تین طلاقوں کا ظلم — خاتمہ کیسے ہو

محی الدین غازی

(خلاصہ: ایک بار میں ایک طلاق اسلام کے نظام رحمت کا حصہ ہے، اور ایک بار میں تین طلاق ایک ظالمانہ رویہ ہے، جسے ختم کرنا مسلمانوں پر فرض ہے)
جس طرح کسی زمانے میں انسانوں کو غلام بنالینے ، بیٹی کو زندہ درگور کرنے اور بیوی کو شوہر کی چتا پر زندہ جلادینے کا رواج ظالمانہ تھا، اسی طرح ایک ہی بار میں تین طلاقوں کا رواج بھی ظالمانہ ہے۔ دور حاضر میں جہاں ظلم کی مختلف نئی شکلیں رائج ہوئیں وہیں ظلم کی پرانی شکلیں مٹانے کی انسانوں نے سنجیدہ کوششیں بھی کیں، چنانچہ غلامی کے خاتمہ کا اعلان ہوا، ستی کی رسم کو غیر قانونی جرم قرار دیا گیا، تاہم تین طلاقوں کے ظالمانہ رواج کو ختم کرنے کی ابھی تک کوئی سنجیدہ اور بھرپور کوشش کسی طرف سے نہیں ہوئی۔
حقیقت یہ ہے کہ معاشرہ میں بار بار پیش آنے والے تین طلاقوں کے دل سوز واقعات اور پھر ان کی بنیاد پر “نکاح” جیسی فلموں میں دکھائے جانے والے تکلیف دہ مناظر دیکھ کر سادہ دل مسلمان پریشان اور بے چین ہوجاتا ہے کہ یہ تین طلاقوں والا ظلم جو مرد عورت پر روا رکھتا ہے ، اللہ کی شریعت میں کیسے جائز ہوسکتا ہے۔اللہ تو رحمان اور رحیم ہے۔
واقعہ یہ ہے پوری دنیا میں اور خاص طور سے ہندوستان میں اسلام کو بدنام کرنے میں تین طلاقوں کا بہت بڑا کردار رہا ہے، مسلمانوں کی باہمی فرقہ آرائی کو بھی تین طلاقوں سے خوب غذا ملی ہے، یوٹیوب پر دیکھیں تو تین طلاقوں کے مسئلہ پر علماء کرام کی ایک دوسرے کے خلاف بے شمار تقریریں ہیں ، کتب خانے اور رسائل وجرائد بھی تین طلاقوں کی طویل بحثوں سے بوجھل ہوچکے ہیں، نہ تو علماء میں یہ بحث دم لے رہی ہے کہ تین طلاق ایک ہوں گی یا تین ، اور نہ عوام میں تین طلاقوں کا سلسلہ رک رہا ہے۔
علماء دین کا اس پر تو اتفاق ہے کہ ایک بار میں تین طلاق سنت کے خلاف عمل ہے ، ایک قبیح فعل ہے، اور اس حرکت کا ارتکاب کرنے والا اللہ کے حکم کی نافرمانی کرتا ہے۔ تاہم انہوں نے تین طلاقوں کے مسئلہ پر اتنی بحثیں کیں کہ عوام کے ذہن ودماغ میں تین طلاقیں ہی بیٹھ گئیں، انجام کار یہ کہ جب بھی زبان طلاق کے لئے حرکت میں آتی ہے، تو تین طلاقیں ہیں برآمد ہوتی ہیں۔طرہ یہ کہ ہمارے مسلم وکلاء بھی جب طلاق نامہ تحریر کرتے ہیں تو تین طلاق لکھ کر اس پر دستخط لیتے ہیں۔علماء کے بارے میں تو میں نہیں کہہ سکتا لیکن بہت سارے مولویوں کا بھی یہی سمجھنا ہے اور یہی وہ سمجھاتے بھی ہیں کہ اگر طلاق مکمل طور پر دینا ہے تو تین کی گنتی تو پوری کرنی ہی پڑے گی۔
اہل حدیث حضرات نے اس ظلم کے تدارک کے لئے یہ طریقہ تجویز کیا کہ ایک بار کی تین طلاقوں کو ایک ہی مان لیا جائے، اس طریقہ کی خامی یہ ہے کہ یہ طریقہ ان بہت سارے لوگوں کو مطمئن نہیں کرسکاجن کا مسلک یہ ہے کہ تین طلاقیں تین ہی ہوتی ہیں۔خاص طور سے جبکہ فقہ کے چاروں مسلک یہی کہتے ہوں کہ تین طلاقیں تین شمار ہوں گی۔
مجھے یقین ہےکہ علماء کتنی ہی بحثیں کرڈالیں، اور کتنی ہی دلیلیں جمع کرڈالیں، یہ بحث ختم نہیں ہوسکتی کہ تین طلاقیں ایک مانی جائیں یا تین مانی جائیں کیونکہ اس اختلاف کی جڑیں اتنی گہری اور اس قدر مضبوط ہیں کہ ان کو اکھاڑ پھینکنا انسانوں کے بس سے باہر ہے۔ پھر معاملہ چونکہ طلاق کا ہے اس لئے تین طلاقوں کو ایک طلاق مان لینے کے بعد بھی یہ کھٹک دل میں مستقل طور پر رہ سکتی ہے کہ کہیں تین طلاقیں تین ہی تو نہیں ہوتی ہیں، اور یہ کہ تین کو ایک مان لینے کے بعد ازدواجی زندگی حلال گذر رہی ہے یا حرام۔
میں طویل غوروفکر اور بحثوں کی لمبی سماعت کے بعد اس نتیجہ پر پہونچا ہوں کہ صورتحال کی اصلاح کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ صورتحال جس وجہ سے بگڑی ہے اس وجہ کو دور کردیا جائے، یعنی طلاق کے صحیح تصور کو عام کیا جائے۔
لوگ غلطی سے یہ سمجھتے ہیں کہ شافی وکافی طلاق جس سے طلاق دینے کا مقصد حاصل ہوجائے وہ بس تین طلاقیں ہیں۔ ہمیں لوگوں کو یہ بتاناہوگا کہ مکمل طلاق جس سے طلاق دینے کا مقصد حاصل ہوجائے وہ صرف ایک طلاق ہے۔ مطلب یہ کہ ایک طلاق تہائی طلاق نہیں بلکہ مکمل طلاق ہوتی ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہر موقف کے علماء اخلاص کے ساتھ عوام کو یہ بتانےکی مہم چلادیں کہ ایک مسلمان کامسلک تین طلاق دینا ہے ہی نہیں، مسلمان تو جب بھی ضرورت ہو ایک ہی طلاق دیتا ہے، اور اگر ان کو ایک طلاق کے فائدوں اور برکتوں سے واقف کرائیں تو تین طلاقوں والا ظالمانہ رواج بھی ختم ہوجائے اور ساتھ ہی تین طلاقوں والی بحث بھی از خود ختم ہوجائے۔
یہ بات درست نہیں ہے کہ لوگ صرف غصہ میں تین طلاقیں دیتے ہیں، یہ بھی صحیح نہیں ہے کہ صرف جاہل اور ان پڑھ تین طلاق دیتے ہیں۔ میرا مشاہدہ ہے کہ پڑھے لکھے لوگ بھی عام طور سے اور ہر حال میں تین طلاقیں دینے لگے ہیں۔ کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ تین طلاق ہی دینا ہوتی ہے بیوی سے جدا ہونے کے لئے۔ میں نے بہت سارے نوجوانوں سے گفتگو کرتے ہوئے جب انہیں ایک طلاق کے بارے میں بتایا تو وہ حیران ہوگئے، انہیں معلوم ہی نہیں تھا، کہ شریعت میں جو طریقہ بتایا گیا ہے وہ ایک بار میں ایک طلاق دینے کا ہے، اور اس ایک طلاق سے شوہر اور بیوی کی مطلوبہ علیحدگی ہوسکتی ہے۔
بات کتنی سادہ اور آسان سی ہے ، زید اور اس کی بیوی کے تعلقات بے حد کشیدہ ہوچکے ہیں، وہ اسے ایک طلاق دیتا ہے ۔عدت کے دوران زید اپنے فیصلہ پر نادم ہوتا ہے تو رجوع کرلیتا ہے، نادم نہیں ہوکر رجوع نہیں کرتا ہے تو وہ عدت پوری ہونے کے بعد اس کا گھر چھوڑ دیتی ہے۔ اس کے بعد اس کی شادی کہیں اور ہوجاتی ہے ، تو وہ اپنے نئے شوہر کے ساتھ رہنے لگتی ہے۔ اور اگر اس کی شادی کہیں اور نہیں ہوتی ہے، اور وہ دونوں دوبارہ میاں بیوی بن کر رہنا چاہتے ہیں تو دونوں کے لئے گنجائش ہے کہ نکاح کرکے اپنی ازدواجی زندگی بحال کرلیں۔ طلاق کی کہانی صرف اتنی ہی ہے اور وہ صرف دوبار دوہرائی جاسکتی ہے، تیسری بار کہانی کا اختتام حتمی جدائی پر ہوجاتا ہے۔
اس پر بعض نوجوان حیران ہوکر کہتے ہیں، کیا تین طلاق کے بغیر وہ لڑکی کسی اور سے شادی کرسکتی ہے؟ کیونکہ ان کے ذہن میں یہ ہوتا ہے کہ ایک طلاق تو پوری طلاق ہوتی نہیں ہے کہ وہ لڑکی کسی اور سے شادی کرسکے۔جب انہیں یہ بتایا جاتا ہے کہ ایک طلاق بیوی سے مکمل طور سے الگ ہونے کے لئے کافی ہے تو وہ مزید حیرا ن ہوتے ہیں کہ اگر ایسا ہے تو پھر تین طلاق کا سبق اتنے زور وشور سے کیوں پڑھایا جاتا ہے۔
طلاق جیسے انسانیت دوست خدائی انتظام کو تین طلاقوں کے تصور نے اس قدر خراب کرڈالا کہ اپنوں کو آپس میں لڑنے کا موقعہ ملا اور وہ خوب خوب لڑے، مخالفوں کو اسلام کی ہنسی اڑانے کا موقعہ اور انہوں نے بہت ہنسی اڑائی۔
دراصل ایک بار میں ایک طلاق دینا ہی وہ صحیح طریقہ تھا جس پر مسلمانوں کو بوقت ضرورت عمل کرنا چاہئے تھا، یہ طریقہ معاشرہ کے لئے بے حد زندگی بخش اور فرد کے لئے حد درجہ اطمینان بخش تھا۔سارے علماء کو مل کر اس طریقہ کی صحیح تشریح وتفہیم پر توجہ دینا چاہئے ۔ لیکن علماء کے درمیان تین طلاق کے اوپر فضول بحثیں چھڑ گئیں۔اور اتنی زور وشور سے چھڑیں کہ عوام کے ذہن میں ایک طلاق کی جگہ تین طلاق کا تصور بیٹھ گیا۔ان بحثوں کو فضول کہنے کی وجہ یہ ہے کہ ہزار بحثوں کے باوجود چند مخصوص دلائل سے آگے بات نہیں بڑھی اور انہیں کو لے کر لوگ آپسی دھینگا مشتی اور باہم طعن وتشنیع میں لگے رہے۔
عیسائیوں کو حضرت عیسی علیہ السلام نے ربانیت اور خدا ترسی کا درس دیا تھا، انہوں نے غلو کا راستہ اختیار کیا اور رہبانیت کے عذاب میں مبتلا ہوگئے۔ مسلمانوں کو اللہ کی طرف سے ایک طلاق کا طریقہ رحمت اور نعمت کے طور پر عطا کیا گیا تھا، مسلمانوں نے طلاق کو تین سے ضرب دے کر خود کو اللہ کی رحمت سے محروم اور ایک ذلت بھرے عذاب میں گرفتار کرلیا۔
مجھے کامل یقین ہے کہ آج ملت کا دانشور اور سمجھدار طبقہ متحد ہوکر اور ایک زبردست مہم چلاکر تین طلاقوں کا مزاج اور رواج ختم کرنے اور ایک طلاق کے تصور کی تفہیم کرنے میں کامیاب ہوسکتا ہے ۔ اور اگر ایسا ہوجائے تو شریعت کا غیر معمولی احترام نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیر مسلموں کے دلوں میں بھی جگہ بناسکتا ہے۔
میں نے ایک طلاق کے قرآنی انتظام پر جس قدر غور کیا، اللہ کی رحمت کو اتنا زیادہ قریب محسوس کیا۔اور تین طلاقوں والی طلاق کے نتائج پر جس قدر سوچا اسے محض ایک بدعت نہیں بلکہ ایک بدترین بدعت اور زہر ناک سماجی لعنت پایا۔(ماہنامہ حجاب اسلامی دسمبر 2014)

ایک تبصرہ شائع کریں