بورڈ اس غلطی کی اصلاح کرے
محی الدین غازی
مسلمانوں کے ذہنوں پر تین طلاقوں کا تصور بری طرح سوار ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ طلاق دینی ہے تو تین ہی دینی ہے، یا تو ایک ہی بار میں تین طلاق دے دیں یا پھر تین ماہ میں ایک ایک کرکے تین طلاق دیں۔ چنانچہ تین ماہ کے تکلف سے بچنے کے لئے وہ ایک ہی بار میں تینوں دے ڈالتے ہیں۔
تشویش ناک بات یہ ہے کہ بہت سے خطیبوں کو بھی طلاق کے مسائل غلط طریقے سے بیان کرتے دیکھا گیا ہے، ان کی گفتگو تین طلاق سے شروع ہوکر تین طلاق پر ختم ہوجاتی ہے، ایک طلاق کا ذکر ہی نہیں آتا ہے۔ اور آتا بھی ہے تو اس طرح کہ سامعین کو تین طلاقوں کا سبق ہی یاد رہ جاتا ہے۔
صورت حال اتنی شدت اختیار کرچکی ہے کہ بعض اکابر اہل علم کی زبان وقلم سے بھی اسی طرح کی گفتگو صادر ہوجاتی ہے، حال ہی میں میری نگاہ سے ایک کتاب گزری جس کے مصنف ہم سب کے لئے نہایت قابل احترام شخصیت ہیں، اور یہی احترام نام ذکر کرنے میں مانع بھی ہے۔ مذکورہ کتاب میں ایک مقام پر مسلمانوں کو طلاق کا صحیح طریقہ بتایا گیا، اور کیا بتایا گیا اس پر غور فرمائیں:
’’اگر کوئی ایسی صورت پیدا ہوچکی ہے کہ دونوں کا ساتھ رہنا ممکن نہیں ہے۔ تو شریعت نے یہ اختیار دیا ہے کہ سوچ سمجھ کر مرد ایک طلاق دیدے۔ پھر غور کرے۔ چاہے تو عورت کو ساتھ رکھ لے، نباہ کی کوئی شکل نہ ہو تو اگلے ماہ دوسری طلاق دے پھر سوچے اور ساتھ رکھ لے، اور اگر گنجائش کی کوئی شکل نظر نہ آئے تو اسے تیسری طلاق دے کر علیحدہ کردے۔ طلاق دینے کا یہ طریقہ شریعت نے بتایا ہے جس میں غور وفکر کی بڑی گنجائش اور غیض وغضب کے وقت فیصلہ سے روکا گیا ہے‘‘
ادب کے ساتھ عرض کرنا ہے کہ اس اقتباس میں طلاق کے سلسلے میں جو رہنمائی دی گئی ہے وہ ناقص ہے اور کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے۔ یہاں تک تو بات درست ہے کہ مرد سوچ سمجھ کر ایک طلاق دے، پھر غور کرے اور چاہے تو عورت کو ساتھ رکھ لے۔ لیکن یہ مشورہ محل نظر ہے کہ نباہ کی کوئی شکل نہیں ہو تو اگلے ماہ دوسری طلاق دے۔ اس کے بجائے بہتر مشورہ یہ ہے کہ نباہ کی کوئی شکل نہیں ہو تو اگلے ماہ ایک اور طلاق نہ دے اور پوری عدت گزرجانے دے۔ اس طرح ایک ہی طلاق سے مکمل علیحدگی بھی ہوجائے گی اور دوبارہ نکاح کرنے کی گنجائش بھی باقی رہے گی۔ اگر ہر ماہ ایک ایک طلاق دی تو تین ماہ میں تینوں طلاقیں واقع ہوجائیں گی، اور پھر علیحدگی کے بعد کبھی رشتے کی بحالی کا خیال آیا بھی تو کوئی راستہ سجھائی نہیں دے گا، بلکہ اس وقت تو شاید اہل حدیث مسلک سے بھی کچھ بات نہیں بن پائے گی۔
غرض مذکورہ اقتباس کا نقص یہ ہے کہ اس سے صرف تین طلاقوں کا تصور سامنے آتا ہے کہ طلاقیں تین ہی دینی ہیں، یعنی ایک بار میں تین طلاقیں نہیں دے کر تین ماہ میں تین طلاقیں دینی ہیں۔ یہ تصور درست نہیں ہے، آج مسلمانوں کو تین طلاقوں کا سبق پڑھانے کے بجائے ایک طلاق کا سبق پڑھانے کی ضرورت ہے، کہ نہ ایک مجلس میں تین دینی ہیں، نہ ایک عدت میں تین دینی ہیں، جب بھی دینی ہے تو ایک ہی دینی ہے۔ اب ایک ایک کرکے پوری زندگی میں ایسی تین ہوجائیں تو الگ بات ہے، اور ظاہر ہے کہ ایسا گنتی کے چند افراد کے ساتھ ہی ہوگا۔
واضح ہو کہ ایک مجلس کے بجائے ایک عدت یعنی پے در پے تین ماہ میں تین طلاقوں کی گنجائش حنفی فقہ میں تو موجود ہے، اور اس کی دوسرے درجے میں تحسین بھی کی گئی ہے، لیکن مالکی فقہ میں ایک عدت میں تین طلاقوں کو مکروہ بتایا گیا ہے، اور ایک عدت میں ایک طلاق ہی کو صحیح طریقہ قرار دیا گیا ہے، اور یہی درست اور معقول موقف معلوم ہوتا ہے۔ ایک مجلس کی تین طلاقوں اور ایک عدت کی تین طلاقوں کے مکروہ ہونے پر اختلاف ہوسکتا ہے لیکن ایک عدت میں ایک طلاق کے بہتر اور احسن ہونے پر تمام مسالک کے اہل علم کا اتفاق ہے، اسی طریقے میں بھلائی کے سارے پہلو ہیں، اور ہمیں بھی صرف اسی طریقے سے عوام کو آگاہ کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
میری اس توجہ دہانی سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ امت میں موجود اہل علم طلاق کے صحیح طریقے سے واقف نہیں ہیں، حقیقت یہ ہے کہ طلاق کے سلسلے میں صحیح اوربہتر تصور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ سے شائع شدہ کئی کتابچوں میں خوبی کے ساتھ واضح کیا گیا ہے، جیسے ’’طلاق کے استعمال کا طریقہ‘‘ از مولانا صغیر احمد رحمانی، ’’طلاق کیوں اور کیسے‘‘ از ڈاکٹر محمد فہیم اختر ندوی۔ ’’نکاح اور طلاق‘‘ از حضرت مولانا منت اللہ رحمانی رحمۃ اللہ علیہ۔ ان تینوں ہی کتابچوں میں طلاق کا طریقہ کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے:’’ بیوی کو صرف ایک طلاق دی جائے۔۔۔ایک طلاق دینے کے بعد عدت گزرنے دی جائے۔۔۔عدت گزر جانے کے بعد طلاق بائن پڑجائے گی یعنی بیوی نکاح سے نکل جائے گی اور اگر شوہر نے عدت کے اندر بیوی کو لوٹا لیا تو وہ پہلے کی طرح میاں بیوی رہیں گے، مگر اب مرد کو بیوی پر دو ہی طلاق کا حق باقی رہے گا۔۔۔اور اگر عدت کے اندر نہیں لوٹایا تو پھر عدت گزرنے کے بعد بھی دونوں اپنی خوشی سے دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں، نکاح بھی نیا ہوگا اور مہر بھی نیا۔‘‘
یاد رہے کہ یہاں مسئلہ صرف ایک کتاب کی غلط عبارت درست کرنے کا نہیں ہے، بلکہ ملک میں پھیلے ہوئے اس طرز سخن کو درست کرنے کا ہے جو ہمارے بہت سے خطیبوں نے طلاق کے سلسلے میں اختیار کیا ہوا ہے۔ غلط انداز سے کی جانے والی تقریروں سے عام لوگوں کا ذہن بھی یہ بن گیا ہے کہ طلاق تو تین ہی دینی ہے، ایک مجلس میں نہیں تو ایک عدت میں سہی۔ اب جب کہ مسلم پرسنل لا بورڈ اور ملک کے بہت سے درد مند اہل علم نے طے کیا ہے کہ مسلمانوں کو طلاق کے صحیح طریقے سے آگاہ کریں گے، تو انہیں یہ بھی سامنے رکھنا ہوگا کہ وہ اصل ٖغلطی کیا ہے جسے درست کرنا ہے۔
ایک مسلم ملک میں غلط طریقے سے طلاق دینے کا نقصان صرف ایک خاندان تک محدود رہتا ہے، لیکن ہندوستان جیسے کثیر المذاہب ملک میں جب غلط طریقے سے طلاق دی جاتی ہے، تو اس کا نقصان بہت بڑے پیمانے پر سامنے آتا ہے، اسلام دشمن طاقتوں کو مسلم پرسنل لا میں مداخلت کرنے کا موقعہ مل جاتا ہے، اسلام مخالف اہل قلم کو اسلام پر کیچڑ اچھالنے کی راہ نظر آجاتی ہے، دین وملت کے بہت سارے مفادات کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے، اور خاص طور سے دعوتی مشن کو شدید نقصان پہونچتا ہے۔ مسلمان طلاق کے صحیح طریقے سے واقف ہوں یہ اسلام سے محبت اور ملت کا درد رکھنے والے تمام مسلمانوں کی بہت بڑی ذمہ داری ہے۔
ایک تبصرہ شائع کریں