قرآن سے دوری، عقل سے دور کردیتی ہے

قرآن سے دوری، عقل سے دور کردیتی ہے
محی الدین غازی
عقل اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے، اس کا بھرپور استعمال ہو۔ غوروفکر زندگی کے سرمائے کو سمجھنے کا نہایت قیمتی موقع ہوتا ہے، اس سے پورا پورا فائدہ اٹھایا جائے۔ تلاش کرنے والوں پر تعمیر وترقی کے نئے نئے راستے کھلتے ہیں، سو تلاش وجستجو کی مہم پر بار بار نکلا جائے۔ صحیح اور غلط کا فرق تحقیق سے معلوم ہوتا ہے، پس تحقیق کا سفر جاری وساری رہے۔ یہ بہت واضح، نہایت ٹھوس اور خوب روشن حقیقتیں ہیں، ان سے غفلت بڑی مجرمانہ غفلت ہے، اور ان سے محرومی بہت بڑی محرومی ہے۔
بہت بڑا سوال یہ ہے کہ مسلمان عام طور سے اس غفلت اور اس محرومی کا شکار کیوں ہیں؟ اور اس سوال کی شدت میں اضافہ ہوجاتا ہے یہ دیکھ کر کہ قرآن مجید میں غور وفکر اور تحقیق وجستجو پر بہت زیادہ اور بار بار ابھارا گیا ہے۔ اتنے طاقت ور محرک کے ہوتے ہوئے بھی پوری امت اس تحریک سے خالی کیوں نظر آتی ہے؟ جب کہ دوسرے انسانوں کے پاس اتنا طاقت ور محرک نہیں ہے، پھر بھی وہ مسلمانوں سے بہت زیادہ آگے ہیں۔
مسلم سماج کے مختلف گوشوں کا جائزہ لیں تو جگہ جگہ توہمات وخرافات کے دروازے کھلے ہوئے ملیں گے، فضول رسم ورواج اور نامعقول رویوں اور عقل دشمن کرداروں کی بہتات ملے گی، اور عقل پر ہر جگہ بڑا سا تالا لٹکتا ہوا نظر آئے گا۔
غور وفکر اور تحقیق وجستجو سے اس افسوس ناک دوری کی کئی وجوہات بہت واضح طور سے نظر آتی ہیں۔
اس کی پہلی وجہ مسلمانوں کی قرآن مجید کو سمجھنے سے بہت زیادہ دوری ہے۔ بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ مسلمان جس قدر قرآن سے دور ہوتا ہے اسی قدر عقل سے دور ہوتا ہے، اور جتنا زیادہ وہ قرآن سے قریب ہوگا اتنا ہی زیادہ وہ عقل سے قریب ہوگا۔ کیوں کہ قرآن مجید بے عقلی کی تاریک بھول بھلیوں سے نکال کر عقل وفہم کے اجالوں میں لانے والی کتاب ہے۔ کوئی اور کتاب اس خوبی سے اتنی زیادہ مالا مال نہیں ہے۔ قرآن مجید تو غوروفکر پر مجبور کردینے والی کتاب ہے۔ افسوس کہ مسلمانوں کا قرآن سے تعلق قرآن خوانی تک محدود ہوگیا ہے، جب کہ قرآن کو سمجھنے اور سمجھنے کے بعد خوب سوچنے کا تعلق ضروری حد تک مطلوب ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں عقل سے شدید قسم کی بدگمانی اور اس کے استعمال سے شدید نوعیت کا خوف پایا جاتا ہے۔ ان کے ذہنوں میں یہ اندیشہ بیٹھا ہوتا ہے، کہ عقل کا استعمال انسان کو گمراہ کردیتا ہے۔ مثال کے طور پر درج ذیل دو مشہور اشعار ملاحظہ ہوں:
تازہ مرے ضمیر پر معرکہ کہن ہوا عشق تمام مصطفی، عقل تمام بولہب
عقل آمد دین ودنیا شد خراب عشق آمد در دو عالم کامیاب
عقل سے بدگمان رہنے کی وجہ سے مسلمان جب بھی غوروفکر کے میدان میں قدم رکھتے ہیں تو ڈرتے ڈرتے اور جھجھکتے ہوئے چلتے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ خبردار کرنے والوں نے امت کو دین کے سلسلے میں عقل کا استعمال کرنے سے خبردار کیا ہے، دنیا کے سلسلے میں عقل کا استعمال کرنے سے انہیں نہیں روکا ہے۔ تاہم اس سلسلے میں دو باتیں پیش نظر رکھنا ضروری ہیں، ایک تو یہ کہ دین کے سلسلے میں عقل کے استعمال پر پابندی لگانے کا کوئی تصور ہمیں قرآن مجید میں نہیں ملتا ہے۔ دوسرے یہ کہ جب زندگی کے ایک پہلو میں عقل سے متنفر یا خوف زدہ کردیا جاتا ہے تو اس کا اثر زندگی کے باقی تمام شعبوں پر بھی پڑتا ہے۔ اور یہی ہوا، مسلمانوں کے عقل سے دور ہوجانے کی وجہ سے ایک طرف تو دینی امور میں ان کا بہک جانا آسان ہوگیا، دوسری طرف دنیا کے میدانوں میں بھی وہ عقلی پسماندگی کا شکار ہوگئے۔
عقلی پسماندگی کی تیسری وجہ سنی سنائی باتوں سے مسلمانوں کی زیادہ بلکہ حد سے بڑھی ہوئی دلچسپی ہے۔ سنی سنائی باتوں پر آنکھ بند کرکے یقین کرلینے کا مزاج تحقیق وجستجو کے مزاج سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ ان دونوں مزاجوں میں سے کوئی ایک جتنا بڑھتا ہے دوسرا اتنا ہی زیادہ گھٹتا چلا جاتا ہے۔ شیخ محمد غزالی امت کی بیماریوں کی تشخیص کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "مسلمانوں کی پسماندگی کا ایک سبب روایتوں سے ان کی ضرورت سے زیادہ دلچسپی ہے، صحیح روایتیں تو چند ہزار ہوں گی، مگر مسلمانوں میں جو رائج روایتیں ہیں، اور جو انہیں مشغول رکھتی ہیں، وہ لاکھوں کی تعداد میں ہیں، اس چیز نے مسلم دماغ کو منجمد کردیا ہے، وہ باتیں سننے اور باتیں نقل کرنے والا دماغ ہوگیا، کائنات میں جستجو کرنے والا دماغ نہیں رہا"
گھڑی ہوئی روایتوں پر یقین کرنا اسی وقت ممکن ہوتا ہے، جب انسان اپنی عقل پر تالے لگالے، اور نقد وتحقیق کو اپنے اوپر حرام کرلے، اور روایتوں کے رسیا مسلمانوں نے یہی کیا۔
اسی سے جڑی ہوئی ایک بات یہ بھی ہے کہ جب انسان بہت سی خلاف عقل باتوں کو سن کر ان پر یقین کرلیتا ہے، تو اس کے لئے زندگی کے بہت سے شعبوں میں خلاف عقل باتوں کو تسلیم کرتے رہنا آسان ہوجاتا ہے، اور دھیرے دھیرے اس کا ایسا مزاج بن جاتا ہے جس میں معقول اور غیر معقول کی تمیز نہیں رہتی ہے، اور غور وفکر ایک لایعنی کام محسوس ہونے لگتا ہے۔ اس کے لئے غیر معقول باتیں آسانی سے قابل قبول ہوجاتی ہیں، اور معقولیت اس کے لئے غیر اہم اور ناقابل اعتنا ہوجاتی ہے۔
عقل سے دوری، غور وفکر سے بے نیازی اور تحقیق وجستجو سے بیزاری کی اس تشویش ناک صورت حال کا صرف ایک علاج ہے، اور وہ ہے قرآن مجید کی طرف امت کی واپسی۔
عباس محمود عقاد کی مشہور کتاب ہے "التفکیر فریضۃ اسلامیۃ" (غور وفکر ایک دینی فریضہ ہے)۔ وہ لکھتے ہیں کہ ماہرین نفسیات نے عقل کے جتنے استعمالات دریافت کئے ہیں قرآن مجید ان تمام استعمالات کا ذکر کرتے ہوئے ان کی ہمت افزائی کرتا ہے۔
قرآن مجید عقل کے استعمال پر ابھارتا ہے، عقل کے راستے کی رکاوٹوں کی نشان دہی کرتا ہے، اور انہیں ہٹانے کی راہیں سجھاتا ہے، عقل پر پڑے ہوئے پردے اور دماغ پر لگے ہوئے پہرے ہٹاتا ہے، عقل کو غور وفکر کی نئی نئی راہیں دکھاتا ہے، عقل کی نشوونما کا بہترین انتظام کرتا ہے، غور وفکر اور تحقیق وجستجو کے لئے سازگار ماحول اور ہمت افزا مواقع فراہم کرتا ہے، عقل کو غور وفکر کی مشق کراتا ہے، اور ایسی کسی چیز پر ایمان لانے کا مطالبہ نہیں کرتا ہے جو عقل کے خلاف ہو۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ جو چیزیں عقل کی دشمن ہیں وہی چیزیں قرآن کو ماننے کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں، آباء واجداد کی اندھی تقلید، وہم وگمان کو منزل سمجھ لینا، خواہشات نفس کی پیروی کرنا، تعصب کی شکلیں، بے سروپا حکایتیں اور گھڑی ہوئی روایتیں، یہ سب چیزیں عقل سے بھی دور کردیتی ہیں اور قرآن فہمی کے لئے بھی حجاب بن جاتی ہیں۔
جس دن یہ امت گھڑی ہوئی روایات اور بے بنیاد خرافات سے نکل کر قرآن مجید سے غیر مشروط طور پر وابستہ ہوجائے گی، اور ضلالات وخرافات سے توبہ کرکے صحیح سنت کے روشن راستے پر چلے گی، عقل کے میدان کی امامت اس کے ہاتھوں میں آجائے گی، اور وہ دنیا کی قیادت وسیادت کی اہل قرار پائے گی۔ قرآن مجید کے نور سے روشن دماغ دنیا کی تعمیر وتزئین میں بھی بے مثال کردار ادا کرے گا، اور آخرت کی کامیابی کی بہترین راہوں کو بھی پہچانے گا۔

ایک تبصرہ شائع کریں