ڈیڑھ چال کے گھوڑے

ڈیڑھ چال کے گھوڑے
محی الین غازی
 شطرنج کی بساط پر گھوڑے کی اہمیت پیادوں سے زیادہ سمجھی جاتی ہے، پیادے ایک خانے کی چال چلتے ہیں، جبکہ گھوڑا ڈھائی خانے کی چال چل سکتا ہے، اور سامنے کوئی آجائے تو اس کے اوپر سے چھلانگ بھی لگاسکتا ہے۔ ایک دن بیٹھے بیٹھے خیال آیا کہ اگر شطرنج کی کسی بساط پر گھوڑا ڈھائی خانے کی چال کی بجائے ڈیڑھ خانے کی چال چلنے لگے تو کیا ہوگا؟ جواب ملا کہ صرف اتنا ہوگا کہ گھوڑا بھی پیادہ جیسا قرار پائے گا۔
میرا خیال ہے کہ مسلم عوام قیادت کے سلسلے میں قدرے حقیقت پسند ہیں، وہ اپنی قیادت پر بہت زیادہ اونچی توقعات کا بوجھ نہیں ڈالتے، وہ ان کو مہدی اور مجدد کے روپ میں بھی نہیں دیکھتے، وہ تو جب چاہتے ہیں تو صرف یہ چاہتے ہیں کہ قائدین ان کی طرح کوتاہ بین نہیں ہوں، بلکہ ان سے کچھ زیادہ دور تک دیکھیں، ان کی طرح سست رفتار نہیں ہوں، بلکہ ان سے کچھ زیادہ تیز چلیں۔ خلاصہ یہ کہ اگر عوام پیادہ کی طرح ایک خانے کی چال چلتے ہیں، تو اپنے قائدین کو گھوڑے کی طرح ڈھائی خانے کی چال چلنے والا دیکھنا چاہتے ہیں، اور ڈیڑھ خانے کی چال چلنے والوں کو دیکھ کر ان کو مایوسی ہوتی ہے۔
عوام کو شکایت اور جھنجھلاہٹ ہوتی ہے، جب وہ یہ دیکھتے ہیں کہ ان کے اور قائدین کے درمیان فرق صرف اتنا ہے کہ قائدین زیادہ اونچی آواز میں گفتگو کرتے ہیں، اور زیادہ روانی کے ساتھ تقریر کرتے ہیں۔ باقی اسٹیج پر کھڑے ہوکر وہ بھی وہیں تک دیکھتے ہیں جہاں تک پنڈال میں بیٹھے ہوئے سامعین دیکھتے ہیں، فیصلے کرنے میں وہ بھی عام لوگوں کی طرح ہچکچاہٹ اور تردد کا شکار رہتے ہیں، اقدامات کرنے میں وہ بھی دوسروں کی طرح خود کو مجبور سمجھتے ہیں، ذاتی مصلحتوں اور رکاوٹوں کو پھلانگ جانے کے معاملے میں وہ بھی بے بس نظر آتے ہیں، حال اور مستقبل سے نظریں چراکر وہ بھی ماضی کے تذکروں میں عافیت تلاش کرتے ہیں۔
قائدین کی نگاہ کمزور ہوتی ہے تو وہ منزل نہیں دیکھ پاتے، اور چونکہ سامنے سب دھندلا نظر آتا ہے اس لئے آگے قدم بھی نہیں بڑھا پاتے، ان کا ہر قدم جھجھکتے ہوئے اٹھتا ہے، اور جہاں سے اٹھتا ہے وہیں لوٹ آتا ہے، برسہا برس گزر جاتے ہیں اور ان کی زیر قیادت تنظیمیں اور ادارے کوئی پیش رفت نہیں کرپاتے۔ بلکہ بسا اوقات تو اپنی معنویت بھی کھودیتے ہیں، کہ لوگوں کو پوچھنا پڑتا ہے کہ فلاں ادارہ یا تنظیم کیوں ہے؟
کمزور نگاہ والے قائدین کو اپنا متبادل کبھی نظر نہیں آتا ہے، بلکہ اگر عوام کو کوئی متبادل نظر آ بھی جاتا ہے تب بھی وہ ان کو نظر نہیں آتا ہے، اور وہ اسے عوام کی نگاہوں کا دھوکہ قرار دیتے ہیں۔ قائدین کی نگاہ اپنا متبادل دیکھنے کے معاملے میں کمزور اس وقت بھی ہوجاتی ہے جب ان کے دل تنگ ہوتے ہیں، اور وہ کسی دوسرے کے خیال کو اپنے دل میں بٹھانے کی جگہ نہیں پاتے ہیں، ان کے دل میں صرف ایک ہی تصویر ہوتی ہے، جسے وہ تحسین کی نظر سے دیکھتے ہیں اور وہ ان کی اپنی ہوتی ہے۔
کچھ عرصہ قبل مسلم علماء کی ایک عالمی تنظیم کے انتخابی سیشن میں حاضر تھا، ممبران کی تجویز کی بنا پر ناموں کی ایک فہرست بنی تھی، اس فہرست میں سے ووٹنگ کے ذریعہ مجلس شوری کے ارکان کو منتخب کرنا تھا۔ طے پایا کہ فہرست میں موجود لوگ باری باری اسٹیج پر سے گزریں تاکہ تمام لوگ ان کو نام کے ساتھ دیکھ لیں، اور اس کے بعد ووٹنگ ہو۔ ایک صاحب جو ایک ملک کی پارلیمنٹ کے ممبر بھی تھے، اپنی باری پر اسٹیج پر آئے اور انہوں نے کہا گو کہ آپ لوگوں نے میرا نام پیش کیا ہے، لیکن میری نظر میں اس مجلس شوری کے لئے ایک فرد مجھ سے بھی زیادہ موزوں ہے، لیکن آپ حضرات کی نگاہ اس تک نہیں جاسکی ہے، میں گذارش کرتا ہوں کہ فہرست میں سے میرا نام نکال کر ان صاحب کا نام ڈال دیا جائے، اور پھر انہوں نے دلائل سے اپنی بات کو اتنا مضبوط کیا کہ لوگوں نے ان کی تجویز کو مان لیا۔ دیکھنے والے نگاہ کی اس تیزی اور دل کی اس کشادگی پر حیران رہ گئے۔
مسلم عوام مزاجا عقیدت پسند واقع ہوئے ہیں، وہ اپنی قیادت پر تنقید کرنا تو درکنار سننا بھی گوارا نہیں کرتے۔ اس تحریر کا مقصد بھی تنقید نہیں ہے، بلکہ ہر سطح کے اور ہر مکتب فکر کے قائدین سے التجا کرنا ہے کہ وہ اپنا قد بلند کرنے کی فکر کریں، کہ عوام کے عقیدت پسندانہ مزاج کے سہارے موجودہ زمانے میں زیادہ مدت تک چلنا ممکن نہیں ہے، تیزی سے بدلتے ہوئے حالات میں بار بار نگاہیں قیادت کی طرف اٹھتی ہیں اور نامراد واپس آتی ہیں، دن بدن حوصلہ بخش، حال فہم اور مستقبل بین قیادت کی ضرورت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، ادھر مختلف جہتوں سے ملی تنظیموں اور اداروں کی قیادت پر تنقید کا آغاز ہوا ہے، جو قائدین کے لئے اچھی اور اطمینان بخش خبر نہیں ہے۔ اپنا دفاع کرنے کی سب سے اچھی صورت یہ ہے کہ خود کو عوام کی معقول توقعات اور منصب کے حقیقی تقاضوں کے مطابق بنانے کی فکر کی جائے۔

ایک تبصرہ شائع کریں