زندگی پر حکومت نماز کی ہو

زندگی پر حکومت نماز کی ہو
محی الدین غازی
قرآن مجید میں نماز کو ایسی عبادت کے طور پر پیش کیا گیا ہے، جو زندگی کے تمام شعبوں پر حکومت کرتی ہے، وہ حکم جاری کرتی ہے، اور ممانعتیں صادر کرتی ہے۔ شعیب علیہ السلام نے جب اپنی قوم کو اصلاح کی دعوت دی، تو نافرمان قوم نے کہا: "شعیب کیا تمہاری نماز تمہیں یہ حکم دیتی ہے کہ ہمارے آباء جو پرستش کرتے رہے ہم وہ چھوڑ دیں، اور وہ منع کرتی ہے اس سے کہ ہم اپنے مال ودولت میں جو چاہیں سو کریں"۔ دوسرے مقام پر اللہ پاک نے نماز کے بارے میں بتایا کہ "بلاشبہ نماز بے حیائی اور برائی کے کاموں سے منع کرتی ہے"۔
زندگی اور نماز کو دو بالکل الگ الگ، اور ایک دوسرے سے لا تعلق خانوں میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا ہے۔ نماز کاروبار زندگی سے الگ تھلگ محض جائے نماز پر ادا کی جانے والی اور وہیں رہ جانے والی عبادت نہیں ہے۔ نماز کا صحیح مقام زندگی کا شہ نشین ہے، جہاں اسے اس طرح متمکن ہونا چاہئے کہ زندگی کے تمام شعبے اس کی نگرانی اور حکمرانی میں رہیں۔
سید قطب کو یہ بات سمجھ میں آگئی تھی، جب مصر کی ظالم اور سرکش حکومت نے ان کے خلاف پھانسی کا فیصلہ صادر کیا، اور ان سے معافی نامہ لکھنے کو کہا گیا، تو انہوں نے حکومت کے سامنے جھکنے کے بجائے نماز کے آگے سر تسلیم خم کیا، اور پورے اعتماد کے ساتھ کہا: شہادت کی انگلی جو نماز میں اللہ کی وحدانیت کی گواہی دیتی ہے، وہ ایسا ایک بھی حرف نہیں لکھ سکتی جس سے طاغوت کی حکومت کا اقرار ہوتا ہو۔
سید قطب سے پہلے یہی بات عمر مختار کو بھی الہام ہوئی تھی، جب وہ لیبیا پر اٹلی کے قبضے کے خلاف طویل جدوجہد کے بعد گرفتار ہوگئے، پھانسی کی سزا دینے سے پہلے مسولینی حکومت نے ان کے سامنے تجویز رکھی، کہ وہ مجاہدین کے لئے پیغام تحریر کردیں کہ وہ مزاحمت ختم کر کے اٹلی کے قبضے کو تسلیم کرلیں۔ تجویز میں یہ بھی تھا کہ اس پیغام کے بدلے عمر مختار کی جاں بخشی ہوجائے گی، اور انہیں گراں قدر دولت اور عیش وعشرت کا وافر سامان پیش کیا جائے گا۔ عمر مختار نے اٹلی حکومت کی تجویز کو ٹھکرادیا اور نماز کا فرمان سنا اور پھر بلا تردد کہا: میں نماز میں شہادت کی جس انگلی سے اللہ کی حاکمیت کی گواہی دیتا ہوں وہ انگلی ایک باطل پیغام نہیں لکھ سکتی ہے۔
نماز پر جس قدر غور کریں، یہ حقیقت روشن ہوتی جاتی ہے کہ نماز کا ایک ایک لفظ اور اس کا ایک ایک عمل پوری زندگی کے لئے زبردست پیغام رکھتا ہے۔
نماز کامل یکسوئی والی عبادت ہے، نماز کے دوران انسانی وجود کی ہر ہر چیز بندگی کے لئے یکسو ہوتی ہے، چہرے کا رخ، جسم کے اعضا کی پوزیشن، زبان سے نکلنے والا ایک ایک لفظ، آنکھوں کی پتلیاں اور دل کے خیالات، غرض ایک ایک چیز عبادت کی حالت میں رہتی ہے۔ بندگی کی ایسی کامل یکسوئی انسان کو صرف نماز میں حاصل ہوتی ہے، اس یکسوئی کے تجربے سے روزانہ بار بار گزرنے والے شخص کے لئے یہی زیب دیتا ہے کہ وہ زندگی کے ہر موقع پر پوری طرح اللہ کی طرف یکسو رہے۔ قرآن کی اصطلاح میں ایسے شخص کو حنیف کہتے ہیں۔
نماز میں طہارت اور صفائی کا جس قدر اہتمام مطلوب ہے، وہ نماز ہی کی خصوصیت ہے، جگہ پاک، جسم پاک، لباس پاک، اور اس پر پھر وضو کا اہتمام، روزانہ بار بار پاکی اور صفائی کا اس قدر خیال رکھنے والے کے شایان شان یہی ہے کہ وہ اپنی پوری زندگی میں ہر گندگی سے دور اور ہر وقت پاک وصاف رہے۔
نماز اتحاد واتفاق کے شیرازے میں پرودیتی ہے، اللہ کے جو بندے روزانہ بار بار اللہ کے گھر میں ایک ساتھ جمع ہوکر، صف بستہ ہوکر، ایک ساتھ نماز کے پورے عمل کو انجام دیں، ان کے اندر اگر بے مثال اتحاد واتفاق پیدا نہ ہو تو بہت زیادہ تعجب ہونا چاہئے۔ محبت والفت اور وحدت واتفاق کی ایسی تربیت گاہ تو دنیا میں کسی کو حاصل نہیں ہے۔
نماز میں بار بار اللہ اکبر کہنے والے پر لازم ہوتا ہے کہ زندگی کے ہر لمحے میں اللہ کی بڑائی اور کبریائی کو تسلیم کرے۔ والدین کا شفقت بھرا اصرار، بیوی کی پیار بھری ضد، کسی مفاد ومصلحت کا جبر اور کسی ظالم حکمراں کا قہر اللہ کی مرضی کی راہ میں ذرا بھی رکاوٹ نہ بنے۔ اللہ کی بڑائی کا نقش اس طرح دل پر ثبت ہوجائے، کہ اللہ کے مقابلے میں سب کچھ بے حیثیت اور بے وزن نظر آئے۔
نماز میں بار بار تسبیح کرنے والے کو اپنی پوری زندگی میں بلندی پسند اور پاکیزگی پسند ہونا چاہئے۔ تسبیح میں دو مطلب شامل ہیں، ایک مطلب ہے کہ میں اپنے رب کی عظمت بیان کرتا ہوں، اور دوسرا مطلب ہے کہ میں اپنے رب کی پاکی بیان کرتا ہوں، دونوں مطلب تسبیح کرنے والے کی شخصیت پر گہرا اثر ڈال سکتے ہیں، تسبیح کرنے والا انسان اپنے اندر عظمت اور بلندی کا شوق پیدا کرے، اور پاکیزگی کا دل دادہ ہو جائے۔ وہ نہ کبھی کسی پستی میں گرنا گوارا کرے، اور نہ کبھی کسی گندگی میں لت پت ہوجانا قبول کرے۔
نماز میں اللہ کے سامنے کھڑے ہوکر مالک یوم الدین کہنے والا، اس وقت کو کیوں نہ یاد کرے، جب حساب والا دن ہوگا، اور وہ یوم الدین کے مالک کے سامنے کھڑا ہوگا۔ نماز ادا کرنے والے کا دل زندگی کے ہر لمحے میں فکر آخرت سے لبریز رہنا چاہئے۔
ہر نماز میں ایاک نعبد کہہ کر اللہ کی بندگی کا عہد تازہ کرنے والا اگر دو نمازوں کے بیچ کے قلیل وقفے میں اللہ کی بندگی کے عہد کو پورا نہیں کرے تو ایسے عہد کا کیا اعتبار اور وزن رہ جاتا ہے۔
ہر نماز میں ایاک نستعین کہنے والے کو زندگی کے ہر مشکل موڑ پر اللہ کی مدد کا طالب ہونا چاہئے، اسے یقین ہونا چاہئے کہ اللہ کے مقابلے میں کوئی اس کی مدد نہیں کرسکتا۔ یقین کے ساتھ ایاک نستعین کہنے والے کے ذہن میں کسی اور طرف سے غیبی مدد کا خیال بھی نہیں آسکتا ہے۔ وہ ہرگز ایسا کوئی راستہ اختیار نہیں کرے جو اسے اللہ کی مدد سے محروم کردے۔
نماز میں اھدنا الصراط المستقیم کا ورد کرنے والے کے دل میں صراط مستقیم کا بے پناہ شوق امنڈ آنا چاہئے، نماز سے فارغ ہونے کے بعد اس کا ہر قدم صراط مستقیم سے وابستہ رہے۔ ہر بار مسجد سے باہر نکل کر مسجد واپس آنے تک زندگی کا سفر صراط مستقیم پر گزرے۔ اس کے اندر یہ شعور پیدا ہوجائے کہ کون سا راستہ اللہ کے محبوب بندوں کا راستہ ہے، اور کون سا راستہ اختیار کرنے والے اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ اور گمراہ ہوتے ہیں۔
نماز میں جو دعائیں پڑھی جاتی ہیں، وہ ساری کی ساری زندگی کو بدلنے کا طاقت ور پیغام دیتی ہیں، اور جو آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں، وہ سب کی سب شخصیت کی تعمیر کا زبردست سامان رکھتی ہیں۔
نماز میں صرف اللہ کے سامنے سر جھکانے اور پیشانی ٹیکنے کا مزا جس کو مل جائے، وہ کبھی کسی دوسرے کے سامنے سر نہیں جھکاسکتا ہے۔
ضروری ہے کہ نماز سے فارغ ہوتے ہوئے دونوں طرف رخ کرکے السلام علیکم کے الفاظ ادا کرنے والا انسان تمام انسانوں کے لئے سلامتی کا پیکر بن جائے، وہ سب کے لئے سلامتی پسند کرے اور سب کی سلامتی کا محافظ ہو جائے۔
غرض زندگی پر نماز کی ایسی حکمرانی ہو کہ ہر کام اور ہر اقدام سے پہلے بندہ ایک بار ضرور سوچے کہ اس کی نماز اس سے کیا کہتی ہے۔
زندگانی پہ حکمرانی ہو
نماز آمر ہو اور ناہی ہو

ایک تبصرہ شائع کریں