دینی جماعتیں بے چھت کے مکان نہ ہوجائیں

دینی جماعتیں بے چھت کے مکان نہ ہوجائیں
محی الدین غازی
ابو مسلم خولانی ایک مسجد میں داخل ہوئے، دیکھا وہاں مجلس سجی ہوئی ہے، سوچا کہ ذکر کی مجلس ہے، جا کر ادب سے بیٹھ گئے، لیکن انہیں یہ جان کر سخت مایوسی ہوئی کہ وہاں بیٹھے لوگ تو دنیا داری کی گفتگو میں مشغول ہیں، انہوں نے آہ بھر کر کہا: سبحان اللہ، لوگو تم جانتے ہو کہ میری اور تمہاری مثال کیا ہے؟ یوں سمجھو جیسے ایک آدمی ہے جو موسلا دھار بارش میں پھنس گیا ہے، بچنے کے لئے وہ ادھر ادھر پناہ گاہ تلاش کرتا ہے، اسے ایک بڑا دروازہ کھلا نظر آتا ہے، وہ سوچتا ہے کہ اگر اس گھر میں داخل ہوگیا تو بارش کی مار سے محفوظ ہوجائے گا، وہ بے تابی سے گھر میں داخل ہوتا ہے مگر وہاں دیکھتا ہے کہ اس گھر میں تو کہیں چھت ہی نہیں ہے۔ مجھے دیکھو، بڑے شوق سے تمہارے پاس آکر بیٹھا تھا، اس امید سے کہ تم لوگوں کے پاس خیر کی دولت ہوگی، ذکر کے چشمے رواں ہوں گے، لیکن تم سب تو دنیا دار نکلے۔
جس طرح مسجدوں کے بارے میں یہ تصور ہے کہ وہاں جو جاتا ہے وہ اللہ سے قریب ہونے جاتا ہے، اور وہاں جو مجلس ہوتی ہے وہ دینی مجلس ہوتی ہے، اسی طرح دینی جماعتوں کے بارے میں توقع کی جاتی ہے کہ یہ جماعتیں دین کی خاطر وجود میں آئی ہیں، جو بھی ان میں شامل ہوا ہے وہ دین داری کے تقاضے پورے کرنے کے لئے ہی شامل ہوا ہے، یہ جماعتیں جو کچھ بھی کرتی ہیں رضائے الہی ان کا مقصود ہوتا ہے۔ ان جماعتوں میں انتخابات بھی اللہ کو خوش کرنے کے لئے ہوتے ہیں، مناصب اور عہدے بھی اللہ کی رضا کے لئے سنبھالے جاتے ہیں، مہمات بھی اللہ کے لئے منائی جاتی ہیں، اور تقریریں بھی اللہ کو راضی کرنے کے لئے ہوتی ہیں۔
دینی جماعتوں کے ہر ہر فرد کو اس سلسلے میں نہایت حساس ہونا چاہئے، اسے ہر آن اپنی گفتگو اور اپنی جستجو کی جانچ کرتے رہنا چاہئے کہ زبان سے نکلنے والا ہر لفظ اور دل میں پلنے والی ہر خواہش کا تعلق اللہ کی خوش نودی سے ہو۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص بڑی امیدوں کے ساتھ کسی دینی جماعت سے قریب ہوجائے، اور پھر دیکھے کہ یہاں تو دنیا داروں والی رسہ کشی ہے، دنیا داروں والی اٹھا پٹخ ہے، کوئی منصب کی آس لگائے بیٹھا ہے اور کوئی عہدے سے جونک کی طرح چمٹا ہوا ہے، انتخابات کے دوران اخلاقی قدریں پامال کی جارہی ہیں، جماعت کے اندر گروپ ہیں اور ہر گروپ دوسرے گروپ کو نیچا دکھانے کے لئے کوشاں ہے، دینی جماعتوں کا مقصد تو دین کو اونچا اٹھانا ہوتا ہے مگر یہاں تو دینی جماعت دوسری دینی جماعتوں کو نیچے گرانے کے فراق میں ہے، اور یہ سب دیکھ کر اسے افسوس ہو کہ وہ تیز بارش سے بچنے کے لئے بغیر چھت کے مکان میں آگیا ہے۔
دنیا داری بہت سی خرابیوں کی جڑ ہے، یہ آدمی کو لالچی اور خود غرض بنادیتی ہے، دنیا داری میں مبتلا شخص اس دنیا کی ہر چیز کو ہر قیمت پر اپنے لئے حاصل کرلینا چاہتا ہے۔ دنیا داری انسان کو اخلاقی قدروں سے محروم کردیتی ہے، اور اسے حقیر خواہشوں کا غلام بنادیتی ہے۔
دنیا داری کا روگ جب دین داروں کو لگ جاتا ہے، تو صورت حال بہت زیادہ خراب ہوجاتی ہے، دین داری کی آڑ میں جب دنیا داری اپنا کھیل کھیلتی ہے تو دین کو شدید نقصان پہونچتا ہے۔ اور جب کوئی دنیا دار اپنی روش سے توبہ کرکے ایسے دین داروں کے حلقے میں پہونچتا ہے، اور وہ وہاں دنیا داری کی نہایت خراب صورتیں دیکھتا ہے تو اسے شدید مایوسی ہوتی ہے، کہ جنہیں طبیب اور مسیحا سمجھا تھا وہ تو خود گھناؤنی اور بدبودار قسم کی بیماریوں میں گرفتار ہیں۔
امت کی اصلاح وترقی کے لئے دینی جماعتوں کی بہت زیادہ اہمیت ہے، یہ شیطان کے فتنوں سے بچنے کے لئے مضبوط پناہ گاہیں ہیں، لیکن جب دینی جماعتوں سے آزمائشیں دور ہوجاتی ہیں، اور جب ان کے اثرات اور اثاثے بڑھ جاتے ہیں، اور جب ان کے راستے سے عہدہ ومنصب اور شہرت ودولت کے مواقع نظر آنے لگتے ہیں، تو دنیا داری کے لئے دلوں میں جگہ بنانا آسان ہوجاتا ہے۔ دنیا داری میں مبتلا افراد جب کسی دینی جماعت کا حصہ بنتے ہیں تو اسے اندر سے گھن کی طرح چاٹ چاٹ کر کھوکھلا کردیتے ہیں، اور باہر سے اس کی ساری رونق نوچ لیتے ہیں۔ اور پھر ان جماعتوں کی حیثیت محض بے چھت کے مکان کی ہوجاتی ہے۔ دینی جماعتوں کو سب سے زیادہ اس پہلو پر توجہ دینی چاہئے کہ ان کے یہاں دنیا داروں کا داخلہ اور دنیا داری کا غلبہ نہیں ہوجائے۔
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہر دینی جماعت کو اور دینی جماعتوں کے تمام افراد کو خالص دین داری عطا کرے، اور انہیں دنیا داری کی تمام صورتوں سے محفوظ رکھے۔

ایک تبصرہ شائع کریں