عبادت وخدمت
تصنیف: مولانا مجیب اللہ ندوی
تصنیف: مولانا مجیب اللہ ندوی
تاثرات: محی الدین غازی
مولانا مجیب اللہ ندوی رحمۃ اللہ علیہ کا شمار اس دور کے حرکت پسند علماء میں ہوتا ہے، وہ خانقاہ کے نہیں بلکہ میدان کے عالم تھے، وہ محض کتابوں کے ابواب وفصول میں گم رہنے والے نہیں تھے، بلکہ کتابی بحثوں سے وسیع واقفیت کے ساتھ ساتھ معاشرے کے مسائل پر بھی گہرائی سے سوچا کرتے تھے۔ ان کے تحریکی مزاج کا بخوبی اندازہ ان کی کتاب ’’عبادت وخدمت‘‘ کے مطالعہ سے ہوتا ہے۔
کتاب کا نام عبادت وخدمت ہے، لیکن اس کا اصل موضوع خدمت ہے۔ انسانوں کے سامنے دین کی صحیح ترجمانی کے لئے خدمت کے رویے کو اپنانے اور خدمت کے تصور کو سامنے لانے کی کتنی زیادہ اہمیت ہے، اس کا مولانا کو گہرا ادراک تھا۔ لکھتے ہیں:
’’اس خدا بیزار دور میں اورمادہ پرستی کے مارے ہوئے موجودہ دنیا کے انسانوں کو اگر کوئی چیز ایمان ویقین، دین واخلاق اور روحانیت کی طرف مائل کرسکتی ہے تو وہ ہمارا اخلاق وکردار اور عام انسانوں کی بھلائی وہمدردی اور خدمت اور ان سے محبت ہی ہے‘‘
عبادت اور خدمت کے درمیان موازنہ ایک مشکل اور نازک کام ہے، مولانا نے یہ موازنہ کافی احتیاط مگر بڑی جرأت کے ساتھ کیا ہے، لکھتے ہیں:
’’عبادت کا اہتمام، ذکرواذکار کی کثرت سراپا اجرو ثواب کے کام ہیں اور ان سے انفرادی طور پر قلب میں جلا اور روشنی پیدا ہوتی ہے اور خداوند تعالی کی خوشنودی بھی حاصل ہوتی ہے مگر خدمت کے ذریعہ اجروثواب اور خدا کی خوشنودی کے ساتھ پاس پڑوس، ماحول اور پوری سوسائٹی کو اسلام کی اور مسلمانوں کی افادیت بھی محسوس ہوتی ہے‘‘
’’عبادت کی کثرت سے لوگوں کے دلوں میں ایک احترام کا جذبہ ضرور پیدا ہوجاتا ہے لیکن اس سے الفت ومحبت کے جذبات نہیں پیدا ہوتے، اس کے برخلاف انسانوں کی بھلائی ہمدردی اور خدمت کرنے والوں کے لئے احترام کے ساتھ محبت والفت کے جذبات بھی پیدا ہوتے ہیں‘‘
دین میں خدمت کے مقام کو بتاتے ہوئے مولانا بڑی جرأت کے ساتھ یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ اگر حالات کا تقاضا ہو تو خدمت کے لئے عبادت کو مؤخر کرنا مطلوب ہوجاتا ہے، مولانا لکھتے ہیں:
’’بسا اوقات خدمت خلق کے لئے نماز روزہ جیسی عبادت مؤخر کرنی پڑتی ہے۔ اگر مؤخر کرکے یہ خدمات انجام نہ دی جائیں تو نماز پڑھ کر بھی آدمی گناہ گار ہوتا ہے۔ ایک شخص نماز میں ہو اور اسے یہ یقین ہوجائے کہ نماز ختم کرنے تک ایک اندھا آدمی کنویں میں گرجائے گا تو نماز توڑ کر اندھے کو بچانا چاہئے، ایک آدمی پیاس سے تڑپ رہا ہے اور دوسرا آدمی ذکر وتسبیح میں مشغول ہے تو اسے ذکروتسبیح چھوڑ کر اس کی پیاس بجھانی چاہئے، ایک پڑوسی فاقہ کرکے سورہا ہے اور ہم اپنے گھر میں رات بھر تہجد میں مشغول ہوں تو اس تہجد سے افضل اس کی خبر گیری ہے، ایک مہمان کی خاطر نفل روزہ چھوڑ کر اس کے ساتھ کھانا پینا زیادہ افضل ہے‘‘
مولانا نے خدمت کے حوالے سے مسلمانوں کے عوام وخواص کی حالت کا تجزیہ بھی کیا ہے، اس تجزیہ میں بے پناہ جرأت وبیباکی نظر آتی ہے، تجزیہ کے کسی پہلو سے کسی کو اختلاف ہوسکتا ہے، لیکن اس تجزیہ کے پیچھے انسانیت کا درد اور دین وملت کے لئے خیرخواہی کا جو جذبہ ہے، اور اسلام کی صحیح ترجمانی کی جو شدید خواہش ہے اسے صاف محسوس کیا جاسکتا ہے۔
مولانا کا خیال ہے کہ مسلم حکمرانوں نے اپنے طویل دور حکومت میں اس ملک کے عوام کے دلوں پر خدمت کے حوالے سے گہرے نقوش نہیں چھوڑے، اس سلسلے میں وہ انگریزوں کے دور حکومت سے موازنہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اس ملک پر مسلمانوں نے بھی حکومت کی اور انگریزوں نے بھی۔ ہماری حکومت کو گئے ہوئے دو ڈیڑھ سو برس گزر گئے مگر ہماری طرف سے ملک کی ایک بڑی آبادی کے دل کے اندر سے عناد اور انتقام کے جذبات اب تک نہیں نکلے ہیں۔ مگر عیسائیوں کی حکومت گئے ہوئے ابھی تیس بتیس برس ہوئے ہیں مگر ان کی طرف سے وہ کدورت دلوں میں نہیں جو ہماری طرف سے بھری ہوئی ہے۔ دوسرے وجوہ کے ساتھ اس کی بہت بڑی وجہ راقم الحروف کے نزدیک یہ بھی ہے کہ ہم نے اس ملک میں اپنی سیاسی برتری کی جتنی طویل تاریخ اور تہذیب وتمدن کے جتنے نقش ونگار چھوڑے ہیں عام انسانوں کی ہمدردی محبت وخدمت کی اتنی وسیع تاریخ نہیں چھوڑی ہے۔ اس لئے ہماری افادیت کا پہلو عام آدمیوں کی نظروں کے سامنے پورے طور پر نہیں آسکا۔ برخلاف عیسائیوں کے انہوں نے سیاسی تغلب کے ساتھ پوری ملک میں انسانی ہمدردی اور خدمت خلق کی ایک زندہ تاریخ چھوڑی ہے اس لئے ان کی خدمت کو ہر شخص آج ہر بڑی آبادی میں اسپتال، اسکول یا دوسرے رفاہی اداروں کی شکل میں دیکھ سکتا ہے اور ان کی افادیت ہر شخص کی آنکھوں کو نظر آسکتی ہے۔ انہوں نے ان کاموں کے ذریعہ یہاں کی آبادی کا جتنا دل جیتا ہم اتنا نہ جیت سکے‘‘
مولانا کو اس کا بھی شدت سے احساس ہے، اور وہ اس کا جرأت کے ساتھ اظہار بھی کرتے ہیں کہ مسلمانوں کا عام ذہن خدمت کو دینداری نہیں سمجھتا ہے، دینداری کا ناقص مفہوم ذہنوں پر مسلط ہوجانے کی وجہ سے مسلمانوں کا عملی رویہ لوگوں کے لئے بے کشش ہوکر رہ گیا ہے، مولانا لکھتے ہیں:
’اگر پوری شریعت پر عمل کرنا عمل صالح ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ جب ہم دین یا دیندار کا نام لیتے ہیں تو ہمارا ذہن نماز روزہ اور حج کے ادا کرنے والے ہی کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ زکوۃ بھی خالص عبادت ہے مگر اس کی طرف بھی ہمارا ذہن عبادت کی حیثیت سے کم ہی منتقل ہوتا ہے اور بندگان خدا کی خدمت اور ان کے حق کی ادائیگی کے بارے میں تو ہمارا ذہن منتقل ہی نہیں ہوتا کہ یہ بھی عمل صالح یا عبادت ہے۔ ایک شخص کی کمائی حرام ہے مگر وہ نماز روزہ اور نفل اور ذکرواذکار کا بڑا اہتمام کرتا ہے اسے ہم دیندار سمجھتے ہیں مگر ایک شخص فرض اور سنت ادا کرکے لوگوں کی خدمت میں لگا رہتا ہے تو اسے ہم دیندار نہیں سمجھتے۔ ایک شخص کو ہم نماز سکھادیں تو دین کا کام سمجھتے ہیں اور ایک دوسرا شخص کسی کو روزگار سے لگانے کی جدوجہد کرتا ہے تو ہم اسے دین کا نہیں بلکہ دنیا کا کام سمجھتے ہیں۔ پہلا کام بے شک دین کا ہے مگر دوسرا کام بھی دین کا چھوٹا کام نہیں ہے، اسی روزگار نہ ہونے کی وجہ سے آدمی نہ جانے کتنی دینی اور اخلاقی کمزوریوں میں مبتلا ہوجاتا ہے‘‘۔
یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ علماء دین امت کے حالات پر تو بے لاگ لپیٹ تبصرہ کرتے ہیں مگر خود اپنے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کافی تحفظات کو ملحوظ رکھتے ہیں، لیکن مولانا نے خدمت کے مزاج کے حوالے سے طبقہ علماء کے حالات پر بھی پوری دیانت داری اور جرأت کے ساتھ بغیر کسی تحفظ کے تبصرہ کیا ہے، لکھتے ہیں:
’’راقم الحروف بھی مولوی طبقہ کا آدمی ہے اس لئے عرض کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ ہر مدرسہ بلکہ ہر مدرسہ کے جتنے اساتذہ ہیں ان سب کی الگ الگ ایک ریاست قائم ہوتی ہے جس میں ایک چھوٹی سی ریاست کے لوازمات اور خدم وحشم سب موجود ہوتے ہیں۔۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ طلبا جب ان مدارس سے فارغ ہوکر نکلتے ہیں تو ان کی اکثریت چونکہ مدرسہ یا مسجد کے کام میں لگتی ہے، اور وہ جہاں جاتے ہیں وہاں خادم سے زیادہ مخدوم بننے کے مواقع ہوتے ہیں۔ اس لئے وہ خادم بننے سے زیادہ مخدوم بننے کی کوشش کرتے ہیں جس سے ان کا جسم جسمانی اور مادی اعتبار سے تو ان کے لئے ضرور مفید ہوتا ہے مگر دوسروں کو اس سے بہت کم فائدہ پہنچتا ہے اس لئے طلبہ کے اندر ذاتی اور انفرادی خدمت کے بجائے ادارہ کی یا ملت کی اجتماعی خدمت کا جذبہ ابھارنا چاہئے‘‘
مولانا اسے کافی نہیں سمجھتے کہ خدمت خلق کا کام صرف ناگہانی حالات میں کیا جائے، وہ اسے ایک مستقل رویہ اور مزاج کی صورت میں دیکھنا چاہتے ہیں، لکھتے ہیں:
’’سیلاب طوفان یا کسی فساد اور جھگڑے کے مواقع پر ہم جو خدمات انجام دیتے ہیں وہ انتہائی قابل قدر ہیں مگر ضرورت یہ ہے کہ دوسروں کی خدمت کرنا ہمارا مزاج بن جائے، ہم کو خدمت کی دشواریوں میں لذت محسوس ہونے لگے۔ اسے ہم اپنی زندگی کا جز بنالیں، اسے ایک دن کا نہیں بلکہ پوری زندگی کا کام سمجھنے لگیں‘‘
مولانا نے خدمت خلق کے موضوع پر قرآن وحدیث کے حوالوں کے ساتھ وعظ وتلقین کا دل نشین اسلوب بھی اختیار کیا ہے، اور بے لاگ تجزیہ وتبصرہ کرکے انسانی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش بھی کی ہے، چونکہ مولانا عملی میدان کے آدمی تھے، اس لئے خدمت کے تعلق سے عملی خاکہ بھی پیش کیا ہے، خدمت خلق کا یہ خاکہ متعدد تجویزوں پر مشتمل ہے، اور واقعہ یہ ہے کہ ہر تجویز بہت مفید اور سماج میں تبدیلی لانے والی ہے، ذیل میں تین تجویزوں کو بطور مثال پیش کیا جاتا ہے:
’’اپنے مکان وصحن کے ساتھ محلہ کی گلیوں اور نالیوں کی صفائی کی بھی کوشش کیجئے اور لوگوں کو اس کی ترغیب دیجئے کہ گھر کا کوڑا کرکٹ ایک جگہ پھینکیں۔ اسے ادھر ادھر نہ پھیلائیں‘‘۔
’’اگر آپ تاجر ہیں تو کسی غریب یا بے روزگار کو کاروبار سے لگانے کی کوشش کیجئے اگر آپ کوئی صنعت یا حرفت جانتے ہیں تو کچھ غریب بچوں کو اپنے ہنر سکھادیجئے اگر آپ ٹیچر ہیں تو کچھ غریب اور ذہین طلبہ کو خارج اوقات میں مفت پڑھادیجئے۔ اگر آپ ڈاکٹر ہیں تو کچھ غریب مریضوں کا مفت علاج کردیجئے‘‘
’’آپ اپنے بچوں اور طالبعلموں اور شاگردوں سے ذاتی خدمت کم اور اجتماعی خدمت زیادہ لیجئے‘‘
آخری تجویز تمام بڑوں، سرپرستوں اور مربیوں کے لئے نصیحت کا بڑا سامان رکھتی ہے۔
کتاب کا نام عبادت وخدمت ہے، لیکن اس کا اصل موضوع خدمت ہے۔ انسانوں کے سامنے دین کی صحیح ترجمانی کے لئے خدمت کے رویے کو اپنانے اور خدمت کے تصور کو سامنے لانے کی کتنی زیادہ اہمیت ہے، اس کا مولانا کو گہرا ادراک تھا۔ لکھتے ہیں:
’’اس خدا بیزار دور میں اورمادہ پرستی کے مارے ہوئے موجودہ دنیا کے انسانوں کو اگر کوئی چیز ایمان ویقین، دین واخلاق اور روحانیت کی طرف مائل کرسکتی ہے تو وہ ہمارا اخلاق وکردار اور عام انسانوں کی بھلائی وہمدردی اور خدمت اور ان سے محبت ہی ہے‘‘
عبادت اور خدمت کے درمیان موازنہ ایک مشکل اور نازک کام ہے، مولانا نے یہ موازنہ کافی احتیاط مگر بڑی جرأت کے ساتھ کیا ہے، لکھتے ہیں:
’’عبادت کا اہتمام، ذکرواذکار کی کثرت سراپا اجرو ثواب کے کام ہیں اور ان سے انفرادی طور پر قلب میں جلا اور روشنی پیدا ہوتی ہے اور خداوند تعالی کی خوشنودی بھی حاصل ہوتی ہے مگر خدمت کے ذریعہ اجروثواب اور خدا کی خوشنودی کے ساتھ پاس پڑوس، ماحول اور پوری سوسائٹی کو اسلام کی اور مسلمانوں کی افادیت بھی محسوس ہوتی ہے‘‘
’’عبادت کی کثرت سے لوگوں کے دلوں میں ایک احترام کا جذبہ ضرور پیدا ہوجاتا ہے لیکن اس سے الفت ومحبت کے جذبات نہیں پیدا ہوتے، اس کے برخلاف انسانوں کی بھلائی ہمدردی اور خدمت کرنے والوں کے لئے احترام کے ساتھ محبت والفت کے جذبات بھی پیدا ہوتے ہیں‘‘
دین میں خدمت کے مقام کو بتاتے ہوئے مولانا بڑی جرأت کے ساتھ یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ اگر حالات کا تقاضا ہو تو خدمت کے لئے عبادت کو مؤخر کرنا مطلوب ہوجاتا ہے، مولانا لکھتے ہیں:
’’بسا اوقات خدمت خلق کے لئے نماز روزہ جیسی عبادت مؤخر کرنی پڑتی ہے۔ اگر مؤخر کرکے یہ خدمات انجام نہ دی جائیں تو نماز پڑھ کر بھی آدمی گناہ گار ہوتا ہے۔ ایک شخص نماز میں ہو اور اسے یہ یقین ہوجائے کہ نماز ختم کرنے تک ایک اندھا آدمی کنویں میں گرجائے گا تو نماز توڑ کر اندھے کو بچانا چاہئے، ایک آدمی پیاس سے تڑپ رہا ہے اور دوسرا آدمی ذکر وتسبیح میں مشغول ہے تو اسے ذکروتسبیح چھوڑ کر اس کی پیاس بجھانی چاہئے، ایک پڑوسی فاقہ کرکے سورہا ہے اور ہم اپنے گھر میں رات بھر تہجد میں مشغول ہوں تو اس تہجد سے افضل اس کی خبر گیری ہے، ایک مہمان کی خاطر نفل روزہ چھوڑ کر اس کے ساتھ کھانا پینا زیادہ افضل ہے‘‘
مولانا نے خدمت کے حوالے سے مسلمانوں کے عوام وخواص کی حالت کا تجزیہ بھی کیا ہے، اس تجزیہ میں بے پناہ جرأت وبیباکی نظر آتی ہے، تجزیہ کے کسی پہلو سے کسی کو اختلاف ہوسکتا ہے، لیکن اس تجزیہ کے پیچھے انسانیت کا درد اور دین وملت کے لئے خیرخواہی کا جو جذبہ ہے، اور اسلام کی صحیح ترجمانی کی جو شدید خواہش ہے اسے صاف محسوس کیا جاسکتا ہے۔
مولانا کا خیال ہے کہ مسلم حکمرانوں نے اپنے طویل دور حکومت میں اس ملک کے عوام کے دلوں پر خدمت کے حوالے سے گہرے نقوش نہیں چھوڑے، اس سلسلے میں وہ انگریزوں کے دور حکومت سے موازنہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اس ملک پر مسلمانوں نے بھی حکومت کی اور انگریزوں نے بھی۔ ہماری حکومت کو گئے ہوئے دو ڈیڑھ سو برس گزر گئے مگر ہماری طرف سے ملک کی ایک بڑی آبادی کے دل کے اندر سے عناد اور انتقام کے جذبات اب تک نہیں نکلے ہیں۔ مگر عیسائیوں کی حکومت گئے ہوئے ابھی تیس بتیس برس ہوئے ہیں مگر ان کی طرف سے وہ کدورت دلوں میں نہیں جو ہماری طرف سے بھری ہوئی ہے۔ دوسرے وجوہ کے ساتھ اس کی بہت بڑی وجہ راقم الحروف کے نزدیک یہ بھی ہے کہ ہم نے اس ملک میں اپنی سیاسی برتری کی جتنی طویل تاریخ اور تہذیب وتمدن کے جتنے نقش ونگار چھوڑے ہیں عام انسانوں کی ہمدردی محبت وخدمت کی اتنی وسیع تاریخ نہیں چھوڑی ہے۔ اس لئے ہماری افادیت کا پہلو عام آدمیوں کی نظروں کے سامنے پورے طور پر نہیں آسکا۔ برخلاف عیسائیوں کے انہوں نے سیاسی تغلب کے ساتھ پوری ملک میں انسانی ہمدردی اور خدمت خلق کی ایک زندہ تاریخ چھوڑی ہے اس لئے ان کی خدمت کو ہر شخص آج ہر بڑی آبادی میں اسپتال، اسکول یا دوسرے رفاہی اداروں کی شکل میں دیکھ سکتا ہے اور ان کی افادیت ہر شخص کی آنکھوں کو نظر آسکتی ہے۔ انہوں نے ان کاموں کے ذریعہ یہاں کی آبادی کا جتنا دل جیتا ہم اتنا نہ جیت سکے‘‘
مولانا کو اس کا بھی شدت سے احساس ہے، اور وہ اس کا جرأت کے ساتھ اظہار بھی کرتے ہیں کہ مسلمانوں کا عام ذہن خدمت کو دینداری نہیں سمجھتا ہے، دینداری کا ناقص مفہوم ذہنوں پر مسلط ہوجانے کی وجہ سے مسلمانوں کا عملی رویہ لوگوں کے لئے بے کشش ہوکر رہ گیا ہے، مولانا لکھتے ہیں:
’اگر پوری شریعت پر عمل کرنا عمل صالح ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ جب ہم دین یا دیندار کا نام لیتے ہیں تو ہمارا ذہن نماز روزہ اور حج کے ادا کرنے والے ہی کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ زکوۃ بھی خالص عبادت ہے مگر اس کی طرف بھی ہمارا ذہن عبادت کی حیثیت سے کم ہی منتقل ہوتا ہے اور بندگان خدا کی خدمت اور ان کے حق کی ادائیگی کے بارے میں تو ہمارا ذہن منتقل ہی نہیں ہوتا کہ یہ بھی عمل صالح یا عبادت ہے۔ ایک شخص کی کمائی حرام ہے مگر وہ نماز روزہ اور نفل اور ذکرواذکار کا بڑا اہتمام کرتا ہے اسے ہم دیندار سمجھتے ہیں مگر ایک شخص فرض اور سنت ادا کرکے لوگوں کی خدمت میں لگا رہتا ہے تو اسے ہم دیندار نہیں سمجھتے۔ ایک شخص کو ہم نماز سکھادیں تو دین کا کام سمجھتے ہیں اور ایک دوسرا شخص کسی کو روزگار سے لگانے کی جدوجہد کرتا ہے تو ہم اسے دین کا نہیں بلکہ دنیا کا کام سمجھتے ہیں۔ پہلا کام بے شک دین کا ہے مگر دوسرا کام بھی دین کا چھوٹا کام نہیں ہے، اسی روزگار نہ ہونے کی وجہ سے آدمی نہ جانے کتنی دینی اور اخلاقی کمزوریوں میں مبتلا ہوجاتا ہے‘‘۔
یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ علماء دین امت کے حالات پر تو بے لاگ لپیٹ تبصرہ کرتے ہیں مگر خود اپنے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کافی تحفظات کو ملحوظ رکھتے ہیں، لیکن مولانا نے خدمت کے مزاج کے حوالے سے طبقہ علماء کے حالات پر بھی پوری دیانت داری اور جرأت کے ساتھ بغیر کسی تحفظ کے تبصرہ کیا ہے، لکھتے ہیں:
’’راقم الحروف بھی مولوی طبقہ کا آدمی ہے اس لئے عرض کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ ہر مدرسہ بلکہ ہر مدرسہ کے جتنے اساتذہ ہیں ان سب کی الگ الگ ایک ریاست قائم ہوتی ہے جس میں ایک چھوٹی سی ریاست کے لوازمات اور خدم وحشم سب موجود ہوتے ہیں۔۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ طلبا جب ان مدارس سے فارغ ہوکر نکلتے ہیں تو ان کی اکثریت چونکہ مدرسہ یا مسجد کے کام میں لگتی ہے، اور وہ جہاں جاتے ہیں وہاں خادم سے زیادہ مخدوم بننے کے مواقع ہوتے ہیں۔ اس لئے وہ خادم بننے سے زیادہ مخدوم بننے کی کوشش کرتے ہیں جس سے ان کا جسم جسمانی اور مادی اعتبار سے تو ان کے لئے ضرور مفید ہوتا ہے مگر دوسروں کو اس سے بہت کم فائدہ پہنچتا ہے اس لئے طلبہ کے اندر ذاتی اور انفرادی خدمت کے بجائے ادارہ کی یا ملت کی اجتماعی خدمت کا جذبہ ابھارنا چاہئے‘‘
مولانا اسے کافی نہیں سمجھتے کہ خدمت خلق کا کام صرف ناگہانی حالات میں کیا جائے، وہ اسے ایک مستقل رویہ اور مزاج کی صورت میں دیکھنا چاہتے ہیں، لکھتے ہیں:
’’سیلاب طوفان یا کسی فساد اور جھگڑے کے مواقع پر ہم جو خدمات انجام دیتے ہیں وہ انتہائی قابل قدر ہیں مگر ضرورت یہ ہے کہ دوسروں کی خدمت کرنا ہمارا مزاج بن جائے، ہم کو خدمت کی دشواریوں میں لذت محسوس ہونے لگے۔ اسے ہم اپنی زندگی کا جز بنالیں، اسے ایک دن کا نہیں بلکہ پوری زندگی کا کام سمجھنے لگیں‘‘
مولانا نے خدمت خلق کے موضوع پر قرآن وحدیث کے حوالوں کے ساتھ وعظ وتلقین کا دل نشین اسلوب بھی اختیار کیا ہے، اور بے لاگ تجزیہ وتبصرہ کرکے انسانی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش بھی کی ہے، چونکہ مولانا عملی میدان کے آدمی تھے، اس لئے خدمت کے تعلق سے عملی خاکہ بھی پیش کیا ہے، خدمت خلق کا یہ خاکہ متعدد تجویزوں پر مشتمل ہے، اور واقعہ یہ ہے کہ ہر تجویز بہت مفید اور سماج میں تبدیلی لانے والی ہے، ذیل میں تین تجویزوں کو بطور مثال پیش کیا جاتا ہے:
’’اپنے مکان وصحن کے ساتھ محلہ کی گلیوں اور نالیوں کی صفائی کی بھی کوشش کیجئے اور لوگوں کو اس کی ترغیب دیجئے کہ گھر کا کوڑا کرکٹ ایک جگہ پھینکیں۔ اسے ادھر ادھر نہ پھیلائیں‘‘۔
’’اگر آپ تاجر ہیں تو کسی غریب یا بے روزگار کو کاروبار سے لگانے کی کوشش کیجئے اگر آپ کوئی صنعت یا حرفت جانتے ہیں تو کچھ غریب بچوں کو اپنے ہنر سکھادیجئے اگر آپ ٹیچر ہیں تو کچھ غریب اور ذہین طلبہ کو خارج اوقات میں مفت پڑھادیجئے۔ اگر آپ ڈاکٹر ہیں تو کچھ غریب مریضوں کا مفت علاج کردیجئے‘‘
’’آپ اپنے بچوں اور طالبعلموں اور شاگردوں سے ذاتی خدمت کم اور اجتماعی خدمت زیادہ لیجئے‘‘
آخری تجویز تمام بڑوں، سرپرستوں اور مربیوں کے لئے نصیحت کا بڑا سامان رکھتی ہے۔
ایک تبصرہ شائع کریں