کمزوریوں کو باقی نہ رہنے دیں

کمزوریوں کو باقی نہ رہنے دیں
(تعلیمی اداروں کی خدمت میں)
 محی الدین غازی
عمر کے چالیس سال گزر جانے کے بعد، جبکہ پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی دس سال پرانی ہوچکی تھی، ایک کانفرنس میں قرآن کی تلاوت اور انگریزی ترجمہ پیش کرنے کی ذمہ داری تفویض ہوئی، اس موقعہ پر احساس ہوا کہ خوش الحانی کے ساتھ قرآن کی تلاوت کرنے اور عمدہ تلفظ کے ساتھ انگریزی عبارت پڑھنے کے بنیادی پہلو کمزور رہ گئے ہیں۔
کوئی برا نہ مانے، جب کبھی اسلامی افکار ونظریات پر ماہر سمجھے جانے والے اسکالر حضرات قرآن مجید کی آیتیں غلط پڑھتے ہیں، تو خیال ہوتا ہے کہ اگر یہ لوگ کسی معلم کی مدد سے ماہ دو ماہ میں قرآن صحیح پڑھنا سیکھ لیتے تو ایک بڑا عیب دور ہوجاتا، لیکن لگتا ہے کہ پیچھے پلٹ کر سیکھنا اور بار بار طالب علم بننا آسان کام نہیں ہے۔
تعلیم گاہ میں ہر مضمون اور زبان کے اپنے ابتدائی درجات ہوتے ہیں، ہونا تو یہ چاہئے کہ ہر طالب علم کو ابتدائی درجوں میں جو کچھ سیکھنا ہے وہ اچھی طرح سیکھ لے، اور اعلی درجات کی طرف پیش قدمی کرنے سے پہلے ہی ان کمیوں کو پورا کرلے، جن کے لئے ابتدائی تعلیم کا انتظام کیا جاتا ہے۔ لیکن عام طور سے ایسا نہیں ہو پاتا ہے، اور اونچے درجوں میں متعدد ایسے طلبہ بھی پہونچ جاتے ہیں، جو نہ درست عبارت پڑھ پاتے ہیں اور نہ صحیح الفاظ لکھ پاتے ہیں۔ اس کوتاہی کا پہلا ذمہ دار خود تعلیمی ادارہ ہوتا ہے۔
اس مضمون میں دراصل اس امر کی طرف متوجہ کرنا ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں باقی رہ جانے والی پرانی کمزوریوں کو دور کرنے کا مناسب انتظام نہیں ہوتا ہے، اگر طالب علم کی شخصیت میں کوئی پہلو ابتدائی درجات میں ناقص رہ جائے تو وہ آخر تک تشنہ تکمیل ہی رہتا ہے، سوائے اس کے کہ اپنی کمیوں کو وہ خود کسی طرح دور کرلے۔
ظاہر ہے اعلی درجات میں پہونچنے کے بعد جب سماجی، سیاسی اور معاشی افکار ونظریات پڑھنے پڑھانے کا وقت ہوتا ہے، کلاس کے اندر کسی کمزور طالب علم کا املا یا تلفظ درست کرانے پر توجہ نہیں دی جاسکتی ہے، خواہ اس سلسلے میں کسی طالب علم کے اندر کتنی ہی زیادہ کمی محسوس کی جارہی ہو، کیونکہ املا اور تلفظ سیکھنے کا کلاس کئی سال پیچھے چھوٹ چکا ہوتا ہے۔
طلبہ کی یہ بنیادی کمزوریاں اساتذہ سے پوشیدہ بھی نہیں ہوتی ہیں، کلاس میں گفتگو کرتے ہوئے تلفظ کی، اور امتحان کی کاپیاں چیک کرتے ہوئے املا کی، ایسی ایسی غلطیاں استاذ کے سامنے آتی ہیں، کہ وہ سر پیٹ لیتا ہے، تاہم استاذ کے پاس بھی آہ سرد بھرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا ہے۔ یہ حال دینی مدرسوں کا بھی ہے اور عصری اسکولوں کا بھی ہے۔
اس سلسلے میں ایک عملی تجویز یہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں وقفے وقفے سے مختلف کمزوریوں کو دور کرنے کے لئے سال بھر خصوصی کلاس چلائے جائیں، تمام طلبہ کا امتحان لیا جائے اور ایسے تمام طلبہ جن کے اندر کوئی بنیادی کمزوری رہ گئی ہو، اس خصوصی انتظام سے فائدہ اٹھائیں۔ اس میں کلاس اور عمر کی کوئی قید نہیں ہو، بلکہ ادارے کے تمام ضرورت مند طلبہ کے لئے اس کورس سے مستفید ہونا لازمی قرار دیا جائے۔
دراصل تعلیمی اداروں میں جو معمول کے امتحان ہوتے ہیں، ان کا تعلق کورس اور سیلیبس سے ہوتا ہے، عملا ان کا یہ مقصد ہوتا ہی نہیں ہے کہ طلبہ کی بنیادی کمزوریوں سے آگاہی ہو، اس لئے طلبہ اپنے مضامین میں پاس ہوتے رہتے ہیں، اور آخری درجے تک ان کی بنیادی کمزوریوں کا مسئلہ حاشئے میں پڑا رہتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ کچھ امتحانات خصوصی طور سے ان بنیادی کمزوریوں سے واقف ہونے کے لئے ہوں۔
اسی طرح فراغت سے پہلے بھی ایک بار طلبہ کو خصوصی امتحانات سے گزار کر ان میں رہ جانے والی بنیادی کمزوریوں کو معلوم کیا جائے اور خصوصی کلاسس کے ذریعہ ان کمزوریوں کو دور کرنے کے بعد ہی انہیں سند فراغت دی جائے۔ یہ کسی بھی تعلیمی ادارے کے لئے بدنامی کی بات ہوگی کہ سالہا سال کی تعلیم کے بعد بھی اس کے سند یافتہ طالب علم کے اندر بنیادی کمزوریاں باقی رہیں۔
تاہم اگر ادارے کی طرف سے اس کا انتظام نہیں ہو، اور ذمہ داران ایسی کسی ذمہ داری کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں، تو طالب علم کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے، کیونکہ کمزوری کا سبب کوئی بھی ہو، لیکن ہے تو وہ اس کی اپنی شخصیت کی کمزوری۔ ادارے کو الوداع کہنے کے بعد اسے خود اپنی ضرورتوں کی تکمیل کرنا ہے، غلط لکھنے، غلط پڑھنے، اور غلط بولنے پر اسے ہی تو رسوائی کا سامنا کرنا ہوگا، اس لئے وہ فیصلہ کرے کہ اسے خود ہی اپنی کمزوریوں سے واقف ہوکر انہیں دور کرنا ہوگا۔
شخصیت کی مختلف کمیوں کو دور کرنے کی سب سے مناسب جگہ اور وقت تعلیمی ادارہ اور طالب علمی کا زمانہ ہے۔ وہاں سیکھنے سکھانے کا ماحول ہوتا ہے، اساتذہ بھی میسر ہوتے ہیں، اور مختلف صلاحیتوں کے حامل طلبہ بھی ہوتے ہیں، ان کی مدد سے خود کو بہتر بنانے کا ہدف آسانی سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔
لیکن درس گاہ سے کمزوریوں کو ساتھ لے کر نکلنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ زندگی بھر ان کا ساتھ رہے، بلکہ جب جس کمزوری کا احساس ہوجائے، اسے دور کرنے کی فوری کوشش کرنا شخصیت کے ارتقاء کے لئے مطلوب ہے۔ یاد رہے اپنی کمزوریوں کو خود دور کرنے کا اصل وقت وہی ہے جب ان کے ہونے کا احساس ہوجائے۔

ایک تبصرہ شائع کریں