کیسا پیارا تھا پیارے نبیﷺ کا بچوں سے پیار

کیسا پیارا تھا پیارے نبیﷺ کا بچوں سے پیار
محی الدین غازی
کیسا پیارا منظر تھا وہ جب پیارے نبی منبر پر کھڑے خطبہ دے رہے تھے، اتنے میں آپ نے دیکھا کہ ننھے منے حسن اور حسین دوڑتے پھدکتے منبر کی طرف آرہے ہیں، آپ کو خیال ہوا کہ دونوں بچے ٹھوکر کھاکر گر نہ پڑیں، آپ اپنی تقریر روک کر منبر سے نیچے اترے اور ایک بازو میں حسن میاں کو اٹھایا اور دوسرے بازو میں حسین میاں کو اٹھایا اور منبر پر کھڑے ہوکر انہیں گود میں لئے لئے خطبہ دینے لگے۔
اور کتنا پیارا منظر تھا وہ جب پیارے نبی بیٹھے تھے، آپ کے ایک زانو پر حسن میاں سواری کا لطف لے رہے تھے، اور دوسرے زانو پر اسامہ بابو سواری کا لطف لے رہے تھے، اور آپ پیار سے دونوں کو دیکھ رہے تھے اور اللہ سے دعا کررہے تھے، اے اللہ میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان دونوں سے محبت فرما۔
اور کتنا پیارا منظر تھا، جب پیارے نبی نماز میں تھے، آپ رکوع میں گئے تو ننھے حسن میاں گھٹنے گھٹنے آپ کے پاس آئے، آپ نے اپنے پاؤں پھیلادئے اور حسن میاں بیچ میں سے ہنستے کھیلتے گزر گئے، پھر آپ سجدے میں گئے تو حسن میاں آپ کی پیٹھ پر سوار ہوگئے، آپ سجدے میں اس وقت تک رہے جب تک حسن میاں خود نہیں اتر گئے۔
اور کتنا پیارا منظر تھا وہ جب پیارے نبی ننھی امامہ کو گود میں لے کر نماز پڑھ رہے تھے، جب رکوع میں جاتے تو زمین پر بٹھادیتے، اور پھر جب اٹھتے تو پھر گود میں اٹھالیتے۔
وہ منظر بھی کیسا دل کو بھانے والا تھا، جب ایک مرتبہ اسامہ میاں کو دروازے کی چوکھٹ سے ٹھوکر لگی اور وہ گر پڑے اور چہرے پر زخم آگیا، پیارے نبی نے دوڑ کر انہیں اٹھالیا، اور اپنے ہاتھ سے ان کے چہرے پر سے خون صاف کرنے لگے۔
وہ بھی کتنا خوب صورت منظر تھا جب ایک مرتبہ پیارے نبی نے عباس چچا کے بیٹے عبد اللہ میاں کو سینے سے لگایا، اور انہیں سناتے ہوئے ان کے لئے دعا کی کہ اے اللہ اس بچے کو دین کا علم عطا کردے۔
وہ بھی کیسا پیارا منظر ہوتا تھا جب چھوٹے چھوٹے بچے پیارے نبی کی طرف دوڑتے ہوئے آتے تھے، اور آپ انہیں اپنے سینے سے لپٹالیتے تھے۔
چھوٹے چھوٹے بچوں کو کتنا اچھا لگتا تھا جب پیارے نبی خود بڑھ کر انہیں سلام کرتے، ان کو اپنے ساتھ بٹھاکر کھانا کھلاتے، کھانا کھاتے ہوئے انہیں اچھے اچھے طریقے بھی بتاتے کہ کھانے سے پہلے بسم اللہ کرلیا کرو، اور اپنے سامنے سے کھایا کرو، اور دائیں ہاتھ سے کھایا کرو۔
کتنے خوش نصیب تھے وہ ننھے منھے بچے جو پیارے نبی کے پاس لائے جاتے، آپ انہیں گود میں لیتے ان کے لئے دعا کرتے، اور کھجور کو نرم کر کے اپنے ہاتھ سے ان کے منھ میں کھجور دیتے اور وہ مزے لے لے کر کھجور چوستے۔
پیارے نبی کو بچوں سے بہت الفت تھی، آپ کسی محلے میں جاتے تو وہاں کھیلتے ہوئے بچوں کو سلام کرتے، اور ان کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے، اور ان کے لئے دعا کرتے۔
پیارے نبی ان بچوں کو بہت مانتے تھے، جو مسجد آکر فجر کی نماز پڑھتے تھے، نماز کے بعد مسجد سے نکلتے تو آپ خوشبو سے معطر ہاتھ ایک ایک کرکے ان بچوں کے سر پر پھیرتے اور ان کے گال تھپتھپاتے۔ بچوں کو بہت اچھا لگتا، ان کے گال پر آپ کے مبارک ہاتھوں کی مہک بس جاتی، وہ بڑے ہوکر اس مہک کو بہت یاد کرتے تھے۔
پیارے نبی بچوں کا نام بھی بڑے پیار سے لیتے تھے، ننھی زینب کو وہ پیار سے یا زوینب یا زوینب کہ کر چمکارتے تھے۔ آپ بچوں کو بلاتے تو ان کے نام میں اپنا پیار شامل کردیتے۔ بچوں کو اس میں بہت لطف ملتا تھا۔
پیارے نبی بچوں کے اچھے اچھے اور پیارے پیارے نام رکھتے تھے، کسی کا نام اچھا نہیں ہوتا تو بدل دیتے۔
پیارے نبی بچوں سے بہت پیار کرتے تھے اور چاہتے تھے کہ وہ بڑے ہوکر بہت اچھے بنیں، آپ چھوٹے چھوٹے بچوں کو پیار سے اپنے پاس بلاتے، اور انہیں بڑی اچھی اچھی نصیحتیں کرتے تھے۔
پیارے نبی کو بچوں سے بہت زیادہ محبت بھی تھی، اور ان کی اچھی تربیت کی بھی بہت فکر رہتی تھی۔ آپ اپنے ساتھیوں سے بھی کہتے کہ بچوں کو خوب پیار دو، اور انہیں خوب اچھی اچھی باتیں سکھاؤ۔
(بشکریہ جنت کے پھول)

ایک تبصرہ شائع کریں