خدمت کرنے کا مزا اور ہے

خدمت کرنے کا مزا اور ہے
محی الدین غازی
حسین اخلاق کی دل آویز تصویریں دیکھنے کے لئے سب سے اچھی اور بھرپور البم پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حسین وجمیل سیرت ہے۔ جب بھی اسے دیکھیں کوئی بہت دلکش تصویر سامنے آجاتی ہے، اور دیر تک نگاہوں کو ٹھنڈک اور دل کو کیف عطا کرتی ہے۔ اس خاک پائے رسول کو سیرت کے مطالعہ کا موقعہ گاہے گاہے ملتا رہا ہے، تاہم ابھی ابھی مطالعہ کے دوران ایک ایسی تصویر سامنے آئی کہ جیسے پہلی بار دیکھا ہو، اور پھر دیر تک دیکھتا رہا۔
پیارے صحابی انس بن مالک کو آپؐ کی خدمت کا بے پناہ شوق تھا، شوق تو تمام پیارے صحابہ کو تھا، اللہ ان سب سے راضی ہو، مگر حضرت انس کا شوق بہت بڑھا ہوا تھا، پورے دس سال تک سفر ہو یا حضر، آپؐ کے ساتھ سائے کی طرح لگے رہے، کہ آقا کی خدمت کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہ پائے۔ بہت پیارا تھا یہ شوق اور بڑی حسین تھی یہ دھن۔ اس شوق خدمت نے حضرت انس کی شخصیت کو بہت عظیم بنادیا تھا۔ مگر ذرا اور آگے بڑھ کر آقائے پاکؐ کی شخصیت کا جمال بھی دیکھیں، حضرت انس فرماتے ہیں کہ خدمت کے شوق سے سرشار میں دس سال تک سفر وحضر میں آپؐ کے ساتھ رہا، میری نگاہ ہر آن آپؐ کی خدمت کے موقعے تلاش کیا کرتی تھی، لیکن واقعہ یہ ہے کہ ’’میں نے آپؐ کی جتنی خدمت کی اس سے کہیں زیادہ خود آپؐ نے میری خدمت فرمائی‘‘۔ وكانتْ خِدْمته لي أكثر من خِدْمتي له۔ یہ جملہ میرے لئے بالکل نیا اور نرالا ہے۔
قربان جائیں اس پیکر جمیل پر۔ حسن اخلاق کی کیسی اونچی اونچی بلندیاں انسانوں کو دکھائیں۔ آپؐ سے پیارے صحابہ بہت محبت کرتے تھے، مگر آپؐ ان سے اور زیادہ محبت کرتے تھے۔ پیارے صحابہ آپؐ کی بہت خدمت کرنا چاہتے تھے، مگر آپؐ اور زیادہ ان کی خدمت فرما دیتے تھے۔ کیا ہی خوب ہو اگر خدمت کرنے کو عار سمجھنے والے خدمت کو رسولؐ کی سنت اور اپنی شخصیت کا زیور سمجھ لیں۔
خدمت کو جو لوگ ایک بوجھ سمجھتے ہیں، ان کی پوری زندگی ناگواری کے ساتھ یہ بوجھ اٹھانے، یا بوجھ اٹھانے سے بھاگنے میں گزرتی ہے، وہ آرام چاہتے ہیں، مگر ان کی روح کو آرام کے لمحے بہت کم میسر آتے ہیں۔ اور جو خدمت کو اپنا شوق بنالیتے ہیں، وہ سدا مگن رہتے ہیں، وہ کبھی تھکتے نہیں ہیں، کیونکہ شوق کا جذبہ تھکاوٹ کو قریب نہیں آنے دیتا ہے۔ ایسے لوگ جب تک خدمت کے کچھ کام نہ کرلیں ان کو اپنی زندگی میں کچھ کمی سی محسوس ہوتی ہے، خدمت کرکے وہ اپنی تکمیل کرتے ہیں۔
گھروں میں سب سے زیادہ اٹھنے والا سوال یہ ہوتا ہے کہ گھر کے کام کون کرے؟ گھروں کے بہت سے مسائل اسی ایک مسئلے سے پیدا ہوتے ہیں۔ اس سوال کا آسان اور سادہ سا جواب یہ ہے کہ جو لوگ گھر میں رہتے ہیں، وہ گھر کے کام کریں۔ لیکن بہت سے گھروں میں یہ سوال اتنی سادگی اور آسانی سے حل نہیں ہوپاتا ہے۔ گھر میں رہنے والے زندگی بھر یہ نہیں طے کرپاتے ہیں کہ گھر کے کام کون کرے؟ دراصل انسانوں کے حالات اور مزاجوں کا فرق بسا اوقات آسان سوالوں کو بھی مشکل بنادیتا ہے، کوئی بیمار ہوتا ہے تو کوئی کمزور ہوتا ہے، کوئی کاموں کا عادی نہیں ہوتا اور کوئی کام نہیں کرنے کی عادت سے مجبور ہوتا ہے۔
اصولی بات یہ ہے کہ جو لوگ گھر میں رہتے ہیں اور گھر کی نعمتوں اور آسائشوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں وہ گھر کے کام بھی اپنے ذمہ لیں چاہے وہ مرد ہوں یا عورتیں ہوں، لڑکے ہوں یا لڑکیاں ہوں۔ سسرال میں ہوں یا میکے میں، میزبان ہوں یا لمبے مہمان۔ گھر کی سکون بخش فضا میں سانس لیتے ہوئے، اور لذیذ کھانوں کے فرحت بخش دستر خوان پر بیٹھتے ہوئے ہر فرد یہ ضرور سوچے کہ اس نے گھر کے کتنے کام کئے۔
ہر میدان کی طرح گھریلو کاموں کے میدان میں بھی سب ایک جیسے نہیں ہوتے، کچھ خواتین مشکل کام آسانی سے کرلیتی ہیں، اور کچھ خواتین آسان کام مشکل سے کرپاتی ہیں، کچھ کا ہاتھ بہت تیز چلتا ہے، اور کچھ کے ہاتھوں میں غیر معمولی ہنر ہوتا ہے۔ خدمت کرنے کو اگر سنت رسولؐ مان کر اپنے شوق کا حصہ بنالیا جائے تو مجبوریوں اور معذوریوں کے درمیان سے بھی خدمت کے بہت سے راستے نکالے جا سکتے ہیں، جیسے گھر کے مشکل کام نہ کرپانے والی خاتون گھر کے بہت سے آسان کام کرسکتی ہے۔ جو کھڑے ہو کر چلنے پھرنے والے کام نہ کرسکے وہ بیٹھ کر کرنے والے بہت سے کام کرسکتی ہے، یا اگر ایک خاتون خود اپنے حصے کے سارے کام نہ کرسکے تو اپنے بچوں سے بہت سے کام کراسکتی ہے۔ گھر کے کام نہ کرپانے والی خاتون کام کرنے والی خواتین کے بچوں کی تعلیم وتربیت اپنے ذمہ لے سکتی ہے۔ اس طرح کام کرنے والیوں کی دلجوئی بھی ہوجاتی ہے، اور انسان خود بھی اپنے ضمیر کی ملامت سے بچ جاتا ہے۔
بعض گھروں میں کاموں کے تعلق سے کچھ عجیب وغریب تصورات پائے جاتے ہیں، جیسے یہ کہ گھر میں نندیں اور بھاوجیں دونوں ہوں تو کام بھاوجیں کریں اور آرام نندیں کریں، یہ بھی غلط ہے کہ سسرال صرف کام کی جگہ ہو اور میکہ صرف آرام کی جگہ سمجھا جائے، درست بات یہ ہے کہ دونوں جگہ کام اور آرام دونوں کے مواقع موجود رہیں۔ یہ بھی غلط تصور ہے کہ گھر کے سارے کام لڑکیاں کریں اور لڑکے کچھ نہ کریں، غرض ایسے سارے تصورات جو گھر کے کچھ لوگوں کو آرام کا حق دیں اور کچھ لوگوں پر کاموں کا بوجھ ڈالیں، آئین اخلاق اور سنت رسولؐ کی رو سے درست نہیں ہیں، کام نہ کرکے آرام کرنے کا حق صرف بیماروں اور ضعیفوں کو ہے، باقی سب کو کاموں میں برابر کا شریک ہونا چاہئے۔ یہاں تک کہ اچھا اور دل پسند مہمان بھی وہی ہوتا ہے جو میزبانی کے کاموں میں میزبان کا ہاتھ بٹائے۔
لوگوں سے خدمت لینے سے زیادہ لوگوں کی خدمت کرنا اتباع سنت ہے، باعث اجروثواب ہے، اور اسی میں زندگی کا اصل لطف ہے۔ بدنصیب ہیں وہ جو شوق والی چیزوں کو بھی بوجھ بنالیتے ہیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں