بچوں کو کاموں کا دوست بنائیں
محی الدین غازی
بچے جنت کے پھول ہوتے ہیں، اور یہ پھول جیسے بچے اس وقت بہت زیادہ خوب صورت اور پیارے لگتے ہیں، جب وہ کسی بوڑھے بزرگ کی خدمت کررہے ہوتے ہیں۔ بچوں کے اندر بزرگوں کی خدمت کا جذبہ خاص طور سے پیدا کرنا چاہئے، یہ والدین کی ذمہ داری ہے۔ بزرگوں میں کسی طرح کا تعصب برتنے کے بجائے سب سے محبت، سب کا احترام اور سب کی خدمت کی ترغیب دی جائے۔ بچے اپنے نانا نانی کی بھی خوب خدمت کریں اور اپنے دادا دادی کی بھی خوب خدمت کریں، نیز خاندان اور محلے کے ہر عمر رسیدہ بزرگ کی خدمت کے لئے تیار رہیں۔
بڑھاپا تنہائی کا احساس لاتا ہے، بچے بوڑھوں کی دل لگی کا بہترین سامان بنتے ہیں، ان سے قربت خود بچوں کی بہترین نشوونما کے لئے بہت مفید ہوتی ہے، زندگی بھر کے قیمتی تجربات ان کو مفت میں ملتے رہتے ہیں، سلیقے سے زندگی گزارنے کے طور طریقے آتے ہیں، اور اعلی اخلاقی روایتیں اپنا سفر روانی کے ساتھ جاری رکھتی ہیں۔ اگر آپ بچوں کے ساتھ خیر خواہی اور بوڑھوں کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتے ہوں، تو بچوں کو بوڑھوں سے محبت کرنا سکھا دیجئے۔
گھر کا فرد ہونے کی حیثیت سے بچوں کو گھر کے کاموں میں بھی حصہ لینا چاہئے۔ بچوں کے لئے بھی اور گھر کے لئے بھی بہتر یہ ہے کہ بچوں کو جتنی جلدی ممکن ہو گھر کا فعال ممبر بنالیا جائے، بچوں کو بچپن کے حوالے سے یا تعلیم کے بہانے سے گھر کی تمام ذمہ داریوں سے یکسر لاتعلق کردینا کئی پہلووں سے نامناسب ہے۔
جو بچے گھر کے کام کرتے ہیں، ان کا گھر سے جذباتی تعلق بڑھتا ہے، اور یہ احساس ترقی پاتا ہے کہ وہ گھر کے ایک ذمہ دار فرد ہیں، اور گھر کے در ودیوار میں ان کی محنت اور پسینہ شامل ہورہا ہے، جبکہ گھر کی ذمہ داریوں سے لاتعلق رہنے والے بچوں کا خود اپنے گھر سے تعلق یک گونہ کمزور ہوتا ہے۔
تعلیم کے ساتھ گھر کے کام بھی کرنے سے وقت کو بابرکت بنانے کا ہنر ترقی پاتا ہے۔ کیونکہ وقت میں برکت کا انحصار اس پر بھی ہوتا ہے کہ ترجیحات میں توازن رکھتے ہوئے آپ وقت کا کتنا زیادہ استعمال کرسکتے ہیں۔
جو بچے گھر کے کام کرتے ہیں، وہ اپنے بڑوں کی محبت کو زیادہ محسوس کرپاتے ہیں، کیوں کہ انہیں روز یہ تجربہ ہوتا ہے کہ ان کے بڑے ان کے لئے کس قدر مشقت اٹھاتے ہیں۔ بڑوں کا ساتھ دینے اور ان کی تھکن میں روز شریک ہوتے رہنے سے رشتوں میں مضبوطی آتی ہے۔
بہت سے گھروں میں لڑکوں کو تعلیم کے لئے فارغ کردیا جاتا ہے، اور لڑکیوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ گھر کے کام بھی سونپ دئے جاتے ہیں۔ کئی گھروں میں بھائیوں کی خدمت کو بہنوں کی ذمہ داری سمجھا جاتا ہے۔ یہ صحیح نہیں ہے، جب لڑکے اور لڑکیاں دونوں یکساں طور سے تعلیم میں مصروف ہیں، تو گھر کے کام بھی ان میں تقسیم ہونا چاہئیں۔ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ گھر کے لڑکے بھی اپنے گھر میں جھاڑو لگائیں، کپڑے اور برتن دھوئیں، آٹا گوندھیں اور کھانا پکانے میں شامل ہوں۔ اور یہ کبھی کبھی نہیں ہو بلکہ روز کا معمول ہوجائے، ہاں اگر باہر کے کام لڑکوں پر زیادہ ہوں تو گھر کے کاموں میں اسی حساب سے تخفیف کی جاسکتی ہے۔
لڑکیوں پر سارا کام ڈال دینے کی ایک منطق یہ دوہرائی جاتی ہے، کہ لڑکیوں کو آگے چل کر گھر سنبھالنا ہوتا ہے اس لئے انہیں خاص طور سے امور خانہ داری کا عادی اور ماہر بنایا جائے، یہ منطق اپنی جگہ درست ہے، لیکن یہ مستقبل کا تقاضا ہے، اس سے پہلے حال کا تقاضا یہ ہے کہ گھر کے کاموں میں سب لوگوں کی شرکت ہونی چاہئے، نہ والدہ پر سارا بوجھ آئے اور نہ لڑکیوں پر، بلکہ سب مل بانٹ کر کام کرنا اور مل بانٹ کر کھانا کھانا سیکھیں۔
اگر بچوں کے لئے گھر کے کام تفریحی مشغلہ بن جائیں، تب تو بہت ہی اچھا ہو، بچے گھر کے کاموں کو ایک بوجھ سمجھنے کے بجائے سامان تفریح کے طور پر انجام دینے لگیں، اس کے لئے گھر کے بڑوں کو اپنے رویہ سے بتانا ہوگا کہ انہیں گھر کے کاموں میں بہت لطف ملتا ہے۔ جن گھروں میں بڑے گھر کے کاموں سے جی چراتے ہیں، اور ان کے درمیان کاموں کو لے کر جھگڑے ہوتے ہیں ان گھروں میں بچے بھی خوش دلی سے کوئی کام نہیں کرتے۔ لیکن جن گھروں میں بڑے ایک دوسرے سے آگے بڑھ کر کام کرتے ہیں، ان گھروں میں بچوں کے درمیان بھی کاموں کو لے کر مسابقت ہوتی ہے۔ گھر تو ہر حال میں چلتا رہتا ہے، دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ چال بے ڈھنگی ہے یا حسین وجمیل۔
مشترک خاندانوں میں جہاں بڑوں کے درمیان کاموں کی کشمکش رہتی ہے اور ہر کوئی اپنا دامن بچانا چاہتا ہے، وہاں کچھ بڑے اپنے ساتھ اپنے بچوں کو بھی گھر کے کاموں سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں، یہ تربیتی لحاظ سے خود بچوں کے لئے مناسب نہیں ہے، اس طرح ان کے اندر خود غرضی پیدا ہوتی ہے، اور اپنی ذمہ داریوں سے فرار اختیار کرنے والا مزاج تیار ہوتا ہے۔ جس گھر میں بچے ہوں وہاں کاموں کی ایک منصفانہ تقسیم بچوں کے درمیان بھی کردینا چاہئے، ساتھ ہی جو بچے اپنے حصہ سے زیادہ کام کریں ان کی خوب ہمت افزائی بھی ہو۔
گھر کے ماحول میں بچوں کو انسانوں کا درد محسوس کرنے کی تربیت بھی ملنی چاہئے، اگر کوئی فرد بیمار ہوجائے تو سب بچے اس کی تیمار داری میں بھر پور حصہ لیں۔ اس تیمارداری میں بھی بڑوں کو اپنے عمل سے اچھا نمونہ پیش کرنا چاہئے۔
بچوں کے دل میں گھر کے کام کرنے اور بڑے بوڑھوں کی خدمت کرنے کا شوق خوب پیدا کیا جائے، تاہم یہ مناسب نہیں ہے کہ ان کے بڑے بھائی بہن وغیرہ ان سے وقت بے وقت اپنی ذاتی خدمت لیں، کیونکہ جب گھر کے سینئر نوابی انداز اختیار کرکے ذرا ذرا سے کاموں کے لئے اپنے سے کم عمر بچوں پر احکام جاری کرتے ہیں، تو بچوں کی نفسیات پر برا اثر پڑتا ہے، اور انہیں لگتا ہے کہ ان سے نوکروں والا سلوک کیا جارہا ہے، پھر وہ بھی جلد از جلد نواب بننے کا خواب دیکھنے لگتے ہیں، اس طرح ہر چھوٹا اپنے بڑے کے نوابی مزاج کا نشانہ بنتا ہے۔ گھر میں بنیادی اصول یہ ہونا چاہئے کہ جہاں تک ممکن ہو اپنا ذاتی کام خود کریں، اور گھر کے کام سب کریں۔ ایک دوسرے کے کام بھی خوب آئیں مگر اپنی خوشی سے۔ غرض بچوں کے اندر شروع سے ہی ذاتی خدمت کے بجائے اجتماعی کاموں میں شرکت کا ذوق وشوق پیدا کیا جائے۔ انہیں کاموں کا دوست بنایا جائے کاموں کا دشمن نہیں۔
ایک تبصرہ شائع کریں