اللہ کی رحمت ہو ڈاکٹر علوانی اور ڈاکٹر ترابی پر

اللہ کی رحمت ہو ڈاکٹر علوانی اور ڈاکٹر ترابی پر
محی الدین غازی
اللہ رحم فرمائے، امت کو ایک ہی وقت میں دو عظیم فکری رہنماؤں کے چلے جانے کا غم اٹھانا پڑا، اللہ دونوں بزرگوں کو اپنا قرب عطا کرے، اور ہم پسماندگان کو دل کی گرمی اور روح کی تڑپ نصیب کرے۔
یہ بات درست لگتی ہے کہ اس دور میں کار تجدید کسی ایک مجدد کا نہیں بلکہ مجددین کے ایک کاروان کا طالب ہے، اور وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے، کہ یہ دونوں رہنما اس عہد کے کاروان تجدید کی صف اول میں شامل تھے، ایک علامہ طہ جابر علوانی، جن کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ ’’امریکہ میں سرمایہ ملت کا نگہبان‘‘، اور دوسرے علامہ حسن ترابی، جو سوڈان میں اسلامی جدوجہد کے امین ونقیب تھے، دونوں بزرگوں میں بڑی مشابہت تھی، دونوں گروہی اور مسلکی اختلافات سے بہت اوپر اٹھ کر دیکھتے اور سوچتے تھے، دونوں پوری امت کے فکری اور علمی احیاء کے لئے فکرمند رہتے تھے، دونوں حالات کے نبض شناس تھے، دونوں کو اللہ تعالی نے مستقبل بینی کی یک گونہ صلاحیت سے نوازا تھا، دونوں ہمارے علمی ورثے کے گہرے واقف کار اور سچے پاسبان تھے، تاہم دونوں اندھی تقلید اور نری روایت پرستی کے خلاف تھے، اور دونوں امت میں اجتہادی روح کو زندگی اور تازگی دینے کے لئے کوشاں تھے، چونکہ وہ تجدید واجتہاد کے راستے پر گامزن تھے، اس لئے ان سے غلطیاں بھی ہوتی تھیں، اور وہ غلطیاں نظر بھی آتی تھیں۔
دراصل جو تقلید اور روایت پسندی کے راستے پر چلتا ہے، اس کو معذور سمجھا جاتا ہے، اور اس کی غلطیاں تقلید اور روایات کے پردے میں چھپ جاتی ہیں، لیکن جو اجتہاد کرتا ہے، وہ اجتہادی غلطیوں کا شکار بھی ہوتا ہے، اور وہی نشانہ تنقید بھی بنتا ہے، تاہم ساری غلطیوں کے باوجود وہ اجتہاد کرنے کی عظیم ترین خوبی سے مالا مال ہوتا ہے۔ ایک مسلمان کے لئے بہترین مقام اجتہاد کا مقام ہے، ایسے لوگ اپنی اجتہادی غلطیوں کے باوجود انتہائی قابل قدر ہوتے ہیں۔ ایک دانائے راز نے بہت صحیح کہا ہے کہ ’’تم غور وفکر کرو اور غلطی کرو یہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ تم عقل پر تالے ڈال کر غلطیوں سے محفوظ ہوجاؤ‘‘۔ شکست کا سامنا بھی انہیں کو کرنا ہوتا ہے جو میدان جنگ میں اترتے ہیں، جو زمانے کی نفیر عام کو نظر انداز کرکے گھر بیٹھ رہتے ہیں، ان کے حصے میں شکست نہیں بلکہ ذلت آتی ہے۔
اس وقت امت مسلمہ میں جو بھی فکری تازگی اورعقل وخرد کی زندگی محسوس ہوتی ہے، اس میں ڈاکٹر ترابی اور ڈاکٹر علوانی کی پیش قدمیوں کا بڑا حصہ ہے۔ اور ’’وہ نصف صدی کا قصہ ہے دوچار برس کی بات نہیں‘‘
ڈاکٹر ترابی اور ڈاکٹر علوانی دونوں ہی مغرب میں رہنے والے مسلمانوں کے مسائل کے سلسلے میں بہت زیادہ سوچتے تھے، اور بہت ساری جرأت مندانہ تجویزیں اور فتوے بھی پیش کرتے تھے، ان تجویزوں اور ان فتووں سے اختلاف ہوسکتا ہے، لیکن یہ ماننا قرین انصاف ہے کہ وہ شتر مرغ کی روش اختیار کرتے ہوئے ان مسائل کے انکاری نہیں بنے تھے بلکہ ان کے حل کے متلاشی تھے۔
تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا کے مسائل بھی ان کے غوروفکر کا خاص موضوع تھے، جتنی تیز رفتاری سے دنیا بدل رہی ہے، اسی تیز رفتاری سے سوچنے کے وہ داعی تھے۔
ان دونوں کی نظر میں مغرب کے مسلمانوں سے زیادہ مغرب زدہ مسلمانوں کا مسئلہ توجہ کا طالب تھا، وہ ایسے تعلیمی نظام اور علوم کی ایسی تشکیل نو کے داعی تھے، جو مغرب کے فلسفہ زندگی کی بجائے مکمل طور سے اسلام کے نظریہ حیات سے ہم آہنگ ہو۔
گو کہ اردو داں حلقے کی واقفیت ان بزرگوں سے بہت سرسری نوعیت کی ہے، کیونکہ ان کے افکار اردو زبان میں بہت کم منتقل ہوسکے۔ تاہم ان کی فکری کوششوں کے اثرات ہر جگہ کچھ نہ کچھ پائے جاتے ہیں۔
قحط الرجال کے اس دور میں جبکہ مردان فکروعمل کا آنا بہت کم اور جانا بہت زیادہ نظر آتا ہے، اور قہر الرجال کے اس زمانے میں جبکہ بہت سارے مجاہدان فکروقلم یا تو جیلوں میں نظربند ہیں، یا اظہار رائے کے بنیادی حق سے محروم ہیں، نئی نسل کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے، ہر دور سے بہت زیادہ۔

ایک تبصرہ شائع کریں