مجھے تیرا محبت سے وہ ملنا یاد آتا ہے

مجھے تیرا محبت سے وہ ملنا یاد آتا ہے
(اورنگ باد کے اشفاق احمد صاحب مرحوم کی یاد میں)
محی الدین غازی
اشفاق صاحب اچھا لکھتے تھے، اچھا بولتے تھے، اور بہت اچھا ملتے تھے، اچھا ملنا ان کی شخصیت کا سب سے نمایاں رنگ تھا، میں نے دنیا بھر کی بہت سی شخصیتوں سے ملاقات کی ہے، لیکن ایسا روح افزا اور ایمان افروز معانقہ مجھے بہت کم لوگوں کے یہاں ملا۔ وہ ملتے تو محسوس ہوتا کہ اللہ والے ایسے ہی ملتے ہیں۔ خیریت پوچھتے تو یقین ہوتا کہ دل سے پوچھ رہے ہیں، اور سچ مچ فکر مند ہیں، کسی کی تکلیف کو سن کر ان کے چہرے پر ایسا کرب ظاہر ہوتا گویا ان کے دل نے اس تکلیف کو اچھی طرح محسوس کیا ہے۔
اپنے سے کم عمر والوں کی ہمت افزائی کرنا ان کی امتیازی صفت تھی، ادھر چند سالوں میں مجھے شہر اورنگ آباد کئی بار جانے کا موقع ملا، وہاں جب بھی میری تقریر ہوتی، اشفاق صاحب کبھی علالت اور کبھی نقاہت کے باوجود ضرور شریک ہوتے، اور تقریر کے بعد بڑی سخاوت اور فیاضی کے ساتھ ہمت افزائی فرماتے۔ سامعین کے درمیان انہیں کرسی پر بیٹھا دیکھ کر ایسا لگتا جیسے اللہ تعالی کی طرف سے خصوصی انعام واکرام کا نزول ہوا ہے، بہت اچھا لگتا تھا۔
اشفاق صاحب پاکیزہ نفس انسان تھے، وہ کسی چال کاحصہ نہیں بنتے تھے، نہ وہ خفیہ منصوبہ بندیوں کے قائل تھے، وہ ایسی کمیٹیوں اور مجلسوں میں بہت رہے، جہاں ماہرانہ چالیں چلی جاتیں، اور گہری سازشیں رچی جاتیں، لیکن وہ ان سب فتنوں سے الگ تھلگ اپنی ذمہ داری ادا کرتے اور وہاں سے بے داغ باہر نکل آتے۔ انہوں نے کبھی کوئی عہدہ طلب نہیں کیا، جو بھی ملا بنا طلب کے ملا، اور جو ملا اس کا حق ادا کرنے کی مقدور بھر کوشش کرتے رہے۔
اشفاق صاحب کے اندر قناعت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، میں نے پورے ایک سال ان کے ساتھ ایک ڈائننگ ہال میں تین وقت کھانا کھایا، اس دسترخوان کی خاص بات یہ تھی کہ اس پر سجے کھانے نہ تو ذائقے کو تسکین دیتے تھے، اور نہ صحت کے لئے مناسب ہوتے تھے، خاص بات یہ تھی کہ سال بھر تینوں وقت ان کھانوں کے غیر معیاری ہونے میں فرق نہیں آتا تھا، کھانے والے سب خاص لوگ تھے، اور سب اس کھانے سے شاکی تھے، کوئی اس کے نامناسب ہونے کا شکوہ کبھی کبھی کرتا، اور کوئی روزانہ کرتا، کوئی طنزوظرافت سے کام لیتا، اور کوئی سنجیدہ برہمی کا اظہار کرتا، لیکن ہم سب کے درمیان ایک اشفاق صاحب کی شخصیت سب سے منفرد تھی، میں نے سال بھر میں کبھی بھی انہیں ذرا سا بھی شکوہ کرتے نہیں سنا۔
اس ڈائننگ ہال سے میں نے ایک سبق سیکھا، وہ یہ کہ بعض خرابیاں بہت ڈھیٹ ہوتی ہیں، ان کے سامنے امیر ووزیر سب بے بس ہوتے ہیں، بااختیار ہوتے ہوئے بھی ان خرابیوں کو دور کرنے کے سلسلے میں سبھی خود کو بے اختیار محسوس کرتے ہیں، اور ان خرابیوں کے نقصان کو محسوس کرتے ہوئے بھی صبر وسکوت یا شکوہ وشکایت سے زیادہ کوئی کچھ نہیں کرپاتا ہے۔ اشفاق صاحب نے ایسے ہر موقع پر شکایت کے بجائے صبر کا راستہ اختیار کیا۔
اشفاق صاحب عین جوانی میں شدید قسم کی بیماریوں سے دوچار ہوئے، اور بیماریوں سے لڑتے ہوئے میدان کارزار سے نکل کر کمرہ استراحت میں جانے پر مجبور ہوگئے، اس استراحت میں کتنی حسرتیں انہیں بے چین رکھتی تھیں اس کا اندازہ وہ لوگ کر ہی نہیں سکتے جو بستر استراحت ہی کو میدان کارزار سمجھ کر بڑے اطمینان والی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کی سخت علالت اور پھر شدید نقاہت کے دوران ایسا لگنے لگا جیسے ہم لوگ جیتے جی ان کو بھولنے لگے ہیں، تاہم ان کی وفات کی خبر نے ان کی یادوں کو تازہ کردیا، اور اندازہ ہوا کہ ان کا تذکرہ گو زبانوں پر نہیں تھا مگر ان کی محبت بے شمار دلوں میں بسی ہوئی تھی۔
بہترین جوانی وہ ہے جو اللہ کے دین کا کام کرتے ہوئے گزر جائے، اور بہترین جوان وہ ہے جو جوانوں کو اللہ کے کام سے جوڑ دے۔ دعا ہے کہ رب کریم کے یہاں اشفاق صاحب کا شمار بہترین اور پسندیدہ جوانوں میں ہو۔ اور ان سے محبت کرنا ہمارے لئے بھی باعث اجر بن جائے۔

ایک تبصرہ شائع کریں