پیارے محمد دشمنوں کے بھی ہمدرد

پیارے محمد دشمنوں کے بھی ہمدرد
محی الدین غازی
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، اور اللہ نہایت مہربان اور بڑا دیالو ہے، اس نے آپ کو سارے انسانوں کے لئے رحمت بناکر بھیجا، آپ محبت اورہمدردی سے بھرا حق کا پیغام لے کر آئے، آپ نے کسی سے دشمنی نہیں کی، لوگوں نے آپ سے دشمنی کی۔ اور جس نے آپ سے دشمنی کی اس سے بھی آپ نے ہر موقع پر اچھا ہی سلوک کیا۔
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حق کی روشنی تھی، آپ کی تعلیمات سارے انسانوں کے لئے تھیں، اور اس میں سارے انسانوں کی بھلائی تھی، آپ کا پیغام روشن دلائل سے بھرپور تھا، اور آپ کی اصل طاقت آپ کا یہی مدلل اور روشن پیغام تھا، اجالے کے دشمن اس روشنی کو پھیلنے سے روکنا چاہتے تھے، اور اسے روکنے کے لئے جھوٹا پروپیگنڈہ استعمال کرتے اور بے سروپا الزامات لگاتے، لیکن دشمنوں کی پھونکوں سے حق اور سچائی کا یہ چراغ بجھتا نہیں تھا، جب وہ اپنے اوچھے اور گمراہ کن ہتھکنڈوں میں ناکام ہوجاتے تو طاقت کے ذریعہ اس دعوت کو پھیلنے سے روکتے، اور پیارے نبی اور آپ کے سچے ساتھیوں کی جان کے دشمن بن جاتے۔ ایسے دشمنوں کے ساتھ بھی پیارے نبی کا سلوک بہت اچھا ہوتا تھا۔ کسی نے کتنے ہی جرم کئے ہوں آپ معاف کرنے کے لئے ہمیشہ تیار رہتے۔ آپ کو بس ایک فکر تھی اور ایک ہی تڑپ تھی کہ سارے انسان سلامتی کا راستہ پاجائیں۔ نادان دشمن آپ کی جان کے پیچھے پڑے رہتے تھے، اور آپ ان کی نجات اور کامیابی کے لئے بے چین رہتے تھے۔
آپ کے راستے میں کانٹے بچھانے اور آپ پر کوڑا ڈالنے والے بیمار ہوجاتے تو آپ ان کے گھر تیمار داری کرنے پہونچ جاتے۔ پتھر مار مار کر آپ کو زخمی کردینے والوں پر عذاب کے فرشتے تباہی مسلط کرنے کی اجازت مانگتے تو آپ انہیں روک دیتے، آپ کو قتل کرنے کی نیت سے آنے والے جب گرفتار ہوجاتے تو آپ انہیں آزاد کردیتے، آپ کو طرح طرح سے برسہا برس ستانے والے جب مغلوب ہوجاتے تو آپ سب کو معاف کردیتے۔
آپ کے یہاں معافی کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوتا تھا، خطرناک سے خطرناک جرم کرنے والے دشمن جب توبہ کرنے آجاتے تو آپ ان کے سر پر دست شفقت پھیرتے اور انہیں نئی اور پاک وصاف زندگی گزارنے کا مضبوط حوصلہ عطا کرتے۔
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم یہ تھی کہ آپ پر ایمان لانے والے اپنے والدین اور رشتے داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرتے رہیں چاہے ان کے والدین آپ کی کتنی ہی مخالفت کرتے ہوں۔
جنگ بدر میں دشمن خود مدینے پر حملہ کرنے آئے، دشمنوں کی نیت تھی کہ آپ کی اور آپ کے ساتھیوں کی پوری بستی کو تباہ اور برباد کرڈالیں اور نبوت کی شمع کو ہمیشہ کے لئے بجھادے، تا کہ کبھی کسی کو روشنی اور سیدھا راستہ نہں ملے۔ لیکن دشمنوں کے ارادے ناکام ہوئے اور انہیں بری طرح شکست ہوئی اور ان کے بہت سے لوگ قید ہوگئے، ان کا جرم ایسا تھا اور اس وقت کا رواج بھی یہی تھا کہ انہیں قتل کردیا جاتا تو کوئی بری بات نہیں ہوتی۔ لیکن پیارے نبی نے سب کو زندہ چھوڑدیا، ایک کو بھی قتل نہیں کیا۔ ان قیدیوں میں سہیل بن عمرو تھے، وہ بہت ماہر مقرر تھے، اور اپنی تقریروں میں پیارے نبی کے خلاف زہر اگلتے تھے، لوگوں نے مشورہ دیا کہ ان کو قتل نہیں کریں تو کم از کم سامنے کے دانت نکال دیں تاکہ وہ زہریلی تقریریں نہیں کرسکیں، پیارے نبی نے کہا یہ بھی نبی کے شایان شان نہیں ہے، اور انہیں آزاد کردیا۔
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کرنے کے لئے دشمن بڑی بڑی فوج لے کر آتے، اور جب قید ہوجاتے تو آپ اپنے ساتھیوں کو نصیحت کرتے کہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو، وہ انہیں اچھا کھانا کھلاتے اور خود سادہ اور معمولی کھانا کھاتے۔ جان لیوا دشمنوں کے خطرناک قیدیوں کے ساتھ اتنا اچھا سلوک نہ آپ سے پہلے کبھی ہوا ہوگا نہ آپ کے بعد ہوا ہوگا۔
ایک موقع پر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آبادی سے دور درخت کے سائے میں آرام فرمارہے تھے، کہ ایک دشمن ادھر آیا اور تلوار لے کر آپ کے سر پر کھڑا ہوگیا اور پوچھا، محمد آج مجھ سے تمہیں کون بچاسکتا ہے، آپ نے پورے اعتماد کے ساتھ جواب دیا، میرا رب۔ اور پھر رب کا کرنا یہ ہوا کہ اس آدمی پر دہشت طاری ہوئی اور تلوار اس کے ہاتھ سے گر پڑی، آپ نے تلوار اٹھائی تو وہ معافی مانگنے لگا، آپ نے اسے بھی معاف کردیا۔
ہر نبی کی طرح آپ بہت دیانت دار اور امین تھے، آپ کی دیانت داری پر آپ کے مخالفوں اور آپ کے دشمنوں کو بھی بھروسہ رہتا تھا۔ وہ اپنی امانتیں آپ کے پاس لا کر رکھا کرتے تھے۔ جب مکہ والوں کے بہت ستانے کے بعد آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کا ارادہ کیا، تو اس وقت بھی آپ کے پاس مکہ کے بہت سے لوگوں کی امانتیں رکھی ہوئی تھیں، اور آپ نے جانے سے پہلے اپنے چچا زاد بھائی حضرت علی کو وہ ساری امانتیں سونپ دیں، کہ ہر ایک کو اس کی امانت حوالے کردیں۔ کیسا عجیب منظر تھا کہ گھر کے باہر مکہ کے جوان ننگی تلواریں لئے آپ کا انتظار کررہے تھے کہ آپ جیسے ہی گھر سے نکلیں وہ آپ پر ٹوٹ پڑیں، اور آپ گھر کے اندر مکہ والوں کی امانتیں لوٹانے کا بھروسے مند انتظام کررہے تھے۔
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانوں بلکہ تمام جان داروں کے لئے نہایت مشفق اور مہربان تھے، دشمنوں کے ساتھ بھی آپ کا رویہ نہایت اعلی اخلاق کا تھا، یہی وجہ تھی کہ عرب کے قبیلے کئی برس تک صرف حق دشمنی اور ہٹ دھرمی میں آپ کے مخالف اور دشمن رہے، لیکن بعد میں آپ کی اعلی تعلیمات اور اونچے اخلاق سے متاثر ہوکر دین اسلام میں جوق در جوق داخل ہوتے گئے اور آپ پر اپنی جان چھڑکنے کے لئے تیار ہوگئے۔
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے یہ سبق بہت روشن ہوکر سامنے آتا ہے، کہ سچائی کا پیغام لے کر اٹھنے والوں کے دشمن کتنے ہی زیادہ ہوں لیکن اگر ان کے پاس حق کی روشنی اور اخلاق کی بلندی ہے، اور اگر ان کے دل میں سب کے لئے شفقت اور مہربانی ہے، تو لوگوں کے دل جیتنے میں دیر نہیں لگتی ہے۔
ثمامہ بن اثال ایک قبیلے کے سردار تھے، انہوں نے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک قافلے پر حملہ کیا، حملہ ناکام ہوا اور قید کر کے آپ کے پاس لائے گئے، آپ نے انہیں مسجد کے ستون سے باندھ کر قید کردیا، تین دن تک ثمامہ مسجد میں رہ کر آپ کے اعلی اخلاق دیکھتے رہے، تیسرے دن ثمامہ نے آپ سے کہا، کل تک اس دنیا میں آپ کے چہرے سے زیادہ مبغوض کوئی چہرہ نہیں تھا، آپ کے شہر سے زیادہ مبغوض کوئی شہر نہیں تھا، اور آپ کے دین سے زیادہ مبغوض کوئی مذہب نہیں تھا، لیکن آج آپ کے چہرے سے زیادہ محبوب مجھے کوئی چہرہ نہیں ہے، آپ کے شہر سے زیادہ محبوب کوئی شہر نہیں ہے، اور آپ کے دین سے زیادہ محبوب کوئی دین نہیں ہے۔
ثمامہ ایسے اکیلے آدمی نہیں تھے، ہزاروں لوگ ایسے تھے جو پہلے تو آپ سے نفرت اور دشمنی کرتے، لیکن بعد میں آپ کی تعلیم اور آپ کے اخلاق سے اتنا متاثر ہوتے کہ آپ کے وفادار دوست بن جاتے، آپ پر جان چھڑکنے کے لئے تیار رہتے، اور آپ کی ایک ایک تعلیم پر عمل کرنے کے لئے دوڑ پڑتے۔
دشمنوں کے ساتھ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بہترین سلوک کے بے شمار واقعات میں تمام مسلمانوں کے لئے بہترین نمونہ ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں