دل کا آدھا ایمان، دل کی صفائی

دل کا آدھا ایمان، دل کی صفائی
محی الدین غازی
آسمان سے بارش اس لئے ہوتی ہے کہ زمین میں زندگی کی لہر دوڑ جائے، اور یہ بارش اس لئے بھی ہوتی ہے کہ زمین غسل کرکے پاک وصاف ہوجائے (وأنزلنا من السماء ماء طھورا۔ اور ہم نے آسمان سے پانی اتارا جو طہارت دینے والا ہوتا ہے) زمین اور زمین کی ہر چیز کو صاف ستھرا رکھنے کا یہ زبردست قدرتی انتظام ہے۔
آنکھوں میں آنسووں کی برکھا اس لئے رکھی گئی ہے، کہ دل کے اوپر لگا ہوا غفلت کا زنگ اور دل کے اندر پھیلی ہوئی گناہوں کی گندگی بہ جائے اور من کی دنیا اچھی طرح صاف اور پاکیزہ ہوجائے۔ آنسووں کا اس سے بہتر کوئی مصرف نہیں ہے، دل کو صاف ستھرا رکھنے کا یہ زبردست قدرتی انتظام ہے، جس سے روز فائدہ اٹھانا چاہئے۔
زرخیز زمین پر کسی اچھے پودے کی نشوونما کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اس کے آس پاس گھاس نہیں اگنے دی جائے، گھاس پودے کو جکڑ لیتی ہے، اس کی نشوونما روک دیتی ہے، اور جس پودے کو ایک تن آور درخت بننا تھا، وہ بہت جلد مرجھا جاتا ہے۔ اچھا مالی پودوں کے قریب اگی گھاس کو اکھاڑ کر دور پھینک دیتا ہے، اور اس طرح پودوں کی بہتر نشوونما کے لئے راستہ ہموار کردیتا ہے۔
دل میں بسی ہوئی چھوٹی چھوٹی خواہشات کی جب کثرت ہوجاتی ہے، تو بڑے خواب اور عظیم ارادے دب جاتے ہیں، یہ خواہشات بسا اوقات گندی نہیں ہوتی ہیں، لیکن جب زیادہ ہوجاتی ہیں تو گھاس کی طرح بڑے خوابوں سے لپٹ کر ان کے مرجھانے کا سبب بن جاتی ہیں۔ تربیت ذات کی فکر رکھنے والے چھوٹی خواہشات کو دل سے نکالتے رہتے ہیں، اور اونچے عزائم کی نشوونما پر پورا دھیان دیتے ہیں۔
جب چھوٹے صلے کی خواہشں دل میں بسیرا کرلیتی ہے، تو بڑے سے بڑے کام کو گھٹا کر چھوٹا کردیتی ہے، اللہ کی عبادت اور انسانوں کی خدمت کے بڑے بڑے کام جب حقیر صلے سے جوڑ دئے جاتے ہیں، تو وہ بہت حقیر اور بے وزن ہوجاتے ہیں۔ بڑے کاموں کا جذبہ پالنے والوں کے لئے ضروری ہے کہ اپنے دل کی صفائی کرکے اس میں بڑے انعام کی تمنا سجائیں، اور اللہ کی خوش نودی سے بڑا انعام کیا ہوسکتا ہے۔
دوسروں سے متعلق شکایتیں، چاہے وہ درست ہی کیوں نہ ہوں، دل میں زیادہ دیر بساکر رکھنے کی نہیں ہوتی ہیں، ایسی شکایتیں زیادہ ہوجاتی ہیں تو دل کے اندر بہت زیادہ جگہ گھیر لیتی ہیں، اور جب اونچے اور قیمتی خیالات مہمان بن کر آتے ہیں، تو دل کو بے حد مصروف اور کھچا کھچ بھرا ہوا دیکھ کر دور سے ہی لوٹ جاتے ہیں۔
دل کے اندر کسی گناہ کی لذت کا احساس کا پایا جانا خطرناک ہوتا ہے، جس طرح دیوار پر لگے شیرے پر مکھیاں بھنبھناتی ہیں، اسی طرح دل کی دیوار پر گناہ کی لذت کا گندا شیرا لگا ہو تو نفسانی خواہشات مکھیوں کی طرح بھنبھنانے لگتی ہیں، ہر گناہ میں ایک پہلو نفرت کا ہوتا ہے جو سامنے رہے تو اس گناہ سے گھن آتی ہے، اور ایک پہلو لذت کا ہوتا ہے، جس کی وجہ سے نفس گناہ کی طرف لپکتا ہے، گناہوں سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ دل پر گناہوں سے نفرت کا احساس غالب رہے، اور گناہوں کی لذت کے احساس سے دل بالکل آزاد اور محفوظ رہے۔ سچی توبہ وہی ہے جو گناہ سے نفرت پیدا کرے اور اس کی لذت کے احساس کو دل سے بالکل نکال دے۔
علم اللہ کا نور ہے، یہ نور دل میں اس وقت بسیرا کرتا ہے، جب دل صاف ستھرا ہوتا ہے، اللہ کا نور گندی جگہ کو اپنا مسکن نہیں بناتا ہے۔ جسے علم وآگہی کی سچی طلب ہوتی ہے، وہ دل کی پاکیزگی پر پورا دھیان دیتا ہے۔ نفرت، کینہ، تکبر اور حسد جیسی دل کی بیماریاں انسان کو سچی آگہی سے محروم کردیتی ہیں، اس پر منفی سوچ کو مسلط کردیتی ہیں، اس کی قوت عمل سلب کرلیتی ہیں، اور اس کے نامہ اعمال کو سیاہ کردیتی ہیں۔
گناہ کرنے سے دل پر سیاہ نقطہ پڑتا ہے، گناہوں کی تکرار سیاہ نقطوں کو بڑھاتی رہتی ہے۔ یہ ایک پہلو ہے، دوسرا پہلو یہ ہے کہ جب بندہ کسی گناہ سے سچے دل سے توبہ کرتا ہے، اور گناہ کی اکساہٹ کے باوجود پیچھے ہٹ جاتا ہے، تو اس کا طہارت بخش اثر پورے دل پر پڑتا ہے، اور ایسا لگتا ہے جیسے پورے دل میں صفائی کی ایک لہر دوڑ گئی ہو، دل کا ماحول پاکیزہ پاکیزہ معلوم ہوتا ہے۔ کسی ایک گناہ سے بھی دامن بچالینے کو تطہیر قلب کا سنہری موقع سمجھنا چاہئے۔
رب کی تسبیح سے قلب کی تطہیر کے راستے روشن ہوجاتے ہیں، اپنے عظیم اور اعلی رب کی پاکی بیان کرتے ہوئے اپنی پاکیزگی کا خیال آنا ضروری ہے۔ عقل رکھنے والا بندہ ضرور سوچتا ہے کہ میری نسبت میرے پاک رب کی طرف اسی وقت درست ہوسکے گی، جب میں خود گندگی سے نکل کر پاکیزگی اختیار کروں۔ گندگی سے دل لگانے والے کس منھ سے پاک رب کی تسبیح کرسکتے ہیں، اور بھلا کیا وقعت ہے ان کی تسبیح کی۔
نماز سے پہلے وضو کرنے کا دل پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے، وضو کرتے ہوئے اگر باطن کی طرف بھی توجہ ہو تو ہاتھ، چہرے اور پاؤں کے ساتھ دل کا وضو بھی ہوجاتا ہے، اور دل کی دیواروں پر چپکے ہوئے گناہ جھڑ جھڑ کر وضو کے پانی کے ساتھ بہنے لگتے ہیں۔ بس وضو کرتے ہوئے نیت یہ رہے کہ ظاہر کے حوالے سے باطن کی پاکیزگی مقصود ہے۔
دل کی حضوری کے ساتھ قرآن پاک کی تلاوت کی جائے، تو دل ایسے عالم میں پہونچ جاتا ہے جہاں ہر طرف اس کی پاکیزگی اور طہارت کا سامان ہوتا ہے۔ ہر آیت دل کو پاکی عطا کرتی ہے، ہر طرف موثر تذکیریں، ہر جانب روشن ہدایتیں، ہر سو خواہشات نفس کا رخ درست کردینے والی نصیحتیں، راحتوں سے بھرپور جنت کی باتیں جو زمین کی تمام پستیوں سے بالکل بے نیاز کردیں، خوف ناک انجام کی باتیں جو ہر گندے خیال اور ہر خراب کام میں جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ دکھائیں، اور سب سے بڑھ کر اللہ کی عظمت وجلال کے ایسے جلوے جو انسان کے اندر بلندیوں کی طرف لپکنے اور رب کی طرف دوڑنے کا شوق پیدا کردیں۔ مثالی تلاوت یہی ہے کہ انسان قرآن کی تلاوت کرتا جائے، اور دل کا ہر داغ دھلتا جائے، یہاں تک کہ دل آئینے کی طرح چمکنے لگے۔
قرآن مجید میں جنت کا ایسا تعارف ہے جو دل میں پاکیزگی کا شوق پیدا کردے، (وسقاھم ربھم شرابا طھورا۔ ان کا رب انہیں پاکیزہ مشروب پلائے گا) ، (لھم فیھا أزواج مطھرۃ۔ ان کے لئے جنت میں پاکیزہ جوڑے ہوں گے)۔ جہاں ہر چیز پاکیزہ ہو وہاں جانے اور رہنے کے لئے پاکیزگی اختیار کرنا ضرور پہلی شرط ہوگی، جو شخص گندگی میں لت پت رہنا پسند کرتا ہو وہ بھلا جنت میں رہنے کا مستحق کیسے ہوسکتا ہے۔
پاک کلمہ دل کی پاکیزگی کا بہت بڑا انتظام ہے، "لا الہ" دل کو شرک سے پاک کرتا ہے، اور "الا اللہ" دل کو توحید سے آباد کرتا ہے۔
غرض اللہ پاک کی طرف سے دل کو پاک رکھنے کے بہت سے انتظامات رکھے گئے ہیں، شرط یہ ہے کہ بندہ پاکیزگی کی فکر اور طہارت کا شوق لے کر دل کی سیر کرتا رہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں