حج کا پیغام: حرکت اور اجتماعیت
محی الدین غازی
ہر عبادت کی کچھ خصوصیات ہوتی ہیں، جو اسے دوسری عبادتوں سے ممتاز کردیتی ہیں،اور اس طرح ہر عبادت کا پیغام اپنی خصوصیات کے ذریعہ اور زیادہ واضح ہوجاتا ہے، حج کی عبادت اپنے اندر بہت سارے پیغامات سموئے ہوئے ہے، ذیل کی تحریر میں حج کے دو خاص پیغاموں کی ترسیل کی کوشش کی گئی ہے۔
حج حرکت والی عبادت ہے، جس طرح نماز سکون والی عبادت ہے، امت کی زندگی میں حج کی حرکت اور نماز کا سکون دونوں ضروری ہیں ،نماز میں زیادہ حرکت نماز کو فاسد کردیتی ہے، جبکہ حج میں زیادہ حرکت مطلوب ہوتی ہے، دور دراز علاقوں سے مکہ کی جانب سفر، وہاں منی عرفات مزدلفہ اور پھر منی جانا، بار بار جمرات جاکر کنکری مارنا، قربانی کرنا،بار بار خانہ کعبہ کا طواف کرنا، صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا، کہیں چلنا، کہیں تیز چلنا، غرض ہر وقت ایک مسلسل حرکت، یہ حرکت صرف حج کی خصوصیت ہے۔حج کی مسلسل حرکت یہ بتاتی ہے کہ خانہ کعبہ سے رشتہ رکھنے والی امت کے لئے جمود اور بے عملی زیبا نہیں ہے، اسے دین کے پیغام کو پوری دنیا میں عام کرنے کے لئے ہر وقت سرگرم عمل رہنا ہے۔
حج سب سے بڑی اجتماعیت اور سب سے زیادہ اجتماعیت والی عبادت ہے، سب سے بڑی اس پہلو سے کہ سب سے زیادہ امتی اسی موقعہ پر ایک جگہ جمع ہوتے ہیں، سب سے زیادہ اس پہلو سے کہ یہاں اجتماعیت کے بجائے انفرادیت اختیار کرنے کے لئے ذرا بھی رخصت نہیں ہے، دوسری عبادتوں میں بھی اجتماعیت کی تاکید ہے لیکن اس کی گنجائش ہوتی ہے کہ اگر جماعت اور اجتماعیت کے ساتھ ادائیگی نہ ہوسکے تو انفرادی طور پرادا یا قضا کرلیں، جماعت چھوٹ جائے تو بعد میں نماز تنہا ادا کی جاسکتی ہے، رمضان میں سب کے ساتھ روزے نہ رکھ سکیں تو دوسرے دنوں میں تنہا رکھ سکتے ہیں، لیکن حج جب بھی کرنا ہے سب کے ساتھ کرنا ہے ، کسی بھی صورت میں سال کے دوسرے دنوں میں جاکرحج نہیں کرسکتے، تنہا بھی نہیں اور گروپ کے ساتھ بھی نہیں۔ ایک حج چھوٹ جائے تو پورے سال انتظار کرنا ہے دوسرے حج کی تاریخوں کا، کیونکہ یہاں کامل اجتماعیت مطلوب ہے، عالم گیر اجتماعیت۔ متعین تاریخوں میں پوری دنیا سے سارے آنے والوں کو آنا ہے، اور ایک ترتیب کے ساتھ سارے کام انجام دینا ہے، حج میں آدمی کسی ایک امام کی اقتدا نہیں کرتا ہے، بلکہ سب مل کرایک ساتھ آگے بڑھتے ہیں، ثم افیضوا من حیث افاض الناس۔ پورا مجمع ایک شخص بن جاتا ہے، جسے معلوم ہوتا ہے کہ کس وقت کیا کام انجام دینا ہے۔ نماز سب کے صف بستہ ہونے کا منظر ہے، تو حج مل کر اقدام کرنے کا نظارہ پیش کرتا ہے۔
حج کے موقعہ پر یہ حقیقت آشکارا ہوتی ہے، کہ امت نے اختلافات کوحقیقت سے زیادہ اہمیت دے رکھی ہے ، جب حج کے طریقہ پر سب کا اتفاق ہے تو آخر ان کے درمیان ہر سطح پر اتحاد واتفاق کیوں نہیں ہوسکتا ہے، حج کا موقعہ اتحاد امت کی تجدید کا موقعہ ہے، کہ اس وقت پوری امت کے نمائندے ایک جگہ جمع ہوتے ہیں۔یہ اللہ کی طرف سے ایک زبردست انتظام ہے ، اس کے ذریعہ ایک امت ہونے کا احساس ہر سال تازہ ہوتا ہے، گوکہ خاکی حدوں اور خود ساختہ لکیروں کے پجاری حج کے اس پہلو کو بے اثر بنانے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔
حج کے موقعہ پر یہ حقیقت بھی بے نقاب ہوتی ہے کہ نماز کی مختلف صورتوں پر جو شدید قسم کے اختلافات اور جھگڑے امت کے مختلف گروہوں میں پائے جاتے ہیں، وہ سب بے معنی ہیں، اور رائی کا پہاڑ بنانے کے مثل ہیں، حقیقت میں فرق بہت معمولی ہے، اس قدر معمولی کہ اس فرق کے ہوتے ہوئے بھی پوری امت ایک امام کے پیچھے ایک جماعت بناکر نماز ادا کرسکتی ہے۔ نماز میں بندہ قبلہ کی طرف رخ کرکے اپنے آپ کو مسجد حرام میں ادا کی جانے والی نماز سے وابستہ کرلیتا ہے، حج کے موقعہ پر بندہ حسب توفیق مسجد حرام میں ادا کی جانے والی نماز میں شامل ہوجاتا ہے، اور یہ محسوس کرتا ہے کہ دنیا کی ہر مسجد مسجد حرام کا امتداد ہے، وہی سلسلہ ہے جو پوری دنیا میں پھیل گیا ہے۔
ہر سال حج پر جانے والے سارے حاجیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس روشنی کو عام کریں جو وہ امت کے مرکز میں حج کے موقعہ پر دیکھتے ہیں، وہ اجتماعیت کے مبلغ اور حرکت وعمل کے خوگر بن کر لوٹیں ، کیونکہ امت ایک طرف شدید قسم کے جمود میں مبتلا ہے تو دوسری طرف اجتماعیت کا شیرازہ بکھرچکا ہے اورپوری امت بدترین قسم کی فرقہ بندی کا شکار ہے، دل ودماغ میں پلنے والے خیالات عقیدہ بن گئے ہیں، فرقوں اور جماعتوں نے امت سے زیادہ اہمیت اختیار کرلی ہے۔ ہر شخص ایک چھوٹے سے کنویں میں محصور ہے اور اسی کو وہ سمندر سمجھ بیٹھا ہے، امت کے افراد کوکنویں کی اس ذہنیت سے باہر نکالنا ضروری ہے، اور یہ کام حجاج کرام بہت بہتر طریقہ سے انجام دے سکتے ہیں، کیونکہ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ امت ایک بہت وسیع سمندر ہے یہ کوئی چھوٹے چھوٹے تالابوں اور کنووں کا مجموعہ نہیں ہے، وہ اس وسیع سمندر کے خوش نما مناظر دیکھ کر اور وہاں کی فرحت بخش فضا کا لطف لے کر آتے ہیں۔
قرآن مجید کی آیت ، لیشہدوا منافع لھم ، پڑھتے ہوئے خیال آتا ہے کہ حج کے ذریعہ امت کتنی زیادہ منفعتوں کا مشاہدہ کرسکتی تھی لیکن مصلحت پسندوں نے بہت سارے حجاب حائل کرڈالے۔ یا رب ، ان حجابوں کو ہٹادے اور محروم تماشا کو پھر دیدہ بینا دے۔
ایک تبصرہ شائع کریں