ایک تہائی طلاق نہیں، ایک پوری طلاق

ایک تہائی طلاق نہیں، ایک پوری طلاق
محی الدین غازی
اس سوال پر سنجیدگی سے سوچنا چاہئے کہ لوگ ایک بار میں تین طلاق کیوں دے دیتے ہیں؟ کیا انہیں معلوم ہے کہ ایک طلاق دینے اور تین طلاق دینے میں واقعی کیا فرق ہے؟
عوام کے درمیان یہ خیال پایا جاتا ہے کہ ایک طلاق دینے سے بیوی سے کامل علیحدگی ہو ہی نہیں سکتی، کامل علیحدگی کے لئے تین طلاق دینا ہی ضروری ہے۔ یہ خیال سراسر غلط ہے، مگر عوام کے درمیان یہی مشہور ہے۔
میں نے متعدد مجلسوں اور مجمعوں میں ایک سوال کیا۔ آپ بھی کسی مجلس میں یہ سوال کر کے دیکھ سکتے ہیں۔ ’’اگر کسی شوہر نے اپنی بیوی کو صرف ایک طلاق دی اور رجوع نہیں کیا، عدت مکمل ہوگئی، جب کہ شوہر نے دوسری اور تیسری طلاق نہیں دی، تو کیا عدت پوری ہوجانے کے بعد وہ عورت کسی اور مرد سے نکاح کرسکتی ہے؟‘‘ حیران کردینے والی بات یہ ہے کہ چند ایک کو چھوڑ کر سب کا جواب یہ ہوتا ہے کہ وہ عورت کسی اور مرد سے شادی نہیں کرسکتی ہے، کیونکہ اس کے شوہر نے ابھی اسے ایک ہی طلاق دی ہے، گویا ابھی وہ شوہر سے پوری طرح علیحدہ نہیں ہوئی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پوری طرح علیحدہ ہونے کے لئے تین طلاقیں ضروری ہیں۔ اور جب انہیں یہ بتایا جاتا ہے کہ ان کا یہ خیال سراسر غلط ہے، وہ عورت ایک طلاق کے بعد بھی عدت گزرجانے کے بعد شوہر سے پوری طرح علیحدہ ہوجاتی ہے، اور کسی بھی مرد سے نکاح کرسکتی ہے، تو انہیں حیرت ہوتی ہے، کہ کیا اتنی مشہور بات اس طرح یکسر غلط بھی ہوسکتی ہے۔
مسئلہ کی جڑ یہی ہے، لوگوں کے ذہن میں یہ بات نقش ہوگئی ہے کہ ایک طلاق محض ایک تہائی طلاق ہوتی ہے، اور تین طلاقیں مل کر ایک مکمل طلاق بنتی ہے۔ اسی غلط خیال کی وجہ سے زیادہ تر لوگ ایک ہی بار میں تین طلاقیں دے دیتے ہیں۔ اس تصور کو صحیح کرنے کی ضرورت ہے، کہ ایک طلاق ایک تہائی طلاق نہیں بلکہ ایک مکمل طلاق ہوتی ہے۔
جو علماء اور اہل دانش ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین طلاقیں مانتے ہیں، ان کی ذمہ داری زیادہ بنتی ہے کہ وہ عوام کو آگاہ کریں کہ تین طلاق دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، ایک طلاق بھی ایک مکمل طلاق ہوتی ہے۔
کئی سال پہلے دہلی میں محترم مولانا فاروق خاں صاحب نے ایک واقعہ سنایا تھا، اسے نقل کرنے سسے پہلے میں نے مولانا محترم سے دوبارہ تصدیق حاصل کی، وہ یہ کہ ایک صاحب نے اپنی بیوی کو طلاق دینے کا فیصلہ کیا، اس موقعہ پر وہ مولانا کو اپنے گھر لے گئے، وہیں ایک وکیل صاحب بھی طلاق نامہ تیار لے کر تشریف رکھتے تھے، دستخط ہونے سے پہلے مولانا نے طلاق نامہ دیکھا، تو اس میں لکھا تھا کہ میں اپنی بیوی کو تین طلاق دیتا ہوں، مولانا نے کہا تین کا لفظ کاٹ دو، وکیل صاحب اس پر راضی نہیں تھے، ان کا کہنا تھا کہ یہ معیاری اور اسٹینڈرڈ طلاق نامہ ہے، جو وکلاء کے درمیان رائج ہے، اور جب تک تین طلاق نہیں دی جائے گی، طلاق کا مقصد ہی پورا نہیں ہوگا، یعنی مکمل طور پر علیحدگی نہیں ہوگی۔ مولانا نے سمجھایا کہ اگر ایک طلاق دینے کے بعد عدت میں رجوع نہیں کیا جائے، تو بھی مکمل علیحدگی ہوجاتی ہے۔ بہرحال مولانا کے اصرار پر تین کا لفظ کاٹ دیا گیا، اور طلاق نامے پر شوہر اور گواہوں نے دستخط کردئے۔ سال بھر کے بعد وہ صاحب پھر مولانا کے پاس آئے، اور کہا کہ ہم دونوں کو اپنی علیحدگی پر ندامت ہے، اور اب ہم اپنا رشتہ بحال کرنا چاہتے ہیں، مولانا نے کہا اس دن طلاق نامے سے تین کا لفظ میں نے اسی لئے نکلوایا تھا۔ اب اگر آپ دونوں راضی ہیں، تو نیا نکاح کرکے ایک نئی ازدواجی زندگی کا آغاز کرسکتے ہیں، کیونکہ آپ نے اپنی بیوی کو ایک ہی طلاق دی تھی۔
کتنے ہی لوگ ہیں، جو اس اہم بات سے بے خبر ہیں، اور تین طلاقیں دے کر پریشان گھومتے ہیں۔ اہل علم انہیں طلاق دینے کا صحیح طریقہ نہیں بتاتے، اور تین طلاقوں کے جال میں پھنس جانے کے بعد بے ضمیر جاہل لوگ انہیں حلالہ جیسے مذموم راستے سجھاتے ہیں۔
طلاق دینے کا صحیح طریقہ ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ اصلاح اور مصالحت کی تمام کوششیں کرلینے کے بعد ایک اور صرف ایک طلاق دی جائے۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ بلا سبب طلاق نہیں ہوتی ہے، اور طلاق کی عدت گزر جانے پر مکمل طور سے عیلحدہ ہوجانے کے بعد بھی واپسی کا راستہ بند نہیں ہوتا ہے، مستقبل میں کبھی بھی اگر دونوں چاہیں تو نکاح کے بندھن سے دوبارہ جڑ سکتے ہیں۔ حقیقت میں یہی طلاق احسن ہے۔ اگر مسلمان احسن طلاق کا راستہ اختیار نہیں کریں گے، تو تین طلاقوں اور حلالے کے حوالے سے شریعت پر کیچڑ اچھالنے اور اسلام کو بدنام کرنے کا سلسلہ جاری رہے گا۔
یاد رہے کہ طلاق کا ایک حسن اس کے احسن طریقے میں ہے، یعنی اصلاح ومصالحت کی کوششوں کے بعد ایک طلاق دینے میں، تاہم اس کا ایک حسن طلاق شدہ عورت کو احسن طریقے سے رخصت کرنے میں بھی ہے، اگر طلاق دینے کے بعد عورت کو بے ڈھنگے طریقے سے رخصت کیا جائے تو طلاق احسن کا حسن بھی غارت ہوجاتا ہے۔ بہترین طریقے سے رخصت کرنے کے لئے قرآن مجید نے تسریح باحسان کے الفاظ استعمال کئے ہیں، یہ الفاظ بہت معنی خیز ہیں، ان کا تقاضا ہے کہ شوہر بیوی کو طلاق دیتے وقت فیاضی، سخاوت اور حسن سلوک کا بہترین نمونہ پیش کرے، وہ اس کے لئے اتنے انتظامات کردینا چاہے کہ بیچارگی اور بے سروسامانی کا اسے احساس نہ ہو، اور وہ طلاق کا صدمہ آسانی سے برداشت کرسکے۔ طلاق دے کر رخصت کرتے ہوئے کیا کیا دینا چاہئے؟ اس کا جواب فقہ اور قانون کی کتابوں میں تلاش کرنے کے بجائے تقوی اور احسان کے تقاضوں میں تلاش کرنا چاہئے۔ جس کا اپنے رب کی رازقیت پر جتنا زیادہ بھروسہ ہوگا اور جو اپنے رب کی رضا کا جتنا زیادہ طلب گار ہوگا، وہ اس میدان میں اتنا ہی آگے بڑھے گا۔ اور جو زیادہ آگے بڑھے گا رب کریم اس کے رزق میں کشادگی پیدا کرے گا، اور اس کے مراتب بلند کرے گا، یہ رب کریم کا وعدہ ہے۔
شادی کرتے وقت آدمی اپنے دل کے جذبات کا اظہار کرتا ہے، لیکن طلاق دیتے وقت آدمی کو اپنے ظرف اور اخلاق کا اظہار کرنا ہوتا ہے، جو اس طرح کے مواقع پر فیاض اور با اخلاق ںظر آتا ہے، وہی حقیقت میں فیاض اور با اخلاق ہوتا ہے۔
اس دنیا میں بخیلوں، کمینوں اور کم ظرفوں کے انبوہ میں بڑا دل اور اعلی ظرف رکھنے والے خال خال ہی نظر آتے ہیں، انسانیت انہی پر فخر کرتی ہے، اور دنیا ان کے ہونے سے خوب صورت نظر آتی ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں