قرآن کی تلاوت ایک عظیم اور بے مثال انتظام

قرآن کی تلاوت
ایک عظیم اور بے مثال انتظام
محی الدین غازی
اللہ پاک نے مسلم امت کو قرآنی امت بنانے کا بہت زبردست انتظام کیا ہے، اور وہ تلاوت قرآن کا انتظام ہے، اس انتظام پر جس قدر غور کریں یقین بڑھتا جاتا ہے کہ یہ ایک بے مثال اور خاص الہی انتظام ہے۔ اس انتظام کے ہوتے ہوئے امت اگر قرآن سے دور ہوجائے تو افسوس اور تعجب تو بہت ہوتا ہے، تاہم قرآن سے دوبارہ قریب ہوجانے کا بھرپور امکان بھی روشن نظر آتا ہے۔
اس انتظام کی کچھ تفصیل یہ ہے کہ قرآن کی تلاوت کو کسی مخصوص طبقے کے لئے خاص کردینے کے بجائے اسے امت کے ہر فرد کا خاص مشغلہ بنادیا گیا، تلاوت کرنے کا بہت زیادہ اجر رکھا گیا تاکہ تلاوت کے لئے خوب تحریک ملے اور اس سے لوگوں کی دلچسپی ہمیشہ برقرار رہے، تلاوت کو ہر نماز کا حصہ بناکر تلاوت سے تعلق کو اور مضبوط کردیا گیا، ختم قرآن کی خصوصی فضیلت کا فائدہ یہ ہوا کہ بار بار پورے قرآن کی تلاوت کرتے رہنے کی راہ آسان ہوئی۔ حفظ قرآن کی فضیلت کا اثر یہ ہوا کہ قرآن کی ہر وقت تلاوت کرنے کا اہتمام ممکن ہوگیا، تلاوت میں بے نظیر صوتی حسن وجمال شامل کردیا گیا جس سے تلاوت ایک پرلطف اور روح افزا عمل بن گیا، اور شوق سے تلاوت کرنے کے ساتھ بہت بڑے پیمانے پر شوق سے تلاوت سننے کے سنہری مواقع بھی نکل آئے۔ قرآن کی تلاوت کے ذریعہ سے امت کو قرآن سے جوڑنے کا یہ ایسا زبردست انتظام ہے جس کی نظیر ساری دنیا میں نہیں ملے گی۔
قرآن کی تلاوت کا یہ عمومی انتظام امت کی رگ وپے میں اس طرح رچ بس گیا، کہ آج تک کسی نے یہ نہیں کہا کہ تلاوت کچھ لوگوں کے کرنے کا کام ہے، سب کے کرنے کا کام نہیں ہے، سب نے متفق ہوکر کہا کہ تلاوت سب کے کرنے کا کام ہے۔
قرآن کی تلاوت ایک عظیم کام ہے، اور اس کام کا ایک نہایت بڑا مقصد ہے، اور وہ بڑا مقصد یہ ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر اور اتنی کثرت سے تلاوت کرنے کے ذریعہ قرآن کے عظیم ترین فوائد اور اعلی ترین مقاصد کو بہت اچھی طرح حاصل کیا جائے۔
تلاوت کا یہ زبردست اور بے مثال انتظام اس لئے کیا گیا کہ اس کے ذریعہ سے وہ عظیم امت تیار ہو جو قرآن کی صحیح ترجمان بنے۔ لیکن زمانے کے گزرتے لوگوں نے تلاوت ہی کو اصل کام سمجھ کر اسی پر اکتفا کرلیا، اور اس کے ذریعہ سے شریعت جاننے اور حکمت سیکھنے کے عظیم مقصد کو نظرانداز کردیا۔
کیسی محرومی کی بات ہے کہ انسان روزانہ قرآن مجید کی تلاوت کرے، لیکن دل ودماغ دونوں ہی زبان کا ساتھ دینے کے بجائے مکمل طور سے غیر حاضر رہیں، خوش الحان تلاوت زبان کو حلاوت عطا کرے، اور کانوں میں رس گھولے، مگر نہ دل میں کوئی بات اترے، اور نہ دماغ پر کوئی پیغام دستک دے۔ دل ودماغ سے بالکل غیر متعلق ہوکر اتنے شوق سے اتنا زیادہ پڑھنے کی کوئی اور مثال نہیں مل سکتی ہے۔
کتنی عجیب بات ہے کہ کتاب الہی کا لفظ لفظ محفوظ ہو، اور اس کتاب محفوظ کی اتنے بڑے پیمانے پر اتنی کثرت کے ساتھ تلاوت کی جائے اور پھر بھی تلاوت کرنے والوں کا قرآنی کردار، قرآنی ذہن اور قرآنی مزاج نہیں بن سکے۔
سمجھ کر تلاوت کرنا بھی اگر سیکھنے کی نیت سے نہیں ہو بلکہ سمجھتے ہوئے تلاوت بھی صرف تلاوت کی نیت سے کی جائے تو سیکھنا حصے میں نہیں آتا ہے۔ اور جس نے قرآن سے سیکھا نہیں وہ قرآن کے اصل فائدے سے محروم رہا۔
حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ بہت سے لوگ عربی جانتے ہیں، مگر جب قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں، تو اپنے دل ودماغ کو غیر حاضر کرکے تلاوت کرتے ہیں، ان کے پیش نظر یہ ہوتا ہے کہ تلاوت کا ثواب مل جائے، تلاوت کا کوئی اور فائدہ ان کے سامنے ہوتا ہی نہیں ہے۔ حالانکہ تلاوت پر اجر اس لئے رکھا گیا کہ لوگ زیادہ شوق سے تلاوت کر کے دل ودماغ کو غذا اور توانائی عطا کریں۔
قرآن مجید اس لئے نازل ہوا ہے کہ وہ زمین پر بسنے والے انسانوں کی زندگی کو مثالی زندگی بنادے، ایمان اور عمل صالح ان کا طرہ امتیاز ہوجائے۔ ان کی سوچ اونچی سے اونچی ہوجائے، ان کا رویہ بہتر سے بہتر ہوجائے، اور ان کی ذات سب کے لئے مفید سے مفید تر ہوجائے۔
قرآن مجید کی تمام تعلیمات کا مقصد یہ ہے کہ قرآن پر ایمان لانے والوں کی ایک عظیم قرآنی امت تشکیل پا جائے۔ جس کی پہچان قرآن مجید کی تعلیمات ہوں۔ دور اول میں ایمان والوں کو قرآن والا (یا أھل القرآن) کے نام سے پکارا جاتا تھا، قرآن مجید اس امت کی امتیازی خصوصیت ہے، اسے ساری دنیا کے سامنے اپنے قول وعمل اور اخلاق وکردار سے قرآن کی بہترین ترجمانی کرنی ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم چلتا پھرتا قرآن تھے، اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے بڑی سنت یہی ہے کہ آپ کے ماننے والے بھی ہر طرح سے قرآن کا عملی نمونہ بن جائیں۔ یہ سنت ادا نہیں ہوئی تو گویا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل سنت ادا ہی نہیں ہوسکی۔
تلاوت کے اس زبردست انتظام کو جس قدر تقویت پہونچائی جائے، اچھا ہے۔ بھر پور تبلیغ کی جائے کہ لوگ زیادہ سے زیادہ قرآن پاک ختم کریں، شدت سے ابھارا جائے کہ لوگ زیادہ سے زیادہ قرآن پاک حفظ کریں، بار بار اکسایا جائے کہ تلاوت قرآن کی زیادہ سے زیادہ مجلسیں منعقد ہوں، خوش الحانی کے ساتھ خوب تلاوت ہو، اور لوگ شوق سے سنیں اور خوب سنیں۔ غرض قرآن کی تلاوت کا ہر طرف ماحول ہو، فرصت والے لوگ اپنے خالی اوقات تلاوت سے آباد کریں، اور مصروف لوگ تلاوت کے لئے اپنے اوقات فارغ کریں۔ تلاوت ہو اور خوب ہو، مگر ضروری ہے اور بہت ضروری ہے کہ تلاوت محض تلاوت نہیں ہو، تلاوت کے ساتھ سمجھنے اور سمجھنے کے بعد سوچنے کا عمل بھی ضرور انجام پائے، اور جب جب تلاوت ہو سمجھنے اور سوچنے کے عمل کے ہمراہ ہو، اس کے بغیر کبھی نہیں ہو۔
غرض امت کو قرآن مجید سے قریب کرنے کے لئے کسی نئے انتظام کو قائم کرنے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ پہلے سے قائم ایک زبردست انتظام میں روح لوٹانے کی ضرورت ہے۔
جس دن امت کی تلاوت میں روح اور زندگی لوٹ آئے گی، امت کے بیمار جسم میں بھی ضرور زندگی اور صحت دوڑے گی، کیونکہ امت کی زندگی اور طاقت کا سرچشمہ قرآن مجید ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں