ فکر دامن گیر ہے کہ اللہ کی بارگاہ میں ان کا یہ کام قبول ہوجائے، یہ کیسی روح پرور کیفیت ہے اور اس میں اچھے کام کرنے والوں کے لئے کیسی گہری نصیحت ہے۔ جب رحمان کے خلیل کو رحمان کے گھر کی تعمیر جیسے عظیم کام کے قبول ہونے کی اتنی زیادہ فکر ہے تو عام انسانوں کو دین کے چھوٹے بڑے سب کام کرتے ہوئے قبولیت کی کتنی زیادہ فکر رہنی چاہئے۔
قبولیت کی سچی طلب دل میں بس جاتی ہے تو تمام کام اخلاص کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں، قبولیت کی فکر تقاضا کرتی ہے کہ کام کا مقصود صرف اللہ کی رضا ہو اور اس میں کسی کے لئے کوئی حصہ نہیں ہو۔ سوشل میڈیا کے اس زمانے میں جب کہ ہر شخص کے لئے اپنی کارکردگی کی خبر عام کرنا آسان ہوگیا ہے، اخلاص کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔ برائی اس میں نہیں ہے کہ آپ کا کام خبر بن جائے، لیکن برائی اس میں ضرور ہے کہ خبر بنانا ہی کام کا مقصد بن جائے، اور اس طرح پستی کی طرف رخ ہونے کی وجہ سے کام کی خبر آسمان پر جانے کے بجائے زمین کی پستیوں میں ہی بکھر کر رہ جائے۔ ابراہیم اور اسماعیل نے اخلاص کے ساتھ صرف اللہ کے یہاں قبول ہوجانے کے لئے تعمیر کعبہ کا کام کیا اور اللہ نے اسے قیامت تک کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبر بنادیا۔ واقعہ یہ ہے کہ اللہ کی رضا کے لئے جو کام کیا جائے وہ کائنات کی بہت خاص خبر بن جاتا ہے، شرط یہ ہے کہ وہ کام خبر بننے کے لئے نہیں بلکہ رب خبیر کے یہاں قبول ہونے کے لئے کیا جائے۔
قبولیت کی سچی طلب دل میں بس جاتی ہے، تو اچھے کام کرتے ہوئے دل میں یہ جذبہ جوان رہتا ہے کہ مشکل سے مشکل کام میرے حصے میں آجائے۔ ٹیم میں کچھ لوگ جسمانی طور سے کمزور ہوسکتے ہیں، کچھ کی قوت کار کم ہوسکتی ہے، اور کچھ کی مدت کار تھوڑی ہوسکتی ہے، ایسے میں پوری ٹیم کو قوت ان سے ملتی ہے جو بڑے بڑے بوجھ اٹھانے کے لئے خود کو پیش کرتے ہیں، جنہیں آرام سے بے رغبتی اور کام کا جنون ہوتا ہے، جنہیں مال غنیمت کا شوق نہیں ہوتا ہے بلکہ جام شہادت سے عشق ہوتا ہے۔ قبیلہ نخع کے لوگ قادسیہ کے معرکے میں شریک ہوئے اور دوسروں کے مقابلے میں زیادہ کام آگئے، حضرت عمر نے خبر لانے والوں سے پوچھا، نخع کے لوگ کیوں زیادہ شہید ہوئے، کیا دوسرے انہیں محاذ پر تنہا چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے تھے، انہوں نے وضاحت کی: دراصل ہوا یہ کہ نخع والوں نے اہم ترین محاذ آگے بڑھ کر تنہا خود سنبھال لئے تھے (إن النخع ولو أعظم الأمر وحدهم). جو مشکل کام اپنے ذمے لیتا ہے، اسی کو تکان زیادہ ہوتی ہے، پسینہ بھی اسی کا زیادہ بہتا ہے، چوٹیں بھی اسے ہی زیادہ آتی ہیں، لیکن وہی پوری ٹیم کے لئے جوش اور طاقت کا سرچشمہ ہوتا ہے، اسی کو دیکھ کر دوسروں کو کام کرنے کا حوصلہ اور توانائی ملتی ہے۔
قبولیت کی سچی طلب ہوتی ہے، تو آدمی شہرت اور نام وری سے بہت اوپر اٹھ جاتا ہے، اسے اس کی فکر نہیں ہوتی کہ اخبار میں اس کا فوٹو نہیں چھپا، لوگوں کو اس کے کارنامے معلوم نہیں ہوئے، اسے انعام واسناد سے نوازا نہیں گیا، فکر تو اسے بس یہ رہتی ہے کہ اللہ کی بارگاہ میں وہ مقبول قرار پا جائے۔ اور یہی تو اصل کامیابی ہے، اس عظیم کامیابی کے سامنے کسی اعتراف اور کسی انعام کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک معرکے کے بعد قاصد خبر لے کر حضرت عمر کے پاس پہونچا، آپ نے پوچھا معرکے میں کون کون کام آگیا، اس نے کچھ خاص خاص لوگوں کے نام بتائے، پھر کہا کچھ اور لوگ بھی کام آگئے جنہیں امیر المومنین نہیں جانتے ہیں، یہ سن کر حضرت عمر رونے لگے، اور کہنے لگے: امیر المومنین انہیں نہیں جانتا تو اس میں ان کا کیا نقصان ہے، اللہ تو انہیں جانتا ہے، اس نے تو انہیں شہادت کے اونچے مقام پر فائز کردیا ہے، اور عمر کے جان لینے سے ان کا کیا بھلا ہوگا۔ (وَمَا ضَرَّهُمْ أَنْ لَا يَعْرِفَهُمْ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ! لَكِنَّ اللَّهَ يَعْرِفُهُمْ وَقَدْ أَكْرَمَهُمْ بِالشَّهَادَةِ، وَمَا يَصْنَعُونَ بِمَعْرِفَةِ عُمَرَ). جو اللہ کی قدر پہچانتے ہیں، وہ اسی کو کافی سمجھتے ہیں اور اسی کو ضروری بھی سمجھتے ہیں کہ اللہ ان کے عمل کو قبول کرلے۔
قبولیت کی سچی طلب ہوتی ہے تو کام کا معیار بلند رکھنے کا شوق بھی بڑھ جاتا ہے۔ قبولیت کی طلب کام کے حسن پر ذرا سی بھی آنچ آنا گوارا کرتی ہے، اسے پورا یقین ہوتا ہے کہ جب اللہ کی بارگاہ میں قبولیت کے لئے کام کیا جائے تو کام بھی شایان شان ہونا چاہئے اور اس کے دامن پر ذرا سا بھی داغ نہیں لگنا چاہئے۔ ایک بدو سے جب زکات وصول کرنے والے نے اس کے تمام اونٹوں کو شمار کرکے ایک سال کا اونٹنی کا بچہ مانگا، تو اس نے کہا اللہ کے راستے میں اس سے کیا ہوگا، نہ دودھ دے نہ سواری کے کام آئے، پانچ سال کی تیار اور تنومند اونٹنی لے کر جاؤ۔ شعور اور ذوق کی اس بلندی پر پہونچنے کے لئے بس یہ جذبہ کافی ہوتا ہے کہ میرا مقصود اللہ ہے، اسی کے سامنے اعمال کو پیش ہونا ہے، اس لئے میرا ہر عمل اونچی شان والا ہونا چاہئے۔
قبولیت کی سچی طلب ہر اچھے کام کو تکمیل تک پہونچانے کا جذبہ پیدا کرتی ہے، یہ طلب اس وقت بے مثال تازگی عطا کرتی ہے، جب تھکن کی شدت سے جسم چور ہوجاتا ہے اور حوصلے جواب دینے لگتے ہیں، دل میں شیطان وسوسہ ڈالتا ہے کہ تم اتنے ہی کے مکلف تھے، اب باقی کام کوئی اور کرلے گا یا کبھی اور ہوجائے گا۔ لیکن جب قبولیت کی جستجو انگڑائی لیتی ہے تو حوصلوں کو جلا مل جاتی ہے اور جسم کو نئی توانائی حاصل ہوجاتی ہے۔ جب یہ دھن سوار ہو کہ اللہ کی بارگاہ میں یہ کام قبول ہوجائے تو پھر اس کام کو ادھورا کب کے لئے اور کس کے لئے چھوڑا جائے۔
اللہ کی عظمت پر ایمان رکھنے والے اچھے کاموں کو قابل قبول بنانے کی ہر کوشش کرتے ہیں، اور ان کے قبول ہوجانے کی ہر آن دعا کرتے ہیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں