شکایتیں دور کریں اور شکایتوں سے دور رہیں
محی الدین غازی
جب ہم ساتھ رہتے ہیں، تو ساتھ رہنے کے مزے تو ملتے ہی ہیں، ساتھ ہی کچھ شکایتیں بھی پیدا ہوجاتی ہیں، عام طور سے یہ شکایتیں بہت چھوٹی ہوتی ہیں، اتنی چھوٹی کہ ان کا بیان سننے پر ہنسی آجاتی ہے، لیکن چھوٹی چھوٹی شکایتیں جمع ہوجانے پر بہت بڑی لگنے لگتی ہیں، اتنی بڑی کہ اچھے خاصے تعلقات کو ختم کرنے کا سبب بن جاتی ہیں، شکایتوں کو جمع کرتے رہنا، اور پھر ان سے انڈے بچے دلانا دانائی نہیں ہے۔ نیکی اور دانائی یہ ہے کہ دوسروں کی شکایتیں دور کرتے رہیں، اور اپنی شکایتیں صاف دل سے بھلاتے رہیں۔ دانشمندی یہ بھی ہے کہ ساتھ رہنے کے مزے یاد رکھیں اور ساتھ رہنے کی تکلیفیں بھولتے رہیں۔
سمجھ دار لوگ شکایت کی ہر اکائی کو الگ کرکے دیکھتے ہیں، چونکہ ہر شکایت اپنے آپ میں چھوٹی ہوتی ہے، اس لئے وہ ایسی کسی بھی شکایت کا دل پر اثر نہیں لیتے ہیں۔ ناسمجھ لوگ شکایتوں کے پورے پلندے کو اپنے ساتھ ڈھوتے رہتے ہیں، اور اسی لئے تعلقات کا بوجھ نہیں اٹھا پاتے ہیں۔
یوں تو شکایتیں ہر طرح کے رشتے داروں اور تعلق والوں کے بیچ پیدا ہوسکتی ہیں، تاہم شکایتوں کی دو صورتیں مجھے بہت مشکل معلوم ہوتی ہیں، ایک وہ صورت جب بیوی شوہر سے اس کے والدین کی کسی زیادتی کی شکایت کرے، اور دوسری وہ صورت جب والدین بیٹے سے اس کی بیوی کے کسی خراب رویہ کی شکایت کریں۔ بہت سے گھروں میں آپسی جھگڑوں اور نااتفاقیوں کا بڑا سبب یہی دو طرح کی شکایتیں ہوا کرتی ہیں۔
غور وفکر کے بعد میری رائے یہ بنی ہے کہ جہاں تک ہوسکے نہ تو بیوی ساس سسر کی شکایت شوہر سے کرے، اور نہ والدین بہو کی شکایت بیٹے سے کریں۔ والدین کو معلوم ہونا چاہئے کہ اکثر اوقات شوہر اپنی بیوی کے سامنے بے بس ہوتا ہے۔ بیوی کو بھی سمجھنا چاہئے کہ بیٹا والدین کے سامنے کتنا بے اختیار ہوتا ہے۔ اس پر مزید شوہر کی یہ دلی خواہش کہ اسے بیوی بچوں کی رفاقت بھی حاصل رہے، اور والدین کا سایہ بھی سر پر قائم رہے۔
شوہر بیوی کی شکایتیں سن کر اگر اپنے والدین کی اصلاح کی کوشش کرتا ہے تو اکثر والدین ناراض ہوجاتے ہیں، اور اگر بیوی کی شکایتیں سنی ان سنی کرتا ہے تو بیوی ناخوش رہنے لگتی ہے۔ اسی طرح والدین بھی جب بیٹے سے بہو کی شکایت کرتے ہیں، تو شوہر یا تو بیوی کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہے، جس کے نتیجے میں بیوی اکثر آگ بگولا ہوجاتی ہے، یا بیوی سے تعلقات بنائے رکھنے کے لئے خاموشی اختیار کرتا ہے، تو والدین روٹھے روٹھے رہنے لگتے ہیں۔ غرض شوہر کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے، اور وہ بیچارہ ذہنی تناؤ کا شکار رہنے لگتا ہے، اور پھر گھر میں کوئی خوش نہیں رہتا ہے۔
کیا ہم دوسروں سے پہونچنے والی تکلیفوں کو نظر انداز کرسکتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم اپنی روزمرہ کی زندگی میں بہت ساری تکلیفوں کا خاموشی سے سامنا کرتے ہیں اور ان کی شکایت نہیں کرتے ہیں، جیسے کبھی شدید سردی یا سخت گرمی ہوتی ہے، یا زیادہ بارش ہوجانے سے راستے چلنے کے قابل نہیں رہتے، یا بچہ رو رو کر رات بھر سونے نہیں دیتا ہے، یا سڑک پر ٹریفک چلتے چلتے رک جاتی ہے۔ اس سے ہمیں ایک قیمتی اصول ملتا ہے کہ جب ایسا لگے کہ شکایت کرنے سے تکلیف دور نہیں ہوگی بلکہ اور بڑھ جائے گی، تو ہم اس کی شکایت ہی نہ کریں۔ اور اسے بھی انہی اضطراری حالتوں کے خانے میں ڈال دیا کریں جن کو ہماری شکایت دور نہیں کرتی ہے اور اسی لئے ہم ان کی شکایت بھی نہیں کرتے ہیں۔ ہاں جہاں ظلم بہت صریح ہو، یا غم بہت شدید ہو تو سب سے اچھا یہ ہے کہ اللہ سے مناجات کرلی جائے، (وأشکو بثي وحزني الی اللہ)۔ دل بھی ہلکا ہوگا، اور اللہ کی مدد بھی آئے گی۔
شوہر کو چاہئے کہ وہ بیوی کے خلاف والدین کی یا والدین کے خلاف بیوی کی شکایتیں سننے کے بعد کسی جذباتیت کا شکار نہ ہو، اور نہ فوری ردعمل ظاہر کرے، بلکہ بڑی حکمت اور دانائی کے ساتھ معاملات کو بہتر بنانے کی کوشش کرے، کہ شکایت بھی دور ہوجائے، کسی کے دل کو ٹھیس بھی نہیں پہونچے، اور تعلقات میں کوئی کڑواہٹ بھی نہیں آئے۔ شکایتیں دور کرنا نیکی کا کام ہے، لیکن حکمت ودانائی اس کے لئے پہلی شرط ہے۔
سچ یہ ہے کہ نہ کسی شوہر کو اچھا لگتا ہے کہ کوئی اس کی بیوی کی شکایت کرے، اور نہ کسی بیٹے کو اچھا لگتا ہے کہ کوئی اس کے والدین کی شکایت کرے۔ دونوں صورتوں میں اسے شدید قسم کا انقباض اور رنج ہوتا ہے۔ سمجھ دار بیوی اور دانا والدین اس کا بہت زیادہ لحاظ کرتے ہیں کہ ان سب کو ٹوٹ کر چاہنے والا کہیں ان کی ذرا سی غلطی سے خود ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہ ہوجائے۔
بیوی کے سلسلے میں والدین کی شکایت دور کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ شوہر بڑھ کر خود والدین کی خدمت کرنے لگے، کہ والدین کو بیٹے کی خدمت کے آگے بہو کی کوتاہیاں نظر نہ آئیں، اسی طرح والدین کے سلسلے میں بیوی کی شکایتیں دور کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ شوہر بیوی کا زیادہ خیال رکھنے لگے، کہ بیوی اس کی چاہت کو دیکھ کر دوسروں کی تکلیف دہ باتوں کو نظر انداز کردے۔
شوہر کو بہت خوشی ہوتی ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ اس کی بیوی اس کے والدین سے بہت خوش ہے، اور بیٹا اپنے آپ کو بہت خوش نصیب سمجھتا ہے جب اس کے والدین اس کی بیوی سے راضی نظر آتے ہیں۔ پس اگر گھر میں ہر کوئی دوسرے کے ہاتھ میں خوشی کا جام تھما دے تو سب کے ہاتھ میں خوشی کے جام آجائیں۔ اور گھر خوشیوں کا گہوارہ بن جائے۔
ایک تبصرہ شائع کریں