تکلیف اگر ایک بار تو احساس کیوں بار بار؟

تکلیف اگر ایک بار تو احساس کیوں بار بار؟
محی الدین غازی
پردیس میں رہنے والی بعض ہندوستانی خواتین کے بارے میں ایک دلچسپ بات معلوم ہوئی کہ انہیں شادی کے بعد ماہ دو ماہ یا سال دو سال سسرال میں رہنا پڑا، اس کے بعد وہ ملک کو الوداع کہہ کر پردیس آگئیں، اور گذشتہ پندرہ بیس سال سے ان کا یہیں قیام ہے، دو تین سال میں ماہ دو ماہ کے لئے وطن جانا ہوتا ہے، اور ہفتہ دو ہفتہ سسرال میں بھی رہنے کا موقعہ نکل آتا ہے۔ تاہم وطن سے دور سمندر پار رہتے ہوئے آج بھی ان کی گفتگو کا خاص موضوع سسرال والوں کی شکایتیں ہوا کرتا ہے، سسرال میں ملنے والے طعنوں کا ذکر کرتے ہوئے ان کے چہرے پر اداسی کا گہرا رنگ چھاجاتا ہے اور ان کے لہجے سے ٹپکتے ہوئے درد کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ سسرال کے تعذیب خانے سے بس ابھی ابھی تھوڑی دیر کے لئے نکل کر اپنا دکھڑا سنانے آئی ہیں۔
میں کہتا ہوں، تھوڑی دیر کے لئے مان لیتے ہیں کہ آپ کے یہ دکھ درد کے سارے قصے سچے ہیں، اور واقعی آپ کی ساس نے آپ کے ساتھ بڑی سختی روا رکھی تھی، اور آپ کو سسرال میں میکے کے مقابلے میں بہت زیادہ کام کرنے پڑگئے تھے، ممکن ہے وہاں آپ کو نندوں کے طعنے واقعی سننے کو ملے تھے، تاہم اب تو آپ سکون اور راحت کی زندگی گزار رہی ہیں، آخر بہت پہلے گزرے زمانے کی جھوٹی سچی تلخ یادوں کو تازہ کرکے دل کو میلا اور طبیعت کو بدمزہ رکھنے کا اب کیا جواز ہے۔
دراصل یہ ایک غلطی ہے، جو ہم میں سے بہت سارے لوگوں سے بہت زیادہ سرزد ہوا کرتی ہے، اور ہم محسوس بھی نہیں کرپاتے کہ اس ایک غلطی کے نتیجہ میں ہم اپنے دل کو کس قدر اذیت میں مبتلا رکھتے ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ ہم کو تکلیف ایک بار پہونچتی ہے اور ہم اس کو سو بار محسوس کرکے اپنے دل ودماغ کو سو بار تکلیف دیتے ہیں۔ اصل تکلیف سے دل میں ایک چھید ہوتا ہے، مگر ہم اسی چھید کی بے شمار نقلیں تیار کرکے پورا دل چھلنی کرلیتے ہیں۔
زبان کے زخم ہوں، یا پتھر اور تلوار کے زخم ہوں، ترقی کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نکل گیا ہو، یا تجارت میں کوئی نقصان ہوگیا ہو، غیروں نے دھوکہ دے دیا ہو، یا اپنوں نے وشواس گھات کیا ہو۔ کسی بھی تکلیف کو بار بار یاد کرنا نہ جسم کی صحت کے لئے اچھا ہے اور نہ دل کی صحت کے لئے۔
مان لیتے ہیں کہ بعض تکلیفیں ایسی دائمی قسم کی ہوتی ہیں کہ دل کا روگ بن جاتی ہیں اور ان سے چھٹکارا پانا آدمی کے بس میں نہیں ہوتا ہے، لیکن اکثر تکلیفیں ایسی ہوتی ہیں کہ تھوڑی ہی دیر میں ان کو ہمیشہ کے لئے بھلادینا ممکن ہوتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ تکلیفوں کو بھولتے رہنا ہی ہمارے دل کی صحت اور خیالات کی پاکیزگی کے لئے اچھا ہے۔
کہنے والوں نے تو یہاں تک کہا ہے کہ دوسروں کی زبانوں سے نکلنے والے لفظوں کے تیر تمہارے کان میں تو داخل ہوکر کچھ سمع خراشی کرسکتے ہیں، لیکن تمہاری مرضی کے بغیر تمہارے دل کو زخمی نہیں کر سکتے ہیں، اس بات میں صداقت ہے، انسان کو اللہ نے غیر معمولی قوتوں سے نوازا ہے، وہ چاہے تو زہر میں بجھے ہوئے کسی تیر کی ایک خراش بھی اپنے دل پر نہ آنے دے۔
تاہم اگر کوئی شخص اتنا طاقت ور اور زیرک نہیں ہو، تو بھی اسے اتنا سمجھ دار تو ضرور ہونا چاہئے کہ ایک تکلیف دہ بات کی تکلیف کو ایک بار ہی محسوس کرے۔ اسے بار بار محسوس کرکے اپنی زندگی کو خود اپنے لئے عذاب بنانا دانش مندی تو نہیں ہے۔ دل میں تو یہ صلاحیت بھی ہوتی ہے کہ وہ تکلیف کو کافی کم کرکے یا کئی گنا زیادہ کرکے محسوس کرے۔ ہم دل کے ساتھ مجاہدہ کریں تو بڑی بات کی تکلیف کو بھی ہمارا دل کم کرکے محسوس کرے، اور ڈھیل دے دیں تو معمولی بات کو وہ غم کا پہاڑ بنالے۔
ہم سے اکثر ایک غلطی اور ہوتی ہے، وہ یہ کہ اگر ایک تکلیف صرف ہمیں پہونچتی ہے، تو ہم اپنے چاہنے والوں سے بتا کرکے انہیں بھی تکلیف میں مبتلا کردیتے ہیں، اس طرح تکلیف ایک ہوتی ہے، اور اس سے کئی دلوں کو کئی بار متاثر ہونا پڑتا ہے۔ حالانکہ ہم چاہیں تو وہ تکلیف صرف ہمارے دل کو محسوس ہو، اور صرف ایک بار محسوس ہو۔ غم بانٹنے کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ اپنے دکھوں کی اوریجنل کاپی اپنے پاس محفوظ رکھی جائے، اور اس کی ڈپلیکیٹ نقلیں تیار کرکے سب چاہنے والوں کو تقسیم کرتے رہیں، اس طرح آپ کی تکلیف تو ذرا کم نہیں ہوتی ہے، البتہ دوسروں کی تکلیفوں میں اضافہ ضرور ہوجاتا ہے۔
اس دنیا کو سجانے اور سنوارنے کا ایک گر یہ بھی ہے، کہ تکلیف دہ باتوں کو جلدی جلدی بھولتے رہا جائے، انہیں نہ دل میں بسنے کا موقعہ دیا جائے، اور نہ زبان پر ٹہلنے کی اجازت دی جائے۔ دوسری طرف خوشی کی باتوں کو موقعہ دیا جائے کہ وہ زیادہ سے زیادہ پھلیں پھولیں، اور ان کا زیادہ سے زیادہ چرچا ہو۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جس قدر تکلیف دہ باتوں کا سامنا کرنا پڑا، اس کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے، لیکن اللہ پاک کی آپ کو ہدایت تھی کہ آپ لوگوں کی تکلیف دہ باتوں کو یکسر نظر انداز کرتے رہیں (ودع اذاھم)، اور آپ زندگی بھر اس ہدایت پر عمل کرتے ہوئے صبر وتحمل کا حسین پیکر بنے رہے۔ یقینا اللہ کے رسول کی سیرت میں ماننے اور چاہنے والوں کے لئے بہترین نمونہ ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں