شوہر اور بیوی اور محبت کی کنجیاں

شوہر اور بیوی اور محبت کی کنجیاں
محی الدین غازی
حضرت زیاد حضرت معاویہ کے زمانے میں کوفہ وبصرہ کے گورنر تھے، وہ اپنی ذہانت اور سوجھ بوجھ کے لئے مشہور تھے، ایک بار انہوں نے اہل مجلس سے پوچھا سب سے خوش گوار اور پرآسائش زندگی کسے حاصل ہے؟ لوگوں نے کہا امیر المومنین کو، انہوں نے کہا وہ تو اپنے خاندان کی طرف سے عاجز وپریشان رہتے ہیں، اہل مجلس نے کہا آپ کو، انہوں نے کہا میں سرحد کی شورشوں کو لے کر بہت تنگ رہتا ہوں، اہل مجلس نے کہا پھر آپ ہی بتائیے کون ہے وہ خوش نصیب؟ حضرت زیاد نے کہا: ’’ایک مسلمان مرد جس کی ایک مسلمان بیوی ہے، دونوں کے پاس بقدر ضرورت سامان زندگی ہے، بیوی شوہر سے محبت کرتی ہے، اور شوہر بیوی سے محبت کرتا ہے، نہ ہم اسے جانتے ہیں اور نہ وہ ہمیں جانتا ہے‘‘ یہ سبق آموز مکالمہ امام ابن حزم نے ذکر کیا ہے۔
محبت وہ بہترین تحفہ ہے جو ایک شوہر اپنی بیوی کو اور ایک بیوی اپنے شوہر کو پیش کرسکتی ہے۔ جب شوہر اور بیوی کے درمیان محبت کی ندیاں رواں ہوجائیں تو زندگی حسین وجمیل ہوجاتی ہے، پھر خدمت واطاعت کے جھگڑے، سہولتوں کی فراہمی اور فرمائشوں کی تکمیل کے مطالبے اور ایسی بہت سی چیزوں کی حیثیت زندگی میں غیر اہم ہوجاتی ہے۔ اور جب شوہر اور بیوی ایک دوسرے کو محبت کے تحفے پیش نہیں کرپاتے ہیں، تو ان کی زندگی میں تعیش روگ اور تعلق بوجھ بنا ہوتا ہے، اسی روگ اور اسی بوجھ سے پریشان وہ اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔
محبت کے خزانے اللہ نے ہر انسان کے اندر ودیعت کئے ہیں۔ ایک شوہر خواہ وہ کتنا ہی غریب، ان پڑھ اور منصب وشہرت سے خالی ہو، محبت کی دولت سے ضرور مالا مال ہوتا ہے، اور اپنی بیوی پر یہ دولت خوب خوب لٹا سکتا ہے۔ ایک بیوی بھی خواہ وہ کیسی ہی پھوہڑ، کاہل اور بیمار ہو، محبت کی بے پناہ دولت اپنے اندر رکھتی ہے اور جب چاہے جس قدر چاہے اپنے شوہر پر نچھاور کرسکتی ہے۔ غرض دولت وشہرت، صحت وصلاحیت اور سلیقہ وطریقہ میں لوگ کم زیادہ ہوسکتے ہیں، پر محبت کے عظیم خزانے قدرت نے سب کے اندر رکھے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ کوئی اپنے اندر موجود ان خزانوں سے مشقت بھری زندگی میں بھی خوش گوار زندگی کا لطف حاصل کرلیتا ہے، اور کوئی خوش رہنے کی حسرت لئے ایک دن محبت کے خزانے کو بھی مٹی کے حوالے کردیتا ہے۔
’’محبت کی کنجیاں‘‘ ایک عظیم مربی ڈاکٹر صلاح سلطان کی عربی کتاب کا ترجمہ ہے، میں خوش ہوں کہ اس حسین وجمیل کتاب کے ترجمہ کی سعادت میرے حصے میں آئی۔ صلاح سلطان ایک بیباک عالم وداعی ہیں، ان کی زندگی سدا سے جیل اور جلاوطنی سے عبارت رہی ہے۔ ناقابل تصور صعوبتوں اور سختیوں کے باوجود ان کی زندگی بہت سارے حسین اہداف سے آراستہ رہی ہے۔ ان کا ایک خوب صورت ہدف یہ ہے کہ ہر شوہر اور ہر بیوی کو ایک دوسرے سے سچی، بے لوث اور بے حد وحساب محبت کرنا سکھایا جائے، تاکہ وہ انسانوں سے محبت کرنے والی صالح نسل کے معمار بن سکیں۔ یہ کتاب بھی اسی عظیم وحسین مشن کا حصہ ہے۔ مسلمان شوہر اور بیوی کو دنیا کے سارے جوڑوں سے زیادہ ایک دوسرے سے محبت کرنے والا ہونا چاہئے۔ کیونکہ ان کے پاس حقیقی اور سچی محبت کی وہ بنیادیں اور محرکات بھی ہیں، جن سے دوسرے محروم ہیں۔
اعلانیہ بے حیائی کے اس دور میں جبکہ ناجائز دوستیوں اور حرام محبتوں کا اظہار ایک فیشن بن گیا ہو، اور اس تباہ کن فیشن کو گھر گھر اور دل دل تک پہونچانے کے لئے تمام شیطانی طاقتیں یک جٹ ہوں، اس پاک محبت کو جو جائز ہی نہیں فرض بھی ہے، عام کرنا بہت ضروری ہے۔ اس پاکیزہ محبت کے سبق کو عام کرنے میں کسی قسم کی جھجھک اور کسی طرح کی شرم کو حائل نہیں ہونا چاہئے۔ گناہوں کی طرف بڑھتی نئی نسل کو یہ پیغام پوری قوت سے پہونچنا چاہئے کہ جائز رشتے ناجائز رشتوں سے کہیں زیادہ پرلطف اور زندگی کی لذتوں اور حرارتوں سے کہیں زیادہ بھرپور ہوتے ہیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ شوہر اور بیوی کا رشتہ وہ بندھن ہے جو مقدس ہی نہیں مبارک بھی ہوتا ہے۔
امید ہے بہت سارے شوہر اور بیویاں ان ’’محبت کی کنجیوں‘‘ سے اپنے اندر موجود محبت کے عظیم خزانے دریافت کرسکیں گے۔ اور انہیں آپس میں بانٹ لینے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
ناشر کتاب: ہدایت پبلشرز, دہلی
رابطہ نمبر:  9891051676

ایک تبصرہ شائع کریں