پہچان پتر اور پہچان، سفر میں ساتھ رکھیں
محی الدین غازی
آن لائن ریلوے ٹکٹ کے سلسلے میں ہماری عام معلومات تو یہ ہیں کہ ایک ٹکٹ میں کئی افراد شامل ہوں تو کسی ایک کے پاس شناختی ثبوت ہونا کافی ہے، تاہم وجے واڑہ اور بلارشا کے بیچ میں کئی مرتبہ دیکھا کہ ریلوے کی ایک ٹیم جس میں ایک بہت سخت مزاج خاتون بھی ہوتی ہیں، مسافروں کے ٹکٹ چیک کرتی ہے، اور آن لائن ٹکٹ میں درج تمام افراد سے شناختی ثبوت بھی مانگتی ہے، جن کے پاس شناختی ثبوت نہیں ہوتا ہے وہ سخت پریشانی اور بسا اوقات اچھے خاصے جرمانے سے دوچار ہوتے ہیں۔
بار بار کے اس مشاہدے کے بعد میرا ذہن یہ بنا کہ ہر شخص کو شناختی ثبوت اپنے ساتھ ضرور رکھنا چاہئے، نہ جانے کب اور کہاں اس کی ضرورت پڑجائے۔ شناختی ثبوت کے ہمراہ ایک دو فون نمبر بھی رہنے چاہئیں تاکہ کسی ناگہانی میں گھر والوں سے رابطہ ہوسکے۔ رابطے کے نمبرات موجود ہونے سے دوسروں کو بروقت مدد کرنے میں آسانی ہوجاتی ہے، کسی نے بہت خوب کہا ہے؛
گھر سے نکلو تو پتہ جیب میں رکھ کر نکلو
حادثے چہروں کی پہچان مٹادیتے ہیں
گھر سے نکلو تو پتہ جیب میں رکھ کر نکلو
حادثے چہروں کی پہچان مٹادیتے ہیں
ایمرجنسی رابطے کے نمبرات ذہن کے حافظے میں بھی محفوظ رہیں تو بہت بہتر ہے، موبائیل فون کے پھیلاؤ کے بعد اپنے فون نمبر اور اپنوں کے فون نمبر یاد نہیں رکھنے کا مزاج بن گیا ہے، یہ کمزوری ہے، اس کو دور کرلینا چاہئے، ورنہ آدمی کبھی بڑی لاچاری کا سامنا کرتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ اب فون کی ڈائری رکھنے کا رواج ختم ہوچلا ہے، لیکن اس کی ضرورت بھی ختم ہوگئی ہو، یہ درست نہیں ہے۔
سفر ہو یا حضر، شناختی کارڈ سے زیادہ اہمیت خود آپ کی شناخت کی ہے، پہچان پتر کے ساتھ اگر ہم اپنی اسلامی پہچان کا سفر میں بھرپور خیال رکھیں تو ہمارا سفر بہترین عبادت بن جائے۔ ہندوستان میں اسلامی تعلیمات کی ترجمانی کے لئے سفر بہت اہم موقع ہے، ایک مسلمان اپنے حسن سلوک اور اعلی کردار سے برادران وطن کے دل میں کبھی نہیں مٹنے والے نقوش چھوڑ سکتا ہے۔
ہم جیسے لوگ جو مسلم آبادی میں رہتے ہیں اور غیر مسلموں سے میل جول کا موقع بہت کم مل پاتا ہے، سفر کے دوران اس کمی کی تھوڑی سی تلافی کرسکتے ہیں۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ ہمیں سفر کے دوران برادران وطن سے جتنا زیادہ رابطے کا موقع ملتا ہے، شاید کسی اور موقع پر نہیں ملتا ہے، اور سفر کے دوران لوگوں کی مدد کے جتنے مواقع سامنے آتے ہیں، کسی اور موقع پر نہیں آتے ہیں، نیز سفر کے دوران کسی مشکل میں کام آنے والے زندگی بھر یاد رہتے ہیں۔
بعض لوگ سفر میں بہت لئے دئے رہتے ہیں، دوران سفر میل جول بڑھانا ان کے مزاج سے میل نہیں کھاتا، ایسے لوگ سفر سے زیادہ فائدہ نہیں اٹھاپاتے ہیں، سفر ان کے لئے محض ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا ہوتا ہے۔ لیکن جو لوگ سفر میں اپنے سماجی کردار کو فعال رکھتے ہیں، وہ ہر سفر کو اپنے لئے بھی اور دوسروں کے لئے بھی یادگار بنادیتے ہیں۔
سفر میں دوسروں کے کام آنے کے بہت سارے موقع خود سامنے آتے رہتے ہیں، بس خدمت کو چاہنے والا دل اور موقع کو پہچاننے والی نگاہ ہونا چاہئے، حدیث میں کسی شخص کو سواری کے جانور پر سوار ہونے یا اس کے سامان کو چڑھانے میں مدد کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، اور اسے صدقہ بتایا گیا ہے۔ ٹرین میں چڑھتے اور اترتے ہوئے بہت سارے لوگوں کو مدد کی ضرورت ہوتی ہے، ایسے میں یہ حدیث بڑی ہمت افزائی کرتی ہے۔
مسلمانوں کو بدنام کرنے کی مہم تو پوری دنیا میں جاری ہے، اور ایسی وضع قطع جس سے آدمی مسلمان لگے، منفی پروپیگنڈے کا زیادہ نشانہ بن رہی ہے، میرا خیال ہے کہ اس وضع قطع اور اس ظاہری حلئے کے لوگ اگر آج کے ماحول میں خدمت اور حسن اخلاق کے نمونے پیش کریں، تو لوگ زیادہ متوجہ ہوں گے، اور ان کے دل پر زیادہ اچھا اثر پڑے گا۔ مختلف تجربات کے بعد میری رائے یہ بنی ہے کہ اس دور میں اسلامی پہچان رکھنے والے لوگوں پر ان کی پہچان کے حوالے سے خدمت اور حسن اخلاق کی ذمہ داری بہت بڑھ گئی ہے۔
ہمارے اجداد نے حسن اخلاق کے جو درخت لگائے تھے ان کا سایہ ابھی بھی جگہ جگہ محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اللہ کا فضل ہے کہ آج کے پرآشوب اور بدگمانی اور بے اعتمادی کے دور میں بھی عام لوگ دوران سفر اپنے سامان اور اپنی خواتین کو اسلامی وضع قطع کے لوگوں کے پاس محفوظ تصور کرتے ہیں، یہ بات میں سینکڑوں بار خود مشاہدہ کرنے کے بعد کہہ رہا ہوں۔
پرانے درختوں کا سایہ باقی رہے، نئے پودے لگائے جاتے رہیں، یہ ذمہ داری ہمیں قبول کرنا چاہئے۔
ایک تبصرہ شائع کریں