عادت کا مقام اور، عبادت کا مقام اور
محی الدین غازی
بہت سارے اچھے کام جو آپ بطور عادت کرتے ہیں، ایک پاکیزہ نیت کی خوب صورت آمیزش سے وہ عبادت بن سکتے ہیں، عادت وحاجت کے تحت ان کاموں کو تو آپ انجام دیتے ہی ہیں، ساتھ ہی اگر اللہ کی رضا اور خوشنودی کی نیت کرتے رہیں، تو آپ کی بہت ساری عادتیں ترقی پاکر عبادتوں میں تبدیل ہوتی جائیں گی، اس طرح آپ اپنے معمول کے کاموں اور معمولی کاموں کو بھی بہت خاص اور بہت کار آمد بناسکیں گے، جن کاموں کو صرف دنیا کے فائدے کے لئے انجام دیتے ہیں، وہ آخرت کی کامیابی کے لئے بھی کام آجائیں گے۔ یہ نکتہ مربی عظیم امام حسن البنا نے بتایا۔
نیت کے اندر غیر معمولی تاثیر پائی جاتی ہے، اعلی نیت ایک عام سے کام کو امتیازی شان عطا کردیتی ہے، اور گھٹیا نیت بڑے بڑے کارناموں کا امتیاز چھین کر انہیں مٹی کے برابر کردیتی ہے۔
اللہ نے کسی عبادت کو گراں اور بے مزا نہیں بنایا ہے، ہر عبادت آسان اور لطف سے بھرپور ہوتی ہے، قصور ہماری طبیعت اور مزاج کا ہوتا ہے، کہ ہم دوسری پرانی عادتوں کی وجہ سے عبادت والے کاموں کے عادی نہیں ہوتے ہیں، اور نہ ہی ان کے حقیقی لطف سے آشنا ہوتے ہیں، تاہم اگر ہم نفس کے ساتھ کچھ مجاہدہ کرکے خود کو عبادت کا عادی بنالیں، تو انہیں کرنا بہت آسان ہوجائے، بلکہ انہیں کئے بغیر چین نہ آئے، اور ان کا ایسا مزا لگ جائے کہ دنیا کی کوئی چیز ان سے اچھی اور مزے دار نہ لگے۔ عبادت کا شوق دل میں اس طرح بس جائے کہ پھر دل مسجد میں اٹکا رہے، اور آدھا سال جانے والے رمضان کے غم اور باقی آدھا سال آنے والے رمضان کے انتظار میں گزرے۔
دراصل ہم بچپن سے کچھ نہیں کرنے یا محض تفریح کرنے کے عادی ہوتے ہیں، یہ عادت ہماری رگ رگ میں بسی ہوتی ہے، دن لہو ولعب اور راتیں گہری نیند میں گزرتی ہیں، پھر جب عبادت کا شعور جاگتا ہے، تو پرانی عادتیں اور پرانے معمولات رکاوٹ بننے لگتے ہیں، ایسے میں ضروری ہوجاتا ہے کہ نفس کے ساتھ کچھ سختی اور کچھ مجاہدہ ہو، اور پرانی عادتوں کی جگہ نئے کاموں کا نفس کو عادی بنایا جائے، اس مجاہدے کے بعد سب کچھ درست ہونے لگتا ہے، عبادتیں آسان ہوجاتی ہیں، اور ان کے حقیقی لطف سے دل آشنا ہوجاتے ہیں، ایک بزرگ اپنا تجربہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے چالیس راتیں اپنے نفس کے ساتھ مجاہدے میں گزاریں، وہ نیند مانگتا تھا، اور میں اسے تہجد کے لئے مجبور کرتا تھا، جسم گداز بستر کی طرف جانے کے لئے مچلتا اور میں اسے زبردستی مصلے پر کھڑا رکھتا، چالیس راتوں کے مجاہدے کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں نے چالیس سال تک تہجد گزاری اور آہ سحر گاہی کا خوب خوب لطف اٹھایا۔
انسان جب کسی عبادت کا عادی ہوجاتا ہے، تو اس کے لئے طبیعت بھی مائل رہنے لگتی ہہے، اذان سنتے ہی قدم خود مسجد کی طرف اٹھنے لگتے ہیں، رات کے آخری پہر میں آنکھ خود کھل جاتی ہے، ضرورتمند کو دیکھ کر قدم رک جاتے ہیں، اور ہاتھ خود ہی جیب کی طرف بڑھنے لگتا ہے، مسجد شروع میں دور لگتی ہے، لیکن روزانہ پانچ بار آنے جانے سے کافی قریب لگنے لگتی ہے، لیکن یہاں یہ یاد رہے کہ نفس کو عبادتوں کا عادی تو بنانا ہے، لیکن عبادتوں کو عادتوں کی طرح انجام نہیں دینا ہے۔ عبادتوں میں عادت والی پابندی تو ہونا چاہئے، لیکن عادت والی بے رغبتی اور بے خیالی ہرگز نہیں رہے۔ اگر عبادت کے وقت دل کہیں اور غائب ہو تو سمجھ لیجئے کہ عبادت عادت بن گئی۔ عبادت اور عادت میں جوہری فرق حضور قلب کا ہے۔ عبادت میں دل حاضر بھی رہتا ہے اور بیدار بھی رہتا ہے۔ کسی دانائے راز نے کہا: کتنے لوگ اپنے جسم کو لے کر خانہ کعبہ پہونچ جاتے ہیں، جبکہ ان کا دل خانہ کعبہ کے رب سے بیگانہ ہوتا ہے، اور کتنے لوگ ہیں کہ اپنے گھر میں بستر پر بیٹھے ہوتے ہیں، اور دل مقام اعلی سے وابستہ ہوتا ہے۔
جو لوگ عبادت کے سفر پر نکلتے ہیں ان میں سے بہت سارے لوگ عادت کے مقام پر پڑاؤ ڈال دیتے ہیں، اور اسی کو اپنی منزل سمجھ لیتے ہیں۔ عادت کو زندگی کی منزل وہ لوگ بنایا کرتے ہیں، جو دل کو حاضری کی زحمت نہیں دینا چاہتے ہیں۔ دل کی حاضری جسم کی حاضری سے زیادہ مشکل کام ہے، اور اس کے لئے زیادہ ریاضت کی ضرورت پڑتی ہے۔ لیکن جب دل کو حاضری پر آمادہ کرلیا جائے، تو عبادت کے مقام احسان پر پہونچنا آسان ہوجاتا ہے۔
سب سے مشکل سوال یہ ہے کہ دل کو حاضر کیسے رکھا جائے؟ ایک بزرگ نے اس کا جواب یہ دیا کہ عبادت میں دل کی حاضری ان کو نصیب ہوتی ہے، جو عبادت کے باہر بھی دل کو حاضر رکھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، جو نماز کے باہر خشوع کی کیفیت تلاش کرتے ہیں، انہیں نماز کے اندر بھی خشوع کی کیفیت حاصل رہتی ہے، جو اپنی نیت کی خوبی سے ہر اچھی عادت کو عبادت بنانے کا عمل کرتے رہتے ہیں، ان کی عادتیں تو ترقی پاتی ہی ہیں، عبادتوں کو بھی ترقی کے مدارج طے کرنے کا خوب موقعہ ملتا ہے۔
عبادت اور عادت سے متعلق تین نکات یاد رکھنے کے ہیں، اپنی عادتوں کو عبادتوں میں تبدیل کرتے رہیں، عبادتوں کے عادی ضرور بنیں، مگرعبادتوں کو عادت جیسا مت بنائیں۔ ان تین چیزوں کے لئے بالترتیب تین چیزیں مطلوب ہیں، نیت، مجاہدہ اور دل کی حاضری۔
ایک تبصرہ شائع کریں