شریعت کی حفاظت اور شریعت کے حسن کی حفاظت
محی الدین غازی
جن ایمان والوں کو احسان کی بلندیوں تک پہونچنے کا شوق ہے، وہ اچھی طرح سمجھ لیں، کہ جس طرح عبادتوں کے سفر میں احسان کا مقام آتا ہے، اسی طرح نکاح وطلاق کے معاملات میں بھی احسان کے مقامات آتے ہیں، واللہ یحب المحسنین۔
نماز کی ایک صورت تو وہ ہے جو فقہ کی کتابوں میں ملتی ہے، اور نماز کی ایک کیفیت وہ ہے جو قرآن مجید کی آیتوں میں ملتی ہے، پہلی صورت فرض کی محض ادائیگی کی ہے، اور دوسری صورت احسان کی ہے۔ بندے کی نماز جب احسان کے مقام پر پہونچتی ہے، تبھی اس کا اصل حسن ظاہر ہوتا ہے۔ اور تب ہی یہ یقین پیدا ہوتا ہے کہ انسانی روح کی پیاس بجھانے کا بہترین طریقہ نماز ہے۔
اسی طرح نکاح وطلاق کی قانونی صورتیں تو فقہ کی کتابوں میں مذکور ہیں، جن سے قانونی طور پر رشتہ قائم اور منقطع ہوجاتا ہے۔ لیکن نکاح وطلاق کے لئے تقوی واحسان کے مقامات بھی ہیں، ان مقامات کو قرآن مجید میں خوب خوب بیان کیا گیا ہے۔ جب نکاح وطلاق میں تقوی واحسان کی کیفیت بھرپور طریقے سے شامل ہوجاتی ہے، تو نکاح وطلاق کے پورے نظام کا اصل حسن سامنے آتا ہے، اور یہ واضح ہوجاتا ہے کہ یہی وہ نظام حق ہے جس کی انسانیت کو تلاش ہے۔
اس وقت ہندوستان میں شریعت پر دو طرف سے حملہ ہورہا ہے۔ ایک طرف حکومت کی جانب سے شریعت میں مداخلت کی کوششیں ہورہی ہیں، دوسری طرف روایتی میڈیا سے لے کر سوشل میڈیا تک ہر جگہ شریعت کا مذاق اڑایا جاریا ہے، اور یہ تاثر دیا جاریا ہے کہ مسلمانوں کی شریعت میں عورتوں کے ساتھ صریح ظلم اور کھلی نا انصافی کے راستے پائے جاتے ہیں۔ یہ بات ایسے اسلوب میں کہی جارہی ہے کہ بہت سارے ذہن متاثر بھی ہورہے ہیں۔ شریعت میں مداخلت سے زیادہ خطرناک شریعت کے سلسلے میں بدگمانیوں کا عام ہونا ہے۔
شریعت میں مداخلت کو روکنے کے لئے مسلمانوں کا متحد ہوکر اپنی آواز بلند کرنا کافی ہے۔ اقلیت میں ہونے کے باوجود ہندوستان کی آبادی میں مسلمانوں کا تناسب اتنا زیادہ ہے، کہ ان کی متحدہ آواز کو کوئی نظرانداز نہیں کرسکتا ہے۔ لیکن شریعت کا مذاق اڑانے، شریعت کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے، اور شریعت کے سلسلے میں عام مسلم وغیر مسلم ذہنوں کو بدگمان کرنے کی کوششوں کا سد باب کیسے کیا جائے؟ یہ بہت اہم سوال ہے۔
راقم جائزہ لینے کے بعد اس نتیجہ پر پہونچا ہے کہ شریعت کا مذاق اڑانے کا موقعہ دشمنوں کو اس وقت ملتا ہے جب شریعت کے احکام پر اس طرح عمل نہیں کیا جاتا، جس طرح عمل کرنے کا حق ہے۔ بلکہ اس طرح عمل کیا جاتا ہے جس طرح عمل کرنا خود شریعت میں ناپسندیدہ ہوتا ہے، بلکہ کبھی کبھی تو شریعت کا مذاق اڑانے کے ذیل میں آجاتا ہے۔
تعدد ازدواج کے حکم پر تنقید کرنے کا موقعہ اس لئے ہاتھ آتا ہے کیونکہ ایک سے زیادہ شادی کرنے والے مسلمان محبت اور انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتے۔ اور معاشرے میں ظلم وناانصافی کی غلط مثالیں قائم کرتے ہیں۔ اگر ایک سے زیادہ شادی کرنے والے مرد قرآن مجید کی رہنمائی میں اپنی سب بیویوں کو احساس محرومی سے بچانے میں اور انہیں خوش رکھنے میں کامیاب ہوجائیں، تو کوئی انصاف پسند شریعت کے اس حکم کا مذاق ہرگز نہیں اڑا سکے گا۔
تین طلاقوں اور حلالہ کے حوالے سے شریعت کے نظام طلاق پر طنزوتشنیع کے حملے کئے جاتے ہیں۔ کیونکہ مسلمان تین طلاق دینے اور پھر حلالہ کی لعنت سے گزرنے کے نمونے پیش کرتے ہیں۔ جبکہ طلاق دینے کا یہ طریقہ اور حلالے کا یہ راستہ خود شریعت کے خلاف ہے۔ شریعت میں طلاق دینے اور نکاح کرنے کا جو صحیح طریقہ بتایا گیا ہے، وہ اتنا بے داغ بلکہ حسین وجمیل ہے کہ اگر اسے اختیار کیا جائے تو کسی کو اس پر نکتہ چینی کا موقعہ نہیں مل سکتا ہے۔
مطلقہ کے نان نفقہ کے تعلق سے شریعت پر انگلی اٹھائی جاتی ہے، کہا جاتا ہے کہ اسلام میں ایک عورت کو طلاق دے کر بالکل لاچار چھوڑ دیا جاتا ہے۔ کہنے والوں کو یہ کہنے کا موقعہ اس وقت ملتا ہے جب مسلمان طلاق دیتے وقت قرآن مجید کی ان متعدد آیتوں کو یکسر فراموش کردیتے ہیں، جن میں بھلے اور بہترین طریقے سے جتنا زیادہ ہوسکے ساتھ کرکے رخصت کرنے کی نہ صرف ترغیب دی گئی ہے بلکہ تاکید کی گئی ہے، اور اسے تقوی اور احسان کا تقاضا قرار دیا گیا ہے۔ اگر طلاق دینے والے مسلمان قرآن مجید کی اس تعلیم پر عمل پیرا ہوجائیں، تو کوئی شریعت کے خلاف کچھ نہیں کہہ سکے گا۔
غرض جب شریعت کے احکام پر شایان شان عمل نہیں کیا جاتا ہے تو عیب تلاش کرنے والوں کو ایسی چیزیں نظر آجاتی ہیں جن سے انہیں شریعت کا مذاق اڑانے اور شریعت پر نکتہ چینی کرنے کا موقعہ ملے، اور وہ اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس کا علاج یہ نہیں ہے کہ بزور قوت لوگوں کا منھ بند کیا جائے، اور نہ یہ ممکن ہے۔ اس کا علاج صرف اور صرف یہ ہے کہ خود مسلمان شریعت سے حسن تعلق قائم کریں۔ اور شریعت کی تعلیمات پر احسن طریقے سے عمل کریں۔ اگر ایسا ہوجائے تو یقینا دوسرے لوگ شریعت سے متنفر ہونے کے بجائے اس کے حسن سے متاثر ہونے لگیں گے۔
شریعت میں مداخلت روکنے کے لئے ضروری ہے کہ مسلمان ایسی ہر سازش کے خلاف متحد ہوجائیں، لیکن شریعت کے حسن اور وقار کی حفاظت کے لئے متحد ہونا کافی نہیں ہے، بلکہ ضروری ہے کہ سارے مسلمان خود کو شریعت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کریں۔ اور اس کے لئے لازم ہے کہ مسلمانوں کا باعلم اور باشعور طبقہ سامنے آئے، اور شریعت پر عمل کے مثالی طریقوں کو مسلمانوں میں عام کرے۔ احسان کے راستے پر چل کر شریعت کے حسن کی حفاظت مسلمان کرلیں گے تو شریعت کی حفاظت بہت آسان ہوجائے گی۔
ایک تبصرہ شائع کریں