انصاف اور آزادی کے بدلے امن اور سلامتی

انصاف اور آزادی کے بدلے امن اور سلامتی
(کیا امن پسندی دوسروں کی پسند، مگر امت کی کمزوری بن گئی ہے؟)
محی الدین غازی
سیدنا حسن نے امت کو خون خرابے سے بچانے کے لئے اقتدار سے علیحدہ ہوجانے کو ترجیح دی، اور اس طرح امت ایک بڑی خوں ریزی سے بچ گئی جس کا ہونا یقینی تھا، کیونکہ فریق مقابل کو اقتدار کی خاطر خوں ریزی سے ذرا بھی تردد نہیں تھا، اور یہ ممکن ہی نہیں رہ گیا تھا کہ دونوں فریق مل کر کسی تیسرے متبادل پر گفتگو کرسکیں۔ اس وقت جب کہ ایک فریق ڈنکے کی چوٹ پر "فلیطلع لنا قرنہ" (کون ہے ہم سے زیادہ حق دار نکال کر دکھائے اپنا سینگ) بول رہا تھا، تو دوسرا فریق امن کی خاطر آخری حد تک پیچھے ہٹ جانے کے لئے آمادہ اور تیار ہوگیا تھا۔
امن کی خاطر اقتدار سے دست بردار ہونے کا یہ اقدام سیدنا حسن کا اجتہاد تھا، سیدنا حسین کو اس اجتہاد سے اتفاق نہیں تھا، اور یہ اتفاق نہ کرنا سیدنا حسین کا اجتہاد تھا۔ دونوں میں سے کس کا اجتہاد درست تھا اس کا علم اللہ کو ہے، تاہم یہ بات یقینی ہے کہ دونوں کے پیش نظر امت کا مفاد تھا، ان دونوں میں سے کسی کے سامنے ذاتی یا خاندانی مفاد نہیں تھا۔
خاص بات یہ ہے کہ اسی طرح کے ایک نازک موقع پر سیدنا ابن عمر نے بھی ان لوگوں کی طرف سے متوقع خون خرابے سے بچنے کے لئے دل کی بات دل ہی میں رہنے دی اور زبان پر نہیں آنے دی، فخشيت أن أقول كلمة تفرق بين الجمع، وتسفك الدم (صحیح بخاری)
تاہم بعد کے ادوار میں سیدنا حسن اور سیدنا ابن عمر کے اس اقدام کو اقتدار کے غرور اور نشے میں مست رہنے والوں نے امت کے صالحین کی کمزوری سمجھ لیا، اور یہ بھانپ لیا کہ یہ پاکیزہ نفس لوگ امت کو خون خرابے سے بچانے کے لئے اہل اقتدار کی ہر حرکت کو انگیز کرتے رہیں گے۔ امت کو خون خرابے سے بچانے کی مصلحت کا اتنا شور ہوا کہ پھر وہ مصلحت واقعی صالحین کی کمزوری بن گئی، وقت کے گزرتے کسی طرح اس مصلحت کے حق میں فقہی اور کلامی لٹریچر بھی وجود میں آگیا، اور اس طرح اہل اقتدار کو دین دار طبقے کی جانب سے غیر معمولی قسم کا تحفظ حاصل ہوگیا۔
فقہی اور کلامی لٹریچر میں طرفہ تماشا یہ بھی رہا کہ خون خرابے کی فکر رکھنے والوں کے نزدیک اہل اقتدار کے اوپر خون خرابے کو روکنے کی کوئی ذمہ داری نہیں رہتی ہے، اہل اقتدار کو کوئی شخص شریعت اور انسانیت کا یہ فیصلہ نہیں سناتا ہے کہ تمہارے ظلم وناانصافی کے نتیجے میں عوام نے بغاوت کی تو ساری خوں ریزی کا خمیازہ تمہارے سر ہوگا، اس کے برعکس عوام سے کہا جاتا ہے کہ حاکم لاکھ ظلم کے پہاڑ توڑے، اگر تم نے سر اٹھایا تو جو بھی بد امنی پھیلے گی اس کی ذمہ داری صرف اور صرف تمہارے سر ہوگی۔
بلاشبہ امن بہت بڑی نعمت ہے، اور امن پسندی بہت اچھا اور سب کے نزدیک نہایت پسندیدہ رجحان ہے، اس میں کسی کو اختلاف نہیں ہوسکتا ہے، لیکن اگر امن پسندی ایک کمزوری بن جائے جس کا فائدہ صرف شرپسند اٹھائیں، تو ایسی امن پسندی کے جواز پر سوال اٹھنا فطری بات ہے۔
امن پسندی کا صحیح محل یہ ہے کہ سب لوگ مل کر ایسے سماج اور ایسی ریاست کو تشکیل دیں، جس میں کوئی کسی پر ظلم نہ کرے، اور کوئی کسی کی حق تلفی نہیں کرے۔ ایسے پرامن اور انصاف سے آراستہ سماج اور ریاست میں اگر کوئی بدامنی کا راستہ اختیار کرتا ہے تو اس کا ہاتھ پکڑنا سب کی ذمہ داری ہے۔
لیکن ایسا سماج اور ایسی ریاست جس میں ناانصافی اور ظلم کو قبول کرلینے کی بھاری قیمت ادا کرکے ہی امن ملتا ہو، اور وہاں پر جو ظلم وناانصافی کے خلاف آواز اٹھائے اس کو امن سے محروم کردیا جائے، اور اگر سماج وریاست کے سب لوگ عدل وانصاف کی خاطر اٹھیں تو ان سب کے خون کی ندیاں بہادی جائیں، اور پھر انہیں کو اس کا ذمہ دار بھی قرار دیا جائے، ایسا امن حاصل کرنا نفع کا سودا ہے یا خسارے کا سودا ہے اس کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔ دور حاضر کا مشاہدہ تو یہی بتاتا ہے کہ امن پسندی کے نام پر عافیت کی راہ اختیار کرنے والوں کو امن تو مل جاتا ہے، لیکن انہیں ظلم سے نجات نہیں ملتی ہے۔ ان کی حیثیت امن کی دولت سے مالا مال غلاموں کی ہوتی ہے۔
نہایت افسوس اور شرم کی بات ہے کہ اس وقت عالم اسلام کے بیشتر ملکوں میں امن پسندوں کو امن پسندی کی اور انصاف پسندوں کو انصاف پسندی کی بھاری قیمت چکانی پڑ رہی ہے۔ باقی دنیا میں انصاف اور آزادی کے عوض امن نہیں ملتا ہے، بلکہ انصاف اور آزادی کے ساتھ امن بھی ملتا ہے۔ صرف مسلم دنیا میں یہ اصول رائج ہے کہ انصاف اور آزادی مانگو گے تو امن سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا۔
شام میں بہتے ہوئے خون کے دریا، مصر میں بھرے ہوئے قید خانے، یمن میں اجڑے ہوئے خاندان اور لیبیا میں بکھرے ہوئے کھنڈرات اب دوسرے مسلم ملکوں کے سرکاری بیانوں اور دینی خطبوں میں بطور عبرت اور ازراہ حجت ذکر کئے جاتے ہیں، کہ انصاف اور آزادی کے خواب دیکھنے کا انجام دیکھو اور سخت عبرت پکڑو۔
کیا امن پسندی کا مطلب ہمیشہ ہمیش کی غلامی قبول کرلینا ہے؟ یہ وہ شدید قسم کی پیچیدگی ہے جس میں پوری مسلم امت گرفتار ہے، سیاسی اور سماجی اصلاح کا ایسا راستہ کیسے نکلے جو تشدد اور خوں ریزی سے پاک ہو؟، کس طرح امن پسندی امت کی کمزوری نہ بن کر امت کی آزاد پسند بن جائے، کہ کوئی اس کی آڑ میں امت کا استحصال نہیں کرسکے؟، اس پر بہت زیادہ سوچنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ امت میں بے چینی کی ہر کروٹ پر خون کے فوارے ابلتے رہیں گے، جس پر ظلم کے پرستار خونی رقص کرتے رہیں گے، اور امن کے پاسبان امن کے نغمے گاتے رہیں گے۔

ایک تبصرہ شائع کریں