بچپن کی ضعیفی یاد رکھیں، بوڑھوں کا سہارا بن جائیں

بچپن کی ضعیفی یاد رکھیں، بوڑھوں کا سہارا بن جائیں
محی الدین غازی
جو شخص یہ جانتا ہو کہ پیدائش کے وقت وہ کتنا ضعیف تھا، وہ بوڑھے والدین کی ضعیفی کو نظر انداز کیسے کرسکتا ہے؟
جس انسان کو اپنے بچپن کی ضرورتیں یاد ہوں، وہ والدین کے بڑھاپے کی ضرورتوں سے کیسے آنکھیں چراسکتا ہے؟
جسے یہ یاد ہو کہ بچپن میں اس کے والدین اسے کس طرح سینے سے چمٹائے رہتے تھے، اور ہر آن اپنی آنکھوں کی روشنی میں رکھا کرتے تھے، وہ بوڑھے والدین کو کبھی بھی تنہا کیسے چھوڑ سکتا ہے؟
جسے یہ اندازہ ہو کہ بچپن کی تکلیفوں پر والدین کس طرح بے چین ہوجاتے، اور ان کی توجہ سے کس طرح وہ تکلیفیں دور ہوجاتیں، وہ بوڑھے والدین کو تکلیف سے تڑپتے ہوئے اور درد سے کراہتے ہوئے دیکھ کر کیسے بے غم اور بے فکر رہ سکتا ہے؟
تمام زمینی مخلوقات میں انسان کی خاص بات یہ ہے کہ وہ پیدائش کے بعد اپنے والدین کا سب سے زیادہ اور سب سے طویل عرصے تک محتاج رہتا ہے۔ انسان کا ضعیفی سے بھرپور بچپن طویل برسوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ بھی خاص بات ہے کہ اپنے بچوں کی ضعیفی میں مضبوط سہارا بننے والے والدین اپنے بڑھاپے میں اپنے بچوں کے ضرورت مند ہوجاتے ہیں۔ شاید کوئی اور زمینی مخلوق بڑھاپے میں اپنے بچوں کی ضرورت مند نہیں ہوتی ہے۔ گویا بچپن اور بڑھاپا دونوں ہی مرحلے انسان دوسروں سے مختلف اور مخصوص طریقے سے گزارتا ہے۔
رب حکیم نے انسانوں کو زمین کی مخلوقات میں اعلی مقام عطا کیا ہے، اور انہیں بے شمار امتیازی خوبیوں اور خصوصیات سے نوازا ہے، ان خوبیوں اور خصوصیات کی حفاظت کے لئے انسان کے طویل بچپن کو والدین کی اچھی نگہداشت سے جوڑ دیا، اور اس کے طویل بڑھاپے کو اولاد کے اچھے سلوک سے جوڑ دیا۔
خالق حکیم نے والدین کی فطرت میں اولاد کی محبت اس طرح رکھ دی کہ وہ کسی کے کہے بنا ہی اپنے بچوں کی پرورش کرتے ہیں، اور بچپن کی ضعیفی سے باہر نکلنے تک ان کی قوت اور ان کا سہارا بنتے ہیں۔ لیکن والدین کے بڑھاپے میں اولاد ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے، اسے فطرت کا ضروری حصہ بنانے کے بجائے انسان کی اخلاقی حس میں رکھ دیا۔ اور اس اخلاقی حس کو زندہ رکھنے کے لئے اپنی کتاب میں اس کی بار بار تاکید کردی۔ گویا والدین اولاد پر جان چھڑکیں یہ فطرت کا لازمی تقاضا ہے، اور اولاد والدین پر جان چھڑکیں یہ اخلاق کا ضروری تقاضا ہے۔ اور اس اخلاقی تقاضے کو پورا کرنے کی تاکید قرآن مجید میں بار بار آئی ہے۔
جن انسانوں کی فطرت مسخ ہوجاتی ہے وہ اولاد کی پرورش سے فرار اختیار کرلیتے ہیں، اور جن انسانوں کے اخلاق مسخ ہوجاتے ہیں وہ والدین کے حقوق سے فرار اختیار کرلیتے ہیں۔ یہ دونوں ہی بڑے بھیانک جرم ہیں۔
کچھ لوگ اپنے لڑکپن یا جوانی میں والدین کے کسی فیصلے یا رویے کو لے کر اس قدر ناراض ہوجاتے ہیں، کہ اپنے بچپن کے سارے حالات فراموش کردیتے ہیں، اور پھر زندگی بھر والدین سے بیزاری اور لاتعلقی رکھتے ہیں۔ یہ بہت غلط بات ہے۔ آپ کے لڑکپن یا جوانی میں والدین آپ کے ساتھ کیسا ہی رویہ اختیار کریں، آپ یہ ہرگز نہ بھولیں کہ آپ کا بچپن ان کی توجہ کے سائے میں گزرا ہے، اور اس لئے ان کا بڑھاپا آپ کی توجہ کے سائے میں گزرنا چاہئے، خواہ اس بیچ کیسے ہی تلخ واقعات پیش آئے ہوں۔
والدین کے ساتھ اولاد کا سلوک کیسا ہونا چاہئے، یہ بتانے کے لئے قرآن مجید احسان کا حکم دیتا ہے، احسان کا مطلب وہ اچھے سے اچھا سلوک ہے جو آپ کے خیال اور امکان میں آسکتا ہو۔ اور پھر خیال اور امکان کے دائرے کو وسیع تر کرنے کے لئے قرآن مجید ماں کی ان تکلیفوں اور مشقتوں کا ذکر کرتا ہے، جو وہ بچے کی پیدائش سے پہلے اور پیدائش کے بعد اٹھاتی ہے۔ جو انسان ان تکلیفوں اور مشقتوں کا اندازہ کرلیتا ہے، وہ اپنے ضعیف والدین کی ہر خدمت کو آسان سمجھتا ہے، اور ہر خدمت کے بعد محسوس کرتا ہے کہ ابھی حق ادا نہیں ہوا۔
یہ بھی انسان کا امتیاز ہے کہ اسے بچپن میں دادا دادی اور نانا نانی کی شفقتیں حاصل ہوتی ہیں، دوسری زمینی مخلوقات میں یہ رشتہ پایا ہی نہیں جاتا ہے، دادا دادی اور نانا نانی کو بڑھاپے میں اپنے بچوں کے ساتھ پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کی محبت اور توجہ سے بھی بڑی تسلی ملتی ہے، ان سے ملنے والی انسیت اور رونق کے ماحول میں ان کے لئے بڑھاپے کا بوجھ اٹھانا آسان ہوجاتا ہے۔ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اپنے ضعیف بزرگوں کی خدمت کرنے اور ان کا دل بہلانے کی ترغیب بھی دیں اور اس کے لئے زیادہ سے زیادہ مواقع بھی فراہم کریں، اس طرح آپ اپنے بچوں کا اچھا مزاج بناتے ہیں اور انہیں اس کی عملی تربیت دیتے ہیں کہ خود آپ کی ضعیفی میں ان کا رویہ کیسا ہو۔
ہوسکتا ہے علیحدہ سکونت کی ضرورت، معاش کے تقاضے یا بیوی کے مطالبے آپ کو والدین سے الگ رہائش اختیار کرنے پر مجبور کردیں، ایسی صورت میں بھی آپ پر فرض ہے کہ والدین کے ساتھ گزارنے کے لئے اتنا وقت ضرور مخصوص کریں جو ان کے لئے تسلی بخش ہو۔ آپ اپنی تمام مصروفیات میں اس مصروفیت کو بھی لازمی قرار دیں، اور کسی بھی وجہ سے اس کام میں کوتاہی اور اس وقت میں کٹوتی نہ کریں۔ الگ رہائش والدین کی خدمت سے سبک دوشی اختیار کرنے کی وجہ نہیں بن سکتی ہے۔
زمانے کے بدلنے کے ساتھ والدین کی خدمت کے بہت سے طریقے نئی نسل سے پیچھے چھوٹتے جارہے ہیں، ان کے پیر دبانا، ان کے سر پر تیل کی مالش کرنا، ان کے شوق کے مطابق انہیں تحفے دینا، ان کی تفریح کا انتظام کرنا، اور ان کی باتیں توجہ سے سننا، وغیرہ۔ ہمیں اچھی طرح جاننا چاہئے کہ زمانے کی تبدیلی نے والدین کی یہ ضرورتیں ختم نہیں کی ہیں، بلکہ اولاد کو ان ضرورتوں سے غافل اور لاپرواہ بنادیا ہے، خوش نصیب اور سعادت مند ہیں وہ لوگ جو والدین کی ضرورتوں سے ذرا غافل نہیں ہوتے۔
"کما ربیانی صغیرا" زندگی کا بہت روشن قرآنی اصول ہے، اسے اس وقت بھی یاد رکھیں جب آپ والدین کے لئے دعا کریں، اور اس وقت بھی نہ بھولیں جب آپ والدین کی ندا سنیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں